التوبہ آية ۳۰
وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ِبْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ۗ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَ فْوَاهِهِمْ ۚ يُضَاهِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۗ قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ ۚ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ
طاہر القادری:
اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے) پہلے کفر کر چکے ہیں، اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں،
English Sahih:
The Jews say, "Ezra is the son of Allah"; and the Christians say, "The Messiah is the son of Allah." That is their statement from their mouths; they imitate the saying of those who disbelieved before [them]. May Allah destroy them; how are they deluded?
1 Abul A'ala Maududi
یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھار ہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور یہودی بولے عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی بولے مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ باتیں وہ اپنے منہ سے بکتے ہیں اگلے کافرو ں کی سی بات بناتے ہیں، اللہ انہیں مارے، کہاں اوندھے جاتے ہیں
3 Ahmed Ali
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر الله کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں مسیح الله کا بیٹا ہے یہ ان کی منہ کی باتیں ہیں وہ کافروں کی سی باتیں بنانے لگے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں الله انہیں ہلاک کرے یہ کدھر الٹے جا رہے ہیں
4 Ahsanul Bayan
یہود کہتے ہیں عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور یہود کہتے ہیں کہ عُزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے یہ بھی انہیں کی ریس کرنے میں لگے ہیں۔ خدا ان کو ہلاک کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ قول صرف ان کے منھ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
یہودی کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کی باتیں ہیں (بغیر سوچے سمجھے) ان کے منہ سے نکالی ہوئی۔ یہ لوگ بھی ان جیسی باتیں کرنے لگے ہیں جو ان سے پہلے کفر کر چکے ہیں اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کدھر بہکے جا رہے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں یہ سب ان کی زبانی باتیں ہیں-ان باتوں میں یہ بالکل ان کے مثل ہیں جو ان کے پہلے کفار کہا کرتے تھے ,اللہ ان سب کو قتل کرے یہ کہاں بہکے چلے جارہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے۔ یہ بھی انہیں کی ریس کرنے لگے ہیں۔ خدا انکو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ؟
آیت نمبر ٣٠ تا ٣٧
ترجمہ : یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، اور نصاریٰ نے کہا عیسیٰ مسیح، اللہ کے بیٹے ہیں یہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی (بےحقیقت) باتیں ہیں جن پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں، یہ بھی ان لوگوں کی تقلید میں ان ہی کی سی باتیں کرتے ہیں جو ان کے آباء (و اجداد) میں سے پہلے کافر ہوچکے ہیں اللہ کی ان پر مار (لعنت) ہو دلیل قائم ہونے کے باوجود کہاں بھٹکے چلے جا رہے ہیں ؟ یہود نے اپنے علماء کو اور نصاریٰ نے اپنے درویشوں کو اللہ کے علاوہ رب بنا لیا ہے، اس طریقہ پر کہ حرام کو حلال کرنے میں اور حلال کو حرام کرنے میں ان کی اتباع کی، اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی ( رب بنا لیا ہے) اور تورات وانجیل میں ان کو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ فقط ایک معبود (برحق) کی بندگی کریں وہ معبود کہ جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں وہ ان کے شرک سے پاک ہے (یہ کافر) یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو پھونکوں سے بجھا دیں یعنی اس کی شریعت اور اس کے براہین میں قیل وقال کر کے مشکوک کردیں اور اللہ اس (روشنی) کو مکمل طور پر ظاہر کئے بغیر مانے گا نہیں، اگرچہ کافروں کو