التوبہ آية ۳۸
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَـكُمْ اِذَا قِيْلَ لَـكُمُ انْفِرُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْـتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ۗ اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِى الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین (کی مادی و سفلی دنیا) کی طرف جھک جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے)،
English Sahih:
O you who have believed, what is [the matter] with you that, when you are told to go forth in the cause of Allah, you adhere heavily to the earth? Are you satisfied with the life of this world rather than the Hereafter? But what is the enjoyment of worldly life compared to the Hereafter except a [very] little.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جائے کہ خدا کی راہ میں کوچ کرو تو بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو کیا تم نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے پسند کرلی اور جیتی دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو تمہیں کیا ہوا جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ الله کی راہ میں کوچ کرو تو زمین پر گرے جاتے ہو کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو گئے ہو دنیا کی زندگی کا فائدہ تو آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ چلو اللہ کے راستے میں کوچ کرو تو تم زمین سے لگے جاتے ہو۔ کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگانی پر ہی ریجھ گئے ہو۔ سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے کے لیے) نکلو تو تم بوجھل ہوکر زمین گیر ہو جاتے ہو۔ کیا تم نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ہے؟ (اگر ایسا ہی ہے تو یاد رکھو کہ) دنیا کا ساز و سامان آخرت کے مقابلہ میں بالکل قلیل ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ راہ هخدا میں جہاد کے لئے نکلو تو تم زمین سے چپک کر رہ گئے کیا تم آخرت کے بدلے زندگانی دنیا سے راضی ہوگئے ہو تو یاد رکھو کہ آخرت میں اس متاع هزندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟ یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
آیت نمبر ٣٨ تا ٤٢
ترجمہ : اور (آئندہ) آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے غزوہ تبوک کے لئے نکلنے کے لئے کہا، حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تنگی میں تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا تو ان کے لئے (نکلنا) گراں محسوس ہوا، اے ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لئے کہا گیا تو تم زمین پر چمٹ کر رہ گئے تاء کو اصل میں ثاء مثلثہ میں ادغام کر کے ہمزہ وصل کا اضافہ کر کے (اِثَّاقلْتُم اصل میں تثاقلتم تھا) تاء کو ثاء مثلثہ سے بدل کر ثاء کو ثاء میں ادغام کر کے ہمزہ وصل شروع میں لے آئے یعنی تم سست پڑگئے اور جہاد کے مقابلہ میں وطن میں بیٹھ رہنے کو ترجیح دی، (مالکم) میں استفہام تو بیخ کے لئے ہے کیا تم نے دنیوی زندگی اور اس کی لذتوں کو آخرت کے مقابلہ میں یعنی اس کی نعمتوں کے بدلے پسند کرلیا ہے ؟ (تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے) کہ دنیا کا یہ سامان عیش آخرت کے سامان عیش کے مقابلہ میں نہایت قلیل حقیر ہے (اِلاّ ) میں ان شرطیہ کا لا میں ادغام ہے دونوں جگہ (یہاں اور آئندہ) اگر تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ نکلے گے تو (اللہ) تم کو دردناک عذاب دے گا، اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے گا یعنی دوسری قوم کو تمہارے بجائے لے آئے گا، اور تم اس کی نصرت چھوڑ کر اس کا یا نبی کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے، اس لئے کہ اللہ اپنے دین کا خود ناصر ہے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور اسی میں اس کے دین کی اور اپنے نبی کی نصرت بھی شامل ہے، اگر تم اس کے نبی کی مدد نہ کرو گے (تو کچھ پرواہ نہیں) اللہ اس کی اس وقت مدد کرچکا ہے جبکہ کافروں نے اس کو مکہ سے نکال دیا تھا یعنی اس کو نکلنے پر مجبور کردیا تھا، جبکہ دارالندوہ میں اس کے قتل یا قید کردینے کا یا جلاوطن کردینے کا (مشورہ) کیا تھا، جب وہ دو میں کا دوسرا تھا یہ حال ہے، اور دوسرے ابوبکر (رض) تھے مطلب یہ کہ اس کی اس (نازک) وقت میں مدد کی تو اس کو دوسرے وقت میں رسوا نہ کرے گا جب وہ جبل ثور کی غار میں تھے دوسرا اِذ، پہلے اِذْ سے بدل ہے جبکہ وہ اپنے ساتھ ابوبکر سے کہہ رہے تھے یہ اِذ، دوسرا بدل ہے، اور ابوبکر (رض) نے مشرکین کے قدموں کو دیکھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے کی طرف دیکھے گا تو یقینا ہم کو دیکھ لے گا غم نہ کر یقینا اللہ اپنی مدد کے ذریعہ ہمارے ساتھ ہے اس وقت اللہ نے اس اپنا سکون (یعنی) اطمینان قلبی نازل فرمایا، (عَلَیْہ) کی ضمیر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہے اور کہا گیا ہے کہ ابوبکر کی طرف راجع ہے، اور اس کی (یعنی) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد غار میں یا میدان قتال میں فرشتوں کے ایسے لشکر سے کی جو تم کو نظر نہیں آرہے تھے اور کافروں کا بول یعنی ان کے دعوائے شرک کو نیچا کردیا (یعنی) مغلوب