التوبہ آية ۴۳
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْـكٰذِبِيْنَ
طاہر القادری:
اللہ آپ کو سلامت (اور باعزت و عافیت) رکھے، آپ نے انہیں رخصت (ہی) کیوں دی (کہ وہ شریکِ جنگ نہ ہوں) یہاں تک کہ وہ لوگ (بھی) آپ کے لئے ظاہر ہو جاتے جو سچ بول رہے تھے اور آپ جھوٹ بولنے والوں کو (بھی) معلوم فرما لیتے،
English Sahih:
Allah has pardoned you, [O Muhammad, but] why did you give them permission [to remain behind]? [You should not have] until it was evident to you who were truthful and you knew [who were] the liars.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ تمہیں معاف کرے تم نے انہیں کیوں اِذن دے دیا جب تک نہ کھلے تھے تم پر سچے اور ظاہر نہ ہوئے تھے جھوٹے،
3 Ahmed Ali
الله نے تمہیں معاف کر دیا تم نےانہیں کیوں رخصت دی یہاں تک کہ تیرے لیے سچے ظاہر ہو جاتے اور تو جھوٹوں کو جان لیتا
4 Ahsanul Bayan
اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے (١)۔
٤٣۔١ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں کو تو نے کیوں بغیر یہ تحقیق کئے کہ اس کے پاس معقول عذر بھی ہے یا نہیں؟ اجازت دے دی۔ اس لئے اس کوتاہی پر معافی کی وضاحت پہلے کر دی گئی ہے۔ یاد رہے یہ تنبیہ اس لئے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں اُن کو اجازت کیوں دی
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں (پیچھے رہ جانے کی) اجازت دے دی۔ جب تک آپ پر واضح نہ ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور معلوم نہ ہو جاتا کہ جھوٹے کون؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر!خدا نے آپ سے درگزر کیا کہ آپ نے کیوں انہیں پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی بغیر یہ معلوم کئے کہ ان میں کون سچاّ ہے اور کون جھوٹا ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی ؟
آیت نمبر ٤٣ تا ٥٩
ترجمہ : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اجتہاد سے ایک جماعت کو جہاد (غزوہ تبوک) میں شریک نہ ہونے کی اجازت دے دی تھی تو اظہار ناراضگی کے طور پر (آئندہ آیت) نازل ہوئی، اور آپ کے اطمینان قلبی کے لئے معافی کو پہلے ہی بیان کردیا، (اے نبی) اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے ان کو عدم شرکت کی کیوں اجازت دے دی ؟ اور آپ نے ان کو کیوں نہ اپنی حالت پر چھوڑ دیا ؟ تاکہ آپ پر کھل جاتا کہ کون لوگ عذر میں سچے ہیں ؟ اور عذر کے معاملہ میں جھوٹوں کو بھی جان لیتے جو لوگ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو آپ سے کبھی یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنے جان ومال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے، ایسی عدم شرکت کی درخواست تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور ان کے قلوب دین کے معاملہ میں شک میں مبتلا ہیں اور وہ اپنے شک ہی میں حیران ہو رہے ہیں اگر ان کا (واقعی) آپ کے ساتھ نکلنے کا کچھ ارادہ ہوتا تو وہ اس کے لئے آپ کے ساتھ نکلنے کے آلات اور زاد راہ کے ذریعہ کچھ تو تیاری کرتے لیکن اللہ کو (جہاد کے لئے) ان کا اٹھنا پسند نہیں تھا، یعنی اللہ ہی نے ان کا (جہاد کے لئے) نکلنا نہ چاہا، اسلئے اللہ نے انہیں سست کردیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھنے والوں (یعنی مریضوں اور عورتوں اور بچوں کے ساتھ بیٹھے رہو، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کردیا