یہ بات ناپسند ہو (چنانچہ) وہ اللہ ایسا ہے کہ جس نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (اس نور کی تکمیل کے لئے) ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، تاکہ اس دین کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو یہ بات ناپسند ہو اے ایمان والو (یہود و نصاری کے) اکثر علماء و رہبان لوگوں کے مالوں کو باطل طریقہ سے کھاتے، لیتے، ہیں مثلاً فیصلہ میں رشوت کے ذریعہ اور لوگوں کو اللہ کے دین سے باز رکھتے ہیں اور وہ لوگ اَلَّذین مبتداء ہے جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس جمع کردہ مال میں سے اللہ کے راستہ میں خرچ نہیں کرتے یعنی زکوٰة کے ذریعہ اس کا حق ادا نہیں کرتے فبشرھم مبتداء کی خبر ہے تو ان کو دردناک عذاب کی خبر سنا دو جس دن کہ اس جمع کردہ مال کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کے ذریعہ ان کی پیشانیوں کو اور ان کے پہلوئوں کو اور ان کی پیٹھوں کو داغا جائے گا، ان کی کھالوں کو وسیع کردیا جائے گا تاکہ ان پر اس تمام مال کو رکھا جاسکے، اور ان کو یہ جتا دیا جائے گا کہ یہ وہی مال ہے جس کو تم نے اپنی لئے جمع کیا تھا یعنی یہ اس کی سزا ہے لو، اب اپنے جمع کئے ہوئے خزانہ کا مزا چکھو حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جن کے ذریعہ سال کا حساب لگایا جاتا ہے اللہ کے نزدیک لوح محفوظ میں بارہ مہینے ہیں جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے بارہ ہی ہیں ان مہینوں میں چار مہینے محترم ہیں ذوالقعدہ اور ذوالحجہ اور محرم اور رجب، یہ یعنی ان مہینوں کی حرمت ہی دین کا صحیح طریقہ ہے، لہٰذا ان چار مہینوں (کے باب) میں معاصی کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم نہ کرو اس لئے کہ ان چار مہینوں کی بےحرمتی گناہ عظیم ہے اور کہا گیا ہے کہ پورے بارہ مہینے مراد ہیں اور تمام مشرکوں سے تمام مہینوں میں لڑو جیسا کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ مدد اور نصرت کے ذریعہ متقیوں کے ساتھ ہے اور نسییً یعنی مہینہ کی حرمت کو دوسرے مہینہ کی طرف مؤخر (منتقل) کردینا جیسا کہ جاہلیت ماہ محرم کی حرمت کو دوسرے مہینے یعنی ماہ صفر کی طرف منتقل کردیتی تھی جبکہ ماہ محرم کا چاند ان کی جنگ کی حالت میں نظر آجا تا تھا، یہ (حرکت) کفر میں ایک اضافہ ہے اس ماہ کے بارے میں اللہ کے حکم کا انکار کرنے کی وجہ سے جس کے ذریعہ یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کئے جاتے ہیں (یُضل) یاء کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ ہے اس نسً یعنی مؤخر کو کسی سال حلال کرلیتے ہیں اور کسی سال حرام تاکہ ایک مہینہ کو حلال کر کے اور دوسرے کو اسکے بدلے میں حرام کر کے اللہ کے حرام کئے ہوئے یعنی اللہ کے محرم کئے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کردیں چناچہ چار محرم مہینوں میں نہ زیادتی کرتے تھے اور نہ کمی، البتہ ان کی تعیین کی رعایت نہیں کرتے تھے (چنانچہ) وہ اس طرح اللہ کا حرام کیا ہوا (مہینہ) حلال کرلیتے ہیں انکے برے اعمال ان کے لئے خوشنما کر دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان اعمال کو حسن ہی سمجھتے تھے، اللہ منکرین حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : عُزَیْر، ایک مشہور اسرائیلی ٍبزرگ کا نام ہے جن کے متعلق بعض عرب کا عقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے فرزند ہیں عُزَیْر کو بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف پڑھا ہے، ان کے نبی ہونے میں اختلاف ہے، روح المعانی میں ہے \&\& اختلف فی عزیر ھل ھو نبی ام لا والا کثرون علی الثانی \&\& علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی اَلاِْتْقان فی علوم القران میں اسی کو ترجیح دی ہے، مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ عزیر سے مراد عزراء کاہن ہے جس نے تورات کو اپنے اعجاز سے دوبارہ زندہ کیا تھا۔
قولہ : یُضاھِئون یہ مُضَاھاة (مفاعلة) سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے، مشابہت پیدا کر رہے ہیں، ضَھِی مثل ،
مانند، شبیہ ضَھْیًا مصدر (س) ناقص یائی، عورت کا مرد کے مانند ہوجانا نہ حیض آئے اور نہ پستان ابھریں اور نہ حمل رہے، ضَھْیَائُ مرد نما عورت۔
