یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش آرام اور) نعمتوں میں ہونگے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً نیک لوگ (جنت کے عیش وآرام اور) نعمتوں میں ہوں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
بےشک نیکوکار لوگ عیش و آرام میں ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بے شک نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے
9 Tafsir Jalalayn
بیشک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے
10 Tafsir as-Saadi
﴿الْاَبْرَارَ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جوا للہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کو قائم کرتے ہیں ، اعمال قلوب اور اعمال جوارح میں نیکی کا التزام کرتے ہیں ۔ پس ان لوگوں کی جزا یہ ہے کہ ان کو اس دنیا میں ، برزخ میں اور آخرت میں، قلب وروح اور بدن کی نعمتیں حاصل ہوں گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
yaqeen rakho kay naik log yaqeenan bari naimaton mein hon gay ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ابرار کا کردار جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار فرمانبردار، گناہوں سے دور رہتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ جنت کی خوش خبری دیتا ہے حدیث میں ہے کہ انہیں ابرار اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے، بدکار لوگ دائمی عذاب میں پڑیں گے، قیامت کے دن جو حساب کا اور بدلے کا دن ہے ان کا داخلہ اس میں ہوگا ایک ساعت بھی ان پر عذاب ہلکا نہ ہوگا نہ موت آئے گی نہ راحت ملے گی نہ ایک ذرا سی دیر اس سے الگ ہوں گے۔ پھر قیامت کی بڑائی اور اس دن کی ہولناکی ظاہر کرنے کے لیے دو دو بار فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے معلوم کرایا کہ وہ دن کیسا ہے ؟ پھر خود ہی بتلایا کہ اس دن کوئی کسی کو کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے گا نہ عذاب سے نجات دلا سکے گا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی کی سفارش کی اجازت خود اللہ تبارک و تعالیٰ عطا فرمائے۔ اس موقعہ پر یہ حدیث وارد کرنی بالکل مناسب ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنو ہاشم اپنی جانوں کو جہنم سے بچانے کے لیے نیک اعمال کی تیاریاں کرلو میں تمہیں اس دن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کا اختیار نہیں رکھتا۔ یہ حدیث سورة شعراء کی تفسیر کے آخر میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی فرمایا کہ اس دن امر محض اللہ کا ہی ہوگا۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۭ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 16) 40 ۔ غافر :16) اور جگہ ارشاد ہے آیت ( اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ۭ وَكَانَ يَوْمًا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ عَسِيْرًا 26) 25 ۔ الفرقان :26) اور فرمایا آیت ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :4) مطلب سب کا یہی ہے کہ ملک و ملکیت اس دن صرف اللہ واحد قہار و رحمٰن کی ہی ہوگی۔ گو آج بھی اسی کی ملکیت ہے وہ ہی تنہا مالک ہے اسی کا حکم چلتا ہے مگر وہاں ظاہر داری حکومت، ملکیت اور امر بھی نہ ہوگا۔ سورة انفطار کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد اللہ۔