کردیا، اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے، (یعنی غالب) کلمہ شہادت، اللہ اپنے ملک میں زبردست ہے با حکمت ہے اپنی صنعت میں، نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل یعنی خوش ہو یا نا خوش اور کہا گیا ہے کہ قوی ہو یا ضعیف یا مالدار ہو یا نادار یہ حکم آیت \&\& لَیْس عَلَی الضعفاء \&\& سے منسوخ ہے، اور اللہ کے راستہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے، تو تم بوجھل نہ بنو، (یعنی جی نہ چرائو) اور آئندہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جو شریک غزوہ نہیں ہوئے، (اے نبی) اگر وہ بات جس کی آپ ان کو دعوت دے رہے ہیں دنیوی متاع سہل الحصول ہوتا اور سفر متوسط ہوتا تو وہ مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے ضرور آپ کے ساتھ چلتے مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن (دشوار) ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہے، جب آپ لوٹ کر ان کے پاس آئیں گے تو وہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم نکل سکتے (نکلنے کی پوزیشن میں ہوتے) تو آپ کے ساتھ ضرور نکلتے وہ اپنے آپ کو جھوٹی قسمیں کھا کر ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی اس بات میں جھوٹے ہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : بادغام التاء فی الاصل فی المثلثة اصل میں ادغام کا مطلب ہے تعلیل سے پہلے تاء کو ثاء کیا اور ثاء کو ثاء میں ادغام کردیا اور ابتداء بالسکون لازم آنے کی وجہ سے ہمزہ وصل ابتداء میں لے آئے۔
قولہ : اِ ثَّا قَلْتُمْ اصل میں تَثَاقَلْتُمْ تھا، مذکورہ عبارت کے اضافہ کا مقصد اثاقلتم میں ثاء کی تشدید اور شروع میں ہمزہ وصل لانے کی وجہ بیان کرنا ہے باوجودیکہ یہ باب تفاعل سے ہے۔
قولہ : تَبَاطئتم، بطوء سے ماخوذ ہے بمعنی سستی کرنا یہ سرعت کی ضد ہے۔
سوال : مفسر علام نے اِثَّاقَلْتم کی تفسیر ملتم سے کیوں کی ؟
جواب : چونکہ تثاقل کا صلہ الی نہیں آتا اس لئے مفسر علام نے ملتم کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ تثاقل، مَیْل کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : والقعود فیھا، یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : القعود فیھا کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اس اضافہ کا فائدہ یہ ہے کہ اگر جہاد میں شریک ہوتے تو تب بھی زمین ہی پر ہوتے شریک جہاد نہ ہونے کی صورت میں زمین پر رہنے کے کیا معنی ہیں ؟ مفسر علام نے القعود فیھا کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ یہاں اثاقلتم الی الارض کے معنی بزدلی دکھانا ہیں۔
قولہ : ای بدل نعیمھا، اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ من الاخرة میں من مقابلہ کیلئے ہے نہ کہ ابتدائیہ لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ آخرت سے حیات دنیا کے ابتداء کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں، نعیمھا کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ مطلقاً آخرت کو چھوڑنا مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اس کی نعمتوں کو چھوڑنا مراد ہے۔
قولہ : جنب متاع اس میں اشارہ ہے کہ، فَمَا، میں فاء مقابلہ کے لئے ہے نہ کہ ظرفیت کے لئے لہٰذا متاع دنیا کے لئے آخرت کا ظرف واقع ہونے کا اعتراض ختم ہوگیا۔
قولہ : حال یعنی ثانی اثنین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ضمیر سے حال ہے۔
قولہ : ای احد الاثنین، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جب ثانی کی اضافت عدد کی جانب کی جاتی ہے تو غیر مضاف الیہ مراد ہوتا ہے اس قاعدہ سے معلوم ہوا کہ آپ دو کے علاوہ تیسرے تھے حالانکہ واقعہ یہ نہیں ہے، احد الاثنین کہہ کر بتادیا کہ مراد دو میں سے ایک ہیں نہ کہ دو کے تیسرے۔
قولہ : جبل ثور، جبل ثور مکہ کی دائیں جانب ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے۔
قولہ : انہ خیر لکم یہ تعلمون کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : فلا تثاقلوا یہ شرط کی جزاء ہے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ الخ یہاں سے لے کر اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ تک پورے دو رکوع غزوہ تبوک اور اس میں شریک نہ ہونے والے منافقین کے بارے میں نازل ہوئے ہیں۔
غزوہ تبوک : روم کے عیسائی بادشاہ ہرقل کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کر
رہا ہے چناچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے لئے تیاری کا حکم دے دیا یہ شوال ٩ ھ کا واقعہ ہے، موسم سخت گرمی کا تھا اور سفر بہت لمبا تھا بعض مسلمانوں اور منافقوں پر یہ حکم گراں گذرا جس کا اظہار اس آیت میں کیا گیا ہے اور انہیں زجرو توبیخ کی گئی ہے یہ جنگ تبوک کہلاتی ہے اس غزوہ میں معرکہ پیش نہیں آیا بیس روز تک مسلمان ملک شام کے قریب قیام کر کے واپس آگئے اس غزوہ کو \&\& جیش العسرہ \&\& بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس سفر میں مسلمانوں کے لشکر کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
