الفاتحہ آية ۲
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۙ
طاہر القادری:
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے
English Sahih:
[All] praise is [due] to Allah, Lord of the worlds .
1 Abul A'ala Maududi
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے
2 Ahmed Raza Khan
سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے جہان والوں کا،
3 Ahmed Ali
سب تعریفیں الله کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لیے ہیں (۱) جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے (۲)
ف۱ اَلْحَمْدُ میں ' ال ' مخصوص کے لئے ہے یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں یا اس کے لئے خاص ہیں کیونکہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالٰی ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالٰی کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔ اللہ یہ اللہ کا ذاتی نام ہے اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں لَا اِلٰہَ افضل الذکر اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کو افضل دعا کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّہِ میزان کو بھر دیتا ہے اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم)
ف۲ (رَبْ) اللہ تعالٰی کے اسمائے حسنٰے میں سے ہے، جس کا معنی ہرچیز کو پیدا کر کے ضروریات کو مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کے استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں (الْعَالَمِيْنَ) عَالَمْ (جہان) جہان کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعہ کو عالم کہا جاتا ہے، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوق کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلا عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش و طیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوکات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعا مختلف ہیں لیکن رَبِّ الْعَالَمِيْنَ سب کی ضروریات، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
6 Muhammad Junagarhi
سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
سب طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے
تفسیر و تشریح
سورة الفاتحۃ مکیۃ سبع آیاتٍ بالبسملۃ۔
سورة فاتحہ مکی ہے، مع بسم اللہ سات آیتیں ہیں۔
قرآنی سورتوں کو سورت کہنے کی وجہ تسمیہ : سورة کے لفظی معنی بلندی یا بلند منزل کے ہیں، السُّوْرَۃُ : الرفیعۃ (لسان) السورۃ المنزلۃ الرفیعۃ (راغب) گویا ہر سورت بلند مرتبہ کا نام ہے، سورة کے ایک معنی فصیل (شہر پناہ) کے ہیں، کے ہیں، سورة المدینۃ، حَائطُھَا (راغب) قرآنی سورتوں کو سورت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مضامین کا اسی طرح احاطہ کئے رہتی ہیں جس طرح فصیل شہر کا احاطہ کئے رہتی ہے۔
الفاتحۃ : فاتحۃ کے لفظی معنی ہیں ابتداء کرنے والی، قرآن مجید کی اس پہلی سورت کو بھی فاتحہ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے، گویا کہ یہ دیباچہ قرآن ہے، قرآنی سورتوں کے نام بھی توقیفی ہیں اور ایک ایک سورت کے کے کئی کئی نام بھی ہیں، (وقد ثَبَتَتْ جمیعُ اسماءِ السُوَرِ بِالتَوْقِیْفِ مِنَ الْاَحَادِیْثِ وَالْآثَارِ ) (اتقان)
سورة الفاتحہ کے متعد نام احادیث میں آئے ہیں، بعض حضرات نے ان کی تعداد بیس تک پہنچائی ہے، ان میں سے چند مشہور نام یہ ہیں۔
(١) سورة الشفاء، (٢) سورة الوافیۃ، (٣) ام القرآن، (٤) سورة الکنز، (٥) الکافیہ، (٦) السبع المثانی۔
