ہود آية ۶۹
وَلَقَدْ جَاۤءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا ۗ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۤءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ
طاہر القادری:
اور بیشک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے، انہوں نے سلام کہا، ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی (جوابًا) سلام کہا، پھر (آپ علیہ السلام نے) دیر نہ کی یہاں تک کہ (ان کی میزبانی کے لئے) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے،
English Sahih:
And certainly did Our messengers [i.e., angels] come to Abraham with good tidings; they said, "Peace." He said, "Peace," and did not delay in bringing [them] a roasted calf.
1 Abul A'ala Maududi
اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ان کی ضیافت کے لیے) لے آیا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے بولے سلام کہا کہا سلام پھر کچھ دیر نہ کی کہ ایک بچھڑا بھنا لے آئے
3 Ahmed Ali
اور ہمارے بھیجے ہوئے ابراھیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے کہا سلام اس نے کہا سلام پس دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا
4 Ahsanul Bayan
اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغمبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے (١) اور سلام کہا (٢) انہوں نے بھی جواب میں سلام دیا (٣) اور بغیر کسی تاخیر کے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے (٤)
٦٩۔١ یہ دراصل حضرت لوط اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط علیہ السلام کی بستی بحرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط علیہ السلام کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ٹھہرے اور انہیں بیٹے کی بشارت دی۔
٦٩۔٢ یعنی سلمنا سلاما علیک ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں۔
٦٩۔٣ جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سالم مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبادت ہوگی;
اَمْرُکُمْ سَلَا م،ُ یا عَلَیْکُمْ سَلَام،ُ۔
٦٩۔٤ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معزور ہیں، بلکہ انہوں نے انہیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کر دیا جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
6 Muhammad Junagarhi
اور ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر پہنچے اور سلام کہا، انہوں نے بھی جواب سلام دیا اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم(ع) کے پاس خوشخبری لے کر آئے اور کہا تم پر سلام انہوں نے (جواب میں) کہا تم پر بھی سلام پھر دیر نہیں لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ابراہیم کے پاس ہمارے نمائندے بشارت لے کر آئے اور آکر سلام کیا تو ابراہیم نے بھی سلام کیا اور تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بھنا ہوا بچھڑا لے آئے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔
آیت نمبر ٦٩ تا ٨٣
ترجمہ : ہمارے فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اسحاق اور اس کے بعد یعقوب کی خوشخبری لے کر پہنچے، کہا تم پر سلام ہو سلامًا مصدر ہے ابراہیم نے کہا تم پر بھی سلام ہو کچھ) زیادہ ( دیر نہیں گزری کہ ابراہیم بھنا ہوا بچھڑا لے آئے مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑحٹے تو ان کو اجنبی محسوس کیا نَکِرَ بمعنی اَنکِرَ ہے تو ان کی طرف سے اپنے دل میں ابراہیم نے خوف محسوس کیا فرشتوں نے کہا خوف نہ کرو، ہمیں قوم لوط کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ ہم اس کو ہلاک کریں اور ابراہیم کی بیوی سارہ ان کی خدمت میں لگی ہوئی تھی تو وہ قوم کی ہلاکت) اور لوط ( کی) نجات کی ( بشارت سن کر ہنس پڑیں، تو ہم نے اس کو اسحاق اور اس کے بعد اس کے بیٹحے یعقوب کی خوشخبری دی اور وہ زندہ رہے گی حتی کہ وہ بھی اس کو دیکھے گی، وہ کہنے لگی ہائے میری کم بختی یہ ایک کلمہ ہے جو امر عظیم کے وقت بولا جاتا ہے اور) وَیْلتٰی ( کا الف یاء اضافت سے بدلا ہوا ہے کیا میرے اولاد ہوگی ؟ حالانکہ میں ٩٩ سال کی بوڑھی پھونس ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں ان کی عمر ١٢٠ سال ہے) شیخاً ( حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس کا عامل ہذا بمعنی اشیر ہے، یہ یقیناً بڑی عجیب بات ہے کہ بوڑھے خاوند اور بیوی کے اولاد ہو، فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت اور اس کی رحمت اور اپنے اوپر برکتوں سے تعجب کرتی ہے، اے ابراہیم کے گھر انے والو بیشک وہ قابل ستائش کریم ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) کا خوف ختم ہوگیا، اور اس کو جب لڑکے کی خوشخبری پہنچ گئی تو وہ قوم لوط کے معاملہ میں ہم سے) یعنی (ہمارے فرشتوں سے کہنے سننے لگے یقیناً ابراہیم بہت تحمل کرنے والے بہت صبر کرنے والے نرم دل) اللہ کی طرف ( جھکنے والے تھے، ) ابراہیم (علیہ السلام) ( نے ان سے کہا تم ایسی بستی والوں کو ہلاک کردو گے جس میں تین سو مومن موجود ہیں، فرشتوں نے جواب دیا، نہیں، ) پھر ( کہا تم ایسی بستی کو ہلاک کردو گے جس میں دو سو مومن موجود ہیں، کہا نہیں، ) پھر ( کہا کیا تم ایسی بستی کو تباہ کردو گے جس میں چالیس مومن موجود ہیں، جواب دیا نہیں) پھر کہا ( کیا تم ایسی بستی کو تباہ کردو گے جس میں چودہ مومن موجود ہیں ؟ جواب دیا نہیں، ) پھر ابراہیم (علیہ السلام) ( نے کہا کیا تم ایسی بستی کو تباہ کرنا مناسب سمجھو گے جس میں ایک مومن ہو، جواب دیا، نہیں، ) پھر ( ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اس بستی میں لوط (علیہ السلام) ہیں، فرشتوں نے جواب دیا ہمیں خوب معلوم ہے جو اس بستی میں ہے جب ان کے درمیان کہا سنی طویل ہوگئی تو فرشتوں نے کہا، اے ابراہیم (علیہ السلام) اس بحث و تکرار کو چھوڑ دو ان کی ہلاکت کیلئے تیرے رب کا حکم آچکا ہے اور ان پر نہ ٹلنے والا عذان ضرور آنے والا ہے، اور جب ہمارے فرستادے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو ان کی وجہ سے غمگین ہوئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اس لئے کہ وہ خوبصورت مہمانوں کی شکل میں تھے، جس کی وجہ سے ان کے بارے میں اپنی قوم سے اندیشہ کیا، اور کہنے لگے آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے، جب قوم کو مہمانوں کی آمد کا علم ہوا تو دوڑتے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور وہ) ان مہمانوں کی آمد ہے ( پہلے ہی بدکاریوں میں مبتلا تھے اور وہ) بدکاری ( مردوں کے ساتھ ہم جنسی کا فعل تھی، لوط (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم کے لوگو یہ ہیں میری بیٹیاں ان سے نکاح کرلو یہ تمہارے لئے پاکیزہ تر ہیں اللہ سے ڈرو مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوانہ کرو کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ؟ جو بھلی بات کا حکم کرے اور بری بات سے روکے انہوں نے جواب دیا کہ تم بخوبی جانتے ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں کی کوئی حاجت نہیں ہے اور ہم جو چاہتے ہیں اس سے تم بخوبی واقف ہو یعنی ہم جنسی کا عمل، لوط (علیہ السلام) نے کہا کاش کہ مجھ میں تمہارا مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتی یا میں کسی طاقتور قبیلے کا سہارا پکڑتا جو میری مدد کرتا تو میں تمہارا مقابلہ کرتا، جب فرشتوں نے یہ صورت حال دیکھی تو کہا ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں یہ ایذا رسانی کی نیت سے تیرے پاس ہرگز نہیں پہنچ سکتے، پس تم اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر کچھ رات رہے نکل جا، تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیے تاکہ وہ اس عظیم عذاب کو نہ دیکھے جو ان پر نازل ہونے والا ہے، سوائے تیری بیوی کے رفع کے ساتھ احدٌ سے بدل ہے اور ایک قراءت میں نصب ہے اھل سے استثناء کی وجہ سے یعنی تو اس کو اپنے ساتھ نہ لیجانا اس لئے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان کو پہنچے گا کہا گیا کہ لوط (علیہ السلام) اپنی بیوی کو اپنے ہمراہ نہیں لے گئے اور کہا گیا ہے کہ وہ بھی نکلی تھی اور اس نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہا ہائے میری قوم، چناچہ ایک پتھر اس کو آکر لگا اور اس کو قتل کردیا (حضرت) لوط (علیہ السلام) نے فرشتوں سے ان کی ہلاکت کا وقت معلوم کیا انہوں نے بتایا کہ ان کی ہلاکت صبح کے وقت ہے لوط (علیہ السلام) نے عرض کیا میں اس سے بھی جلدی چاہتا ہوں تو جواب دیا کہ کیا صبح بالکل قریب نہیں ہے جب ان کی ہلاکت کا ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ان کی بستیوں کو زیر وزبر کردیا بایں صورت کہ جبرئیل (علیہ السلام) نے ان بستیوں کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پلٹ کر زمین پر ڈالدیا اور ہم نے ان بستیوں پر آگ میں پکے ہوئے مسلسل کنکر برسائے جو تیرے رب کی طرف سے نشان زدہ تھے یعنی اس پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جس کو اس کے ذریعہ ہلاک کیا جانا تھا عند ربک، مسومۃ کا ظرف ہے اور وہ پتھر یا ان کی بستیاں ظالموں یعنی اہل مکہ سے دور نہیں تھیں (شام آتے جاتے وہاں سے گزر ہوتا تھا) ۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مصدرٌ اس میں اشارہ ہے کہ سلامًا سلّمنا فعل محذوف کا مصدر ہے اس میں اس اعتراض کا جواب بھی ہوگیا کہ سلامًا، قالوا کا مقولہ ہے حالانکہ مقولہ مفرد نہیں ہوا کرتا، اس اضافہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلامًا مفرد نہیں ہے بلکہ سلّمنا سے مل کر جملہ ہے۔
قولہ : علیکم، مفسر علام نے علیکم محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ سلامٌ مبتداء ہے اور علیکم اس کی خبر محذوف ہے۔
سوال : سلامٌ نکرہ ہے اور نکرہ کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ سلامٌ میں تنوین تعظیم کی ہے ای سلامٌ عظیمٌ لہٰذا سلام کا مبتداء واقع ہونا درست ہوگیا یہ شرٌّ اَھَرَّ ذاناب کے قبیل سے ہے نیز یہاں بھی مقولہ کے مفرد ہونے کا اعتراض ختم ہوگیا۔
قولہ : بشریٰ خوش کن خبر، خوش کن خبر کا اثر چونکہ چہرۂ بشر ہوتا ہے اسلئے اس کو بشری کہتے ہیں، بشری سے یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق اور ابن اسحاق یعنی یعقوب کی خوش خبری مراد ہے جس کو آئندہ |" فبشرناھا باسحق الخ |" سے بیان کیا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ بشری سے عام خوشخبری مراد ہو تو اس میں حضرت لوط وغیرہ کی نجات اور اس کی بدکار قوم کی ہلاکت کی خوشخبری بھی شامل ہوگی، مفسر علام نے یہی آخری معنی مراد لئے ہیں۔
سوال : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں جملہ اسمیہ استعمال کیا اور فرشتوں نے جملہ فعلیہ اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ سلام کے جواب کو سلام سے بہتر ہونا چاہیے اسلئے کہ شریعت کا یہی اصول ہے جواب سلام سلام سے جب ہی احسن ہوگا کہ جب جواب میں جملہ اسمیہ استعمال کیا جائے جملہ اسمیہ جملہ فعلیہ سے احسن ہوتا ہے اسلئے کہ جملہ اسمیہ دوام
اور ثبات پر دلالت کرتا ہے۔
قولہ : اَنَکَرَھم، نکرَھم کی تفسیر انکرھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ لازم بمعنی متعدی ہے۔