غزوہ تبوک کے اسباب پر اجمالی نظر : رومی سلطنت کے ساتھ کشمکش کی ابتداء تو فتح مکہ سے پہلے ہی ہوچکی تھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کی دعوت دینے کے لئے عرب کے مختلف حصوں میں جو وفود روانہ فرمائے تھے ان میں سے ایک وفد شمال کی طرف سر حد شام سے متصل قبائل میں بھی گیا تھا، یہ لوگ زیادہ تر عیسائی تھے اور رومی سلطنت کے زیر اثر تھے ان لوگوں نے ذات الطلح کے مقام پر اس وفد کے پندرہ آدمیوں کو قتل کردیا صرف وفد کے رئیس کعب بن عمیر غفاری بچ کر واپس آئے، اسی زمانہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بصریٰ کے رئیس شرحبیل بن عمرو کے نام بھی دعوت اسلام کا پیغام دے کر حارث بن عمیر کو بھیجا تھا جن کو شرحبیل نے قتل کردیا تھا یہ رئیس عیسائی تھا اور براہ راست قیصر روم کے احکام کا تابع تھا ان وجوہ کی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمادی الاولی ٨ ھ میں تین ہزار مجاہدین کی ایک فوج سرحد شام کی طرف روانہ کی تاکہ آئندہ کے لئے یہ علاقہ مسلمانوں کے لئے پر امن ہوجائے اور یہاں کے لوگ مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ان پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ کریں، یہ فوج جب معان کے قریب پہنچی تو معلوم ہوا کہ شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کا لشکر لے کر مقابلہ پر آرہا ہے اور خود قیصر بھی حمص کے مقام پر موجود ہے اور اس نے اپنے بھائی کی قیادت میں مزید ایک لاکھ فوج روانہ کی ہے، لیکن اس خوفناک اطلاع کے باوجود تین ہزار سرفروشوں کا یہ مختصر لشکر آگے بڑھتا چلا گیا اور موتہ کے مقام پر شرحبیل کی ایک لاکھ فوج سے جا ٹکرایا، اس کا نتیجہ تو بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ مجاہدین اسلام بالکل پس جاتے لیکن سارا عرب اور تمام شرق اوسط یہ دیکھ کر حیران وششدررہ گیا کہ ایک اور ٣٣ کے اس مقابلہ میں کفار مسلمانوں پر غالب نہ آسکے، یہی چیز تھی جس نے شام اور اس سے متصل رہنے والے نیم آزاد قبائل کو بلکہ عراق کے قریب رہنے والے نجدی قبایل کو جو کسریٰ کے زیر اثر تھے اسلام کی طرف متوجہ کردیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ہوگئے۔
رومی لشکر کے ایک کمانڈر کا قبول اسلام : اسی زمانہ میں سلطنت روم کی عربی فوج کا ایک کمانڈو فروہ بن عمر الجذ امی مسلمان ہوگیا اور اس نے اپنے پختگی ایمان کا ایسا ثبوت دیا کہ سارے علاقے دنگ رہ گئے، قیصر کو جب فروہ کے قبول اسلام کی خبر ملی تو اس کو گرفتار کرا کر اپنے دربار میں حاضر کرلیا اور اس سے کہا دو چیزوں میں سے ایک منتخب کرلو ترک اسلام جس کے نتیجے میں تم کو نہ صرف یہ کہ رہا کردیا جائے گا بلکہ تمہارے عہدے پر بھی بحال کردیا جائے گا یا اسلام، جس کے نتیجے میں تم کو سزائے موت دی جائے گی، اس نے زندگی اور عہدے کے مقابلہ میں موت اور آخرت کی راحت کو منتخب کرلیا اور راہ حق میں جان دے دی، یہی واقعات تھے جنہوں نے قیصر کو اس خطرہ کی حقیقی اہمیت کو محسوس کرا دیا جو عرب سے اٹھ کر اس کی سلطنت کی طرف بڑھ رہا تھا۔
غزوہ تبوک کی تفصیل : معجم طبرانی میں عمران بن حصین (رض) سے مروی ہے کہ نصارائے عرب نے ہرقل شاہ روم کے پاس یہ خط لکھ بھیجا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوچکا ہے اور لوگ قحط سالی کی وجہ سے بھوکے مر رہے ہیں لہٰذا عرب پر حملہ کے لئے نہایت مناسب موقع ہے، ہرقل نے فوراً تیاری کا حکم دے دیا چالیس ہزار رومیوں کا لشکر جرار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ کے لئے تیار ہوگیا۔ شام کے نبطی سودا گر جو زیتون کا تیل فروخت کرنے کے لئے مدینہ آیا کرتے تھے ان سے بھی اس امر کی تصدیق ہوگئی اور مزید یہ بھی معلوم ہوگیا کہ رومیوں کا لشکر بلقاء کے مقام تک پہنچ گیا ہے اور ہرقل نے تمام لشکر کو ایک سال کی پیشگی تنخواہ بھی دے دی ہے۔
قیصر روم کا جذبہ انتقام : دوسرے ہی سال یعنی ٩ ھ میں مسلمانوں سے غزوہ موتہ کا انتقام لینے کے لئے اور رسوائی وپسپائی کی خفت مٹانے کے لئے سرحد شام پر فوجی تیاریاں شروع کردیں اور اس کے ما تحت غسانی اور دوسرے سردار بھی فوجیں جمع کرنے لگے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس سے بیخبر نہ تھے آپ ہر وقت اس چھوٹی بڑی بات سے باخبر رہتے تھے جس کا اسلامی تحریک پر موافق یا مخالف اثر پڑتا ہو آپ نے ان تیاریوں کے معنی فوراً سمجھ لئے اور بغیر کسی تامل وتردد کے قیصر کی عظیم الشان طاقت سے ٹکرانے کا فیصلہ کرلیا، اس موقع پر ذرہ برابر بھی اگر کمزوری دکھائی جاتی تو سارا بنا بنایا کام بگڑ جاتا، ایک طرف عرب کی جان بلب جاہلیت جس پر حنین میں کاری ضرب لگائی جا چکی تھی پھر جی اٹھتی دوسری طرف منافقین جو ابو عامر راہب کے واسطہ سے غسان کے عیسائی بادشاہ اور خود قیصر کے ساتھ ساز باز کئے ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنی ریشہ دوانیوں پر دین داری کا پردہ ڈالنے کے لئے مدینہ سے متصل ہی مسجد ضرار تعمیر کر رکھی تھی، بغل میں چھرا گھونپ دیتے اور سامنے سے قیصر جس کا دبدبہ ایرانیوں کو شکست دینے کی وجہ سے تمام دورونزدیک علاقوں پر چھایا ہوا تھا حملہ آور ہوجاتا، اور ان تین زبردست خطروں کی متحدہ یورش میں اسلام کی جیتی ہوئی بازی یکایک مات کھا جاتی، اس لئے اس کے باوجود کہ قحط سالی تھی، مسافت بعید تھی، شدید گرمی کا موسم تھا، گرانی، فقرہ فاقہ اور بےسروسامانی کا دور تھا، فصلیں پکنے کا قریب تھیں غرضیکہ بڑا نازک وقت تھا جنگ کے لئے کسی طرح بھی بظاہر حالات ساز گار نہیں تھے خدا کے نبی نے یہ سوچ کر کہ دعوت حق کے لئے یہ موت اور حیات کے فیصلے کی گھڑی ہے اسی حال میں جنگ کی تیاری کا اعلان عام کردیا، اور دیگر غزوات کے برخلاف اس غزوہ میں آپ نے صاف صاف بتادیا کہ روم سے مقابلہ ہے اور شام کی طرف جانا ہے تاکہ اپنی وسعت کے مطابق ہر شخص تیاری کرسکے، منافق اس اعلان کو سن کر گھبرا اٹھے کہ ان کا پردہ فاش ہوا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے خود بھی جان چرائی اور دوسروں کو بھی یہ کہہ کر بہکانے لگے لا تنفروا فی الھر ایسی گرمی میں مت نکلو۔