قولہ : یُؤفکون، افک (ض) سے جمع غائب مضارع، کہاں پھرے جاتے ہیں۔
قولہ : بان یعبدوا، اس میں اشارہ ہے کہ لِیَعْبُدُوا میں لام بمعنی باء ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ الامر کا صلہ لام نہیں آتا۔
سوال : اَنْ کو کیوں مقدر مانا۔ جواب : تاکہ حرف جر کا داخل ہونا صحیح ہوجائے۔
قولہ : شَرْعَہ۔ سوال : نور کی تفسیر شرع اور برھان سے کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟
جواب : اس سے بھی ایک سوال مقدر کا جواب دینا مقصود ہے۔
سوال : یہ ہے کہ نور تو اللہ کی ذات کے ساتھ قائم ہے تو وہ اس نور کا بجھانے کا ارادہ کس طرح کرسکتے ہیں حالانکہ وہ عقلاء ہیں۔
جواب : یہ ہے کہ نور سے مراد اللہ کی شریعت ہے۔
قولہ : باقوالھم فیہ اس میں اشارہ ہے کہ محل بول کر حال مراد ہے اس لئے کہ منہ سے شریعت کو بجھانے کا کوئی مطلب نہیں ہے مراد اقوال ہیں یعنی نکتہ چینی اور طعنہ زنی۔
قولہ : ذلک، ذلک کَرِہَ کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : یاخذون، یاکلون کی تفسیر یاخذون سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ کلام میں استعارہ ہے یعنی اکل سے اخذ مراد ہے اکل کی تخصیص مقصود اعظم ہونے کی وجہ سے ہے۔
قولہ : ای الکنوز، اس میں اشارہ ہے کہ یُنفقونَھَا کی ضمیر کنوز کی طرف راجع ہے جو کہ یکنزون سے مفہوم ہے یہ شبہ ختم ہوگیا کہ ما قبل میں ذَھَب اور فضة دو چیزوں کا ذکر ہے لہٰذا ینفقونھما ہونا چاہیے۔
قولہ : ای لا یُؤوُّوْنَ منھا حقّہ من الزکوة یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ لا ینفقونَھَا فی سبیل اللہ، میں مطلقاً عدم انفاق فی سبیل اللہ پر وعید ہے اس میں انفاق کی مقدار بیان نہیں کی گئی معلوم ہوا کہ تمام مال خرچ نہ کرنے پر بھی وعید ہے حالانکہ تمام مال خرچ کرنا ضروری نہیں ہے اسی سوال کے جواب کی طرف لا یُودُّون الخ سے اشارہ کردیا کہ کل بول کر جزء مراد ہے۔
قولہ : اخبرھم، یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ فبشرھم، مبتداء کی خبر واقع ہے حالانکہ انشاء کا خبر واقع ہونا درست نہیں ہے جواب کا حاصل جس کی طرف مفسر علام نے واخبرھم کہہ کر اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ فبشرھم فی حقھم کی تاویل میں ہو کر مبتداء کی خبر ہے، (نوٹ) پیش نظر جلالین کے نسخے میں الخَیْر ہے جو کہ کتابت کی غلطی
ہے اصل میں الخیر ہے۔
قولہ : تُکْوَیٰ ، داغا جائے گا (ض) یہ کَیّ سے مضارع مجہول واحد مؤنث غائب ہے۔
قولہ : ای جزاءہ حذف مضاف سے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ کنز چکھنے کی چیز نہیں ہے مراد عدم انفاق کی سزا بھگتنا ہے۔
قولہ : للسنة، ای المعتد بھا لحساب السَنَةِ ، یہاں دراصل الحساب مضاف محذوف ہے، یعنی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں جن کے ذریعہ سال کا حساب ہوتا ہے، قمری سال ٣٥٥ دن کا ہوتا ہے اور شمسی سال کا ٣٦٥ دن کے ذریعہ حساب ہوتا ہے، قمری سال شمسی سال سے دس دن چھوٹا ہوتا ہے۔
قولہ : محرمة۔ سوال : حُرُم مصدر ہے لہٰذا اس کا حمل اربعة پر درست نہیں ہے۔
جواب : حُرُم، محرّمَة اسم مفعول کے معنی میں ہے لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔
قولہ : النَسیء، یہ نَسَأ کا مصدر ہے مؤخر کرنا ہٹا دینا، یقال نَسَاہ نَسْأ ونَسِیْاء ً اس کو مؤخر کیا جیسا کہ کہا جاتا ہے مَسَّہ مَسًّا ومَسَاسًا ومَسِیْسًا چھونا مس کرنا، بعض حضرات نے نسء بمعنی منسوء بروزن فعیل بمعنی مفعول بھی لیا ہے۔
تفسیر وتشریح
ربط آیات : گذشتہ آیات میں مشرکین کے قبائح کا بیان تھا، اب اہل کتاب کے قبائح اور عقائد شرکیہ کا بیان ہے، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب گو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے مگر حقیقت میں جس طرح ایمان رکھنا چاہیے اس طرح نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایمان رکھنا نہ رکھنا برابر تھا، اسی لئے گذشتہ آیت میں اہل کتاب کے متعلق \&\& لا یؤمنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یدینون دین الحق \&\& فرمایا تھا کہ وہ نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخرت پر اور نہ وہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں۔