قولہ : یاوَیْلَتَا، اصل میں یا ویلتیْ تھا یاء اضافت کو الف سے بدل دیا۔
قولہ : رحمۃ اللہ الخ یہ کلام مستانف ہے اور انکار تعجب کی علت ہے، یعنی تو اس سے تعجب نہ کر اسلئے کہ یہ تمہارے اوپر اللہ کی رحمت اور برکت ہے۔
قولہ : اَخَذَ یُجَادِلُنَا، یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ لَمَّا، کا جواب ماضی ہوتا ہے نہ کہ مضارع اور یہاں لَمَّا کا جواب یجادلنا مضارع واقع ہو رہا ہے جواب یہ ہے کہ یہاں اَخَذَ ماضی محذوف ہے اور وہی لَمَّا کا جواب ہے، اگرچہ ماضی مجازاً بھی لَمَّا کا جواب واقع ہوسکتا ہے بایں طور کہ مضارع پر لَمْ یا لَمَّا داخل ہوجائے مگر بہتر یہی ہے کہ حقیقۃً ماضی جواب واقع ہو۔
قولہ : شانِ چونکہ لفظ قوم میں ظرف بننے کی صلاحیت نہیں ہے اسلئے لفظ شان محذوف مان لیا تاکہ، فی کا ظرف بننا صحیح ہوجائے
قولہ : لَبطشتُ بکم اس میں اشارہ ہے کہ لَوْ کا جواب محذوف ہے۔
قولہ : بالرفع بدل الخ اس لئے کہ استثناء کلام غیر موجب میں بدل مختار ہوتا ہے۔
قولہ : استثناء من الاھل یعنی اِلاَّ امراتک، مِنَ الاھل سے استثناء ہے نہ کہ احدٌ سے اس لئے کہ اَحَدٌ سے استثناء قرار دینے میں امراۃ کا التفات کا حکم دینا لازم آئے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔
فائدہ : اِلاَّ امرأتک، نصب کے ساتھ یہ جمہور کی قراءت ہے اور ابو عمرو اور ابن کثیر کے نزدیک احدٌ سے بدل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، پہلی قراءت کی صورت میں اِمْراتہ، فاسر باھلک، سے مستثنیٰ ہوگا، ای اسر باھلک جمیعاً الاَّ امرأتک فلا تسربھا، رفع کی قراءت کا ایک جماعت نے انکار کیا ہے، ان میں ابوعبید بھی شامل ہیں۔ (فتح القدیر شوکانی)
تفسیر و تشریح
ولقد جاءت۔۔۔ بالبشری، یہ دراصل حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے قصے کا ایک حصہ ہے حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادرزادہ یعنی اپنے بھائی ہاران کے بیٹے ہیں حضرت لوط (علیہ السلام) کا بچپن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زیر سایہ گزرا تھا اور ان کی تربیت حضرت ابراہیم کی آغوش میں ہوئی تھی اس لئے انہوں نے اور حضرت سارہ نے سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کی تصدیق کی یہ دونوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرتوں میں بھی ہمیشہ ساتھ رہے، مصر کے سفر میں بھی یہ دونوں حضرات ساتھ تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستی بحیرۂ میت (Sea Dead) کے جنوب مشرق میں واقع تھی جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین میں مقیم تھے، جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیا گیا تو ان کی طرف فرشتے بھیجے گئے، یہ فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ٹھہرے اور انھیں بیٹے
کی بشارت دی۔
قالوا سلامًا۔۔۔ الخ، ای سلّمنا علَیْکَ سَلامًا، یعنی ہم آپ کو سلام کرتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بہتر طریقہ سے ان کے سلام کا جواب دیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اول وہلے میں یہ نہ سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں اور انسانی شکل میں آئے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ بڑے مہمان نواز تھے اس لئے فوراً ہی ان کے کھانے کا انتظام کیا اور بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لیکر حاضر ہوگئے مگر کھانا سامنے ہونے کے باوجود انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا ابراہیم کو اس سے اندیشہ ہوا کہ یہ مہمان نہیں معلوم ہوتے ممکن ہے کہ کسی غلط ارادہ سے آئے ہوں فرشتے اس اندیشے کو سمجھ گئے اور یہ کہتے ہوئے کہ ہم انسان نہیں فرشتے ہیں اندیشہ کو دور کردیا ہم آپ کو فرزند کی بشارت دینے کے علاوہ ایک اور کام کیلئے بھیجے گئے ہیں، کہ قوم لوط پر عذاب نازل کردیں حضرت سارہ یہ ساری گفتگو سن رہی تھیں، حضرت سارہ اولاد کی خوشخبری سن کر ہنس پڑیں اور کہنے لگیں کہ کیا مجھ بڑھیا کے اولاد ہوگی اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں فرشتوں نے جواب دیا اللہ کی قدرت میں سب کچھ ہے تم اس سے تعجب نہ کرو آپ لوگوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل ہے۔ ان فرشتوں کی تعداد کیا تھی اس میں اقوال مختلف ہیں حضرت عبد اللہ بن عباس کا قول ہے کہ تین فرشتے تھے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے ہی معلوم ہوگیا تھا کہ یہ فرشتے ہیں اگر اس خیال کو درست مان لیا جائے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ پھر ان کے سامنے کھانا کیوں لائے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے۔
حضرت سارہ (علیہما السلام) کو لڑکے کی خوشخبری : فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بجائے حضرت سارہ کو لڑکے کی خوشخبری سنائی، اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سارہ ہی اولاد کی زیادہ متمنی اور خواہشمند تھیں اسلئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے یہاں تو حضرت ہاجرہ کے بطن سے پہلے ہی سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوچکے تھے حضرت سارہ بےاولاد تھیں ان کو خوش کرنے کیلئے فرشتوں نے حضرت سارہ کو خوشخبری سنائی اور خوشخبری صرف بیٹے اسحاق ہی کی نہیں سنائی بلکہ ساتھ ہی پوتے یعقوب کی بھی خوشخبری سنائی جس وقت یہ خوشخبری سنائی اس وقت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی عمر تیرہ سال تھی اور اس خوشخبری کے ایک سال بعد حضرت سارہ کے یہاں حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔
حضرت سارہ (علیہا السلام) کیوں ہنسیں : بعض حضرات کہتے ہیں کہ قوم لوط کی فساد انگیزیوں اور بدکاریوں سے وہ بھی واقف تھیں ان کی ہلاکت کی خبر سن کر ان کو بھی مسرت ہوئی، بعض کہتے ہیں کہ اس میں تقدیم و تاخیر ہے اور ہنسنے کا تعلق اسی اولاد کی بشارت سے ہے جو فرشتوں نے اس بوڑھے جوڑے کو دی۔
اہل بیت میں بیوی بھی شامل ہے : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کو فرشتوں نے اہل بیت میں شمار کیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اہل بیت کی اولین مصداق اہلیہ ہوتی ہے لہٰذا اس سے اہل تشیع کے اس عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ اہل بیت میں ازواج داخل نہیں، اہل تشیع اپنے دعوے پر لفظ علیکم سے استدلال کرتے ہیں کہ علیکم جمع مذکر کا صیغہ ہے جس میں مؤنث داخل نہیں حالانکہ سورة احزاب آیت ٣٣ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو بھی اہل بیت کہا گیا ہے اور انھیں بھی علیکم کے لفظ سے خطاب کیا ہے اور لفظ کی رعایت سے علیکم کہا گیا ہے۔
یجادلنا۔۔۔ لوط یہاں مجادلہ سے وہ کہا سنی مراد ہے جو قوم لوط کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور فرشتوں کے درمیان ہوئی تھی، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے کہا جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو اس میں لوط (علیہ السلام) اور دیگر مومنین موجود ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ فرشتوں نے جواب دیا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے لیکن ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچا لیں گے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کا بیان تو حضرت لوط (علیہ السلام) کے قصہ کیلئے بطور تمہید کے ہے۔