مؤمنین صادقین اور غزوہ تبوک : ادھر مومنین صادقین کو بھی پورا احساس تھا کہ جس تحریک کے لئے ٢٢ سال سے وہ سربکف رہے ہیں اس وقت اس کی قسمت ترازو میں ہے اس وقت پر جرأت دکھانے اور ہمت سے کام لینے کے معنی یہ ہیں کہ اس تحریک کے لئے ساری دنیا پر چھا جانے کا دروازہ کھل جائے، اور کمزوری دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ عرب میں بھی اس کی بساط الٹ جائے چناچہ اس احساس کے ساتھ مخلصین سمعاً وطاعةً کہہ کر جان ومال سے تیاری میں مصروف ہوگئے سب سے پہلے صدیق اکبر نے کل مال لا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا جس کی مقدار چار ہزار درہم تھی آپ نے دریافت فرمایا کہ اہل و عیال کے لئے کچھ چھوڑا ہے ؟ تو کہا صرف اللہ اور اس کے رسول کو، فاروق اعظم نے نصف مال پیش کیا عبد الرحمن بن عوف نے دو سو اوقیہ چاندی پیش کی حضرت عثمان غنی (رض) نے تین سو اونٹ مع سازوسامان کے اور ایک ہزار دینار لا کر بارگاہ نبوی میں پیش کئے آپ بہت خوش ہوئے اور بار بار ان کو پلٹتے اور یہ فرماتے جاتے کہ اس عمل صالح کے بعد عثمان کو کوئی عمل ضرر نہیں پہنچا سکے گا، اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو، حضرت عاصم بن عدی نے ستروسق کھجوریں آپ کی خدمت میں پیش کیں، غریب صحابیوں نے محنت و مزدوری کر کے جو کچھ کمایا تھا لا کر حاضر کردیا، عورتوں نے اپنے زیور اتار اتار کر دے دئیے غرضیکہ فدائیان حق نے انتہائی جوش و خروش کے ساتھ جنگ کی تیاری کی سرفروش رضا کاروں کے گروہ کے گروہ امڈ امڈ کر آنے شروع ہوگئے اور انہوں نے تقاضہ کیا کہ اسلحہ اور سواریوں کا انتظام ہو تو ہماری جانیں قربان ہونے کے لئے حاضر ہیں، جن کو سواری نہ مل سکی وہ روتے رہ گئے یہ موقع عملا ایمان ونفاق کے امتیاز کی کسوٹی بن گیا تھا حتی کہ اس وقت پیچھے رہ جانے کے معنی یہ تھے کہ اسلام کے ساتھ تعلق کی صداقت ہی مشتبہ ہوجائے چناچہ تبوک کی طرف جاتے ہوئے دوران سفر جو شخص پیچھے رہ جاتا تھا صحابہ کرام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دے دیتے تھے، اور جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برجستہ فرماتے تھے \&\& دعوة فان یک فیہ خیر فسیلحقہ اللہ بکم وان یک غیر ذلک فقد اراحکم اللہ منہ \&\& جانے دو اگر اس میں کچھ بھلائی ہے تو اللہ اسے پھر تمہارے ساتھ لا ملائے گا، اور اگر کچھ دوسری بات ہے تو شکر کرو کہ اللہ نے اس کی جھوٹی رفاقت سے تمہیں خلاصی بخشی۔
محمد بن مسلمہ انصاری (رض) کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر فرمایا : روانگی کے وقت آپ نے محمد بن مسلمہ انصاری کو اپنا قائم مقام اور مدینہ کا والی مقرر فرمایا، اور حضرت علی کو اہل و عیال کی حفاظت کے لئے مدینہ میں چھوڑا حضرت علی (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ مجھ کو بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں، اس پر آپ نے فرمایا، کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم کو مجھ سے ایسی نسبت ہو جو ہارون (علیہ السلام) کو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
مسئلہ خلافت بلافصل اور حضرت علی (رض) : اس حدیث سے شیعہ حضرات حضرت علی کی خلافت بلا فصل پر استدلال کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلافت حضرت علی کا حق ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر پر روانگی کے وقت حضرت علی (رض) کو اہل و عیال کی دیکھ بھال اور خبر گیری کے لئے مدینہ میں چھوڑا تھا کہ میری واپسی تک ان کی خبر گیری اور دیکھ بھال رکھنا اس سے حضرت علی (رض) کی امانت ودیانت اور قرب واختصاص تو بیشک معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اپنے اہل و عیال کی نگرانی اسی کے سپرد کرتے ہیں کہ جس کی امانت ودیانت پر اطمینان ہو فرزند اور داماد اس کام کے لئے زیادہ مناسب ہوتے ہیں، رہا یہ امر کہ میری وفات کے بعد تم ہی میرے خلیفہ ہو گے حدیث کو اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔
حضرت علی (رض) چونکہ نہایت جری اور بہادر تھے اسی مناسبت سے آپ کا لقب \&\& اسد اللہ \&\& تھا نہیں چاہتے تھے کہ دیگر حضرات میدان کار زار میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں اور میں عورتوں اور بچوں میں معذوروں کی طرح مدینہ میں بیٹھا رہوں اس کے علاوہ کچھ منافقین نے یہ بھی کہنا شروع کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی (رض) کو اپنے ہمراہ لے جانا چونکہ پسند نہیں کرتے اس لئے ان کو اہل و عیال کی نگرانی کا بہانہ بنا کر مدینہ میں چھوڑ دیا ہے اس طعنہ زنی سے حضرت علی (رض) کو اور بھی زیادہ رنج ہوا چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کی تسلی کے لئے فرمایا \&\& انت منی بمنزلة ہارون من موسیٰ \&\& اس سے مستقل اور دائمی خلافت پر استدلال کسی طرح مناسب اور صحیح نہیں ہے جس طرح حضرت ہارون (علیہ السلام) کی خلافت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کوہ طور سے واپسی تک وقتی اور عارضی تھی اسی طرح حضرت علی کی نیابت و قائم مقامی بھی وقتی اور عارضی تھی اس وقتی