منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں،
English Sahih:
The hypocrite men and hypocrite women are of one another. They enjoin what is wrong and forbid what is right and close their hands. They have forgotten Allah, so He has forgotten them [accordingly]. Indeed, the hypocrites – it is they who are the defiantly disobedient.
1 Abul A'ala Maududi
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں
2 Ahmed Raza Khan
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں برائی کا حکم دیں اور بھلائی سے منع کریں اور اپنی مٹھی بند رکھیں وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑدیا بیشک منافق وہی پکے بے حکم ہیں،
3 Ahmed Ali
منافق مر د اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں برے کامو ں کا حکم کرتے ہیں اور نیک کاموں سے منع کرتے ہیں او رہاتھ بند کیے رہتے ہیں وہ الله کو بھول گئے سوالله نے انہیں بھلا دیا بے شک منافق وہی نافرمان ہیں
4 Ahsanul Bayan
تمام منافق مرد اور عورت آپس میں ایک ہی ہیں (١) یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں (٢) یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا (٣) بیشک منافق ہی فاسق و بد کردار ہیں۔
٦٧۔١ منافقین، جو حلف اٹھا کر مسلمان باور کراتے تھے کہ ' ہم تم ہی میں سے ہیں، اللہ تعالٰی نے اس کی تردید فرمائی، کہ ایمان والوں سے ان کا کیا تعلق؟ البتہ یہ سب منافق، چاہے مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی ہیں، یعنی کف و نفاق میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ آگے ان کی صفات بیان کی جا رہی ہیں جو مومنین کی صفات کے بالکل الٹ اور برعکس ہیں۔ ٦٧۔٢ اس سے مراد بخل ہے۔ یعنی مومن کی صفت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور منافق کی اس کے برعکس بخل، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ ٦٧۔٣ یعنی اللہ تعالٰی بھی ان سے ایسا معاملہ کرے گا کہ گویا اس نے انہیں بھلا دیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' آج ہم تمہیں اس طرح بھلا دیں گے جس طرح تم ہماری ملاقات کے اس دن کو بھولے ہوئے تھے ' مطلب یہ کہ جس طرح انہوں نے دنیا میں اللہ کے احکامات کو چھوڑے رکھا۔ قیامت کے دن اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل و کرم سے محروم رکھے گا گویا نسیان کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف علم بلاغت کے اصول مشاکلت کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کی ذات نسیان سے پاک ہے (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس (یعنی ایک طرح کے) ہیں کہ برے کام کرنے کو کہتے اور نیک کاموں سے منع کرتے اور (خرچ کرنے سے) ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ انہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے ان کو بھلا دیا۔ بےشک منافق نافرمان ہیں
6 Muhammad Junagarhi
تمام منافق مرد وعورت آپس میں ایک ہی ہیں، یہ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنی مٹھی بند رکھتے ہیں، یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ بیشک منافق ہی فاسق وبدکردار ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں برائی کا حکم دیتے ہیں اور اچھائی سے روکتے ہیں اور (راہِ حق پر خرچ کرنے سے) اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں (دراصل) انہوں نے خدا کو بھلا دیا ہے اور خدا نے (گویا) ان کو بھلا دیا ہے اور انہیں (نظر انداز کر دیا ہے) بے شک منافق ہی بڑے فاسق (نافرمان) ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے سے ہیں -سب برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور نیکیوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو راہ هخدا میں خرچ کرنے سے روکے رہتے ہیں -انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے تو اللہ نے انہیں بھی نظرانداز کردیا ہے کہ منافقین ہی اصل میں فاسق ہیں
9 Tafsir Jalalayn
منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس (یعنی ایک ہی طرح کے) ہیں کہ برے کام کرنے کو کہتے اور نیک کاموں سے منع کرتے اور (خرچ کرنے سے) ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔ انہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا۔ بیشک منافق نافرمان ہیں۔ آیت نمبر ٦٧ تا ٧٢ ترجمہ : منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی طرح کے ہیں، یعنی دین کے معاملہ میں ایک شی کے اجزاء کے مشابہ ہیں، برائی کا (یعنی) کفر و معاصی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی (یعنی) ایمان وطاعت سے روکتے ہیں اور طاعت میں خرچ کرنے سے اپنے ہاتھوں کو روکے رکھتے ہیں اللہ کو بھول گئے ہیں یعنی اس اطاعت کو ترک کردیا ہے، تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا ہے یعنی ان کو اپنے کرم سے محروم کردیا ہے، یقینا یہ منافق ہی فاسق ہیں ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے اللہ نے آتش دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی جزا وسزا کے اعتبار سے ان کے لئے ہے، اللہ نے ان پر لعنت کی ہے یعنی ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے، اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے اے منافقو ! تمہارے رنگ ڈھنگ ویسے ہی ہیں جیسے تم سے پہلے والوں کے تھے، وہ تم سے زیادہ زور آور تھے اور مال اولاد میں تم سے بڑھے ہوئے تھے انہوں نے دنیا میں اپنے حصہ کے مزے لوٹ لئے پھر اے منافقو ! تم نے بھی اپنے حصہ کے مزے اسی طرح لوٹے جس طرح تمہارے پیش رئوں نے اپنے حصہ کے مزے لوٹے، اور تم بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن کرنے اور باطل کی بحثوں میں اسی طرح پڑگئے جس طرح وہ پڑگئے تھے یہی ہیں وہ لوگ جن کے اعمال (خیر) دنیا و آخرت میں ضائع ہوگئے اور وہی خسارے میں ہیں، کیا ان کے پاس ان لوگوں کی تاریخ نہیں پہنچی جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں، (مثلاً ) قوم نوح اور عاد جو کہ ہود (علیہ السلام) کی قوم تھی اور ثمود (کی تاریخ) جو صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی، اور قوم ابراہیم (علیہ السلام) کی اور اصحاب مدین کی جو قوم شعیب (علیہ السلام) تھی، اور ان بستی والوں کی جنہیں الٹ دیا گیا تھا (اور وہ) قوم لوط (علیہ السلام) کی بستیوں والے تھے ان کے رسول ان کے پاس کھلی نشانیاں معجزات لے کر آئے تھے، مگر انہوں نے ان کی تکذیب کی چناچہ انہیں ہلاک کردیا گیا، یہ اللہ کا کام نہیں تھا کہ وہ ان پر ظلم کرے بایں طور کہ بلاوجہ ان کو عذاب دے مگر (حقیقت یہ ہے کہ) وہ خود ہی گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں یہی وہ لوگ جن پر اللہ عنقریب رحم کرے گا یقینا اللہ تعالیٰ غالب ہے اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے، وعید کو نافذ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا باحکمت ہے، ہر شی کو اس کے محل (وموقع) پر کرتا ہے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ایسی جنت عطا کرے گا جس میں نہریں جاری ہوں گی اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، ان باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گاہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگی جو کہ ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے، یہی بڑی کامیابی ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد : قولہ : ترکوا طاعَتَہ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ نسیان پر کسی سے مؤاخذہ نہیں ہوتا اور نہ نسیان قابل مذمت، اس لئے کہ یہ من جانب اللہ ہوتا ہے تو پھر اس کو مقام مذمت میں کیوں ذکر فرمایا ؟ جواب : یہاں اور آئندہ نسیان سے اس کے لازم معنی مراد میں اس لئے کہ نسیان کے لئے ترک لازم ہے اللہ تعالیٰ کے بھلانے کا مطلب ہے اپنی رحمت خاصہ سے محروم کردینا۔ قولہ : انتم ایّھا المنفقون، انتم محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ کالذینَ مِن قَبْلکم مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے نہ کہ فعل محذوف کی وجہ سے منصوب اس لئے کہ اس صورت میں کثرت حذف لازم آئے گا حالانکہ حذف میں تقلیل اولی ہے۔ قولہ : نصیبھم، اس میں خلاق کے معنی کی طرف اشارہ ہے، یہ خلق سے مشتق ہے بمعنی تقدیر۔ سوال : فکذبوھم کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : تاکہ \&\& فَمَا کانَ اللہ لیظلمھم \&\& کا عطف فاء تعقیبیہ کے ذریعہ درست ہوجائے۔ قولہ : اِقامَةٍ اس میں اشارہ ہے کہ عَدْن بمعنی خلود، ہے لہٰذا تکرار کا اعتراض دفع ہوگیا۔ قولہ : رضوان من اللہ، رضوان میں تنوین تنکیر کی ہے یعنی اللہ کی ادنی رضا مندی بھی بڑی چیز ہے۔ تفسیر وتشریح المنفقونَ والمنٰفقٰت بعضھم من بعض، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تین سو منافق مرد اور ١٧٠ منافق عورتیں تھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں وہ لوگ منافق کہلاتے تھے جو مسلمانوں کے ہاتھ سے اپنی جان اور اپنا مال بچانے کی غرض سے ظاہر میں تو اسلام قبول کرلیتے تھے مگر ان کے دل میں کفر جما رہتا تھا اگرچہ دل کا حال سوائے اللہ کے کسی کو معلوم نہیں ہوسکتا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آپ کو ان کے نفاق کی اطلاع کردیتا تھا، البتہ عملی منافق کا اس کے اعمال سے اور ان کی علامات سے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہیں علم ہوجاتا ہے وہ شرعی احکام میں سستی کرنا ہے، اکثر جھوٹ بولتا ہے، بات بات پر لڑائی جھگڑے کرتا ہے، گالیاں منہ سے نکالتا ہے، امانت میں خیانت اس کا شیوہ ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ عملی منافق کہلاتے ہیں ایسے لوگ اس زمانہ میں بھی ہیں اور ہر زمانہ میں رہیں گے، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کا حال بیان فرمایا ہے کہ ان کے اعمال ایک جیسے ہیں، تمام منافقوں کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ ان سب کو برائی سے دلچسپی اور بھلائی سے نفرت و عداوت ہے، اگر کوئی شخص برائی کرتا ہے تو ان کی ہمدردیاں، ان کے مشورے اس کے ساتھ ہوتے ہیں، ان کی ہر ادا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ برائی کے پروان چڑھنے سے ان کو راحت قلبی نصیب ہوتی ہے اور اسی میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کے برخلاف ان کو ہر بھلے کام سے صدمہ پہنچتا ہے ان کی روح بےچین ہونے لگتی ہے، ایک مشترکہ خاصیت ان کی یہ بھی ہے کہ نیکی کے کام میں خرچ کرنے کے لئے ان کا ہاتھ کبھی نہیں کھلتا، بدی میں خرچ کرنے کے لئے چاہے وہ اپنے وقت کے قارون ہوں خوب خرچ کرتے ہیں۔ مگر نیکی میں خرچ کرنے کے لئے ان سے زیادہ کوئی مفلس نہیں۔ فما کان اللہ لیظلمھم الخ یعنی ان کی تباہی و بربادی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ کو ان کے ساتھ کوئی دشمنی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں تباہ کرے، بلکہ دراصل انہوں نے خود ہی اپنے لئے وہ طرز زندگی پسند کیا جو انہیں بربادی کی طرف لے جانے والا تھا، اللہ نے تو انہیں سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کا پورا موقع دیا، ان کی فہمائش کے لئے رسول بھیجے رسولوں نے نہایت واضح طریقہ سے بتادیا کہ کامرانی اور فلاح کا راستہ کونسا ہے ؟ والمؤمنون والمؤمنات، جس طرح منافقین ایک الگ امت ہیں اسی طرح اہل ایمان بھی ایک الگ امت ہیں، اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے، لیکن ان کے مزاج، اخلاق، اطوار اور طرز فکرو عمل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ﴾ ” منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں۔“ کیونکہ نفاق ان میں قدر مشترک ہے اس لئے وہ ایک دوسرے کے باہم دوست ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان اور منافقین کے درمیان موالات کا رشتہ منقطع ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین کا عمومی وصف بیان فرمایا جس سے ان کا چھوٹا اور بڑا کوئی بھی باہر نہیں۔ ﴿يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ ﴾ ” وہ بری بات کا حکم دیتے ہیں“ اور وہ ہے کفر، فسق اور معصیت ﴿وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ﴾ ” اور معروف سے روکتے ہیں“ معروف سے مراد ایمان، اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ اور آداب حسنہ ہیں۔ ﴿وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ﴾ ” اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو“ صدقہ اور بھلائی کے راستوں سے پس اللہ تعالیٰ نے ان کو بخل کی صفت سے موصوف کیا ہے۔ ﴿نَسُوا اللَّـهَ﴾ ” وہ بھول گئے اللہ کو“ پس وہ بہت کم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ ﴿ فَنَسِيَهُمْ﴾ ” تو وہ بھی بھول گیا ان کو“ یعنی ان پر رحمت کرنے سے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو بھلائی کی توفیق عطا نہیں کرتا اور نہ ان کو جنت میں داخل کرے گا، بلکہ وہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں چھوڑ دے گا جہاں ان کو ہمیشہ رکھا جائے گا۔ ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ ” بے شک منافق ہی نافرمان ہیں“ اللہ تعالیٰ نے فسق کو منافقین میں محصور کردیا، کیونکہ ان کا فسق دیگر فساق کے فسق سے زیادہ بڑا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو دیا جانے والا عذاب دوسروں کو دیئے جانے والے عذاب کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ نیز اہل ایمان جب ان کے درمیان رہ رہے تھے تو ان منافقین کے باعث ان کو آزمائش میں ڈالا گیا اور ان سے بچنے کی نہایت سختی سے تاکید کی گئی۔
11 Mufti Taqi Usmani
munafiq mard aur munafiq aurten sabb aik hi tarah kay hain . woh burai ki talqeen kertay hain , aur bhalai say roktay hain , aur apney haathon ko band rakhtay hain . unhon ney Allah ko bhula diya hai , to Allah ney bhi inn ko bhula diya . bilashuba yeh munafiq baray nafarman hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایک کے ہاتھ نیکیوں کے کھیت دوسرے کے ہاتھ برائیوں کی وبا منافقوں کی حصلتیں مومنوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہیں۔ مومن بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں منافق برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلائیوں سے منع کرتے ہیں۔ مومن سخی ہوتے ہیں منافق بخیل ہوتے ہیں۔ مومن ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں۔ منافق یاد الٰہی بھلائے رہتے ہیں۔ اسی کے بدلے اللہ بھی ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جیسے کسی کو کوئی بھول گیا ہو قیامت کے دن یہی ان سے کہا جائے گا کہ تم ہم تمہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے۔ منافق راہ حق سے دور ہوگئے ہیں گمراہی کے چکر دار بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں۔ ان منافقوں اور کافروں کی ان بداعمالیوں کی سزا ان کے لئے اللہ تعالیٰ جہنم کو مقرر فرما چکا ہے جہاں وہ ابدالآباد تک رہیں گے۔ وہاں کا عذاب انہیں بس ہوگا۔ انہیں رب رحیم اپنی رحمت سے دور کرچکا ہے اور ان کے لئے اس نے دائمی اور مستقل عذاب رکھے ہیں۔