یونس آية ۴۱
وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّىْ عَمَلِىْ وَلَـكُمْ عَمَلُكُمْ ۚ اَنْـتُمْ بَرِيْۤــُٔوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَاَنَاۡ بَرِىْۤءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ
طاہر القادری:
اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو فرما دیجئے کہ میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے، تم اس عمل سے بری الذمہ ہو جو میں کرتا ہوں اور میں ان اَعمال سے بری الذمہ ہوں جو تم کرتے ہو،
English Sahih:
And if they deny you, [O Muhammad], then say, "For me are my deeds, and for you are your deeds. You are disassociated from what I do, and I am disassociated from what you do."
1 Abul A'ala Maududi
اگر یہ تجھے جھٹلاتے ہیں تو کہہ دے کہ “میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بَری ہو اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بَری ہوں"
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر وہ تمہیں جھٹلائیں تو فرمادو کہ میرے لیے میری کرنی اور تمہارے لیے تمہاری کرنی (اعمال) تمہیں میرے کام سے علاقہ نہیں اور مجھے تمہارے کام سے لاتعلق نہیں
3 Ahmed Ali
اوراگر تجھے جھٹلائیں تو کہہ دے میرے لیے میرا کام اور تمہارے لیے تمہارا کام تم میرے کام کے جواب دہ نہیں اور میں تمہارے کام کا جواب دہ نہیں ہوں
4 Ahsanul Bayan
اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لئے میرا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں (١)۔
٤١۔١ یعنی تمام تر سمجھانے اور دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر وہ جھٹلانے سے باز نہ آئیں تو پھر آپ یہ کہہ دیں، مطلب یہ ہے کہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے، سو وہ میں کر چکا ہوں، نہ تم میرے عمل کے ذمہ دار ہو اور نہ میں تمہارے عمل کا سب کو اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، وہاں ہر شخص سے اس کے اچھے یا برے عمل کی باز پرس ہوگی۔ یہ وہی بات ہے جو "قل یاایھا الکافروں لا اعبد ماتعبدون" میں ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان الفاظ میں کہی تھی "انا برآء منکم ومما تعبدون من دون اللہ کفرنا بکم" بیشک ہم تم سے اور جن جن کی تم الہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد سے منکر ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر یہ تمہاری تکذیب کریں تو کہہ دو کہ مجھ کو میرے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال (کا) تم میرے عملوں کا جواب دہ نہیں ہو اور میں تمہارے عملوں کا جوابدہ نہیں ہوں
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجئے کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو فرما دیجیے! میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا تمہارے لئے جو کچھ میں کرتا ہوں اس سے تم بری الذمہ ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے میں بری الذمہ ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر یہ آپ کی تکذیب کریں تو کہہ دیجئے کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تم میرے عمل سے بری اور میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر یہ تمہاری تکذیب کریں تو کہہ دو کہ مجھ کو میرے اعمال (کا بدلہ ملے گا) اور تم کو تمہارے اعمال (کا) تم میرے عملوں کے جوابدہ نہیں ہو اور میں تمہارے عملوں کا جوابدہ نہیں ہوں۔
آیت نمبر ٤١ تا ٥٣