اور عارضی خلافت کے علاوہ دونوں خلافتوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے، حضرت ہارون (علیہ السلام) کا انتقال پہلے ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال بعد میں ہوا، ادھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال پہلے ہوا اور حضرت علی کا انتقال بعد میں ہوا حضرت ہارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) چھوٹے ادھر اس کا عکس ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمر میں حضرت علی سے بڑے تھے اور حضرت علی چھوٹے، اس کے علاوہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت علی کو خلافت عامہ تو دور کی بات ہے مدینہ پر بھی حاکم نہیں بنایا تھا اس لئے کہ حضرت محمد بن مسلمہ انصاری کو مدینہ کو حاکم واپنا نائب مقرر فرمایا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کی نیابت صرف اہل خانہ کی نگرانی کے لئے تھی۔
یوم پنجشنبہ ماہ رجب ٩ ھ کو آپ کی تبوک کے لئے روانگی : جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ معلوم ہوا کہ رومی لشکر بلقاء
کے مقام تک پہنچ چکا ہے تو آپ نے حکم دیا کہ فورا سفر کی تیاری شروع کی جائے تاکہ دشمن کی سرحد (تبوک) پر پہنچ کر مقابلہ کریں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٣٠ ہزار مجاہدین کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے جن میں دس ہزار سوار تھے اونٹوں کی اتنی کمی تھی کہ ایک ایک اونٹ پر کئی آدمی باری باری سوار ہوتے تھے اس پر گرمی کی شدت پانی کی قلت مستزاد، مگر جس عزم صادق کا ثبوت اس نازک موقع پر مسلمانوں نے دیا اس کا ثمرہ تبوک پہنچ کر انہیں نقد مل گیا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قیصر اور اس کے حلیفوں نے مقابلہ پر آنے کے بجائے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لی ہیں، اور اب کوئی دشمن موجود نہیں کہ اس سے جنگ کی جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ رومی غزوہ موتہ میں تین ہزار مجاہدوں کی ایک لاکھ مسلح اور تربیت یافتہ فوج کے مقابلہ میں جو شان دیکھ چکے تھے اس کے بعد ان میں یہ ہمت ہی نہ ہوئی کہ ٣٠ ہزار مجاہدوں کے مقابلہ میں لاکھ دو لاکھ فوج لے کے آجائیں، جبکہ ٣٠ ہزار مجاہدوں کی قیادت خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے، غزوہ موتہ کے موقع پر جب ایک لاکھ فوج صرف تین ہزار مجاہدوں کا کچھ نہ بگاڑ سکی تو بھلا تیس ہزار کے مقابلہ کی ہمت کیسے کرسکتے تھے ؟ یہی وجہ تھی کہ رومی فوج میدان چھوڑ کر بھاگ گئی۔
مسلمانوں کی اخلاقی اور سیاسی فتح : قیصر کے یوں طرح دے جانے سے جو اخلاقی اور سیاسی فتح مسلمانوں کو حاصل ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مرحلہ پر اس کو کافی سمجھا، اور بجائے اس کے کہ تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی وحربی فائدہ حاصل کیا جائے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک میں بیس روز قیام کر کے ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دارالاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کے زیر اثر تھیں فوجی دبائو سے اسلامی سلطنت کا باج گذار اور تابع امر بنا لیا، اسی سلسلہ میں دومة الجندل کے عیسائی رئیس اکیدر بن عبد الملک کندی، ایلہ کا عیسائی رئیس یوحنا بن رؤبہ ان کے علاوہ اور کئی سرداروں نے جزیہ دے کر مدینہ کی تابعیت قبول کرلی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہ راست رومی سلطنت کی حد تک پہنچ گئے۔
مالکم اذا قیل لکم الخ یہ کلمہ ملامت وتوبیخ ہے، یعنی آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے ! فقہاء نے اس آیت سے یہ حکم نکالا ہے کہ جب جہاد کی نفیر عام ہوجائے تو ہر شخص پر جو معذور شرعی نہ ہو جہاد فرض ہوجاتا ہے۔
امام جصاص تحریر فرماتے ہیں، اقتضیٰ ظاھر الآیة وجوب النفیر علی من لم یستنفر۔ (حصاص)
قولہ : لا تضروہ، کی ضمیر اللہ کے دین کی طرف راجع ہے، خود اللہ اور اس کے رسول کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے۔ (قرطبی) ۔ اذ ھما فی الغار الخ یہ اشارہ واقعہ ہجرت کی طرف ہے مشرکین مکہ آپ کے قتل پر تل گئے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی کو اپنے بستر پر سلا کر راتوں رات حضرت ابوبکر کے ساتھ غار ثور میں چھپتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے، آپ دونوں حضرات غار ثور میں موجود ہی تھے کہ مشرکوں کی تلاش کرنے والی پارٹی نقش قدم کے نشانات کی مدد سے غار ثور کے دہانے تک پہنچ گئی، نشان شناس نے بتایا کہ قدموں کے نشانات یہیں تک ملتے ہیں، اسی غار کے اندر ہوں گے، کون انسان ہوسکتا ہے کہ ایسے موقع پر خود کو جانی دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار دیکھ کر پریشان اور مضطرب نہ ہوجاتا ؟ حضرت ابوبکر صدیق کو طبعاً اضطراب پیدا ہوا، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت بھی اللہ کے فضل و کرم سے بالکل مطمئن رہے، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر صدیق کو تسلی دی اور سمجھایا کہ ابوبکر گھبرانے کی کیا بات ہے ؟ ہم دو تنہا نہیں ہیں ہمارے ساتھ تو اللہ کی تائیدو نصرت موجود ہے۔
اذھما فی الغار، غار ثور مکہ کے مضافات میں مدینہ کے عام راستہ سے ہٹ کر چند میل کے فاصلہ پر واقع ہے، سفر ہجرت میں آپ نے حضرت ابوبکر کی معیت میں اس غار میں تین روز قیام فرمایا تھا، اس غار کا دہانہ اتنا تنگ ہے کہ لیٹ کر بمشکل انسان اس میں داخل ہوسکتا ہے، بعض علماء نے آی سے حضرت ابوبکر صدیق کے خلیفہ اول ہونے کا بھی اشارہ سمجھا ہے۔ (قرطبی)
