٣۔١ یعنی انہیں اتنا پر مشقت عذاب ہوگا کہ اس سے ان کا سخت برا حال ہوگا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں عمل کر کے تھکے ہوئے ہونگے یعنی بہت عمل کرتے رہے، لیکن وہ عمل باطل مذہب کے مطابق بدعات پر مبنی ہونگے، اس لئے عبادت اور سخت اعمال کے باوجود جہنم میں جائیں گے۔ چنانچہ اس مفہوم کی روح سے حضرت ابن عباس نے (عَمِلَۃ، نَّاصِیَۃ) سے نصاریٰ مراد لئے ہیں (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے
6 Muhammad Junagarhi
(اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہوں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
سخت محنت کرنے والے (نڈھال اور) تھکے ماندے ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
محنت کرنے والے تھکے ہوئے
9 Tafsir Jalalayn
سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے
10 Tafsir as-Saadi
﴿عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ﴾ ” سخت محنت کرنے والے، تھکے ماندے۔“ یعنی عذاب میں سخت تھکے ہوئے ہوں گے ، ان کو چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا اور آگ ان کے چہروں کو ڈھانپ لے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ﴾ میں اس معنی کا احتمال ہے کہ دنیا کے اندر مشقت اٹھانے والے چہرے، اس روز جھکے ہوئے ہوں گے۔ دنیا کے اندر (ان کی مشقت یہ تھی) کہ وہ بڑے عبادت گزار اور عمل کرنے والے تھے۔ مگر چونکہ اس عمل میں ایمان کی شرط معدوم تھی اس لیے عمل قیامت کے دن اڑتا ہوا غبار بن جائے گا۔ یہ احتمال معنی کے اعتبار سے اگرچہ صحیح ہے مگر سیاق کلام اس پر دلالت نہیں کرتا بلکہ پہلے معنی ہی قطعی طور پر صحیح ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظرف کے ساتھ مقید کیا ہےاور وہ ہے قیامت کا دن ، کیونکہ یہاں عمومی طور پر اہل جہنم کا ذکر کرنا مقصود ہے اور یہ احتمال ، اہل جہنم کی نسبت سے، بہت ہی چھوٹا ساجز ہے ، کیونکہ یہ کلام ، قیامت کی سختی کے، لوگوں کو ڈھانپ لینے کے حال میں ہے اور اس میں دنیا کے اندر ان کے احوال سے کوئی تعرض نہیں۔