سورة فاتحہ کے فضائل و خصوصیات : سورة فاتحہ کی سب سے پہلی سورت ہے، اور مکمل سورت کی حیثیت سے نزول کے اعتبار سے بھی پہلی سورت ہے، غالبًا اسی وجہ سے اس سورت کا نام سورة فاتحہ رکھا گیا ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سورت ایک حیثیت سے پورے قرآن کا متن ہے اور پورا قرآن اس کی شرح ؛ یہ سورت اپنے مضمون کے اعتبار سے ایک دعاء ہے، ایک طالب حق کو چاہیے کہ حق کی تلاش و جستجو کرتے وقت یہ دعاء بھی کرے کہ اسے صراط مستقیم کی ہدایت عطا ہو، دراصل یہ ایک دعاء ہے، جو ہر اس شخص کو سکھائی گئی ہے جو حق کا متلاشی ہو، اس بات کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خودبخود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورة فاتحہ کے درمیان صرف کتاب اور اس کے مقدمہ کا ساہی تعلق نہیں ؛ بلکہ دعاء اور جواب دعاء کا سا بھی ہے، سورة فاتحہ بندے کی جانب سے ایک دعاء ہے، اور قرآن اس کا جواب ہے، خدا کی جناب میں، بندہ دعاء کرتا ہے کہ اے پروردگار ! تو میری رہنمائی کر، جواب میں اللہ تعالیٰ پورا قرآن اسکے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت اور رہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے
ایک تنبیہ : اس سورت کی ابتداء، الحمدللہ رب العالمین سے کرکے اس بات کی تعلیم دی گئ ہے کہ دعاء جب مانگو، تو مہذب طریقہ سے مانگو یہ کوئی تہذیب نہیں، کہ منہ کھولتے ہی جھٹ اپنا مطلب پیش کردیا، تہذیب کا تقاضہ یہ ہے کہ جس سے دعاء کر رہے ہو پہلے اس کی خوبیوں کا، اس کے احسانات اور اس کے مرتبے کا اعتراف کرو پھر جو کچھ مانگنا ہو شوق سے مانگو۔
بسم اللہ سے متعلق مباحث : بسم اللہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا صرف سورة فاتحہ کی ایک آیت ہے، یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے بلکہ ایک سورت کو دوسری سورت سے ممتاز کرنے کے لئے ہر سورت کے آغاز میں لکھی جاتی ہے ؟ قراء مکہ و کوفہ نے اسے ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے، جب کہ قراء مدینہ بصرہ و شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا سوائے سورة نمل کی آیت ٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بسم اللہ سورت کا جز ہے، اسی طرح جہری نماز روں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے میں بھی اختلاف ہے بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری آواز سے، امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور اکثر علماء سری آواز سے پڑھنے کو راجح قرار دیتے ہیں۔
سورة فاتحہ کے مضامین : سورة فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے جن میں سے پہلی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ہے اور آخری تین آیتوں میں انسان کی طرف سے دعاء و درخواست کا مضمون ہے جو اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے اور درمیانی آیت دونوں چیزوں میں مشترک ہے، اس میں کچھ حمد کا پہلو ہے اور کچھ دعاء و درخواست کا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ﴾ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کے ان افعال کی ثنا ہے جو فضل و عدل کے درمیان دائر ہیں۔ پس ہر پہلو سے کامل حمد کا مالک وہی ہے۔ ﴿رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ” جہانوں کا پروردگار ہے۔“ (رَبِّ) وہ ہستی ہے جو تمام جہانوں کی مربی ہے۔ (اَلْعَالَمِينَ) سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق ہے۔ اس نے ان کو پیدا کیا، ان کے لئے ان کی زندگی کا سروسامان مہیا کیا اور پھر انہیں اپنی ان عظیم نعمتوں سے نوازا کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو ان کے لئے زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔ پس مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔
مخلوق کے لئے اللہ تعالیٰ کی تربیت (پرورش کرنے) کی دو قسمیں ہیں۔ (١) تربیت عامہ (2) تربیت خاصہ۔ تربیت عامہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو رزق بہم پہنچایا اور ان مفادات و مصالح کی طرف ان کی راہ نمائی کی جن میں ان کی دنیاوی زندگی کی بقا ہے۔ تربیت خاصہ وہ تربیت ہے جو اس کے اولیا کے لئے مخصوص ہے پس وہ ایمان کے ذریعے سے ان کی تربیت کرتا ہے، انہیں ایمان کی توفیق سے نوازتا اور ان کی تکمیل کرتا ہے وہ ان سے ان تمام امور کو دور کرتا ہے جو راہ حق پر چلنے سے انہیں باز رکھتے ہیں اور ان تمام رکاوٹوں کو ہٹاتا ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل ہوتی ہیں۔