فائدہ : علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص ابوبکر صدیق کی صحابیت کا انکار کرتا ہے وہ نص قرآنی کا انکار کرتا ہے اس سے اس کا کفر لازم آتا ہے یہ بات دوسرے صحابیوں کے لئے نہیں ہے۔ (مدارک)
جب بعض لوگوں نے تبوک کی طرف نکلنے سے جان چرائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا رسول کو تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے اگر تم مدد نہ کرو گے تو کچھ پرواہ نہیں اللہ اپنے رسول کی اس سے پہلے مختلف موقعوں پر مدد کرچکا ہے اس کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے اذھما فی الغار کہہ کر واقعہ ہجرت کی طرف اشارہ فرمایا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ ہجرت کو قدرے تفصیل سے لکھ دیا جائے۔
واقعہ ہجرت کی تفصیل : ہجرت کے واقعہ کی تفصیل حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی روایتوں سے اس طرح منقول ہے، ہجرت سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا تھا کہ دو پہاڑوں کے درمیان کنکریلی زمین ہے اور اس سر زمین پر کھجوریں بکثرت ہیں وہاں کے لئے ہجرت کا حکم ہوا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خواب سن کر کچھ لوگ مدینہ کو اور کچھ حبشہ کو چلے گئے، جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو کافروں نے بہت تنگ کیا تو انہوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چبوترہ مسجد کی طرح بنا لیا تھا اسی پر نماز پڑھتے اور تلاوت فرماتے جب کفار نے اس سے بھی منع کیا تو مدینہ کا قصد کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کچھ روز اور ٹھہر جائو شاید مجھ کو بھی ہجرت کی اجازت مل جائے، ایک روز خلاف عادت ٹھیک دوپہر کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ مجھ کو بھی مدینہ کی ہجرت کا حکم ہوگیا ہے حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں کیا اس ناچیز کو بھی ہم رکابی کا شرف حاصل ہو سکے گا فرمایا : ہاں، ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) یہ خوشخبری سن کر فرط مسرت سے رو پڑے حضرت عائشہ فرماتے ہیں کہ میں اس سے پہلے نہیں جانتی تھی کہ انسان فرط مسرت میں بھی رو پڑتا ہے، حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں ایک آپ کے لئے ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے وہ اونٹنی میں قیمتاً لے لوں گا۔ چناچہ جب رات کے وقت قرار داد کے مطابق آپ کے مکان کو گھیر لیا کہ جب آپ سو جائیں تو آپ پر حملہ کردیا جائے آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ میری سبز چادر اوڑھ کر میرے بستر پر لیٹ جائو اور ڈرو مت یہ لوگ تم کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچا سکیں گے۔
قریش کی امانتوں کو واپسی کا حکم : قریش اگرچہ آپ کے دشمن تھے مگر آپ کو \&\& صادق الامین \&\& سمجھتے تھے آپ نے وہ سب امانتیں حضرت علی کے سپرد کیں اور حکم دیا کہ صبح کو یہ امانتیں لوگوں کو پہنچا دینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں سے ایک مشت خاک لے کر برآمد ہوئے اور اس مشت خاک پر سورة یٰسین کی شروع کی تین آیتیں \&\& فاغشیناھم فھم لا یبصرون \&\& تک پڑھ کر ان کے سروں پر ڈال دی، اللہ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور آپ ان کے سامنے سے گذر گئے اور کسی کو نظر نہیں آئے، آپ کا شانہ مبارک سے نکل کر ابوبکر صدیق کے مکان پر تشریف لے گئے، حضرت ابوبکر صدیق کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء (رض) نے سفر کے لئے ناشتہ تیار کیا عجلت میں رسی نہ ملنے پر اپنا پٹکا پھاڑ کر ناشتہ دان باندھا اسی روز سے حضرت اسماء \&\& ذات النطاقین \&\& کے نام سے موسوم ہوئیں، عبد اللہ بن ابوبکر دن بھر مکہ میں رہتے اور رات کو آکر قریش کی خبریں بیان کرتے، عامر بن فہیرہ ابوبکر (رض) کے آزاد کردہ غلام عشاء کے وقت آپ دونوں حضرات کو بکر کا دودھ پلاتے جو دن بھر آس پاس ہی بکریاں چرایا کرتے تھے، عبد اللہ بن اریقط نے مزدوری پر رہبری کے فرائض انجام دئیے۔
غار ثور کی طرف روانگی : الغرض دونوں حضرات رات ہی میں غار ثور کی طرف روانہ ہوئے، جب آپ دونوں حضرات غار ثور پر پہنچے تو حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ذرا ٹھہریں میں پہلے اندر جا کر غار کو صاف کر دوں۔
حضرت ابوبکر (رض) کی افضلیت : دلائل بیہقی میں ضبة بن محصن سے مروی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے سامنے جب حضرت ابوبکر (رض) کا ذکر آتا تو یہ فرماتے کہ ابوبکر کی ایک رات اور ایک دن عمر کی تمام عمر کی عبادت سے کہیں بہتر ہے رات تو غار ثور کی اور دن وہ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ظاہری ہوئی تو عرب کے بہت سے قبائل زکوٰة کی ادائیگی کا انکار کر کے مرتد ہوگئے اور ابوبکر نے ان سے لڑنے کا ارادہ کیا تو میں اس وقت ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا اور خیر خواہانہ عرض کیا اے خلیفہ رسول آپ ذرا نرمی کیجئے اور تالیف سے کام لیجئے تو ابوبکر نے غصہ ہو کر فرمایا جَبَّار فی الجاھلیة و خوار فی الاسلام، اے عمر زمانہ جاہلیت میں تو بہادر تھا اب کیا اسلام میں آکر بزدل ہوگیا۔