ترجمہ : اگر یہ تجھے جھٹلا رہے ہیں تو ان سے کہہ دیں کہ میرا عمل میرے لئے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لئے ہے یعنی ہر شخص کو اسی کے عمل کی جزاء ہے، جو کچھ میں کرتا ہوں اس کی ذمہ داری سے تم بری اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس کی ذمہ داری سے میں بری اور یہ آیت سیف کے ذریعہ منسوخ ہے، اور ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تیری بات سنتے ہیں جن تو قرآن پڑھتا ہے، مگر کیا تو بہروں کو سنائیگا کفار کو قرآن سے فائدہ نہ اٹھانے میں بہروں کے ساتھ تشبیہ دی ہے خواہ وہ بہرے ہونے کے ساتھ کچھ سمجھتے بھی نہ ہوں (یعنی) غور و فکر نہ کرتے ہوں، اور ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ کو دیکھتے ہیں تو پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو، ان (کفار) کو اندھوں کے ساتھ عدم ہدایت میں تشبیہ دی ہے، بلکہ یہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں اسلئے کہ یہ آنکھوں کے اندھے نہیں ہیں، بلکہ دل کے اندھے ہیں جو کہ ان کے سینوں میں ہے، یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود ہی اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں، (ان کو وہ دن یاد دلاؤ) کہ جس دن اللہ ان کو اس کیفیت سے جمع کرے گا (کہ وہ منظر کی ہولناکی کی وجہ سے سمجھیں گے) کہ گویا وہ دنیا میں یا قبروں میں دن کی ایک گھڑی ہی رہے ہیں، اور جملہ تشبیہ (یحشرھم) کی ضمیر مفعول سے حال ہے، آپس میں ایک دوسرے کو پہچانیں گے جبکہ ان کو (قبروں سے) اٹھایا جائیگا، پھر ہولناکی کی شدت کی وجہ سے یہ تعارف ختم ہوجائیگا، اور جملہ (یحشرھم) کی ضمیر حم سے حال مقدرہ ہے یا (یومَ ) ظرف کے متعلق ہے، واقعی سخت خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے بعث کے ذریعہ اللہ کی علامات کو جھٹلایا اور وہ ہدایت پانے والے نہ تھے اور جس عذاب کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں (اِمّا) میں نون شرطیہ کا ما ذائدہ میں ادغام ہے اس کا کچھ حصہ آپ کی زندگی میں آپ کو دکھا دیں، اور جواب شرط محذوف ہے یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے، یا ان کو عذاب دینے سے پہلے ہی ہم آپ کو وفات دیدیں بہرحال ان کو ہمارے پاس تو آنا ہی ہے پھر اللہ ان کے سب افعال سے باخبر ہے خواہ وہ ان کی تکذیب کے قبیل سے ہو یا کفر و نکار کے قبیل سے، لہٰذا وہ ان کو شدید عذاب دے گا اور ہر امت کیلئے ایک رسول ہے جب کسی امت کے پاس اس کا رسول آجاتا ہے اور وہ اس کو جھٹلا دیتے ہیں تو اس کا فیصلہ پورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے چناچہ ان کو عذاب دیا جاتا ہے اور رسول اور اس کی تصدیق کرنے والوں کو نجات دی جاتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا کہ ان کو بغیر ظلم کے سزا دیدی جائے پس ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائیگا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ عذاب کا وعدہ کب ہوگا ؟ اگر تم وعدہ میں سچے ہو، (اے نبی) کہہ دو کہ میرے اختیار میں خود اپنا نقصان نہیں کہ اس کو دفع کرسکوں یا حاصل کرسکوں، مگر اتنا ہی جتنا اللہ چاہے، یہ کہ میں اس پر قادر ہوں، تو مجھے تم پر عذاب نازل کی قدرت کہاں ہوگی ؟ ہر امت کی ہلاکت کی ایک مدت مقررہ ہوتی ہے جب وہ مدت پوری ہوجاتی ہے تو اس سے گھڑی بھر بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی ان سے کہو مجھے بتاؤ اگر اللہ کا عذاب رات میں یا دن میں تم پر آپڑے (تو تم کیا کرسکتے ہو) آخر عذاب ایسی کونسی چیز ہے جس کیلئے مجرم مشرک جلدی مچائیں، اس میں ضمیر کی جگہ اسم ظاہر کو رکھا گیا ہے جملہ استفہامیہ جواب شرط ہے، جیسا کہ اس مثال میں، ” ان اَتَیْتک مَا ذا تعطینی “ اور مراد اس سے ہولناکی کو بیان کرنا ہے یعنی جس کی یہ لوگ جلدی مچا رہے ہیں کس قدر عظیم ہے ! ! کیا جب وہ عذاب ان پر آپڑے گا اس وقت اس پر ایمان لائیں گے یعنی اللہ پر یا عذاب پر اس کے نزول کے وقت، اور ہمزہ انکار تاخیر کیلئے ہے تو تمہارا وہ ایمان مقبول نہ ہوگا، اور تم سے کہا جائے گا اب ایمان لاتے ہو حالانکہ تم خود ہی استہزاء اس کے جلدی لانے کا تقاضا کرتے تھے پھر ظالموں سے کہا جائیگا کہ اب دائمی عذاب کا مزا چکھو یعنی ایسے عذاب کا کہ جس میں تم ہمیشہ رہو گے، تم کو تمہارے ہی کئے کا بدلہ ملا ہے آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ عذاب کیا واقعی امر ہے ؟ یعنی جس عذاب اور بعث کا تم نے وعدہ کیا ہے (کیا وہ امر واقعی ہے) آپ کہہ دیجئے ہاں قسم ہے میرے رب کی وہ واقعی امر ہے اور تم کسی طرح خدا کو عاجز نہیں کرسکتے یعنی اس کے عذاب سے بچ کر نہیں جاسکتے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ھذا منسوخ بآیۃ السیف، فھی قولہٗ تعالیٰ ، فاقتلوھم حیث وجدتموھم الخ۔
قولہ : بل ھو اعظم، کفار کو اندھوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اندھے مشبہ بہ ہیں اور کفار مشبہ، عدم البصیرۃ بہ نسبت عدم البصر کے زیادہ شدید ہوتی ہے، کفار چونکہ عدم البصیرۃ ہیں لہٰذا کفار ضلالت و گمراہی میں اندھوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔
قولہ : کانھم، اس میں اشارہ ہے کہ کان مخففہ عن المثقلہ ہے اور اس کا اسم محذوف ہے۔
قولہ : وجملۃ التشبیہ حالٌ من الضمیر اس لئے کہ یوم کی صفت قرار دینے کی صورت میں تقدیر یہ ہوگی، حال کو نھم مشبھین بمَنْ لم یلبثْ اِلا سَاعۃ الخ۔
قولہ : والجملہ حال مقدرۃ، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : یتعارفون، یحشرھم کی ضمیر، ھم سے حال ہے اور حال و ذوالحال کا زمانہ ایک ہوتا ہے حالانکہ حشر پہلے ہوگا اور تعارف بعد میں ہوگا لہٰذا دونوں کا زمانہ ایک نہ ہوا۔
جواب : یہ حال مقدرہ ہے کہ کفار کو جمع کیا جائیگا حال یہ ہے کہ ان کیلئے تعارف مقدر کردیا گیا، ای حَالَ کو نھم مقدرین التعارف لا اَنَّھُم متعارفون بالفعل۔
قولہ : او متعلق الظرف، اور وہ یَوْمَ ہے تقدیر یہ ہے یتعارفونَ یحشرہ۔ قولہ : و جواب الشرط محذوف، ای فذاک یہ اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : اِمَّا نُرِیَّنَکَ اور اَوْنتوفینّکَ ، دو شرط ہیں اور جزاء ایک ہے اور وہ فَاِلَیْنا مرجعھم، ہے، حالانکہ اِمَّا نرینک پر فَاِلَیْنَا مرجعھم کا ترتب فساد معنی کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ فالینا مرجعھم دونوں شرطوں کی جزاء نہیں ہے بلکہ اِمَّا نرینّکَ ، کی جزاء محذوف ہے جس کی طرف مفسر علام نے فذاک، محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے۔
سوال : فذاک جزاء ہے حالانکہ جزاء مفرد نہیں ہوتی۔ جواب : وضع الظاھر موضع المضمر۔
سوال : یستعجل منہ المجرمون فرمایا یستعجلون منہ نہیں فرمایا حالانکہ یہ اس کے مقابلہ میں اخصر ہے۔
جواب : اخصر کے مقابلہ میں مختصر تعبیر کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مختصر میں سبب ترک استعجال پر دلالت ہے اور وہ جرم ہے، اس کے علاوہ اس میں ان کی صفت قبیح پر بھی دلالت ہے۔
قولہ : وجملۃ الاستفھام جواب الشرط ہے اور ان اَتٰکم عذابہ شرط ہے اور مَاذَا یستعجلُ تقدیر فاء کے ساتھ، جواب شرط ہے اسلئے کہ جملہ استفہامیہ بغیر فاء کے جزاء واقع نہیں ہوتا۔
قولہ : اِنْ اَتَیْتُکَ مَاذا تعطینی یہ مثال استبعاد کو دور کرنے کے لئے ہے یعنی یہ بتانے کیلئے کہ کلام عرب میں جملہ استفہامیہ بغیر فاء کے بھی جزاء واقع ہوتا ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : والمراد بہ التھویل یعنی استفہام سے مراد استعلام نہیں ہے بلکہ ہولناکی کو بیان کرنا ہے۔
قولہ : ویقال لکم، اس عبارت کی تقدیر ایک سوال کے جواب کیلئے ہے۔ سوال : ثم قیل لھم، کا عطف اَلْئٰنَ وقد کنتم بہ تستعجلون پر ہے حالانکہ معطوف علیہ جملہ اسمیہ اور معطوف جملہ فعلیہ ہے۔ جواب : معطوف علیہ کے ماقبل فعل محذوف ہے جس کو مفسر علام نے ویقال لکم کہہ کر ظاہر کردیا ہے لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔
قولہ : تؤمنون۔ سوال : اَلْئٰنَ ، یقال لکم کا مقولہ ہے حالانکہ مقولہ جملہ ہوا کرتا ہے اور اَلْئٰن مفرد ہے۔
جواب : عبارت محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَلْئٰنَ یؤمنون، جیسا کہ مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے
تفسیر و تشریح
وَاِنْ کَذَّبوکَ فقُلْ لی عَمَلِی وَلکم عملکم یعنی تمام تر سمجھانے اور دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر وہ جھٹلانے سے باز نہ آئیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ خواہ مخواہ جھگڑنے اور کج بحثی کرنے کی اس میں کیا ضرورت ہے اگر میں افتراء پردازی کر رہا ہوں تو اپنے عمل کا میں خود ذمہ دار ہوں، تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں، اور اگر تم سچی بات کو جھٹلا رہے ہو تو میرا کچھ نہیں بگاڑتے اپنا ہی کچھ بگاڑتے ہو، میرا کام دعوت و تبلیغ ہے میں وہ کرچکا سب کو خدا کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، وہاں ہر شخص سے اس کے اچھے اور برے عمل کے بارے میں باز پرس ہوگی، یہی وہ بات ہے جو سورة کافرون میں ” لکم دینکم ولی دین “ میں فرمائی گئی ہے۔
وَمنھم مَنْ یستمعون اِلَیک الخ یعنی ظاہری طور پر قرآن سنتے ہیں لیکن سننے کا مقصد چونکہ طلب ہدایت نہیں ہے اسلئے انھیں اسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس طرح ایک بہرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بالخصوص جبکہ بہرا غیر عاقل بھی ہو اسلئے کہ عقل مند بہرا بھی اشاروں سے کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہے، اس طرح تو جانور بھی سن لیتے ہیں مگر جس طرح جانوروں کو معنی کی طرف توجہ نہیں ہوتی ان کو بھی توجہ نہیں ہوتی جو لوگ کسی تعصب میں مبتلا ہوں اور جنہوں نے پہلے سے فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ اپنے موروثی عقیدوں اور طریقوں کے خلاف اور اپنے نفس اور دلچسپیوں کے خلاف کوئی بات خواہ وہ کیسی ہی معقول کیوں نہ ہو، مان کر نہ دیں گے وہ سب کچھ سنکر بھی کچھ نہیں سنتے، اسی طرح وہ لوگ بھی کچھ سنکر نہیں دیتے جو دنیا میں جانوروں کی طرح غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور چرنے چگنے کے سوا کسی چیز سے دلچسپی نہیں رکھتے یا نفس کی خواہشوں اور لذتوں کے پیچھے ایسے مست ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ ہم یہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ صحیح بھی ہے یا نہیں ایسے ہی سب لوگ کانوں کے بہرے نہیں ہوتے مگر دل کے بہرے ہوتے ہیں۔
یتعارفون بینھم یعنی قبروں سے نکلنے کے بعد لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں گے جیسے کسی سے طویل زمانہ کے بعد ملاقات ہوئی ہو تو پہچان لیا ہے مگر بعد میں محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ذہول ہوجائیگا اور یادداشت منقطع ہوجائے گی جس طرح کہ دنیا میں بھی کسی بڑی مصیبت کے وقت یادداشت غائب ہوجاتی ہے، بعض روایات میں ہے کہ پہچان تو رہے گی مگر ہیبت کی وجہ سے بات نہ کرسکیں گے۔
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقعَ آمنْتُمْ بہ اٰلئٰن مشرکین سے کہا جا رہا ہے کہ تم ایمان اس وقت لاؤ گے جب تم پر عذاب واقع ہوجائیگا مگر اس وقت تمہارے ایمان کے جواب میں یہ کہا جائیگا ” آلئٰن “ کیا اب ایمان لائے ہو جبکہ ایمان کا وقت گذر چکا جیسے غرق ہونے کے وقت فرعون نے کہا تھا ” آمنتُ انّہ لا اِلہَ اِلا الّذِیْ اٰمَنَتْ بہ بنو اسرائیل “ تو جواب میں کہا گیا تھا ” آلئٰن “ اور اس کا یہ ایمان قبول نہیں کیا گیا، کیونکہ حدیث شریف میں آپ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ غرغرہ موت میں گرفتار نہ ہوجائے “ اسی طرح دنیا میں وقوع عذاب سے پہلے تو بہ قبول ہوسکتی ہے جب عذاب آپڑا تو پھر یہ قبول نہیں ہوتی، آگے حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ آرہا ہے کہ ان کی قوم کی توبہ قبول کرلی گئی اور وہ اس ضابطہ کے ماتحت ہے کہ انہوں نے عذاب کو دور سے آتا ہوا دیکھ کر سچے دل سے الحاح وزاری کے ساتھ توبہ کرلی اس لئے عذاب ہٹا لیا گیا اگر عذاب ان پر واقع ہوجاتا تو پھر توبہ قبول نہ ہوتی