ولما جاءت۔۔۔ بھم الخ حضرت لوط (علیہ السلام) کی اس سخت پریشانی کی وجہ یہ لکھی ہے کہ یہ فرشتے جو مہمانوں کی شکل میں آئے تھے نو عمر، بےریش، نہایت خوبرو تھے، جس سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی عادت خبیثہ کے پیش نظر سخت خطرہ محسوس کیا کیونکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو ابھی تک پتہ نہیں تھا کہ یہ نو وارد مہمان فرشتے ہیں اور اسی قوم کو ہلاک کرنے کیلئے آئے ہیں۔ ادھر یہ ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی جو کافرہ تھی اس نے قوم کے اوباشوں کو اپنے یہاں خوبرو مہمانوں کی آمد کی اطلاع کردی چناچہ حضرت لوط ( علیہ السلام) کا اندیشہ سامنے آگیا اور قوم کے لوگ حضرت لوط (علیہ السلام) کے مکان پر چڑھ آئے، اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ اغلام بازی کی مخصوص شناعت کے علاوہ اور بھی بہت سی بری عادتوں میں مبتلا تھے، اور اجنبیوں اور پردیسیوں کے ساتھ تو ان کی بدسلوکی خاص طور پر بڑھی ہوئی تھی۔
قال یقوم۔۔۔ الخ بناتی کی تشریح اور مراد کی تعیین میں مفسرین کی کافی بحث ہوئی ہے آیا اس سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی صلبی بیٹیاں مراد ہیں یا امت کی عورتیں، ایک فریق نے صلبی بیٹیاں مراد لی ہیں یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے مہمانوں کی عزت و آبرو کا دفاع کرنے کیلئے اپنی بیٹیاں قوم کے سامنے پیش کردیں کہ تم میری ان بیٹیوں سے نکاح کرلو مگر مجھے اور میرے مہمانوں کو رسوا نہ کرو مگر قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی ایک نہ سنی اور کہہ دیا کہ تم کو معلوم ہے کہ ہم کس چیز کے خواہشمند ہیں لوط (علیہ السلام) کی شریعت میں مومنہ کا نکاح کافر سے جائز تھا اسلام کے ابتدائی زمانہ تک یہی حکم تھا، چناچہ آپ (علیہ السلام) نے اپنی دو صاحبزادیوں کے نکاح کافروں سے کئے تھے ایک کا عتبہ بن ابی الہب سے اور دوسری کا ابو العاص بن ربیع سے حالانکہ یہ دونوں کافر تھے، بعد میں کافر کے ساتھ مومنہ کے نکاح کی حرمت نازل ہوئی۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں بنات سے قوم کی عورتیں مراد ہیں اسلئے کہ نبی قوم کیلئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور امت بمنزلہ اولاد کے قرین قیاس بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ بنات سے صلبی بیٹیاں مراد نہیں ہوسکتیں اسلئے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی کل دو یا تین بیٹیاں تھیں اور گھر پر چڑھ آنیوالا ایک کثیر مجمع تھا، دو یا تین لڑکیوں سے دو یا تین آدمیوں کا نکاح ہوسکتا تھا باقی لوگوں کا کیا ہوتا ؟ بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ ان کے دو سردار تھے ان کیلئے حضرت لوط (علیہ السلام) نے نکاح کی پیش کش کی تھی تاکہ وہ اپنی قوم کو مہمانوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے روکیں مگر وہ تاویل دل کو نہیں لگتی اس لئے کہ مزاج پوری قوم کا فاسد ہوچکا تھا وہ اس فعل شنیع سے باز آنیوالے نہیں تھے اور نہ اس میں کسی قسم کی قباحت محسوس کرتے تھے چناچہ مندرجہ ذیل مفسرین نے امت کی عورتیں ہی مراد ہیں۔
المراد نساء امتہٖ (کبیر عن مجاہد و سعید بن جبیر) وھذا القول عندی ھو المختار (کبیر) اخرج ابو الشیخ عن ابن عباس۔
قولہٗ |" ھٰؤلاء بناتی قال ما عَرَضَ لوطٌ بناتَہٗ علی قومِہٖ لاسفاحًا وَلا نکاحًا، انما قال ھٰؤلاءِ نساء کم، واَخرجَ ابن جریر وابن ابی حاتم عن سعید بن جبیر نحوہ، واخرج ابن ابی الدنیا وابن عساکر عن السّدی نحوہ۔ (فتح القدیر شوکانی)
جب لوط (علیہ السلام) اپنی قوم سے ہر طرح عاجز ہوگئے اور قوم نے ان کی ایک نہ سنی تو حضرت لوط (علیہ السلام) کی زبان پر یہ کلمات آگئے ” لَوْ أنَّ لی بکم قوۃ اَوْ آوی الی رکن شدید “ یعنی کاش مجھ میں اتنی قوت ہوتی کہ میں اس پوری قوم کا خود مقابلہ کرسکتا یا پھر میرا کوئی جتھا ہوتا تو مجھے ان ظالموں کے ہاتھوں سے نجات دلاتا فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کا اضطراب دیکھ کر بات کھول دی اور کہا گھبرائیے نہیں آپ کی جماعت بڑی قوی اور مضبوط ہے، ہم اللہ کے فرشتے ہیں ان کے قابو میں آنے والے نہیں ان پر عذاب واقع کرنے کے لئے آئے ہیں۔
