العلق آية ۱
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِىْ خَلَقَۚ
طاہر القادری:
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا،
English Sahih:
Recite in the name of your Lord who created
1 Abul A'ala Maududi
پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا
2 Ahmed Raza Khan
پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
3 Ahmed Ali
اپنے رب کے نام سے پڑھیئے جس نے سب کو پیدا کیا
4 Ahsanul Bayan
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا (١)
١۔١ یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت آئی جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا، پڑھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا پڑھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھینچا (تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاریِ بدء الوحی، مسلم، باب بدء الوحی، اقرا) جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا
6 Muhammad Junagarhi
پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے جس نے (سب کائنات کو) پیدا کیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، پڑھو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے مخلوق کو پیدا کیا جنس انسان کو دم بستہ سے علق، علقۃ کی جمع ہے اور وہ دم بستہ کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے پڑھو، یہ پہلے اقراء کی تاکید ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب بڑا کریم ہے اس کی برابری کوئی نہیں کرسکتا، (وربک) اقراء کی ضمیر سے حال ہے، جس نے قلم کے ذریعہ لکھنا سکھایا اور سب سے پہلے جس نے قلم سے لکھا وہ ادریس (علیہ الصلوۃ والسلام) ہیں جنس انسان کو وہ علم سکھایا جسے وہ سکھانے سے پہلے نہیں جانتا تھا، (مثلاً ) ہدایت اور کتابت اور صنعت وغیرہ، درحققیت انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ خود کو مال کی وجہ سے بےنیاز سمجھتا ہے (یہ ایٓت) ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی اور رئویت سے رئویت علمیہ مراد ہے اور استغناء مفعول ثانی ہے اور ان راہ مفعول لہ، یقینا اے انسان ! تجھ کو تیرے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے یہ انسان کو خوف دلانا ہے لہٰذا سرکش کو سزا دے گا جس کا وہ مستطحق ہے، کیا تو نے اس شخص کو دیکھا ؟ جو ایک بندے کو اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں منع کرتا ہے جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے ارأیت تینوں جگہ تعجب کے لئے ہے اور وہ (منع کرنے والا) ابوجہل ہے، بھلا بتلائو تو اگر وہ جس کو منع کیا گیا ہدایتش پر ہو یا پرہیز گاری کی تلقین کرتا ہو او تقسیم کے لئے ہے، بھلا دیکھو تو اگر یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منع کرنے والا جھٹلاتا ہو اور ایمان سے منہ موڑتا ہو، کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو وہ کر رہا ہے یعنی وہ جانتا ہے لہٰذا اس کو اس کی سزا دے گا، اے مخاطب ! تو اس سے تعجب کر اس حیثیت سے کہ اس کا منع کرنا نماز سے ہے اور اس حیثیت سے کہ جس شخص کو منع کیا گیا ہے وہ راہ راست پر ہے اور پرہیز گاری کی تلقین کرنے والا ہے، اور اس حیثی سے کہ منع کرنے والا، جھٹلانے والا اور ایمان سے منہ موڑنے والا ہے، خبردار ! اگر وہ اختیار کردہ کفر سے باز نہ آیا، کلا حرف ردع ہے اور لئن میں لام قسمیہ ہے تو ہم یقینا (اس کی) پیشانی کے بال پکڑ کر جہنم کی طرف کھینچیں گے یہ نکرہ معرفہ سے بدل ہے، ایسی پیشانی کہ جو جھوٹی اور خطا کار ہے اور ناصیۃ کی صفت کاذبۃ لانا یہ مجاز ہے (یعنی مجاز عقلی ہے) اور مراد صاحب ناصیہ ہے، اپنی مجلس والوں کو بلا لے اور مجلس سے مراد وہ ہے جو اس لئے بلائی جاتی ہے کہ قوم کے لوگ اس میں باتیں کریں، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کو نماز سے منع کرنے پر ڈانٹا تھا تو ابوجہل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ کا تھا کہ تم جانتے ہو کہ مکہ میں کوئی شخص مجھ سے بڑی مجلس والا نہیں ہے میں تمہارے خلاف اگر چاہوں تو اس وادی کو عمدہ گھوڑوں (گھوڑ سواروں) اور نوجوان مردوں (پیادوں) سے بھر دوں، تو ہم بھی اس کو ہلاک کرنے کے لئے سخت دل قوی فرشتوں کو بلا لیں گے، حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ اپنے حمایتیوں کو بلا تا تو دوزخ کے فرشتے اس کو سب کے سامنے پکڑ لیتے، خبردار ! یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ ہے، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ترک صلوۃ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرگز ای
