Skip to main content

وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَۙ

Woe
وَيْلٌ
ہلاکت ہے
to those who give less
لِّلْمُطَفِّفِينَ
ڈنڈی مارنے والوں کے لئے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے

English Sahih:

Woe to those who give less [than due],

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

کم تولنے والوں کی خرابی ہے،

احمد علی Ahmed Ali

کم تولنے والوں کے لیے تباہی ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے (ڈنڈی مارنے) والوں کے لئے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ویل ہے ان کے لئے جو ناپ تول میں کمی کرنے والے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ناپ تول میں کمی کے تنائج
نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کرلیا ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہا کہ مکہ مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ۝ ۙ ) 83 ۔ المطففین ;1) ہے۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔ ٹھیک یہ ہے کہ کالو اور وزنو کو متعدی مانیں اور ھُم کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے۔ جو کالو اور وزنو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35؀) 17 ۔ الإسراء ;35) یعنی جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کردیا کرو۔ اور جگہ حکم ہے۔ آیت (وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَان بالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا\015\02ۙ ) 6 ۔ الانعام ;152) ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کردیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جگہ فرمایا آیت ( وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ ؀) 55 ۔ الرحمن ;9) یعنی تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کردیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے۔ کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہوگا۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہوگا، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہوگی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہوگا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہوگا۔ (موطا مالک) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہوجائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہوگا اور سخت تیز ہوگا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہوگا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہوگا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہوگا اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہوگی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہوگی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشیر غفاری (رض) سے فرمایا تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائیگا حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مددگار ہے آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگام میں چڑھی ہوئی ہوں گی۔ ابن عمر فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے (ابن جریر) ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے، دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے، دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے، دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے۔ پھر کہتے دعا (اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی) اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے۔