جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان (پیڑو کے حلقہ میں) سے گزر کر باہر نکلتا ہے،
English Sahih:
Emerging from between the backbone and the ribs.
1 Abul A'ala Maududi
جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
جو نکلتا ہے پیٹھ اور سینوں کے بیچ سے
3 Ahmed Ali
جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے
4 Ahsanul Bayan
جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ (۱)
۷۔۱کہا جاتا ہے کہ پیٹھ مرد کی اور سینہ عورت کا، ان دونوں کے پانی سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن اسے ایک پانی اس لیے کہا کہ یہ دونوں مل کر ایک ہی بن جاتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو پیٹھ اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
جو ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو پیٹھ اور سینہ کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو پیٹھ اور سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے یخرج من بین الصلب و الترائب ” صلب “ ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور ترائب، تریبۃ کی جمع ہے سینے کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں ہار پہنا جاتا ہے، انسان کا مادہ تولید اس حصہ سے نکلتا ہے جو صلب اور سینے کے درمیان واقع ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿یَّخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَایِٕبِ﴾” جو نکلتی ہے پیٹھ اور سینے کے بیچ سے۔“ اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ (یہ منی ) مرد کی صلب سے اور عورت کے سینے ، یعنی اس کی چھاتی سے نکلتی ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اچھل کرنکلنے والی منی جو کہ مرد کی منی ہے ، اس کا مقام ، جہاں سے وہ نکلتی ہے ، صلب اور سینے کے درمیان ہے۔ شاید یہی معنی زیادہ صحیح زیادہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اچھل کر نکلنے والی پانی )منی( کا وصف بیان کیا ہے جس کو محسوس کیا جاتا ہے اور اس کے اچھل کر باہر نکلنے کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ مرد کی منی ہے ۔ اسی طرح ﴿التَّرَائِبِ﴾ کا لفظ مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے ، کیونکہ مرد کا سینہ بمنزلہ عورت کی چھاتیوں کے ہے ۔اگر یہاں عورت مراد ہوتی تو کہا جاتا )بَیْنَ الصُّلْبِ وَالثَّدْیَیْن(پیٹھ اور دونوں پستانوں کے درمیان وغیرہ۔ واللّٰہ اعلم پس جس ہستی نے انسان کو اچھل کر نکلنے والے پانی سے وجود بخشا جو اس مشکل مقام سے خارج ہوتا ہے ، وہ آخرت میں اسے پیدائش کی طرف لوٹانے ، قیامت، حشر ونشر اور جزا وسزا کے لیے اس کی تخلیق کا اعادہ کرنے پر قادر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ، اچھل کرنکلنے والے پانی کو واپس صلب میں لوٹانے پر قادر ہے ۔یہ معنی اگرچہ صحیح ہیں مگر آیت کریمہ سے معنی مراد یہ نہیں ، کیونکہ اس کے بعد فرمایا : ﴿یَوْمَ تُبْلَی السَّرَایِٕرُ﴾ اس دن سینے کے بھید جانچے جائیں گے اور دلوں میں جو اچھائی یا برائی ہے وہ سب چہروں کے صفحات پر آشکار ا ہوجائے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾( آل عمران :3؍106) ” جس روز کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔ “ دنیا کے اندر بہت سی چیزیں پوشیدہ رہتی تھیں اور لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہوتی تھیں۔ قیامت کے روز تو برابر کی نیکی اور فاجروں کا فسق وفجور صاف ظاہر ہوں گے اور علانیہ امور بن جائیں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo peeth aur seenay ki haddiyon kay darmiyan say nikalta hai .