حضرت ابوبکر نے اول غار کو صاف کیا بعد ازاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار میں تشریف لے گئے۔ اور باذن الٰہی غار کے دہانے پر مکڑی نے جالا تنا، یہ روایت مستدرک حاکم میں بھی مذکور ہے۔ (سیرت مصطفوی)
مشرکین مکہ غار ثور کے دہانے پر : جب مشرکین مکہ نشان شناسوں کی مدد سے غار ثور کے دہانے تک پہنچ گئے اور نشان شناس نے کہہ دیا کہ قدموں کے نشان یہیں تک ہیں، اسی غار میں ہوں گے، تلاش کرنے والی پارٹی نے جب غار ثور کے دہانے پر مکڑی کا جالا دیکھا تو نشان شناس کو بیوقوف بنایا اور کہا اگر اس غار میں کوئی داخل ہوا ہوتا تو کیا یہ مکڑی کا جالا باقی رہ سکتا تھا۔
فَرَأ وعلی بابہ نسیج العنکبوت فقالوا لو دخل ھنالم یکن نسیج العنکبوت علی بابہ۔ تو غار کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھ کر کہا کہ اگر کوئی اس میں جاتا تو غار کے دہانہ پر مکڑی کا جالا باقی نہ رہتا (حافظ عسقلانی اور ابن کثیر نے اس روایت کو حسن کہا ہے ) ۔
مشرکین مکہ کی جانب سے دو سو اونٹوں کے انعام کا اعلان : جب مشرکین مکہ مایوس ہوگئے تو انہوں نے آپ دونوں کو گرفتار کرنے والے کے لئے دو سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کردیا، اس انعام کی لالچ میں ایک شخص سراقہ بن مالک بن جعشم نے گھوڑے پر چڑھ کر آپ کا پیچھا کیا اور وہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب پہنچا تو اس کا نصف گھوڑا زمین میں دھنس گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے امان چاہی تو آپ نے امان دے دی اور اس کا گھوڑا زمین سے نکل گیا سراقہ ایمان لا کر اور امان لے کر واپس ہوگیا اسی سفر ہجرت کے دوران ام معبد کا واقعہ پیش آیا۔
ام معبد (رض) کا واقعہ : راستہ میں ام معبد کے خیمہ پر گذر ہوا، ام معبد ایک نہایت شریف اور مہمان نواز خاتون تھیں، قافلہ نبوی نے ام معبد سے گوشت اور کھجوریں خریدنے کی غرض سے کچھ دریافت کیا مگر کچھ نہ پایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر خیمہ میں ایک بکری پر پڑی فرمایا یہ کیسی بکری ہے ؟ ام معبد نے عرض کیا یہ بکری لاغر اور دبلی ہونے کی وجہ سے بکریوں کے گلے کے ساتھ جنگل نہیں جاسکتی، آپ نے فرمایا اس میں کچھ دودھ ہے ام معبد نے عرض کیا اس میں دودھ کہاں ؟ آپ نے فرمایا مجھے اس کا دودھ دوہنے کی اجازت دو ، کہا اجازت ہے، آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس کے تھن پر اپنا دست مبارک رکھا تھن دودھ سے بھر گئے آپ نے دودھ نکالا ایک بڑا برتن جس سے آٹھ دس آدمی پی سکیں بھر گیا، اول آپ نے ام معبد کو دودھ پلایا اس کے بعد اپنے ساتھیوں کو پلایا اور آخر میں آپ نے نوش فرمایا، اس کے بعد آپ نے پھر دودھ دوہا یہاں تک کہ وہ بڑا برتن دوبارہ بھر گیا وہ برتن ام معبد کو عطا کیا اور ام معبد کو بیعت کر کے روانہ ہوئے شام کے وقت جب ام معبد کے شوہر ابو معبد بکریاں چرا کر آئے تو دیکھا کہ ایک بڑا برتن دودھ سے بھرا ہوا رکھا ہے، بہت تعجب سے معلوم کیا اے ام معبد یہ دودھ کہا سے آیا ہے ؟ اس بکری میں تو کہیں دودھ کا نام تک نہیں، ام معبد نے عرض کیا آج یہاں سے ایک مرد مبارک گذرا خدا کی قسم یہ سب اسی کی برکت ہے اور پورا واقعہ بیان کیا، ابو معبد نے کہا ذرا ان کا کچھ حلیہ تو بیان کرو، ام معبد نے آپ کا حلیہ مبارک بیان کیا، پوری تفصیل مستدرک میں مذکور ہے۔
ابو معبد نے کہا میں سمجھ گیا واللہ یہ وہی قریشی شخص ہے میں بھی ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا، مگر تلاش بسیار کے بعد بھی آپ سے ملاقات نہ ہوسکی، راستہ میں بریدة الاسلمی اپنے ٧٠ آدمیوں کے ساتھ مشرف باسلام ہوئے، اور آپ کے ساتھ جھنڈا ہاتھ میں لے کر آگے آگے چل رہے تھے، آپ کی روانگی کی خبر اہل مدینہ کو مل چکی تھی اہل مدینہ کا ہر فرد بشر آپ کے شوق دیدار میں روزانہ مقام حرہ پر آکر کھڑا ہوجاتا جب دوپہر ہوجاتا تو مایوس ہو کر واپس چلا جاتا یہ روزانہ کا معمول تھا، ایک روز انتظار کے بعد واپس ہو رہے تھے کہ ایک یہودی نے ایک ٹیلے پر سے آپ کو آتے ہوئے دیکھا بےاختیار پکار کر یہ کہا یا بنی قیلہ ھذا جدکم، اے بنی قیلہ یہ ہے تمہاری خوش نصیبی کا سامان، اس خبر کے سنتے ہی انصار والہانہ وبے تابانہ آپ کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے اور نعرہ تکبیر سے بنی عمرو اور بنی عوف کی تمام آبادی گونج اٹھی۔
مسجد قبا کا قیام : مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک آبادی ہے جسے قبا کہتے ہیں، یہاں انصار کے کچھ خاندان آباد تھے جب آپ قبا پہنچے تو آپ نے قبیلہ کے سردار کلثوم بن ہدم کے مکان پر قیام فرمایا، اور ابوبکر صدیق خبیب بن اساف کے مکان پر ٹھہرے، حضرت علی (رض) بھی مشرکین مکہ کی امانتیں واپس کر کے مقام قبال میں آملے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس قیام فرمایا، قبا میں سب سے پہلے جو کام آپ نے کیا وہ ایک مسجد کی بنیاد تھی، سب سے پہلے آپ نے اپنے دست مبارک سے ایک پتھر لا کر قبلہ رخ رکھا آپ کے بعد ابوبکر نے اور ان کے عمر نے ایک پتھر رکھا اس کے بعد دیکھ حضرات نے پتھر لا کر رکھنے شروع کئے اور تعمیر کا سلسلہ شروع ہوگیا، (مزید تفصیل کے لئے کتب سیرت کی طرف رجوع کریں ) ۔ (سیرت مصطفی)
10 Tafsir as-Saadi
