القارعہ آية ۶
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ ۙ
طاہر القادری:
پس وہ شخص کہ جس (کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے،
English Sahih:
Then as for one whose scales are heavy [with good deeds],
1 Abul A'ala Maududi
پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے
2 Ahmed Raza Khan
تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں
3 Ahmed Ali
تو جس کے اعمال (نیک) تول میں زیادہ ہوں گے
4 Ahsanul Bayan
پھر جس کے پلڑے بھاری ہونگے۔ (۱)
٦۔۱ موازین، میزان کی جمع ہے۔ ترازو، جس میں صحائف اعمال تولے جائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ذکر (وَالْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ Ď) 7۔الاعراف;8) (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَزْنًا ١٠٥) 18۔الکہف;105) اور (وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا ۭ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ 47) 21۔الانبیاء;47) میں بھی گزراہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں یہ میزان نہیں، موزون کی جمع ہے یعنی ایسے اعمال جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور خاص وزن ہوگا (فتح القدیر) لیکن پہلا مفہوم ہی راجح اور صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو وزن اعمال کے وقت ان کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو جس کے (اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے
6 Muhammad Junagarhi
پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
تو جس کی (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو اس دن جس کی نیکیوں کا پلّہ بھاری ہوگا
9 Tafsir Jalalayn
تو جس (کے اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے
فاما من ثقلت یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر ہے کہ جب دوبارہ زندہ ہو کر انسان اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔
وزن اعمال کے متعلق ایک شبہ اور اس کا جواب :
قرآن مجید میں بروز قیامت وزن اعمال کا مسئلہ بہت سی آیات میں مختلف عنوانوں سے آیا ہے اور روایات حدیث میں اس کی تفصیلات بیشمار ہیں، وزن اعمال کے متعلق جو تفصیلی بیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث میں آیا ہے، اس میں ایک بار تو یہ قابل غور ہے کہ متعدد روایات میں آیا ہے کہ محشر کی میزان عدل میں سب سے بھاری وزن کلمہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ کا ہوگا۔
ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، بیہقی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محشر میں میری امت کا ایک آدمی ساری مخلوق کے سامنے لایا جائے گا اور اس کے ننانوے اعمال نامے لائے جائیں گے اور ان میں سے ہر اعمال نامہ اتنا طویل ہوگا جہاں تک اس کی نظر پہنچے گی اور یہ اعمال نایم برائیوں سے لبریز ہوں گے، اس شخص سے پوچھا جائے گا کہ ان نامہائے اعمال میں جو کچھ لکھا ہے وہ سبصحیح ہے یا نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں نے تم پر کچھ ظلم کیا ہے ؟ اور خلاف واقعہ کوئی بات لکھ دی ہے ؟ وہ اقرار کرے گا کہ اے میرے پروردگار ! جو کچھ لکھا ہے وہ سب صحیح ہے، اور وہ گھبرائے گا کہ میری نجات کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟ اس وقت حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کسی پر ظلم نہیں ہوگا، ان تمام گناہوں کے مقابلہ میں تماری ایک نیکی کا پر چہ بھی ہمارے پاس موجود ہے جس میں تمہارا کلمہ ’ داشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمداً عبدہ و رسولہ ‘ لکھا ہوا ہے، وہ عرض کرے گا، اے پروردگار اتنے بڑے سیاہ نامہ اعمال کے مقابلہ میں یہ چھوٹا سا پرچہ کیا وزن رکھے گا، اس وقت ارشاد ہوگا کہ تم پر ظلم نہیں ہوگا اور ایک پلہ میں وہ تمام سیاہ نامہ اعمال رکھے جائیں گے اور دوسرے میں یہ کلمہ ایمان کا پر چہ رکھا جائے گا تو اس کلمہ کا پر چہ بھاری ہوجائے گا، اس واقعہ کو بیان فرما کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے نام کے مقابل ہمیں کوئی چیز بھاری نہیں ہوسکتی۔ (معارف، مظھری)
