جو لوگ (فقط) دنیوی زندگی اور اس کی زینت (و آرائش) کے طالب ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ اسی دنیا میں دے دیتے ہیں اور انہیں اس (دنیا کے صلہ) میں کوئی کمی نہیں دی جاتی،
English Sahih:
Whoever desires the life of this world and its adornments – We fully repay them for their deeds therein, and they therein will not be deprived.
1 Abul A'ala Maududi
جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خو ش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی
2 Ahmed Raza Khan
جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو ہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے اور اس میں کمی نہ دیں گے،
3 Ahmed Ali
جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہے تو انکے اعمال ہم یہیں پورے کر دیتے ہیں اور انہیں کچھ نقصان نہیں دیا جاتا
4 Ahsanul Bayan
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی
6 Muhammad Junagarhi
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہی بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو صرف دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت چاہتے ہیں تو ہم انہیں ان کی سعی و عمل کی پوری پوری جزا دیتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو شخص زندگانی دنیا اور اس کی زینت ہی چاہتا ہے ہم اس کے اعمال کا پورا پورا حساب یہیں کردیتے ہیں اور کسی طرح کی کمی نہیں کرتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طا لب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انھیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں انکی حق تلفی نہیں کی جاتی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا ﴾ ” جو چاہتا ہے دنیا کی زندگی اور اس کی رونق“ یعنی جس شخص کا بھی ارادہ، دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت ہی کے گرد گھومتا ہے، مثلاً عورتوں اور بیٹوں کے حصول کی خواہش، سونے اور چاندی کے خزانوں کی حرص، نشان زدہ گھوڑوں، مویشیوں اور کھیتیوں کی چاہت، اس نے اپنی رغبت، عمل اور کوشش کو صرف انہی چیزوں پر مرکوز کر رکھا ہے اور وہ آخرت کے گھر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ایسا شخص کافر کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر وہ مومن ہوتا تو اس کا ایمان اسے اس بات سے روک دیتا کہ اس کا تمام ارادہ صرف دنیا پر مرکوز رہے، بلکہ اس کا ایمان اور اس کے نیک اعمال، اس کے ارادہ آخرت ہی کے آثار ہیں۔ مگر یہ کافر بد بخت تو گویا صرف دنیا ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ﴿ نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا ﴾ ” بھگتا دیں گے ہم ان کو ان کے عمل دنیا ہی میں“ یعنی ہم ان کو وہ دنیاوی ثواب عطا کردیتے ہیں جو ان کے لئے لوح محفوظ میں لکھا ہوتا ہے۔ ﴿وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴾ ” اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی۔“ یعنی جو کچھ ان کے لئے مقرر کیا گیا ہوتا ہے اس میں ذرہ بھر کمی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ ان کو عطا کی جانے والی نعمتوں کی منتہا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo log ( sirf ) dunyawi zindagi aur uss ki sajj dhajj chahtay hain , hum unn kay aemal ka poora poora sila issi duniya mein bhugta den gay , aur yahan unn kay haq mein koi kami nahi hogi .
12 Tafsir Ibn Kathir
ریا ہر نیکی کے لیے زہر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ ذرا سی بھی کمی نہیں ہوتی۔ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لے نماز پڑھے، روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے، اس کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اٹھتا ہے۔ حضرت انس (رض) وغیرہ کا بیان ہے یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری اور اور مجاہد کہتے ہیں ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے۔ الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی کے لیے جو اعمال ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہوسکتے۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے اللہ اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے۔ قرآن کریم کی ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18) 17 ۔ الإسراء :18) میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے۔ ہاں جس کی طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایمان دار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر دانی کی جاتی ہے۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے رکا ہوا نہیں۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے اور آیت میں ارشاد ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ ۚ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ 20) 42 ۔ الشوری :20) جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بےنصیب رہ جاتا ہے۔