تربیت خاصہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہر بھلائی کی توفیق ملتی اور ہر برائی سے حفاظت نصیب ہوتی ہے۔ شاید یہی معنی انبیائے کرام علیہ السلام کی دعاؤں کا سرنہاں ہے کہ ان میں اکثر ” رب“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی فریادیں تمام کی تمام اللہ تعالیٰ کی ربوبیت خاصہ کے تحت آتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿رَبُّ العٰلَمِیْنَ﴾ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا ہے۔ وہ اکیلا ہی ان کی تدبیر کرتا ہے اور اسے کمال بے نیازی حاصل ہے اور تمام عالم ہر پہلو اور ہر اعتبار سے اس کا محتاج ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
tamam tareefen Allah ki hain jo tamam jahano ka perwerdigar hai
12 Tafsir Ibn Kathir
ساتوں قاری الحمد کو دال پر پیش سے پڑھتے ہیں اور الحمد للہ کو مبتدا خبر مانتے ہیں۔
سفیان بن عینیہ اور روبہ بن عجاج کا قول ہے کہ دال پر زبر کے ساتھ ہے اور فعل یہاں مقدر ہے۔ ابن ابی عبلہ الحمد کی دال کو اور اللہ کے پہلے لام دونوں کو پیش کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس لام کو پہلے کے تابع کرتے ہیں اگرچہ اس کی شہادت عربی زبان میں ملتی ہے مگر اس کی شہادت زبان عرب سے ملتی ہے شاذ ہے۔ حسن اور زید بن علی ان دونوں حرفوں کو زیر سے پڑھتے ہیں اور لام کے تابع دال کو کرتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں " الحمد للہ کے معنی یہ ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کے سوا کوئی اس کے لائق نہیں، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو اس وجہ سے کہ تمام نعمتیں جنہیں ہم گن بھی نہیں سکتے، اس مالک کے سوا اور کوئی ان کی تعداد کو نہیں جانتا اسی کی طرف سے ہیں۔ اسی نے اپنی اطاعت کرنے کے تمام اسباب ہمیں عطا فرمائے۔ اسی نے اپنے فرائض پورے کرنے کے لئے تمام جسمانی نعمتیں ہمیں بخشیں۔ پھر بیشمار دنیاوی نعمتیں اور زندگی کی تمام ضروریات ہمارے کسی حق بغیر ہمیں بن مانگے بخشیں۔ اس کی لازوال نعمتیں، اس کے تیار کردہ پاکیزہ مقام جنت کو ہم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں ؟ یہ بھی اس نے ہمیں سکھا دیا پس ہم تو کہتے ہیں کہ اول آخر اسی مالک کی پاک ذات ہر طرح کی تعریف اور حمد و شکر کے شائق ہے۔ الحمد للہ یہ ثنا کا کلمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ثنا و خود آپ کی ہے اور اسی ضمن میں یہ فرما دیا ہے کہ تم کہو الحمد للہ۔ " بعض نے کہا کہ الحمد للہ کہنا اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند وبالا صفتوں سے اس کی ثنا کرنا ہے۔ اور الشکر للہ کہنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ اس لئے کہ عربی زبان کو جاننے والے علماء کا اتفاق ہے۔ کہ شکر کی جگہ حمد کا لفظ اور حمد کی جگہ شکر کا لفظ بولتے ہیں۔ جعفر صادق، ابن عطا صوفی بھی فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ہر شکر کرنے والے کا کلمہ الحمد للہ ہے۔ قرطبی نے ابن جریر کے قول کو معتبر کرنے کے لئے یہ دلیل بھی بیان کی ہے کہ اگر کوئی الحمد للہ شکرا کہے تو جائز ہے۔ دراصل علامہ ابن جریر کے اس دعویٰ میں اختلاف ہے، پچھلے علماء میں مشہور ہے کہ حمد کہتے ہیں زبانی تعریف بیان کرنے کو خواہ جس کی حمد کی جاتی ہو اس کی لازم صفتوں پر ہو یا متعدی صفتوں پر اور شکر صرف متعدی صفتوں پر ہوتا ہے اور وہ دل زبان اور جملہ ارکان سے ہوتا ہے۔ عرب شاعروں کے اشعار بھی اس پر دلیل ہیں، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ حمد کا لفظ عام ہے یا شکر کا اور صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عموم اس حیثیت سے خصوص ہے کہ حمد کا لفظ جس پر واقع ہو وہ عام طور پر شکر کے معنوں میں آتا ہے۔ اس لئے کہ وہ لازم اور متعدی دونوں اوصاف پر آتا ہے شہ سواری اور کرم دونوں پر حمد تہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس حیثیت سے وہ صرف زبان سے ادا ہوسکتا ہے یہ لفظ خاص اور شکر کا لفظ عام ہے کیونکہ وہ قول، فعل اور نیت تینوں پر بولا جاتا ہے اور صرف متعدی صفتوں پر بولے جانے کے اعتبار سے شکر کا لفظ خاص ہے۔ شہ سواری کے حصول پر شکرتہ نہیں کہہ سکتے البتہ شکرتہ علی کرمہ واحسانہ الی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تھا خلاصہ متاخرین کے قول کا ماحصل واللہ اعلم۔ ابو نصر اسماعیل بن حماد جوہری کہتے ہیں " حمد " مقابل ہے " ذم " کے۔ لہذا یوں کہتے ہیں کہ حمدت الرجل احمدہ حمداو و محمدۃ فھو حمید و محمود تحمید میں حمد سے زیادہ مبالغہ ہے۔ حمد شکر سے عام ہے۔ کسی محسن کی دی ہوئی نعمتوں پر اس کی ثنا کرنے کو شکر کہتے ہیں۔ عربی زبان میں شکرتہ اور شکرت لہ دونوں طرح کہتے ہیں لیکن لام کے ساتھ کہنا زیادہ فصیح ہے۔ مدح کا لفظ حمد سے بھی زیادہ عام ہے اس لئے کہ زندہ مردہ بلکہ جمادات پر بھی مدح کا لفظ بول سکتے ہیں۔ کھانے اور مکان کی اور ایسی اور چیزوں کی بھی مدح کی جاتی ہے احسان سے پہلے، احسان کے بعد، لازم صفتوں پر، متعدی صفتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوسکتا ہے تو اس کا عام ہونا ثابت ہوا واللہ اعلم۔
حمد کی تفسیر اقوال سلف سے ٭٭ حضرت عمر نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سبحان اللہ اور لا الہ الا اللہ اور بعض روایتوں میں ہے کہ اللہ اکبر کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ الحمد للہ کا کیا مطلب ؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا۔ اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔ کعب احبار کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے۔ ایک حدیث میں بھی ایسا ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب تم الحمد للہ رب العالمین کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرلو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا اسود بن سریع ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے۔ (مسند احمد و نسائی) ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر الحمد للہ کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہوگی۔ فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ الحمد للہ کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہوگا۔ قرطبی فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں جتنی الحمد للہ کہنے کی توفیق دینا ہے اس لئے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے المال والبنون الخ یعنی مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں۔ ابن ماجہ میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک و عظیم سلطانک تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے، فرمایا تم یونہی اسے لکھ لو میں آپ اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا۔ قرطبی ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ سے بھی الحمد للہ رب العالمین افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں۔ اور علماء کا خیال ہے کہ لا الہ الا اللہ افضل ہے اس لئے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے، اس کے کہلوانے کے لئے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ صحیح بخاری مسلم حدیث میں ہے ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے۔ حضرت جابر کی ایک مرفوع حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ افضل ذکر لا الہ الہ اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے، الحمد میں الف لام استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ثابت ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں۔ رب کہتے ہیں مالک اور متصرف کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لئے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لئے یہ خوب جچتا ہے۔ رب کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جاسکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے رب الدار یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔
عالمین سے مراد ٭٭ عالمین جمع ہے عالم کی اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق کو عالم کہتے ہیں۔ لفظ عالم بھی جمع ہے اور اس کا واحد لفظ ہے ہی نہیں۔ آسمان کی مخلوق خشکی اور تری کی مخلوقات کو بھی عوالم یعنی کئی عالم کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک ایک زمانے، ایک ایک وقت کو بھی عالم کہا جاتا ہے۔ ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے مراد کل مخلوق ہے خواہ آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی یا ان کے درمیان کی، خواہ ہمیں اس کا علم ہو یا نہ ہو۔ علی ہذا القیاس۔ اس سے جنات اور انسان بھی مراد لئے گئے ہیں۔ سعید بن جیر مجاہد اور ابن جریح سے بھی یہ مروی ہے۔ حضرت علی سے بھی غیر معتبر سند سے یہی منقول ہے اس قول کی دلیل قرآن کی آیت لیکون للعالمین نذیرا بھی جاتی ہے یعنی تاکہ وہ عالمین یعنی جن اور انس کے لئے ڈرانے والا ہوجائے۔ فرا اور ابو عبید کا قول ہے کہ سمجھدار کو عالم کہا جاتا ہے۔ لہذا انسان، جنات، فرشتے، شیاطین کو عالم کہا جائے گا۔ جانوروں کو نہیں کہا جائے گا۔ زید بن اسلم، ابو محیص فرماتے ہیں کہ ہر روح والی چیز کو عالم کہا جاتا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں۔ ہر قسم کو ایک عالم کہتے ہیں ابن مروان بن حکم عرف جعد جن کا لقب حمار تھا جو بنوامیہ میں سے اپنے زمانے کے خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سترہ ہزار عالم پیدا کئے ہیں۔ آسمانوں والے ایک عالم، زمینوں والے سب ایک عالم اور باقی کو اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کو ان کا علم نہیں۔ ابوالعالیہ فرماتے ہیں انسان کل ایک عالم ہیں، سارے جنات کا ایک عالم ہے اور ان کے سوا اٹھارہ ہزار یا چودہ ہزار عالم اور ہیں۔ فرشتے زمین پر ہیں اور زمین کے چار کونے ہیں، ہر کونے میں ساڑھے تین ہزار عالم ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ قول بالکل غریب ہے اور ایسی باتیں جب تک کسی صحیح دلیل سے ثابت نہ ہوں ماننے کے قابل نہیں ہوتیں۔ جمیری کہتے ہیں ایک ہزار امتیں ہیں، چھ سو تری میں اور چار سو خشکی میں۔ سعید بن مسیب سے یہ بھی مروی ہے۔ ایک ضعیف روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانے میں ایک سال ٹڈیاں نہ نظر آئیں بلکہ تلاش کرنے کے باوجود پتہ نہ چلا۔ آپ غمگین ہوگئے یمن، شام اور عراق کی طرف سوار دوڑائے کہ کہیں بھی ٹڈیاں نظر آتی ہیں یا نہیں تو یمن والے سوار تھوڑی سی ٹڈیاں لے کر آئے اور امیر المومنین کے سامنے پیش کیں آپ نے انہیں دیکھ کر تکبیر کہی اور فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور چار سو خشکی میں ان میں سے سب سے پہلے جو امت ہلاک ہوگی وہ ٹڈیاں ہوں گی بس ان کی ہلاکت کے بعد پے درپے اور سب امتیں ہلاک ہوجائیں گی جس طرح کہ تسبیح کا دھاگا ٹوٹ جائے اور ایک کے بعد ایک سب موتی جھڑ جاتے ہیں۔ اس حدیث کے راوی محمد بن عیسیٰ ہلالی ضعیف ہیں۔ سعید بن میب (رح) سے بھی یہ قول مروی ہے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں اٹھارہ ہزار عالم ہیں، دنیا کی ساری کی ساری مخلوق ان میں سے ایک عالم ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں چالیس ہزار عالم ہیں ساری دنیا ان میں سے ایک عالم ہے۔ زجاج کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ سب عالم ہے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ یہ قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ تمام عالمین پر مشتمل لفظ ہے۔ جیسے فرعون کے اس سوال کے جواب میں رب العالمین کون ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ آسمانوں زمینوں اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب۔ عالم کا لفظ علامت سے مشتق ہے اس لئے کہ عالم یعنی مخلوق اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے پر نشان اور اس کی وحدانیت پر علامت ہے جیسے کہ ابن معتز شاعر کا قول ہے۔
فیا عجبا کیف یعصی الا لہ
ام کیف یجحدہ الجاحد
وفی کل شی لہ ایتہ
تدل علی انہ واحد
یعنی تعجب ہے کس طرح اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے اور کس طرح اس سے انکار کیا جاتا ہے حالانکہ ہر چیز میں نشانی ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے الحمد کے بعد اب الرحمن الرحیم کی تفسیر سنئے۔