مسند بزار، مسند حاکم میں حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب حضرت نوح ( علیہ السلام) کی وفات کا وقت آیا تو اپنے لڑکوں کو جمع کر کے فرمایا کہ میں تمہیں کلمہ ” لا الہ الا اللہ “ ‘ کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ اگر ساتوں آسمان اور زمین ایک پلہ میں اور کلمہ ” لا الہ الا اللہ “ دوسرے پلہ میں رکھ دیا جائے تو کلمہ کا پلہ بھاری ہوجائے گا، اسی مضمون کی روایتیں حضرت ابو سعید خدری (رض) اور ابن عباس (رض) وغیرہم سے معتبر سندوں کے ساتھ منقول ہیں۔ (مظہری)
ان روایات کا مقتضی تو یہ ہے کہ مئومن کی نیکیوں کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی رہے گا خواہ کتنے ہی گناہ کرلے، لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات اور بہت سی روایات حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کی حسنات سیئات کو تولا جئاے گا، کسی کی حسنات کا پلہ بھاری ہوگا اور کسی کی سیئات کا، جس کی حسنات کا پلہ بھاری رہے گا وہ نجات پائے گا، اور جس کی سیئات کا پلہ بھاری رہے گا اسے جہنم رسید کیا جائے گا۔
مثلاً قرآن مجید کی ایک آیت میں ہے :
ونضع الموازین القسط لیوم القیمۃ فلا تظلم نفس شیئاً وان کان مثقال حبۃ من خر دل اتینا بھا وکفی بنا حاسبین
ترجمہ،۔ یعنی ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے اس لئے کسی شخص پر ظلم نہیں ہوگا، جو بھلائی یا برائی ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی کسی نے کی ہوگی وہ سب میزان عمل میں رکھی جائے گی اور ہم حساب کے لئے کافی ہیں۔
دوسری آیت : یہی سورة قارعۃ کی ہے :
فاما من ثقلت موازینہ فھو فی عیشۃ راضیۃ واما من خفت موازینہ فامہ ھاویۃ
ترجمہ،۔ یعنی جس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ہوگا وہ عمدہ عیش میں رہے گا اور جس کی نیکیوں کا پلہ ہلکا ہوگا اس کا مقام دوزخ ہوگا۔
ابو دائود میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) مقنلو ہے کہ اگر کسی بندہ کے فرائض میں کوئی کمی پائی جائے گی تو رب العالمین کا اشراد ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر نوافل موجود ہیں تو فرائض کی کمی کو نفلوں سے پورا کردیا جائے۔ (مظھری)
ان تمام روایت کا حاصل یہ ہے کہ مئومن کا پلہ کبھی بھاری اور کبھی ہلکا ہوگا، اس لئے بعض علماء تفسیر نے فرمایا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں وزن دو مرتبہ ہوگا اول کفر و ایمان کا وزن ہوگا جس کے ذریعہ مئومن، کافر میں امتیاز ہوگا پھر دوسرا وزن نیک و بداعمال کا ہوگا، اس میں کسی مسلمان کی نیکیاں اور کسی کی بدکاریاں بھاری ہوں گی اور اسی کے مطابق اس کو جزاء و سزا ملے گی، اس طرح تمام آیات اور روایت کا مضمون اپنی جگہ درست اور مربوط ہوجاتا ہے۔ (بیان القرآن)
جیسا کہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ انسان کے اعمال کا وزن دو مرتبہ ہوگا اس سورت میں بظاہر وہ پہلا وزن مراد ہے جس میں ہر مئومن کا ایمان کی وجہ سے پلہ بھاری رہے گا خواہ اس کا عمل کیسا بھی ہو، نیز مذکورہ آیات اور روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال تو لے جائیں گے، گنے نہیں جائیں گے اور عمل کا وزن بقدر اخلاص ہوگا۔
اب رہا یہ شبہ کہ اعمال تو اعراض ہوتے ہیں اور کرنے کے بعد فنا ہوجاتے ہیں، پھر ان کے وزن کرنے کی کیا صورت ہوگی ؟ وزن تو جو ہر کا ہوتا ہے نہ کہ عرض کا تو اس ترقی یافتہ دور میں اس شبہ کے کوئی معنی نہیں ہیں، سائنسی نئی نئی ایجادات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اعراض فنا نہیں ہوتے، بلکہ جوہر کی طرف باقی رہتے ہیں نیز اعراض کو تولنے اور ناپنے کے مختلف آلات ایجاد کر لئے گئے ہیں، جن کا رات دن مشاہدہ ہوتا ہے، گرمی سردی ناپنے کے آلے، گیس اور بجلی ناپنے کے میٹر، تو یہ بات خدا کی قدرت سے بعید نہیں کہ وہ ایسے آلے ایجاد فرما دے جن سے اعمال و اقوال کا وزن کیا جاسکے۔
10 Tafsir as-Saadi
اس وقت ترازوئیں نصب کردی جائیں گی اور لوگ دو قسموں میں منقسم ہوجائیں گے خوش بخت لوگ اور بدبخت لوگ۔ ﴿فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ﴾ ” پس جس کے (اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے۔ “ یعنی جس کی نیکیاں ، برائیوں کی نسبت جھک جائیں گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
abb jiss shaks kay palray wazni hon gay