ہود آية ۲۵
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اِنِّىْ لَـكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌۙ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، (انہوں نے ان سے کہا:) میں تمہارے لئے کھلا ڈر سنانے والا (بن کر آیا) ہوں،
English Sahih:
And We had certainly sent Noah to his people, [saying], "Indeed, I am to you a clear warner
1 Abul A'ala Maududi
(اور ایسے ہی حالات تھے جب) ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا تھا (اُس نے کہا) "میں تم لوگوں کو صاف صاف خبردار کرتا ہوں
2 Ahmed Raza Khan
اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھيجا کہ میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں
3 Ahmed Ali
اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا بے شک میں تمہیں صاف ڈرانے والا ہوں
4 Ahsanul Bayan
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (تو انہوں نے ان سے کہا) کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے اور پیغام پہنچانے آیا ہوں
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے واﻻ ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہم نے نوح(ع) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (انہوں نے کہا لوگو!) میں تمہیں کھلا ہوا (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والا ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ میں تمہارے لئے کھلے ہوئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے نوح کو انکی قوم کی طرف بھیجا تو (انہوں نے ان سے کہا) کہ میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے (اور پیغام پہنچانے) آیا ہوں
آیت نمبر ٢٥ تا ٣٥
ترجمہ : یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف واضح طور پر آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا) انّی ( اصل میں بِانّی ہے اور ایک قراءت میں حذف قول کے وجہ سے ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہے، یہ کہ تم خدا کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کرو، اگر تم نے غیر اللہ کی بندگی کی تو مجھے تم پر دنیا اور آخرت میں دردناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے، اس کی کافر قوم کے سرداروں نے کہا اور وہ شرفاءِ قوم تھے، ہم تجھے اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں تجھے ہم پر کوئی فضیلت) فوقیت ( حاصل نہیں، اور تیری اتباع کرنے والوں کو بھی دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری قوم کے نیچ لوگ ہیں جیسا کہ جلا ہے اور موچی، جو سطحی رائے والے ہیں، ) اَلرّای ( ہمزہ اور ترک ہمزہ کے ساتھ ہے، یعنی تیرے بارے میں بغیر سوچے سمجھے عمل کرنے والے ہیں، اور) بادیَ ( کا نصب ظرفیت کی بنا پر ہے، یعنی پہلے ظاہر ہونے والی رائے پر) بغیر غور و فکر ( عمل کرنے والے، اور ہم تو اپنے اوپر تمہاری کسی قسم کی برتری نہیں سمجھتے کہ جس کی وجہ سے تم ہماری اطاعت کے مستحق ہو، بلکہ ہم تو تم کو دعوائے رسالت میں جھوٹا سمجھتے ہیں خطاب میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کو بھی شامل کرلیا ہے) ورنہ نظنکم کے بجائے نظنکَ ہوتا ( نوح (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم کے لوگو تم مجھے بتاو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل پر ہوا اور اس نے مجھے اپنے فضل سے رحمت) یعنی ( نبوت عطا کی اور تم پر وہ مخفی رہی، اور ایک قراءت میں) عُمِّیَتْ ( میم کی تشدید اور مجھول کے صیغہ کے ساتھ ہے، کیا میں اس رحمت کو زبردستی تمہارے سرمنڈھ سکتا ہوں ؟ یعنی کیا میں اس کو قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں ؟ حال یہ کہ تم اس رحمت کو ناپسند کرتے ہو، ہم اس پر قادر نہیں ہیں، اور اے میری قوم کے لوگو میں اس پیغام رسانی پر تم سے مال کا مطالبہ نہیں کرتا کہ جس کو تم مجھے دیتے ہو، میرا اجر وثواب تو اللہ پر ہے اور نہ میں تمہارے کہنے کے مطابق ایمان لانے والوں کو) اپنے پاس سے ( نکال سکتا ہوں انھیں دوبارہ زندہ ہو کر اپنے رب سے ملنا ہے وہ ان کو جزاء دے گا اور ان لوگوں سے جنہوں نے ان پر ظلم کیا ہوگا اور ان کو دھتکارا ہوگا بدلہ لے گا، لیکن تم کو اپنے انجام سے بیخبر لوگ سمجھتا ہوں، اور اے میری قوم کے لوگو اگر میں ان کو) اپنے پاس سے ( نکال دوں تو مجھے اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا ؟ یعنی میرا کوئی بچانے والا نہیں ہوگا، تم کس لئے نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ تاء ثانیہ کو اصل میں ذال میں ادغام کرکے بمعنی تتعظون، اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں عالم الغیب ہوں، اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں بلکہ میں تو تمہارے جیسا بشر ہوں، اور میں ان لوگوں کے بارے میں جن کو تم حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ ان کو اجر نہ دے گا، جو کچھ ان کے دل میں ہے، اللہ اس کو خوب جانتا ہے، اگر میں ایسا کہوں تو میں بلاشبہ ظالموں میں شمار ہوں گا، ) قوم کے لوگوں نے ( کہا اے نوح تو نے ہم سے بحث کرلی اور خوب بحث کرلی، اب تو جس عذاب کی ہم کو دھمکی دیتا ہے وہ عذاب ہمارے پاس لے آ اگر تو اس دھمکانے میں سچا ہے، ) حضرت نوح (علیہ السلام) نے ( جواب دیا اسے اللہ ہی لائیگا اگر اس کو تمہارے اوپر جلدی لانا چاہے گا اس کا اختیار اسی کے پاس ہے نہ کہ میرے پاس، تم اللہ سے بچ کر نہیں نکل سکتے تمہیں میری نصیحت کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اگر اللہ کو تمہاری گمراہی مقصود ہو، گو میں تم کو کتنی ہی نصیحت کروں، اور جواب شرط) محذوف ہے ( جس پر لاینفعکم نصحی، دلالت کر رہا ہے، وہی تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی طرف لوٹائے جاو گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا کفار مکہ کہتے ہیں کہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازخود تصنیف کرلیا ہے) اے محمد ( کہہ دو کہ اگر اس قرآن کو میں نے ازخود تصنیف کیا ہے تو اس کا جرم یعنی اسکی سزا میرے اوپر ہے اور میری طرف تصنیف کی نسبت کرکے جو جرم تم کرتے ہو میں اس سے بری ہوں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فیہ ادغام التاء الخ، یعنی تَذَکّرُونَ باب تفعّل سے ہے نہ کہ تفعیل سے۔
قولہ : بیّن الانذار، مبین کی تفسیر بیّن سے کرکے اشارہ کردیا کہ مبین یہاں لازم ہے۔
قولہ : عذابَ یوم الیم، یوم کی صفت الیم کے ساتح اسناد مجازی کے طور پر ہے علاقہ ظرفیت کی وجہ سے۔
قولہ : کالحاکۃِ یہ حائک کی جمع ہے، بمعنی جلاہا۔ قولہ : اَسَاکفۃ یہ اسکاف کی جمع ہے بمعنی موچی، کفش دوز۔
قولہ : بالھمزۃ وتر کہ، یعنی ہمزہ کو باقی رکھ کر) الرای ( اور ہمزہ کو ساقط کرکے) الرای (۔
قولہ : ابتداء الخ اس میں اشارہ ہے کہ بادی بَدَا سے ہے بمعنی ابتداء نہ کہ بدو سے جو کہ بمعنی ظہور ہے۔
قولہ : نصبُہ علی الظرفیۃِ ، یعنی بادِیَ ، اِتبَعَکَ کا ظرف ہے۔
قولہ : وقت حدوث اول رایھم، وقت مضاف محذوف مان کر ایک سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔
سوال : یہ ہے کہ ظرف یا تو زمان ہوتا ہے یا مکان اور بادی نہ زمان اور نہ مکان۔
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ بادی سے پہلے وقت محذوف ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : ادرجوا قومہ معہ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ نوح (علیہ السلام) تو فرد واحد تھے پھر ان کیلئے نظنکم، جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا ؟۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ کذب کی نسبت میں حضرت نوح کے ساتھ ان پر ایمان لانے والوں کو بھی شریک کرلیا اسی وجہ سے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔
قولہ : وَالبناء للمفعول ای اُخْفِیَتْ ۔ قولہ : علی تبلیغ الرسالۃِ اس اضافہ کا مقصد علیہ کی ضمیر کا مرجع بیان کرنا ہے۔
سوال : ماقبل میں تبلیغ الرسالہ کا کہیں ذکر نہیں ہے لہٰذا اس میں اضمار قبل الذکر لازم آتا ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ تبلیغ رسالت کا ماقبل میں اگرچہ صراحۃً ذکر نہیں ہے مگر فحوائے کلام سے مفہوم لے لہٰذا اضمار قبل الذکر لازم نہیں آتا۔
قولہ : اِنّی مفسر علام نے اِنّی مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ لا اعلم کا عطف عندی خزائن اللہ پر ہے نہ کہ اقول پر اسلئے مراد، اِنی لا اقول لک انی اعلم الغیب ہے۔
قولہ : تزدری، اِزدراء) افتعال ( یہ زری یزری سے مشتق ہے اس کے معنی عیب لگانا زریٰ علیہ ای عابہ اس کی اصل تزتری تھی تاء کو دال سے بدل دیا۔
قولہ : بہ اس میں اشارہ ہے کہ ما موصولہ کی طرف لوٹنے والی ضمیر محذوف ہے۔
قولہ : اِغوائکم اس میں اشارہ ہے کہ ان یغویکم میں ان مصدریہ ہے۔
قولہ : و جواب الشرط دَلَّ علیہ، ولا ینفعکم نصحی، ثانی شرط یعنی ان کان اللہ الخ کا جواب محذوف ہے جس پر ولا ینفعکم دلالت کر رہا ہے، اور ثانی شرط اپنے جواب شرط سے مل کر اول شرط یعنی ان اردت الخ کا جواب ہے اور یہ ترکیب بصریین کے مذہب کے مطابق ہے اور کفیین کے نزدیک اول شرط کی جزاء، ولا ینفعکم مقدم ہے اس صورت میں تقدیر کلام یہ ہوگی، |" ان کان اللہ یرید ان یغویکم فاِنْ اردتُ ان انصح لکم فلا ینفعکم نصحی |" اور یہ ترکیب اس وجہ سے ہے کہ جب دو شرطیں اور ایک جواب جمع ہوجائیں تو جواب ثانی شرط کا قرار دیا جاتا ہے اور شرط ثانی اپنی جواب سے مل کر اول شرط کی جزاء ہوتی ہے۔
تفسیر و تشریح
قوم نوح (علیہ السلام) کے شبہات اور ان کے جوابات : حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دی تو قوم نے ان کی نبوت اور رسالت پر چند شبہات و اعتراضات پیش کئے اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے جوابات دئیے جن کے ضمن میں بہت سے اصولی اور فروعی مسائل دیانت اور معاشرت کے بھی آگئے ان آیات میں یہی مکالمہ بیان کیا گیا ہے۔
اعتراضات کا خلاصہ : قوم نوح نے پہلا اعتراض یہ کہہ کر کیا |" مَا نَرَاکَ اِلاَّ بشرًا مِثلَنَا |" یعنی تم ہم جیسے انسان ہو ہماری ہی طرح کھاتے پیتے چلتے پھرتے ہو، سوتے جاگتے ہو، فرشتے نہیں ہو بشر بھی ایسے کہ تم کو کوئی ہمارے مقابلہ میں امتیازی شان حاصل نہیں ہے مثلاً آپ کوئی دولتمند یا جاہ و حکومت کے مالک ہوتے، اور جو لوگ آپ کے پیرو ہوئے وہ بھی ماشاء اللہ سب کے سب مفلس و نادار رذیل و پست ادنی طبقے کے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنا بھی ہم جیسے شریفوں کیلئے ننگ و عار کی بات ہے، کیا ساری خدائی میں خدا کو منصب نبوت و رسالت پر فائز کرنے کیلئے صرف تم ہی ملے تھے، آخر ہم تم سے حسب و نسب، مال و دولت لوگ ہوتے بھلا ان رذیل اور نیچ لوگوں کو پیرو ہونا آپ کیلئے کیا موجب فضل و شرف ہوسکتا ہے، ایسے سطحی لوگوں کا بےسوچے سمجھے ایمان لے آنا آپ کا کونسا کمال ہے، بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ تم اور تمہارے ساتھی سب چھوٹے ہو بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک نئی بات پیش کی اور چند بیوقوف گھٹیا قسم کے لوگوں نے ہاں میں ہاں ملا دی تاکہ اس طرح ایک نئ تحریک کھڑی کرکے مالی منفعت اور سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ) یہ ہے ان ملعونوں کی تقریر کا خلاصہ (
حضرت نوح (علیہ السلام) کے جوابات کا خلاصہ : یا قوم ارایتم ان کنت علی بینۃ من رّبی الخ یہاں سے حضرت نوح (علیہ السلام) کے جوابات کی تقریر شروع ہو رہی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول کا بشر ہونا نبوت و رسالت کے منافی نہیں ہے بلکہ اگر غور کرو تو معلوم ہوگا کہ انسانوں کے رسول کا انسان ہونا ہی ضروری ہے تاکہ انسان کیلئے اس سے استفادہ آسان ہو، انسان اور فرشتے کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے، اگر فرشتہ کا رسول بنا کر بھیج دیا جاتا تو انسان کیلئے اس سے استفادہ نہایت دشوار ہوتا کیونکہ فرشتہ کو نہ تو بھوک لگتی ہے اور نہ پیاس نہ نیند آتی ہے اور نہ تھکان ہوتی ہے اور نہ اس کو انسانی ضروریات و حوائج پیش آتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کو انسانی کمزوری اور ضرورت کا احساس نہیں ہوتا، یہ مضمون قرآن کی دوسری آیتوں میں صراحۃ وکنایۃ آچکا ہے یہاں اس کا ذکر کرنے کے بجائے یہ بتلایا کہ اگر عقل سے کام لو تو رسول کیلئے یہ تو ضروری نہیں کہ وہ بشر نہ ہو البتہ یہ ضروری ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی بینہ اور حجت اس کے پاس ہو، جس کو دیکھ کر لوگوں کو یہ تسلیم کرنا آسان ہوجائے کہ یہ خدا ہی کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہے اور بینہ اور حجت عام لوگوں کیلئے انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات ہوتے ہیں اسی لئے نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اپنے ساتھ بینہ اور حجت اور رحمت لیکر آیا ہوں اگر تم اس کو دیکھتے اور اس میں غور کرتے تو انکار نہ کرتے مگر تمہارے انکار وعناد نے تمہاری نگاہوں کو اس سے اندھا کردیا کہ تم انکار اور ضد پر جمے رہے۔
مگر خدا کی یہ رحمت پیغمبر کے ذریعہ آتی ہے ایسی چیز نہیں کہ زبردستی لوگوں کے سر ڈال دی جائے جب تک وہ خود اس کی طرف رغبت نہ کریں، اس میں اشارہ پایا گیا کہ دولت ایمان کہ جو میں لے کر آیا ہوں اگر میرا بس چلتا تو تمہارے انکار اور ضد کے باوجود تمہیں دے ہی دیتا، مگر یہ قانون قدرت کے خلاف ہے، یہ نعمت زبردستی کسی کے سر نہیں ڈالی جاسکتی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زبردستی کسی کو مومن و مسلمان بنانا کسی دور نبوت میں جائز نہیں رہا، بزور شمشیر اسلام پھیلانے کا سفید جھوٹ گھڑنے والے خود بھی اس حقیقت سے بیخبر نہیں، مگر ایک بات ہے جو ناواقفوں کے دلوں میں تردد پیدا کرنے کیلئے چلتی کی جاتی ہے۔
اعتراض کا دوسرا جزء : دوسرا جزء جس کو |" وَمَا نراکَ اتبعَکَ اِلا الذین ھم اراذلنا بادی الرای |" سے بیان کیا ہے یعنی دیکھئے کہ آپ کی پیروی کرنے والے اور آپ پر ایمان لانے والے سب حقیر و ذلیل لوگ ہیں ان میں کوئی شریف اور بڑا آدمی نظر نہیں آتا۔ ایک مطلب تو اس کو یہ ہے کہ اگر تمہاری بات حق ہوتی تو قوم کے بڑے لوگ اس کو قبول کرتے ان ذلیل اور کمزور لوگوں کا قبول کرنا اس کی علامت ہے کہ آپ کی دعوت ہی قبول کرنے کے لائق نہیں اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لئے آپ کی دعوت ایمان قبول کرنے سے رکاوٹ یہ ہے کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو بحیثیت مسلمان ہم بھی ان کے برابر سمجھے جائیں گے نمازوں کی صفوں اور دوسرے مجالس میں ہمیں ان کے ساتھ ان کے برابر بیٹھنا پڑے گا یہ ہم سے نہیں ہوسکتا۔