کی بات نہ مانیں اور سجدہ کرو، (یعنی) اللہ کے لئے نماز پڑھو اور اس کی طاعت کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کرو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
سورة اقراء بعض نسخوں میں سورة العلق ہے اور بعض میں سورة القلم، اس سے معلوم ہوا کہ اس سورت کے تین نام ہیں۔
قولہ :۔ اوجدالقرۃ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اقرا، او جد کے معنی میں بمنزلہ لازم کے ہے یعنی پڑھنا شروع کر اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کا مفعول مقدر ہے ای اقرأ القران بعض حضرات نے کہا ہے کہ اسم، اقرأ کا مفعول ہے اور باء زائدہ ہے، مگر مفسر علام نے مبتدائا محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ اسم مفعول نہیں اور نہ باء زائدہ ہے بلکہ باسم ربک، مبتداء کے متعلق ہو کر اقرأکی ضمیر فاعل انت سے حال ہے۔
قولہ :۔ خلق، خلق کے مفعول کو عموم پر دلالت کرنے کے لئے ذکر نہیں کیا گیا ہے مفسر علام نے، الخلائق مقدر مان کر عموم کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
قولہ :۔ خلق الانسان انسان کو اس کے شرف کو وجہ سے مفرد لایا گیا ہے اگرچہ معنی میں جمع کے ہے اس لئے کہ الف لام استغراق کے لئے ہے۔
قولہ :۔ علق یہ علقۃ کی جمع ہے، دم بستہ کو کہتے ہیں ای نفسہ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رای کی ضمیر فاعل انسان کی طرف راجع ہے اور ضمیر مفعولی بھی انسان کی طرف راجع ہے اور مراد اس سے نفس انسان ہے۔
قولہ :۔ رجعی (ض) کا مصدر ہے لوٹنا بروزن بشریٰ لازم بھی استعمال ہوتا ہے۔
قولہ :۔ ارأیت تینوں جگہ تعجب کے لئے ہے نہ کہ استفہام کے لئے، اور ارأیت کی تکرار تاکید کے لئے ہے۔
قولہ :۔ لنسفعاً ، سفع سے مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے دراصل لنسفعن تھا، نون خفیفہ کو تنوین سے بدل دیا گیا ہے، سفعاً کسی چیز کو پکڑ کر سختی سے کھینچنا اور صراح میں ہے موئے پیشانی گرفتن۔
قولہ :۔ بدل نکرۃ من مرفۃ ناصیۃ نکرہ کی صفت لانے کی وجہ سے الناصیہ معرفہ سے بدل واقع ہونا صحیح ہے۔
تفسیر و تشریح
سب سے پہلی وحی :
اقرأ باسم ربک الذی خلق یہ سب سے پہلی وحی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقتن ازل ہوئی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حراء میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا ” پڑھو “ ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ کر زور سے دبایا اور کہا پڑھو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر وہی جواب دیا اس طرح فرشتے نے آپ کو تین مرتبہ دبایا۔
زمانہ نزول وحی :
اس سورت کے دو حصے ہیں پہلا حصہ اقرأ سے مالم یعلم تک اور دوسرا حصہ کلا ان الانسان لیطغی سے آخر سورت تک ہے، پہلے حصے کے متعلقعلماء امت کی عظیم اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یہ سب سے پہلی وحی ہے، اس معاملہ میں حضرت عائشہ (رض) کی وہ حدیث جسے امام احمد، بخاری، مسلم اور دیگر محمد ثین نے متعدد سندوں سے نقل کیا ہے صحیح ترین احادیث میں شمار ہوتی ہے اور اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر آغاز وحی کا پورا قصہ بیان کیا ہے۔
دوسرا حصہ بعد میں اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم میں اپنے طریقہ سے نماز پڑھنی شروع کی اور ابوجہل نے دھمکیاں دے کر اس سے روکنے کی کوشش کی۔
آغاز وحی کا واقعہ :
محمد ثین نے آغاز وحی کا قصہ اپنی اپنی سندوں کے ساتھ امام زہری سے اور انہوں نے حضرت عروہ بن زبیر (رض) سے اور انہوں نے اپنی خالہ حضرت عائشہ (رض) سے نقل کیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی ابتداء سچے اور اچھے خوابوں کی شکل میں ہوئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خواب بھی دیکھتے وہ ایسا ہوتا کہ جیسے روز روشن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی چیز دیکھ رہے ہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تنہائی پسند ہوگئے اور کئی کئی شب و روز غار حراء میں رہ کر عبادت کرنے لگے، اس عبادت کے لئے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے تحنث کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کی تشریح امام زہری (رح) تعالیٰ نے تعبد سے کی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حراء میں کس قسم کی عبادت کرتے تھے کسی روایت سے اس کا ثبوت نہیں ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت نوح (علیہ الصلوۃ والسلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ الصلوۃ والسلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے طریقہ پر عبادت کرتے تھے مگر اس کا ثبوت بھی کسی حدیث سے نہیں ہے، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کی عبادت، محض خلق سے انقطاع اور اللہ کی طرف خاص توجہ اور تفکر کی تھی۔
غرضیکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے خور دو نوش کا سامان لے جا کر وہاں چند روز گذارتے، پھر حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آتے اور مزید چند روز کے لئے حضرت خدیجہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے سامان مہیا کردیتی تھیں۔
غار حراء میں قیام کی مدت :
غار حراء میں خلوت گزینی کی مدت میں علماء کے درمیان اختالف ہے صحیحین کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورا ایک ماہ اس میں قیام فرمایا اور وہ ماہ رمضان تھا، (معارف) اسی دوران ایک روز حضرت جبرئیل (رح) تعالیٰ تشریف لائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا اقرأ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، حضرت جبرائیل (رح) تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زور سے دبایا، حضرت جبرائیل (رح) تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہی معاملہ تین مرتبہ فرمایا، اس کے بعد سورة علق کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل فرمائیں۔
قرآن کریم کی یہ پانچ آیتیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس گھر تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل کانپ رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (رض) سے فرمایا زملونی زملونی، مجھے اڑھائو مجھے اڑھائو چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اڑھا دیا گیا، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خوف کی کیفیت ختم ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے خدیجہ (رض) یہ مجھے کیا ہوگیا ہے ؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (رض) کو پورا قصہ سنایا اور فرمایا مجھے اپنی جان کا خوف ہے، حضرت خدیجہ (رض) نے عرض کیا ہرگز نہیں ! خدا کی قسم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خدا کبھی رسوا نہ کرے گا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، زیر بار لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں، بےروزگاروں کو ذریعہ معاش مہیا فرماتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں، غرضیکہ حضرت خدیجہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی۔
پھر حضرت خدیجہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، انہوں نے نصرانی مذہب اختیار کرلیا تھا، عربی اور عبرانی میں انجیل لکھا کرتے تھے بہت بوڑھے تے آپ کی بینائی بھی جاتی رہی تھی، حضرت خدیجہ (رض) نے ان سے کہا، میرے چچا زاد بھائی ! ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سنو، ورقہ بن نوفل نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حال دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار حراء میں جو کچھ دیکھا تھا بیان کردیا، ورقہ بن نوفل نے سنتے ہی کہا یہ وہی ناموس یعنی فرشتہ ہے جس کو اللہ نے حضرت موسیٰ (رح) تعالیٰ پر اتارا تھا کاش ! میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے زمانہ میں قوی ہوتا اور کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتا جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (وطن سے) نکالے گی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (تعجب سے پوچھا) کیا میری قوم مجھے نکال دے گی ؟ ورقہ نے کہا بلاشبہ نکالے گی کیونکہ جب بھی کوئی شخص وہ پیغام حق لے کر آیا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے ہیں تو اس کی قوم نے اس کو ستایا ہے اور اگر میں نے وہ زمانہ پایا تو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھرپور مدد کروں گا ورقہ اس کے چند روز بعد ہی انتقال کر گئے، ادھر اس واقعہ کے بعد وحی قرآنی کا سلسلہ موقوف ہوگیا، فترت وحی کی مدت کے بارے میں سہلی کی روایت یہ ہے کہ ڈھائی سال تک رہی اور بعض روایات میں تین سال بیان کی گئی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول کے اعتبار سے یہ قرآن کی اولین سورت ہے ، یہ نبوت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ، جب آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا چیز ہے ؟ پس جبرائیل علیہ السلام پیغام الہٰی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے کہا کہ آپ پڑھیں مگر آپ نے عذر پیش کیا اور کہا ” میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔“ جبرائیل بار بار یہی دہراتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ نے پڑھا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾ ” اپنے رب کا نام لے کرپڑھیں جس نے پیدا کیا“ ۔ یعنی جس نے عام مخلوق کو پیدا کیا ، پھر انسان کو خاص کرکے اس کی تخلیق کی ابتدا کا ذکر کیا، فرمایا : ﴿ مِنْ عَلَقٍ﴾ ” خون کے لوتھڑے سے (پیداکیا)۔ “ پس جس ہستی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی تدبیر کی ، لازم ہے کہ وہ امر ونہی کی بھی تدبیر کرے اور یہ کام وہ رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے سرانجام دیتا ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دے کر انسان کی تخلیق کا ذکر کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
parho apney perwerdigar ka naam ley ker jiss ney sabb kuch peda kiya ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہوجاتا پھر آپ نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ (رض) سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہی عبادت میں گذارا کرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں شروع شروع میں وحی آیہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا اقرا یعنی پڑھئیے آپ فرماتے ہیں، میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا پڑھو میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی، پھر چھوڑ دیا اوراقرا باسم ربک الذی خلق سے مالم یعلمتک پڑھا۔ آپ ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا مجھے کپڑا اڑھا دو چناچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا مجھے اپنی جان جانے کا خود ہے، حضرت خدیجہ نے کہا حضور آپ خوش ہوجائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں پھر حضرت خدیجہ آپ کرلے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہوگئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھیبہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے، ورقہ نے پوچھا بھتیجے ! آپ نے کیا دیکھا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ راز داں فرشتہ ہے جو حضرت عیسیٰ کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتا جبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آگیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے ادھر وحی بھی رک کئی اور اس کے رکنے کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ نے پہار کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت حضرت جبرائیل آجاتے اور فرما دیتے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے آپ کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوجاتا اور آرام سے گھر واپس آجاتے (مسند احمد) یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بروایت زہری مروی ہے اس کی سند میں اس کے متن میں اس کے معانی میں جو کچھ بیان کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے اپنی شرح بخاری میں پورے طور پر بیان کردیا ہے۔ اگر جی چاہا وہیں دیکھ لیا جائے والحمد اللہ۔ پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی، لفظی اور رسمی اور سمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ ! تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھا معلوم کرادیا۔ ایک اثر میں و ارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو، اور اسی اثر میں ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم بھی وارث کردیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا۔