اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (مگر اس نے جبراً ایسا نہ کیا بلکہ سب کو مذہب کے اختیار کرنے میں آزادی دی) اور (اب) یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے،
English Sahih:
And if your Lord had willed, He could have made mankind one community; but they will not cease to differ,
1 Abul A'ala Maududi
بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے
2 Ahmed Raza Khan
اور اگرتمہارا رب چاہتا تو سب آدمیوں کو ایک ہی امت کردیتا اور وہ ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے
3 Ahmed Ali
اور اگر تیرا رب چاہتا تو سب لوگو ں کو ایک رستہ پر ڈال دیتا اور ہمیشہ اختلاف میں رہیں گے
4 Ahsanul Bayan
اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راہ پر ایک گروہ کر دیتا۔ وہ تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راه پر ایک گروه کر دیتا۔ وه تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اگر آپ کا پروردگار (زبردستی) چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت (گروہ) بنا دیتا مگر اپنی حکمتِ کاملہ سے اس نے ایسا نہیں کیا لہٰذا یہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر آپ کا پروردگار چاہ لیتا تو سارے انسانوں کو ایک قوم بنادیتا (لیکن وہ جبر نہیں کرتاہے) لہذا یہ ہمیشہ مختلف ہی رہیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی جماعت کردیتا لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو تمام لوگوں کو دین اسلام پر مجتمع کر کے انہیں ایک امت بنا دیتا اس کی مشیت ایسا کرنے سے قاصر نہ تھی اور کوئی چیز اس کی گرفت سے باہر نہیں۔ مگر اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اختلاف کرتے رہیں، صراط مستقیم کی مخالفت کریں اور جہنم کی طرف جانے والے راستوں پر رواں دواں رہیں اور ہر کوئی اپنی رائے کو حق اور دوسرے کے قول کو گمراہی سمجھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar tumhara perwerdigar chahta to tamam insanon ko aik hi tareeqay ka pero bana deta , ( magar kissi ko zabardasti kissi deen per majboor kerna hikmat ka taqaza nahi hai , iss liye enhen apney ikhtiyar say mukhtalif tareeqay apnaney ka moaqa diya gaya hai ) aur woh abb hamesha mukhtalif raaston per hi rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
جس پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو اللہ کی قدر کسی کام سے عاجز نہیں۔ وہ چاہے تو سب کو ہی اسلام یا کفر پر جمع کردے لیکن اس کی حکمت ہے جو انسانی رائے ان کے دین و مذاہب جدا جدا برابر جاری وساری ہیں۔ طریقے مختلف، مالی حالات جداگانہ ایک ایک کے ماتحت یہاں مراد دین و مذہب کا اختلاف ہے۔ جن پر اللہ کا رحم ہوجائے وہ رسولوں کی تابعداری رب تعالیٰ کی حکم برداری میں برابر لگے رہتے ہیں۔ اب وہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطیع ہیں۔ اور یہی نجات پانے والے ہیں۔ چناچہ مسند و سنن میں حدیث ہے جس کی ہر سند دوسری سند کو تقویت پہنچا رہی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہودیوں کے اکہتر گروہ ہوئے۔ نصاریٰ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے، اس امت کے تہتر فرقے ہوجائیں گے، سب جہنمی ہیں سوائے ایک جماعت کے، صحابہ نہ پوچھا " یا رسول وہ کون لوگ ہیں " ؟ آپ نے جواب دیا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں ہو اور میرے اصحاب (مستدرک حاکم) بقول عطا مختلفین سے مراد یہودی، نصرانی، مجوسی ہیں اور اللہ کے رحم والی جماعت سے مراد یک طرفہ دین اسلام کے مطیع لوگ ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ جماعت ہے گو ان کے وطن اور بدن جدا ہوں اور اہل معصیت فرقت و اختلاف والے ہیں گو ان کے وطن اور بدن ایک ہی جا جمع ہوں۔ قدرتی طور پر ان کی پیدائش ہی اسی لیے ہے شقی و سعید کی ازلی تقسیم ہے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ رحمت حاصل کرنے والی یہ جماعت بالخصوص اسی لیے ہے۔ حضرت طاؤس کے پاس دو شخص اپنا جھگڑا لے کر آئے اور آپس کے اختلاف میں بہت بڑھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے جھگڑا اور اختلاف کیا اس پر ایک شخص نے کہا اسی لیے ہم پیدا کئے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا، غلط ہے اس نے اپنے ثبوت میں اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا اس لیے نہیں پیدا کیا کہ آپس میں اختلاف کریں، بلکہ پیدائش تو جمع کے لیے اور رحمت حاصل کرنے کے لیے ہوئی ہے جیسے کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ رحمت کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ عذاب کے لیے۔ اور آیت میں ہے ( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56) 51 ۔ الذاریات :56) میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ تیسرا قول ہے کہ رحمت اور اختلاف کے لیے پیدا کیا ہے۔ چناچہ مالک اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک فرقہ جنتی اور ایک جہنمی۔ انہیں رحمت حاصل کرنے اور انہیں اختلاف میں مصروف رہنے کے لیے پیدا کیا ہے تیرے رب کا یہ فیصلہ ناطق ہے کہ اس کی مخلوق میں ان دونوں اقسام کے لوگ ہوں گے اور ان دونوں سے جنت دوزخ پر کئے جائیں گے۔ اس کی کامل حکمتوں کو وہی جانتا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ جنت دوزخ دونوں میں آپس میں گفتگو ہوئی۔ جنت نے کہا مجھ میں تو صرف ضعیف اور کمزور لوگ ہی داخل ہوتے ہیں اور جہنم نے کہا میں تکبر اور ظلم کرنے والوں کے ساتھ مخصوص کی گئی ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ عزوجل نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے، جسے میں چاہوں اسے تجھ سے نواز دوں گا۔ اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے جس سے میں چاہوں تیرے عذاب کے ذریعہ اس سے انتقام لوں گا۔ تم دونوں پر ہوجاؤ گی۔ جنت میں تو برابر زیادتی رہے گی یہاں تک کہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا اور اسے اس میں بسائے گا اور جہنم بھی برابر زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اس پر اللہ رب العزت اپنا قدم رکھ دے گا تب وہ کہے گی تیری عزت کی قسم اب بس ہے بس ہے۔