ہے، اگر وہ تم میں شامل ہو کر نکلتے تو تمہارے اندر مومنین کو ذلیل کر کے (بزدلی دکھا کر) فساد کے علاوہ کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لئے خوب گھوڑے دوڑاتے تمہارے درمیان فتنہ ڈال کر یعنی تمہارے درمیان چغل خوری کے لئے خوب دوڑ دھوپ کرتے، اور ان کی باتوں کو ماننے والے خود تمہارے اندر موجود ہیں، اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے اس سے پہلے بھی (یعنی) جب آپ مدینہ میں آئے ہی تھے انہوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں آپ کے لئے مکر کرنے اور آپ کے دین کو باطل کرنے کے لئے یہ ہر طرح تدبیروں کا الٹ پھیر کرچکے ہیں یہاں تک کہ حق یعنی نصرت آگیا یہاں تک کہ اور اللہ کا امر (یعنی) اس کا دین غالب ہوگیا حالانکہ وہ اس کو ناپسند کر رہے تھے لیکن وہ اس (اسلام) میں بظاہر داخل ہوگئے اور ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے شریک (جہاد) نہ ہونے کی اجازت دے دیجئے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے، اور وہ جد بن قیس ہے اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کہ کیا تم بنی اصفر کے ساتھ قتال (جہاد) کے لئے تیار ہو ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں عورتوں کا دل دادہ ہوں مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں بنی اصفر کی عورتوں کو دیکھوں گا تو میں ضبط نہ کرسکوں گا جس کی وجہ سے میں فتنہ میں مبتلا ہوجائوں گا خوب سن لو وہ شرکت نہ کر کے فتنہ میں مبتلا ہوچکے ہیں اور سُقِطَ ، بھی پڑھا گیا ہے، یقین جانو کافروں کا جہنم نے احاطہ کر رکھا ہے، ان کو اس سے نجات نہیں، اگر آپ کو کوئی بھلائی پہنچتی ہے، مثلاً نصرت اور مال غنیمت تو ان کو ناگوار گذرتی ہے اور اگر آپ کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم نے اپنا معاملہ شریک نہ ہو کر احتیاطاً پہلے ہی درست کرلیا، یعنی اس مصیبت کے پیش آنے سے پہلے ہی اور آپ کی مصیبت پر خوش ہوتے ہوئے رخ پھیر کر چل دیتے ہیں ان سے کہو ہم کو کوئی (بھلائی یا برائی) ہرگز نہیں پہنچتی مگر وہی پہنچتی ہے جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے وہی ہمارا مولا ( یعنی) مددگار اور ہمارے امور کا والی ہے اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے آپ ان سے کہو تم جس چیز کے ہمارے بارے میں منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ وہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے (الحسنیین) حسنیٰ اَحْسَنُ کی تانیث کا تثنیہ ہے ( اور وہ دو چیزیں) غلبہ یا شہادت ہے اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تم کو آسمانی بجلی کے ذریعہ خود سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے بایں طور کہ ہم کو تمہارے قتل کی اجازت دیتا ہے، تم اس کا ہمارے بارے میں انتظار کرو ہم تمہارے ساتھ تمہارے انجام کا انتظار کر رہے ہیں تربَّصون میں اصل میں حذف تاء ہے، یعنی تم وقوع کا انتظار کر رہے ہو تم ان سے کہو تم اللہ کی اطاعت میں خواہ بخوشی خرچ کرو یا بکراہت وہ تمہارے خرچ کرنے کو ہرگز قبول نہ کرے گا کیونکہ تم فاسق لوگ ہو اور یہاں امر خبر کے معنی میں ہے ان کے خرچ کئے ہوئے مال کو قبول نہ کرنے کی اس کے سوا اور کوئی وجہ نہیں کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے (یقبل) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، الا انھم منعھم کا فاعل ہے اور ان تقبل اس کا مفعول ہے نماز کو آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے سستی کے ساتھ آتے ہیں، اور ( راہ خدا میں) وہ بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں اس لئے کہ وہ اسے تاوان سمجھتے ہیں ان کے اموال اور ان کی اولاد ( کی کثرت) تم کو تعجب (دھوکہ) میں نہ ڈالے، یعنی ہمارا ان کو خوش حالی دینا آپ کو بھلا معلوم نہ ہو اس لئے کہ یہ ڈھیل ہے اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ ان کو دنیا کی زندگی میں لیعذبھم کی تقدیر اَن یعذبھم ہے گرفتار عذاب رکھے ان مشقت و مصائب کے ذریعہ جو وہ مال جمع کرنے میں اٹھاتے ہیں اور یہ جان بھی دیں تو انکار حق کی حالت میں دیں جس کی وجہ سے اللہ ان کو آخرت میں شدید ترین عذاب دے، وہ خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں یعنی مومنوں میں سے حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں، اصل میں وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوف زدہ ہیں، وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں تم ان کے ساتھ بھی مشرکوں جیسا معاملہ کرو تو تقیہ (دکھاوے) کے طور پر قسم کھاتے ہیں اگر وہ کوئی ایسی جائے پناہ پالیں جس میں وہ پناہ لے سکیں یا کوئی سرنگ پالین یا کوئی گھسنے کی جگہ پالیں تو وہ اس میں جلدی سے جا گھسیں یعنی داخل ہونے میں عجلت سے کام لیں ایسی عجلت کے ساتھ تم سے پھرجائیں کہ کوئی چیز ان کو تمہاری طرف نہ لوٹا سکے جیسا کہ سرکش گھوڑا (ہوتا ہے) اور (اے نبی) ان میں کے بعض لوگ صدقات کی تقسیم کے بارے میں آپ پر اعتراضات کرتے ہیں (عیب لگاتے ہیں) پس اگر صدقات میں سے (ان کی مرضی کے مطابق) انہیں مل جاتا تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر ان صدقات میں سے (ان کی خواہش کے مطابق) نہیں ملتا تو وہ نا خوش ہوجاتے ہیں کیا اچھا ہوتا کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے غنائم وغیرہ میں سے ان کو دیا اس پر راضی ہوتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے عنقریب اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول دوسرے مال غنیمت وغیرہ میں سے اتنا دے گا جو ہمارے لئے کافی ہوگا، تحقیق ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں اور لَوْ کا جواب لکانً خیرًا لَّھم محذوف ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : عَفَا اللہ عَنْکَ ، جملہ دعائیہ ہے، مقام ناراضگی میں اظہار شفقت کے لئے مقدم کردیا گیا ہے۔
قولہ : لِم، یہ در اصل لِمَا، جار مجرور تھا، اس قاعدہ سے کہ جب حرف جرما استفہامیہ پر داخل ہوتا ہے تو الف گر جاتا
ہے، لہٰذا الف گرگیا ہے لِمَ میں لام تعلیلیہ ہے اور لھم تبلیغیہ لہٰذا دونوں کا اَذِنت کے متعلق ہونا درست ہے۔
قولہ : الَّذین صدقوایتبیَّن کا فاعل ہے، جملہ صدقوا صلہ ہے، تعلم کا یَتَبَیَّنَ پر عطف ہے کاذبین مفعول لہ ہے۔
قولہ : لم یرد خروجھم، \&\& کراھة \&\& انقباض النفس للعلم بنقصانہ کو کہتے ہیں اور یہ حق تعالیٰ کے لئے محال ہے لہٰذا کرِہ اللہ میں کراہت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست نہیں ہے۔
جواب : مفسر علام نے کَرِہَ کی تفسیر لم یرد خروجَھُم سے کر کے اسی سوال کا جواب دیا ہے کہ یہاں کراہت کے لازم معنی مراد ہیں اس لئے کہ جو شیٔ مکروہ اور ناپسند ہوتی ہے اس کا ارادہ نہیں کیا جاتا۔
قولہ : ثَبَّطَھُم، (تفعیل) تثبیطًا، باز رکھنا، روکے رکھنا، ماضی واحد مذکر غائب، ھم ضمیر جمع مذکر غائب۔