تجربہ شاہد ہے کہ جاہ و مال کا ایک نشہ ہوتا ہے جو انسان کو بہت سے معقول اور صحیح باتوں کو قبول کرنے سے روک دیتا ہے، کمزور اور غریب آدمی کے سامنے یہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں، یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے عادۃ اللہ یہی رہی ہے کہ پیغمبروں پر اول ایمان لانے والے غرباء اور کمزور طبقے کے لوگ ہی ہوتے ہیں، اور پچھلی آسمانی کتابوں میں اس کی تصریحات موجود ہیں، اسی وجہ سے جب ہرقل بادشاہ روم کے پاس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعوتی نامہ مبارک پہنچا تو اس کو یہ فکر ہوئی کہ معاملہ کی تحقیق کرے چونکہ وہ تورات و انجیل میں انبیاء (علیہم السلام) کی علامات پڑھے ہوئے تھا اسلئے عرب کے جو لوگ جن میں ابو سفیان بھی شامل تھے ملک شام میں آئے ہوئے تھے ان کو اپنے دربار میں بلا کر ان سے مدعی نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں چند سوالات کئے۔
ان سوالات میں ایک یہ بھی تھا کہ ان کی اتباع کرنے والے قوم کے کمزور طبقہ کے لوگ ہیں یا وہ جو قوم کے بڑے کہلاتے ہیں، ان لوگوں نے بتلایا کہ کمزور اور غریب لوگ ہیں، اس پر ہرقل نے اقرار کیا کہ یہ علامت تو سچے نبی ہونے کی ہے اسلئے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے پیرواول یہی کمزور اور غریب لوگ ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ غرباء و مساکین کو نیچ اور ذلیل سمجھنا ان کی جہالت تھی حقیقت میں ذلیل و رذیل تو وہ شخص ہے جو اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے کو نہ پہچانے اس کے احکام سے روگردانی کرے۔
یا قوم۔۔۔۔ مالا الخ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے واضح الفاظ میں یہ بات صاف کردی کہ میں اس پیغام رسانی کے عوض تم سے کوئی اجرت و مالی منفعت نہیں چاہتا میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے لہٰذا تمہارے دماغوں میں یہ شبہ نہ ہونا چاہیے کہ اس دعوائے نبوت سے کہیں ان کا مقصد دنیا کی دولت تو جمع کرنا نہیں ہے تمہاری دولت تم کو مبارک ہو میرا اجر تو اللہ پر ہے۔
وما انا۔۔۔۔ ربھم الخ یعنی اللہ اور رسول کے پیروکاروں کو حقیر سمجھنا پھر ان کو قرب نبوت سے دور کرنے کا مطالبہ کرنا یہ تمہاری جہالت ہے یہ لوگ تو اس لائق ہیں کہ انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے، نہ یہ کہ دھتکارا جائے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا ﴾ ” اور ہم نے نوح علیہ السلام کو بھیجا۔“ یعنی ہم نے نوح علیہ السلام کو اولین رسول بنا کر بھیجا۔ ﴿ إِلَىٰ قَوْمِهِ ﴾ ” ان کی قوم کی طرف۔“ جو انہیں اللہ کی طرف بلاتے تھے اور شرک سے روکتے تھے۔ انہوں نے اپنی قوم سے کہا : ﴿إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” میں تم کو کھول کھول کر ڈر سنانے آیا ہوں۔“ یعنی میں نے جس چیز سے تمہیں ڈرایا ہے اسے کھول کھول کر بیان کردیا ہے جس سے اشکال زائل ہوگیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney nooh ko unn ki qoam kay paas yeh paygham dey ker bheja kay : mein tumhen iss baat say saaf saaf aagah kernay wala payghumber hun .