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَإِن كَذَّبُوكَ ﴾ ” اگر وہ آپ کو جھٹلاتے ہیں“ تو آپ ان کو اپنی دعوت پہنچاتے رہئے، ان کے حساب میں سے کچھ بھی آپ کے ذمے نہیں اور نہ آپ کا حساب ان کے ذمے ہے، ہر شخص کا عمل اسی کے لئے ہے۔ فرمایا : ﴿فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنتُم بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ﴾ ” آپ کہہ دیجئے ! میرے واسطے میرا عمل ہے اور تمہارے واسطے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عملوں سے بری ہوں“ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی نظیر ہے ﴿مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ﴾ (حم السجدہ : 41؍46)” جو کوئی نیک کام کرتا ہے تو اپنے لیے، جو کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی پر ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) agar yeh tumhen jhutlayen to ( inn say ) keh do kay : mera amal meray liye hai , aur tumhara amal tumharay liye . jo kaam mein kerta hun , uss ki zimma daari tum per nahi hai , aur jo kaam tum kertay ho , uss ki zimma daari mujh per nahi .
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرکین سے اجتناب فرما لیجئے
فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ مشرکین تجھے جھوٹا ہی بتلاتے رہیں تو تو ان سے اور ان کے کاموں سے اپنی بےزاری کا اعلان کردے۔ اور کہہ دے کہ تمہارے اعمال تمہارے ساتھ میرے اعمال میرے ساتھ۔ جیسے کہ وہ سورة (آیت قل یا ایھالکافرون) میں بیان ہوا ہے۔ اور جیسے کہ حضرت خلیل اللہ اور آپ کے ساتھیوں نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں۔ جنہیں تم نے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ ان میں سے بعض تیرا پاکیزہ کلام بھی سنتے ہیں اور خود اللہ تعالیٰ کا بلند وبالا کلام بھی ان کے کانوں میں پڑ رہا ہے۔ لیکن ہدایت نہ تیرے ہاتھ نہ ان کے ہاتھ گو یہ فصیح و صحیح کلام دلوں میں گھر کرنے والا، انسانوں کو پورا نفع دینے والا ہے۔ یہ کافی اور وافی ہے ہے لیکن بہروں کو کون سنا سکے ؟ یہ دل کے کان نہیں رکھتے۔ اللہ ہی کے ہاتھ ہدایت ہے۔ یہ تجھے دیکھتے ہیں، تیرے پاکیزہ اخلاق، تیری ستھری تعلیم تیری نبوت کی روشن دلیلیں ہر وقت ان کے سامنے ہیں لیکن ان سے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ مومن تو انہیں دیکھ کر ایمان بڑھاتے ہیں۔ لیکن ان کے دل اندھے ہیں عقل و بصیرت ان میں نہیں ہے۔ مومن وقار کی نظر ڈالتے ہیں اور یہ حقارت کی۔ ہر وقت ہنسی مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ پس اپنے اندھے پن کی وجہ سے راہ ہدایت دیکھ نہیں سکتے۔ اس میں بھی اللہ کی حکمت کار ہے کہ ایک تو دیکھے اور سنے اور نفع پائے دوسرا دیکھے سنے اور نفع سے محروم رہے۔ اسے اللہ کا ظلم نہ سمجھو وہ تو سراسر عدل کرنے والا ہے، کسی پر کبھی کوئی ظلم وہ روا نہیں رکھتا۔ لوگ خود اپنا برا آپ ہی کرلیتے ہیں۔ اللہ عزوجل اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی فرماتا ہے کہ اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کرلیا ہے اور تم پر بھی اسے حرام کردیا ہے۔ خبردار ایک دوسرے پر ظلم ہرگز نہ کرنا۔ اس کے آخر میں ہے اے میرے بندو ! یہ تو تمہارے اپنے اعمال ہیں جنہیں میں جمع کر رہا ہوں پھر تمہیں ان کا بدلہ دونگا۔ پس جو شخص بھلائی پائے وہ اللہ کا شکر بجا لائے اور جو اس کے سوا کچھ اور پائے وہ صرف اپنے نفس کو ہی ملامت کرے (مسلم)