قولہ : تثبیط کے معنی روکنے کے ہیں اور اللہ کے لئے یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ بندوں کو فرائض سے باز رکھے، لہٰذا مجازاً منع کی نسبت کسل کی جانب کردی کہ تقدیر خداوندی کے مطابق ان کے کسل نے ان کو باز رکھا۔
قولہ : ای قدّر اللہ ذلک۔
سوال : اللہ تعالیٰ نے فرمایا \&\& اقعدوا مع القاعدین \&\& اس میں قعود عن الجھاد کا حکم دیا گیا ہے اور مامور محمود ہوتا ہے نہ کہ مذموم۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ مراد تقدیر ازلی ہے اسی جواب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قَدّر تعالیٰ ذلک کا اضافہ فرمایا، بعض حضرات نے ایک اور جواب دیا ہے۔
دوسرا جواب : یہ ہے کہ یہ امر تہدیدی، اعملوا ما شئتم کے قبیل سے ہے اور قرینہ مع القاعدین ہے۔
قولہ : الا خبالا، یہ مستثنیٰ مفرغ ہے، یعنی مستثنیٰ منہ محذوف ہے، ای ما زادوکم شیئاً الا خبالا۔
قولہ : خبالا، بمعنی فساد، شر، یہ خَبَلَ یخبُلُ سے ماخوذ ہے ایسا شروفساد جس کی وجہ سے کسی جاندار میں جنون یا اضطراب پیدا ہوجائے، خَبَالاً مستثنیٰ متصل ہے۔
قولہ : اوضعوا ای لَسَعَوا بینکم بالنمیمة ایضاع بمعنی اسراع، جلدی کرنا بولا جاتا ہے، وَضَعَ البعیر وضعًا اِذا اَسْرَعَ معلوم ہوا کہ یہاں وضع بمعنی نہادن نہیں ہے۔
قولہ : وفیکم سَمّاعون، خوب کان لگا کر سننے والے، جاسوس سمَاع کبھی تو جاسوس کے معنی میں اور کبھی فرماں بردار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یہاں دونوں ہی معنی مراد ہوسکتے ہیں۔
قولہ : بنی الاصفر، اصفر روم کے اطرام کے رئیس کا نام تھا اس نے ایک رومی عورت سے نکاح کرلیا تھا اس سے جو اولاد پیدا ہوئی وہ بنی اصفر کہلائی یہ نسل کافی حسین و جمیل پیدا ہوئی، یہ اسی نسل کی جانب اشارہ ہے۔
قولہ : جلاد، کوڑے مارنے والا، تلوار مارنے والا، اسی سے جلاد ہے، یہاں قتال بالسیف مراد ہے، بعض نسخوں میں
جلاد کے بجائے جہاد ہے جو کہ واضح ہے۔
قولہ : انفقوا طوعاً او کرھًا الخ، یہ امر بمعنی خبر ہے معنی یہ ہیں کہ نفقتکم طوعاً او کرھاً غیر مقبولة۔
قولہ : فاعل مَنَعَھُم، یعنی اِلاّ انّھم، مَنَعَ کا فاعل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ما مَنَعَھُمْ قبول نَفَقاتِھم اِلاّ کُفْرُھم، اول مفعول ثانی ہے اور مَنَعَھُمْ میں ھم مفعول اول ہے۔
قولہ : استدراج، بتدریج قریب کرنا، بتدریج ڈھیل دینا۔
قولہ : تقیةً باطن کے خلاف ظاہر کرنا، یہ لفظ اہل تشیع کی اصطلاح ہے یعنی اپنے مذہبی عقیدہ کے خلاف ظاہر کرنا۔
قولہ : سرادیب، یہ سرداب کی جمع ہے، بمعنی تہہ خانہ، سرنگ۔
قولہ : مُدّخلاً ، اصل میں مُدْتخلاً تھا، تاء کو دال سے بدل کر دال کو دال میں ادغام کردیا، موضع دخول۔
قولہ : یَجْمحون، یہ جمع سے ماخوذ ہے اس سرکش گھوڑے کو کہتے ہیں جو لگام سے بھی قابو میں نہ آئے اور تیزی سے دوڑا چلا جائے یہاں مطلقاً تیز چلنا، دوڑنا مراد ہے۔
تفسیر وتشریح
شان نزول : عَفَا اللہ عنک لِمَ اَذِنت لھم الخ جس طرح بدر کے قیدیوں سے وحی نازل ہونے سے پہلے فدیہ لے لیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے خفگی کا اظہار فرمایا تھا، اسی طرح تبوک کی لڑائی کے وقت بعض منافقوں نے بناوٹی عذر پیش کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت چاہی تھی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے طبعی حلم کی بنا پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ محض بہانہ بنا رہے ہیں رخصت عطا فرمائی تھی، اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ فرمائی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے، اس رخصت کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا، اگر ان کو رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوائے ایمان بےنقاب ہوجاتا۔