12 Tafsir Ibn Kathir
آدم (علیہ السلام) کے بعد سب سے پہلا نبی ؟
سب سے پہلے کافروں کی طرف رسول بنا کر بت پرستی سے روکنے کے لیے زمین پر حضرت نوح (علیہ السلام) ہی بھیجے گئے تھے۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں اگر تم غیر اللہ کی عبادت نہ چھوڑو گے تو عذاب میں پھنسو گے۔ دیکھو تم صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو۔ اگر تم نے خلاف ورزی کی تو قیامت کے دن کے دردناک سخت عذابوں میں مجھے تمہارے لینے کا خوف ہے۔ اس پر قومی کافروں کے رؤسا اور امراء بول اٹھے کہ آپ کوئی فرشتہ تو ہیں نہیں ہم جیسے ہی انسان ہیں۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم سب کو چھوڑ کر تم ایک ہی کے پاس وحی آئے۔ اور ہم اپنی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ایسے رذیل لوگ آپ کے حلقے میں شامل ہوگئے ہیں کوئی شریف اور رئیس آپ کا فرماں بردار نہیں ہوا اور یہ لوگ بےسوچے سمجھے بغیر غور و فکر کے آپ کی مجلس میں آن بیٹھے ہیں اور ہاں میں ہاں ملائے جاتے ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس نئے دین نے تمہیں کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچایا کہ تم خوش حال ہوگئے ہو تمہاری روزیاں بڑھ گئی ہوں یا خلق و خلق میں تمہیں کوئی برتری ہم پر حاصل ہوگئی ہو۔ بلکہ ہمارے خیال سے تم سب سے جھوٹے ہو۔ نیکی اور صلاحیت اور عبادت پر جو وعدے تم ہمیں آخرت ملک کے دے رہے ہو ہمارے نزدیک تو یہ سب بھی جھوٹی باتیں ہیں۔ ان کفار کی بےعقلی تو دیکھئے اگر حق کے قبول کرنے والے نچلے طبقہ کے لوگ ہوئے تو کیا اس سے حق کی شان گھٹ گئی ؟ حق حق ہی ہے خواہ اس کے ماننے والے بڑے لوگ ہوں خواہ چھوٹے لوگ ہوں۔ بلکہ حق بات یہ ہے کہ حق کی پیروی کرنے والے ہی شریف لوگ ہیں۔ چاہے وہ مسکین مفلس ہی ہوں اور حق سے روگردانی کرنے والے ہیں ذلیل اور رذیل ہیں گو وہ غنی مالدار اور امیر امراء ہوں۔ ہاں یہ واقع ہے کہ سچائی کی آواز کو پہلے پہل غریب مسکین لوگ ہی قبول کرتے ہیں اور امیر کبیر لوگ ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں۔ فرمان قرآن ہے کہ تجھ سے پہلے جس جس بستی میں ہمارے انبیاء آئے وہاں کے بڑے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے آپ باپ دادوں کو جس دین پر پایا ہے ہم تو انہیں کی خوشہ چینی کرتے رہیں گے۔ شاہ روم ہرقل نے جو ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ شریف لوگوں نے اس کی تابعداری کی ہے یا ضعیف لوگوں نے ؟ تو اس نے یہی جواب دیا تھا کہ ضعیفوں نے جس پر ہرقل نے کہا تھا کہ رسولوں کے تابعدار یہی لوگ ہوتے ہیں۔ حق کی فوری قبولیت بھی کوئی عیب کی بات نہیں، حق کی وضاحت کے بعد رائے فکر کی ضرورت ہی کیا ؟ بلکہ ہر عقل مند کا کام یہی ہے کہ حق کو ماننے میں سبقت اور جلدی کرے۔ اس میں تامل کرنا جہالت اور کند ذہنی ہے۔ اللہ کے تمام پیغمبر بہت واضح اور صاف اور کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ میں نے جسے بھی اسلام کی طرف بلایا اس میں کچھ نہ کچھ جھجھک ضرور پائی سوائے ابوبکر صدیق (رض) کے کہ انہوں نے کوئی تردد و تامل نہ کیا واضح چیز کو دیکھتے ہی فوراً بےجھجھک قبول کرلیا ان کا تیسرا اعتراض ہم کوئی برتری تم میں نہیں دیکھتے یہ بھی ان کے اندھے پن کی وجہ سے ہے اپنی ان کی آنکھیں اور کان نہ ہوں اور ایک موجود چیز کا انکار کریں تو فی الواقع اس کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ یہ تو نہ حق کو دیکھیں نہ حق کو سنیں بلکہ اپنے شک میں غوطے لگاتے رہتے ہیں۔ اپنی جہالت میں ڈبکیاں مارتے رہتے ہیں۔ جھوٹے مفتری خالی ہاتھ رذیل اور نقصانوں والے ہیں۔