اس واقع پر تورات کی عبارت : ” شہر کے مردوں یعنی سدوم کے مردوں نے جو ان سے لے کر بوڑھوں تک سب لوگوں نے ہر طرف سے اس گھر کا گھیر لیا اور انہوں نے لوط کو پکار کر کہا وہ مرد جو آج کی رات تیرے یہاں آئے ہیں کہاں ہیں ؟ انھیں ہمارے پاس باہر لاتا کہ ہم ان سے صحبت کریں تب لوط دروازہ سے ان کے پاس باہر گیا اور کواڑ اپنے پیچھے بند کیا اور کہا کہ اے بھائیو ایسا برا کام نہ کیجیو اب دیکھو میری دو بیٹیاں ہیں جو مرد سے واقف نہیں مرضی ہو تو ان کو تمہارے پاس نکال لاؤں، اور جو تمہاری نظر میں پسند ہو ان سے نکاح کرلو مگر ان مردوں سے کچھ کام نہ رکھو کیونکہ وہ اسی واسطے میری چھت کے سایہ میں آئے ہیں “۔ (پیدائش ٨٠٤: ١٩)
قوم لوط کا مسکن : شہر سدوم اور عمورہ بحر مردار کے ساحل پر واقع تھے اور قریش مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ان آبادیوں کی ہلاکت کا زمانہ جدید تحقیق کے مطابق ٢٠٦١ ق م ہے۔ (ماجدی)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا ﴾ ” تحقیق آئے ہمارے مکرم فرشتے“ ہمارے قاصد ﴿إِبْرَاهِيمَ ﴾ ” ابراہیم )علیہ السلام( کے پاس“ ﴿بِالْبُشْرَىٰ ﴾ ” بشارت کے ساتھ“۔ یعنی بیٹے کی بشارت کے ساتھ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لئے بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے ہو کر جائیں اور ان کو اسحق کی خوشخبری دیتے جائیں، تو جب فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے ﴿قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ ﴾ ” تو انہوں نے سلام کیا‘ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔“ یعنی فرشتوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو اور ابراہیم علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا۔ اس آیت مقدسہ میں سلام کرنے کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ملت ابراہیمی میں کلام کرنے سے پہلے سلام کا طریقہ ہمیشہ سے رہا ہے اور مناسب یہ ہے کہ سلام کا جواب سلام کرنے سے زیادہ بلیغ ہو، کیونکہ ان کا سلام جملہ فعلیہ کے ذریعے سے تجدد پر دلالت کرتا ہے اور جملہ اسمیہ کے ذریعے سے ان کے سلام کا جواب ثبات اور استمرار پر دلالت کرتا ہے، دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے جیسا کہ عربی زبان کے علم میں معروف ہے۔
﴿فَمَا لَبِثَ ﴾ ” انہوں نے کچھ تاخیر نہ کی۔“ یعنی جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے تاخیر نہ کی ﴿أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ﴾ ” اور ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔“ یعنی وہ جلدی سے اپنے گھر گئے اور اپنے مہمانوں کے لئے ایک موٹا تازہ اور گرم پتھر پر بھنا ہوا بچھڑا لے آئے اور ان کے سامنے پیش کیا اور بولے : ﴿أَلَا تَأْكُلُونَ ﴾(الذاریات:51؍27) ” تم کھاتے کیوں نہیں؟
11 Mufti Taqi Usmani
aur humaray farishtay ( insani shakal mein ) Ibrahim kay paas ( beta peda honey ki ) khushkhabri ley ker aaye . unhon ney salam kaha , Ibrahim ney bhi salam kaha , phir Ibrahim ko kuch dair nahi guzri thi kay woh ( unn ki mehmani kay liye ) aik bhuna huwa bachrra ley aaye ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ابراہیم (علیہ السلام) کی بشارت اولاد اور فرشتوں سے گفتگو