مگر خفگی کا یہ اظہار پیار بھرا ہے کہ خفگی سے پہلے معافی کا ذکر فرما دیا، مطلب یہ ہے کہ اجازت میں اس قدرعجلت سے کام نہیں لینا چاہیے تھا تھوڑا انتظار کرتے تو ان کے جھوٹے عذر کی حقیقت ظاہر ہوجاتی۔ بعض حضرات نے اس آیت کو سورة نور کی آیت فأذن لمن شئت منھم، سے منسوخ مانا ہے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ دونوں آیتوں میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہے اس لئے کہ دونوں آیتوں میں سچے عذر والوں کو اجازت کا حکم ہے فرق صرف اس قدر ہے کہ اس آیت میں حکم مجمل ہے اور سورة نور کی آیت میں صاف ہے، اس صورت میں ایک آیت دوسری آیت کا بیان ہوگی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿عَفَا اللَّـهُ عَنكَ﴾ ” اللہ نے آپ سے درگزر فرمایا“ اور آپ سے جو کچھ صادر ہوا اسے بخش دیا۔ ﴿لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ﴾ ” آپ نے (انہیں پیچھے رہ جانے کی) اجازت کیوں دی۔“ ﴿حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ﴾ ” حتی ٰکہ آپ پر وہ لوگ ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی آپ کو معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں۔“ یعنی ان کو آزمانے کے بعد معلوم ہوتا کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے، تب آپ اس شخص کا عذر قبول فرماتے جو اس کا مستحق ہے اور اس شخص کا عذر قبول نہ فرماتے جو اس کا مستحق نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) Allah ney tumhen moaaf kerdiya hai , ( magar ) tum ney inn ko ( jihad mein shareek naa honey ki ) ijazat iss say pehlay hi kiyon dey di kay tum per yeh baat khul jati kay kon hain jinhon ney sach bola hai , aur tum jhooton ko bhi achi tarah jaan letay .
12 Tafsir Ibn Kathir
نہ ادھر کے نہ ادھر کے
سبحان اللہ، اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں ؟ سخت بات کے سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جاتا ہے اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورة نور میں کیا جاتا ہے اور ارشاد عالی ہوتا ہے (فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 62) 24 ۔ النور :62) یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کرلیا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہوجائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تو بھی ہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے۔ نیک و بد میں ظاہری تمیز ہوجاتی۔ اطاعت گذار تو حاضر ہوجاتے۔ نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے۔ کیونکہ انہوں نے تو طے کرلیا تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں۔ اسی لئے جناب باری نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ حق کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں وہ تو جہاد کو موجب قربت الہیہ مان کر اپنی جان و املاک کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے۔ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بےایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت کے بارے میں شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوار نے کا کوئی رستہ نہ پائے گا۔