اور تمہیں پروردگار عنقریب وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہوجاؤ گے
ولسوف یعطیک ربک فترضی یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا دے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہوجائیں، اس میں حق تعالیٰ نے یہ متعین کر کے نہیں بتلایا کہ کیا دیں گیڈ اس میں اشارہ عموم کی طرف ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر پسندیدہ چیز اتنی عطا کی جائے گی کہ آپ خوش ہوجائیں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرغوب چیزوں میں اسلام کی ترقی، دین اسلام کا عام طور پر دنیا میں پھیلنا وغیرہ وغیرہ سب داخل ہیں، یعنی اگرچہ دینے میں کچھ تاخیر ہوگی لیکن وہ وقت دور نہیں کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی عطا و بخشش کی وہ بارش ہوگی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوجائیں گے یہ وعدہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں اس طرح پورا ہوا کہ سارا ملک عرب جنوب کے سوا حل سے لے کر شمال میں سلطنت روم کی شامی اور سطنت فارس کی عرقای سرحدوں تک اور مشرق میں خلیج فارس سے لے کر مغرب میں بحر احمر تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیر نگیں ہوگیا، عرب کی تاریخ میں یہ سرزمین پہلی مرتبہ ایک قانون اور ضابطہ کی تابع ہوگئی تھی، جو طاقت بھی اس سے ٹکرائی وہ پاش پاش ہو کر رہ گئی، لوگوں کے صرف سرہی اطاعت کے لئے نہیں جھک گئے بلکہ ان کے قلوب بھی مسخر ہوگئے پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظری نہیں ملتی کہ ایک جاہلیت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی قوم صرف 23 سال کے اندر اتنی بدل گئی ہو، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی برپا کی ہوئی تحریک اس طاقت کے ساتھ اٹھی کہ ایشیا افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر چھا گئی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پھیل گئے یہ کچھ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا میں عطا فرمایا اور آخرت میں جو کچھ عطا کرے گا اس کی عظمت کا تصور بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اذا لا ارضی وواحد من امتی فی النار “ یعنی جب یہ بات ہے تو میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میری امت کا ایک فرد بھی جہنم میں رہے گا۔ (قرطبی)
صحیح مسلم میں حضرت عمرو بن عاص (رض) کی روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ آیت تلاوت فرمائی جو حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) کے متعلق ہے ’ دفمن تبعنی فانہ میں ومن عصانی فانک غفور رحیم “ پھر دوسری آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ” ان تعذبھم فانھم عبادک “ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے اور گریہ وز اری شروع کی اور بار بار فرماتے تھے ” اللھم امتی امتی “ حق تعالیٰ نے جبرئیل امین (علیہ الصلوۃ والسلام) کو بھجیا کہ آپ سے دریافت کریں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں روتے ہیں ؟ (اور یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ ہمیں سب معلوم ہے) جبرئیل امین (علیہ الصلوۃ والسلام) آئے اور سوال کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں امت کی مغفرت چاہتا ہوں حق تعالیٰ نے جبرئیل امین (علیہ الصلوۃ والسلام) سے فرمایا کہ پھر جائو اور کہہ دو کہ للہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتے ہیں کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنجیدہ نہ کریں گے۔ (معارف)