(نوح علیہ السلام نے) کہا: اے میری قوم! بتاؤ تو سہی اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر بھی ہوں اور اس نے مجھے اپنے حضور سے (خاص) رحمت بھی بخشی ہو مگر وہ تمہارے اوپر (اندھوں کی طرح) پوشیدہ کر دی گئی ہو، تو کیا ہم اسے تم پر جبراً مسلّط کر سکتے ہیں درآنحالیکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو،
English Sahih:
He said, "O my people, have you considered: if I should be upon clear evidence from my Lord while He has given me mercy from Himself but it has been made unapparent to you, should we force it upon you while you are averse to it?
1 Abul A'ala Maududi
اس نے کہا "اے برادران قوم، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ کو اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر وہ تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپیک دیں؟
2 Ahmed Raza Khan
بولا اے میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی تو تم اس سے اندھے رہے، کیا ہم اسے تمہارے گلے چپیٹ (چپکا) دیں اور تم بیزار ہو
3 Ahmed Ali
اس نے کہا اے میری قوم دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے صاف راستہ پر ہوں اور اس نے مجھ پر اپنے ہاں سے رحمت بھیجی ہو پھر وہ تمہیں دکھائی نہ دے تو کیا میں زبردستی تمہارے گلے مڑھ دوں اور تم اس سے نفرت کرتے ہو
4 Ahsanul Bayan
نوح نے کہا میری قوم والو! مجھے بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوا اور مجھے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو (١) پھر وہ تمہاری نگاہوں میں (٢) نہ آئی تو کیا یہ زبردستی میں اسے تمہارے گلے منڈھ دوں حالانکہ تم اس سے بیزار ہو (٣)۔
٢٨ ١ بینۃ سے مراد ایمان و یقین ہے اور رحمت سے مراد نبوت۔ جس سے اللہ تعالٰی نے حضرت نوح علیہ السلام کو سرفراز کیا تھا۔ ٢٨۔۲ یعنی تم اس کے دیکھنے سے اندھے ہوگئے۔ چنانچہ تم نے اس کی قدر پہچانی اور نہ اسے اپنانے پر آمادہ ہوئے، بلکہ اس کو جھٹلایا اور رد کے درپے ہوگئے۔ ٢٨۔۳جب یہ بات ہے تو ہدایت و رحمت تمہارے حصے میں کس طرح آ سکتی ہے؟
5 Fateh Muhammad Jalandhry
انہوں نے کہا کہ اے قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ تو کیا ہم اس کے لیے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہو رہے ہو
6 Muhammad Junagarhi
نوح نے کہا، میری قوم والو! مجھے بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل پر ہوا اور مجھے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو، پھر وه تمہاری نگاہوں میں نہ آئی تو کیا زبردستی میں اسے تمہارے گلے منڈھ دوں، حاﻻنکہ تم اس سے بیزار ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
نوح(ع) نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے (اس بات پر) غور کیا ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں؟ اور اس نے مجھے اپنی رحمت بھی عطا فرمائی ہے۔ جو تمہیں سجھائی نہیں دیتی۔ تو کہا ہم زبردستی اسے تمہارے اوپر مسلط کر سکتے ہیں۔ جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
انہوں نے جواب دیا کہ اے قوم تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل رکھتا ہوں اور وہ مجھے اپنی طرف سے وہ رحمت عطا کردے جو تمہیں دکھائی نہ دے تو کیا میں ناگواری کے باوجود زبردستی تمہارے اوپر لادسکتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
انہوں نے کہا کہ اے قوم ! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کی طرف دلیل (روشن) رکھتا ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے رحمت بخشی ہو جس کی حقیقت تم سے پوشیدہ رکھی گئی ہے تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ؟ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہو رہے ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قَالَ ﴾ بناء بریں نوح علیہ السلام نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” اے میری قوم ! اگر ہوں میں واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے“ یعنی جزم و یقین پر۔ معنی یہ ہے کہ نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے کامل رسول اور ایسے مقتدیٰ تھے جن کی پیروی بڑے بڑے عقل مند کرتے تھے جن کی عقل کے سامنے بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل مضمحل ہوجاتی تھی۔ در حقیقت وہ سچے تھے، لہٰذا جب وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں تو گواہی اور تصدیق کے لئے، تمہیں یہی قول کافی ہے۔ ﴿وَآتَانِي رَحْمَةً مِّنْ عِندِهِ ﴾ ” اور وہ دی ہے اس نے مجھے رحمت اپنی طرف سے“ یعنی اس نے میری طرف وحی کی، مجھے رسول بنا کر مبعوث کیا اور مجھ ہدایت سے نوازا ہے۔ ﴿ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ ﴾ ” پھر اسے تمہاری آنکھ سے مخفی رکھا“ یعنی جن کی حقیقت تم پر پوشیدہ ہوگئی اس لئے تم اسے قبول کرنے کے لئے نہ اٹھے۔ ﴿ أَنُلْزِمُكُمُوهَا ﴾ ” کیا ہم تمہیں اس چیز کو قبول کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں“ جوہمارے نزدیک متحقق ہے اور تم اس میں شک کرتے ہو ؟ ﴿وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ ﴾ ” جب کہ تم اسے ناپسند کرتے ہو“ یہاں تک کہ تم اس چیزکو ٹھکرانے کے حریص ہو جو میں لایا ہوں۔ یہ چیز ہمیں کوئی نقصان دے سکتی ہے نہ ہمارے یقین میں قادح ہے اور نہ تمہارا بہتان اور ہم پر تمہاری افتراپرادازی ہمیں ہمارے راستہ سے ہٹا سکتی ہے۔ اس کی غایت و انتہا تو صرف یہ ہے کہ وہ تمہیں اس راستے سے روک دے گی اور حق کے لئے تمہاری عدم اطاعت کی موجودگی جسے تم باطل سمجھتے ہو۔ جب حالت اس انتہا کو پہنچ جائے تو ہم تمہیں اس چیز پر مجبور کرنے کی قدرت نہیں رکھتے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور نہ ہم وہ چیز تم پر لازم کرسکتے ہیں جس سے تم نفرت کرتے ہو۔ بنا بریں فرمایا : ﴿ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَارِهُونَ ﴾ ” کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں جب کہ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
nooh ney kaha : aey meri qoam ! zara mujhay yeh batao kay agar mein apney perwerdigar ki taraf say aai hoi aik roshan hidayat per qaeem hun , aur uss ney mujhay khaas apney paas say aik rehmat ( yani nabwooat ) ata farmaee hai , phir bhi woh tumhen sujhai nahi dey rahi , to kiya hum uss ko tum per zabardasti musallat kerden jabkay tum ussay napasand kertay ho-?
12 Tafsir Ibn Kathir
بلا اجرت خیر خواہ سے ناروا سلوک حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جواب دیا کی سچی نوبت یقین اور واضح چیز میرے پاس تو میرے رب کی طرف سے آچکا ہے۔ بہت بڑی رحمت و نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی اور وہ تم سے پوشیدہ رہی تم اسے نہ دیکھ سکے نہ تم نے اس کی قدر دانی کی نہ اسے پہنچانا بلکہ بےسوچے سمجھے تم نے اسے دھکے دے دئیے اسے جھٹلانے لگ گئے اب بتاؤ کہ تمہاری اس ناپسندیدگی کی حالت میں میں کسیے یہ کرسکتا ہوں کہ تمہیں اس کا ماتحت بنا دوں ؟