اور آخرت تمہارے لئے پہلی (حالت یعنی دنیا) سے کہیں بہتر ہے
ولاخرۃ خیر لک من الاولی بعض مفسرین نے آخرت اور اولیٰ سے دنیا و آخرت مراد لی ہے اور بعض دیگر مفسرین نے اولی سے ابتدائی دور اور آخرۃ سے بعد کا دور مراد لیا ہے، یہ خوشخبری اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی حالت میں دی تھی جب کہ چند مٹھی بھر افراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، ساری قوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالف تھی، بظاہر کامیابی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے تھے اسلام کی شمع مکہ میں ٹمٹما رہی تھی اور اسی کو بجھانے کے لئے چاروں طرف سے طوفان اٹھ رہے تھے اس وقت اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت و شوکت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدر و منزلت برابر بڑھتی چلی جائے گی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نفوذ واثر پھیلتا چلا جائے گا، پھر یہ وعدہ صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے اس میں یہ وعدہھی شامل ہے کہ آخرت میں جو مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملے گا وہ اس مرتبہ سے بھی بدر جہا بڑھ کر ہوگا جو دنیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوگا، طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس (رض) کی روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے سامنے وہ تمام فتوحات پیش کی گئیں جو میرے بعد میری امت کو حاصل ہونے والی ہیں اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا کہ آخرت تمہارے لئے دنیا سے بہتر ہے۔