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللہ تورات کے تلفظ میں عزرا (UZRA) ہے المتوفیٰ ٤٥٨ ق، م اور بعض نے ٤٥٠ ق م لکھا ہے، یہود ان کو اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں یہود کے مذہبی نوشتوں میں نبی سے زیادہ مجدد کے نام سے مشہور ہیں، بخت نصر ٦٠٤ تا ٤٥٨ ق م، کے یروشلم پر حملے اور اس کی کامل تباہی کے بعد، نہ صرف یہ کہ تورات دنیا سے گم ہوگئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان عبرانی تک سے نا آشنا کردیا تھا، آخر کار انہی عزراء نے اپنی یادداشت سے بائبل کے پرانے عہد نامے کو مرتب کیا اور ان کی شریعت کی تجدید کی، اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں، یہود کے بعض فرقے تعظیم میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ان کے بارے میں ابن اللہ تک کا عقیدہ بنا لیا، ابن اللہ کا انگریزی میں ترجمہ (Child of God & Son of God) کی اصطلاح الگ الگ ہیں جیسا کہ اردو میں لڑکے اور بیٹے کے الگ الگ مفہوم ہیں اسی طرح عربی میں بھی ابن اور ولد دونوں کا مفہوم الگ الگ ہے (Child of God) کے معنی صلبی یا حقیقی فرزند کے نہیں ہیں، بلکہ خدا کا لاڈلا یا چہیتا یا فرزند معنوی مجازی کے ہیں جیسا کہ قرآن ہی میں ایک دوسری جگہ اہل کتاب ہی کی زبان سے استعمال ہوا ہے قالوا نحن ابناء اللہ وَاَحِبَّاءہ یہاں ابناء کے معنی مجازی اور معنوی اولاد کے ہیں۔ (تفسیر ماجدی ملخصاً (
وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللہ، مسیحیت کی دو گمراہیاں تھیں پہلی شدید اور دوسری شدید تر، ایک ہے حضرت مسیح کو اللہ کا ولد (Son of God) قرار دینا اس کا ذکر قرآن مجید میں جہاں آیا ہے اکثر بہت سخت وعید کے ساتھ آیا ہے مثلاً \&\& تکاد السمٰوات یتفطرن \&\& وغیرہ دوسری گمراہی حضرت مسیح کو خدا کافر زند مجازی (child of god) قرار دینا قرآن نے اس عقیدہ کو ابن اللھیت سے تعبیر کیا ہے یہ عقیدہ تو بجائے خود شدید ہے پھر بھی ولد اللھیت کا عقیدہ اس سے شدید تر ہے (ماجدی) ہمارے بعض قدیم مفسرین بھی اس نکتہ تک پہنچ گئے ہیں، کہ یہاں ابنیت سے مراد ابنیت نسبی نہیں ہے بلکہ لاڈ پیار والی ابنیت ہے اور یہ بھی کفر ہے۔
قال ابن عطیة ویقال ان بعضھم یعتقدونھا بنوة حنو ورحمة وھذا المعنی ایضا لا یحل ان تطلق لبنوة علیہ وھو کفر (قرطبی) ویقال اَن بعضھم یعتقدونھا بنوة حنوورحمة۔
ذالک قولھم بافواھم، یعنی بےسند محض زبان سے بک دینے والی بات ہے یعنی ان مہمل عقائد پر نہ ان کے پاس عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی، یہ تو محض ان جاہلی مشرک قوموں کی تقلید ہے جو باری تعالیٰ کی تجسیم کی قائل تھیں اور عقیدہ حلول اور اوتار کے ماننے والی تھیں یہ اشارہ خاص یونان کے مشرکوں کی جانب ہے کہ انکے حکماء وفلاسفہ کے اقوال سے پہلی صدی عیسوی کے یہود و نصاری دونوں ہی متاثر ہوگئے تھے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ قتال کا حکم دیا تو ان کے ان خبیث اقوال کا ذکر کیا، جو اہل ایمان کو، جن کے اندر اپنے دین اور اپنے رب کے بارے میں غیرت ہوتی ہے، ان کے ساتھ جنگ کرنے، ان کے خلاف جدوجہد کرنے اور اس میں پوری کوشش صرف کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّـهِ﴾ ” یہود نے کہا، عزیز اللہ کے بیٹے ہیں“ ان کا یہ قول ان کے تمام عوام کا قول نہ تھا بلکہ ان میں سے ایک فرقے کا قول تھا۔ البتہ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہودیوں کی سرشت میں خباثت اور شر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جس نے ان کو یہاں تک پہنچا دیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ بات کہنے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال میں نقص ثابت کرنے کی جسارت کی۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جب (غیر اسرائیلی مشرک)بادشاہوں نے ان پر تسلط حاصل کر کے ان کو تتر بتر کردیا اور حاملین تو رات کو قتل کردیا، اس کے بعد انہوں نے عزیر علیہ السلام کو پایا کہ تمام تورات یا اس کا بیشتر حصہ ان کو حفظ ہے، حضرت عزیر علیہ السلام نے ان کو تورات اپنے حافظہ سے املا کروا دی اور انہوں نے تورات کو لکھ لیا۔ بنا بریں انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں یہ بدترین دعویٰ کیا۔ ﴿ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ﴾ ” اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح“ عیسیٰ بن مریم ﴿ ابْنُ اللَّـهِ ﴾ ” اللہ کا بیٹا ہے“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ ﴾ ” یہ“ یعنی وہ قول جو یہ کہتے ہیں۔ ﴿ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ﴾ ” باتیں ہیں ان کے مونہوں کی“ جس کی صداقت پر یہ لوگ کوئی حجت اور دلیل قائم نہیں کر سکے۔ جس شخص کو اس بات کی پروا نہ ہو کہ وہ کیا بولتا ہے اگر وہ کیسی بھی بات کرے تو اس کے بارے میں یہ چیز تعجب خیز نہیں، کیونکہ اس کے پاس کوئی عقل اور کوئی دین نہیں جو اس کو ایسی بات کرنے سے روکے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يُضَاهِئُونَ﴾ ” وہ مشابہت رکھتے ہیں۔“ یعنی وہ اپنے اس قول میں مشابہت رکھتے ہیں۔ ﴿قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ﴾ ” ان لوگوں کے قول سے جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا“ یعنی ان کا قول مشرکین کے قول سے مشابہت رکھتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ باطل ہونے میں ان کے اقوال باہم مشابہت رکھتے ہیں۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ ” اللہ ان کو ہلاک کرے، کہاں پھرے جاتے ہیں“ یعنی وہ کیسے واضح اور خالص حق کو واضح طور پر باطل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
yahudi to yeh kehtay hain kay uzair Allah kay betay hain , aur nasrani yeh kehtay hain kay maseeh Allah kay betay hain . yeh sabb unn ki mun ki banai hoi baaten hain . yeh unn logon ki si baaten ker rahey hain jo inn say pehlay kafir hochukay hain . Allah ki maar ho inn per ! yeh kahan ondhay behkay jarahey hain-?
12 Tafsir Ibn Kathir
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے
ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں، کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیر کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ ان لوگوں کو حضرت عزیر کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آگئے ان کے علماء کو قتل کردیا ان کے رئیسوں کو قید کرلیا۔ عزیر (علیہ السلام) کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہوجانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گذر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہوگا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہوگا ؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا ؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیر پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں ؟ آپ کو سمجھ میں آگیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھالو چناچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیر (علیہ السلام) کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیر (علیہ السلام) کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے ؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہوگئی پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کردیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چناچہ یہ مدینہ شریف آگئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے اسی ( آیت اتخذوا) کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتادیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بیخبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے ؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے ؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے ؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہوگئے ہیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کردی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے، اس جیسا اس کا شریک، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