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس وہ فرشتے بطور مہمان بشکل انسان آتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کی خوشخبری اور حضرت ابراہیم کے ہاں فرزند ہونے کی بشارت لے کر اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔ وہ آکر سلام کرتے ہیں۔ آپ ان کے جواب میں سلام کہتے ہیں۔ اس لفظ کو پیش سے کہنے میں علم بیان کے مطابق ثبوت و دوام پایا جاتا ہے۔ سلام کے بعد ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے سامنے مہمان داری پیش کرتے ہیں۔ بچھڑے کا گوشت جسے گرم پتھروں پر سینک لیا گیا تھا، لاتے ہیں۔ جب دیکھا کہ ان نو وارد مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے ہی نہیں، اس وقت ان سے کچھ بدگمان سے ہوگئے اور کچھ دل میں خوف کھانے لگے حضرت سدی فرماتے ہیں کہ ہلاکت قوم لوط کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے وہ بصورت نوجوان انسان زمین پر آئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر پر اترے آپ نے انہیں دیکھ کر بڑی تکریم کی، جلدی جلدی اپنا بچھڑا لے کر اس کو گرم پتھوں پر سینک کر لا حاضر کیا اور خود بھی ان کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ گئے، آپ کی بیوی صاحبہ حضرت سارہ کھلانے پلانے کے کام کاج میں لگ گئیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتے کھانا نہیں کھاتے۔ وہ کھانے سے رکے اور کہنے لگے ابراہیم ہم جب تلک کسی کھانے کی قیمت نہ دے دیں کھایا نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا ہاں قیمت دے دیجئے انہوں نے پوچھا کیا قیمت ہے، آپ نے فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرنا اور کھانا کھا کر الحمد اللہ کہنا یہی اس کی قیمت ہے۔ اس وقت حضرت جبرائیل نے حضرت میکائیل کی طرف دیکھا اور دل میں کہا کہ فی الواقع یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا خلیل بنائے۔ اب بھی جو انہوں نے کھانا شروع نہ کیا تو آپ کے دل میں طرح طرح کے خیالات گذرنے لگے۔ حضرت سارہ نے دیکھا کہ خود حضرت ابراہیم ان کے اکرام میں یعنی ان کے کھانے کی خدمت میں ہیں، تاہم وہ کھانا نہیں کھاتے تو ان مہمانوں کی عجیب حالت پر انہیں بےساختہ ہنسی آگئی۔ حضرت ابراہیم کو خوف زدہ دیکھ کر فرشتوں نے کہا آپ خوف نہ کیجئے۔ اب دہشت دور کرنے کے لیے اصلی واقعہ کھول دیا کہ ہم کوئی انسان نہیں فرشتے ہیں۔ قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں کہ انہیں ہلاک کریں۔ حضرت سارہ کو قوم لوط کی ہلاکت کی خبر نے خوش کردیا۔ اسی وقت انہیں ایک دوسری خوشخبری بھی ملی کہ اس ناامیدی کی عمر میں تمہارے ہاں بچہ ہوگا۔ انہیں عجب تھا کہ جس قوم پر اللہ کا عذاب اتر رہا ہے، وہ پوری غفلت میں ہے۔ الغرض فرشتوں نے آپ کو اسحاق نامی بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی۔ اور پھر اسحاق کے ہاں یعقوب کے ہونے کی بھی ساتھ ہی خوش خبری سنائی۔ اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ کیونکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی تو بشارت دی گئی تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاں بھی اولاد ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔ یہ سن کر حضرت سارہ (علیہ السلام) نے عورتوں کی عام عادت کے مطابق اس پر تعجب ظاہر کیا کہ میاں بیوی دونوں کے اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں اولاد کیسی ؟ یہ تو سخت حیرت کی بات ہے۔ فرشتوں نے کہا امر اللہ میں کیا حیرت ؟ تم دونوں کو اس عمر میں ہی اللہ بیٹا دے گا گو تم سے آج تک کوئی اولاد نہیں ہوئی اور تمہارے میاں کی عمر بھی ڈھل چکی ہے۔ لیکن اللہ کی قدرت میں کمی نہیں وہ جو چاہے ہو کر رہتا ہے، اے نبی کے گھر والو تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں، تمہیں اس کی قدرت میں تعجب نہ کرنا چاہے۔ اللہ تعالیٰ تعریفوں والا اور بزرگ ہے۔