واضح رہے کہ اس سورۃ کریمہ کا اکثر حصہ غزوہ تبوک میں نازل ہوا ہے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رومیوں کے مقابلے میں جنگ کے لئے لوگوں کو بلایا۔ اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا، لوگوں کے پاس زاد راہ بہت کم تھا اور ان کے معاشی حالات عسرت کا شکار تھے۔ اس کی وجہ سے بعض مسلمانوں میں سستی آگئی تھی جو اللہ تعالیٰ کے عتاب کی موجب بنی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جہاد کے لئے اٹھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ” اے ایمان والو“! کیا تم ایمان کے تقاضوں اور یقین کے داعیوں کو نہیں جانتے؟ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں سبقت کی جائے، اس کی رضا کے حصول، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور تمہارے دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کی طرف سرعت سے بڑھا جائے۔ پس ﴿ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ﴾ ”تمہیں کیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے راستے میں کوچ کرو، تو گرے جاتے ہو زمین پر“ یعنی تم سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیٹھ رہے ہو اور راحت و آرام کی طرف مائل ہو رہے ہو۔ ﴿أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ﴾ ”کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔“ یعنی تمہارا حال تو بس اس شخص جیسا ہے جو دنیا کی زندگی پر راضی ہے اور اسی کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے اور آخرت کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ گویا آخرت پر وہ ایمان ہی نہیں رکھتا۔
﴿ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” پس نہیں ہے نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا“ جس کی طرف تم مائل ہو جس کو تم نے آخرت پر ترجیح دے رکھی ہے۔ ﴿ إِلَّا قَلِيلٌ ﴾ ” مگر بہت تھوڑا“ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل سے نہیں نوازا جس کے ذریعے سے تم تمام معاملات کو تولو کہ کون سا معاملہ ہے جو ترجیح دیئے جانے کا مستحق ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ یہ دنیا۔۔۔ اول سے لے کر آخر تک۔۔۔ آخرت کے ساتھ اس کی کوئی نسبت ہی نہیں؟ اس دنیا میں انسان کی عمر بہت تھوڑی ہے، یہ عمر اتنی نہیں کہ اس کو مقصد بنا لیا جائے اور اس کے ماوراء کوئی مقصد ہی نہ ہو اور انسان کی کوشش، اس کی جہد اور اس کے ارادے اس انتہائی مختصر زندگی سے آگے نہ بڑھتے ہوں جو تکدر سے لبریز اور خطرات سے بھرپور ہے۔ تب کس بنا پر تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے دی جو تمام نعمتوں کی جامع ہے جس میں وہ سب کچھ ہوگا نفس جس کی خواہش کریں گے اور آنکھیں جس سے لذت حاصل کریں گی اور تم اس آخرت میں ہمیشہ رہو گے۔۔۔ اللہ کی قسم ! وہ شخص جس کے دل میں ایمان جاگزیں ہوگیا ہے، جو صائب رائے رکھتا ہے اور جو عقل مندوں میں شمار ہوتا ہے، کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey logo jo emaan laye ho ! tumhen kiya hogaya hai kay jab tum say kaha gaya kay Allah kay raastay mein ( jihad kay liye ) kooch kero to tum bojhal ho ker zameen say lagg gaye ? kiya tum aakhirat kay muqablay mein dunyawi zindagi per razi hochukay ho-? ( agar aisa hai ) to ( yaad rakho kay ) dunyawi zindagi ka maza aakhirat kay muqablay mein kuch bhi nahi , magar boht thora .
12 Tafsir Ibn Kathir
غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ
ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے۔ ایسے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دور دراز کے سفر کے لئے تیار ہوگئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کے لئے سب سے فرما دیا کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شروع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ کے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو۔ کیا دنیا کی ان فانی چیزوں کی ہوس میں آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو ؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس انگلی کو کوئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے کسی نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثبوات دیتا ہے آپ نے فرمایا بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے پھر آپ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ دنیا جو گذر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا زیادہ بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے۔ ایک قبیلے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہاد کے لئے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں اترانا مت کہ ہم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ کا دوسرے لوگوں کو مددگار کر دے گا۔ جو تم جیسے نہ ہوں گے۔ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کرسکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 41) 9 ۔ التوبہ :41) اور ( مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ\012\00ۙ ) 9 ۔ التوبہ :120) یہ سب آیتیں ( وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ\012\02 ) 9 ۔ التوبہ :122) سے منسوخ ہیں لیکن امام ابن جریر (رح) اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کے لئے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوجائیں فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم۔