ہود آية ۸۴
وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۗ وَلَا تَـنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ اِنِّىْۤ اَرٰٮكُمْ بِخَيْرٍ وَّاِنِّىْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ
طاہر القادری:
اور (ہم نے اہلِ) مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام کو بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کرو تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور ناپ اور تول میں کمی مت کیا کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور میں تم پر ایسے دن کے عذاب کا خوف (محسوس) کرتا ہوں جو (تمہیں) گھیر لینے والا ہے،
English Sahih:
And to Madyan [We sent] their brother Shuaib. He said, "O my people, worship Allah; you have no deity other than Him. And do not decrease from the measure and the scale. Indeed, I see you in prosperity, but indeed, I fear for you the punishment of an all-encompassing Day.
1 Abul A'ala Maududi
اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا اُس نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو آج میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں، مگر مجھے ڈر ہے کہ کل تم پر ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کا عذاب کا ڈر ہے
3 Ahmed Ali
اورمدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا کہ اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول کو نہ گھٹاؤ میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے مدین والوں (١) کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کرو (٢) میں تمہیں آسودا حال دیکھ رہا ہوں (٣) اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بھی) ہے۔
٨٤۔١ مدین کی تحقیق کے لئے دیکھئے سورۃ الا عراف، آیت ٨٥ کا حاشیہ۔
٨٤۔٢ توحید کی دعوت دینے کے بعد اس قوم میں جو نمایاں اخلاقی خرابی۔ ناپ تول میں کمی کی تھی اس سے انہیں منع فرمایا۔ ان کا معمول بن چکا تھا جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی چیز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول میں زائد چیز لیتے اور جب خریدار (مشتری) کو کوئی چیز فروخت کرتے تو ناپ میں بھی کمی کر کے دیتے اور تول میں ڈنڈی مار لیتے۔
٨٤۔٣ یہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب اللہ تعالٰی تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے تمہیں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر تم یہ قبیح حرکت کیوں کرتے ہو۔
٨٤۔٤یہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پھر اندیشہ ہے کہ قیامت والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گھیرنے والے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہا اس دن کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بھاگ کر کہیں چھپ سکے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) تو اُنہوں نے کہا کہ اے قوم! خدا ہی کی عبادت کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تو تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور (اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو) مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تم کو گھیر کر رہے گا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم ناپ تول میں بھی کمی نہ کرو میں تو تمہیں آسوده حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف (بھی) ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے اہلِ مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے اور ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ میں تمہیں اچھے حال میں دیکھ رہا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ (کفرانِ نعمت اور غلط کاری سے) عذاب کا ایسا دن نہ آجائے جو سب کو گھیر لے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم اللہ کی عبادت کر کہ اس کہ علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے میں اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کرلے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) تو انہوں نے کہا اے قوم ! خدا ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اور ناپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تو تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور (اگر تم ایمان نہ لاؤ گے تو) مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تم کو گھیر کر رہے گا۔
آیت نمبر ٨٤ تا ٩٥
ترجمہ : اور ہم نے اہل مدین کی جانب ان کے بھائی شعیب کو بھیجا انہوں نے کہا میرے برادران قوم اللہ کی بندگی کرو یعنی اس کو ایک سمجھو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں، اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو، میں تم کو خوش حالی میں دیکھ رہا ہوں جس کی وجہ سے تم کو تولنے اور کم ناپنے سے مستغنی ہو، اگر تم ایمان نہ لائے تو مجھے تمہارے بارے میں تم کو گھیرنے والے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جو تم کو ہلاک کر دے گا، اور یوم کی صفت محیط مجاز ہے عذاب کے اس میں واقع ہونے کی وجہ سے، اور اے میرے برادران قوم تم انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں نقصان نہ پہنچاؤ، (یعنی) ان کے حق میں کچھ بھی کمی نہ کرو، اور قتل وغیرہ کے ذریعہ ملک میں فساد پھیلاتے مت پھرو، (تَعْثَوْا) عَثِنَی، ثاء کے کسرہ کے ساتھ ہے، بمعنی اَفْسَدَ ، اور مفسدین اپنے عامل تَعْثَوْا کے معنی سے حال مؤکدہ ہے، پورا تولنے اور ناپنے کے بعد اللہ کا دیا ہوا جو تمہارے پاس بچ جائے وہ کم دینے سے بہت بہتر ہے اگر تمہیں یقین آوے اور میں تم پر نگہبان نہیں ہوں کہ تم کو تمہارے اعمال کا بدلہ دوں مجھے تو آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے تو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) سے استہزاء کے طور پر کہا اے شعیب کیا تیری نماز تجھ کو اس بات کا حکم کرتی ہے کہ تو ہم کو اس بات کا مکلف بنائے کہ ہم ان بتوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے آباؤ اجداد بندگی کرتے تھے یا یہ کہ ہم اپنے مالوں میں اپنی منشا کے مطابق تصرف کرنا چھوڑ دیں، مطلب یہ کہ یہ غلط بات ہے کوئی خیر کی دعوت دینے والا اس کی دعوت نہیں دے سکتا، واقعی تم بڑے عقلمند دین پر چلنے والے ہو، انہوں نے یہ بات تمسخر کے طور پر کہی، شعیب (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لئے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین حلال روزی دے رکھی ہے کیا میں اس میں حرام کی جو کہ وہ نجس اور کم ناپ تول ہے آمیزش کر دوں اور میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمہاری مخالفت کروں اور میں جس چیز سے تمہیں منع کرتا ہوں اس کی مخالفت کرکے اسی کی طرف چلا جاؤں یعنی خود اس کا ارتکاب کرلوں اور میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر انصاف کے ساتھ تمہاری اصلاح کرنے ہی کا ہے اور میری توفیق یعنی میری قدرت اس پر اور اس کے علاوہ پر اللہ ہی کی مدد سے ہے اور اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں اور اے میری قوم کے لوگو کہیں ایسا نہ ہو کہ میری مخالفت تم کو مجرم بنا دے (شِقاقی) یَجْرمُ کا فاعل ہے اور کُمْ ضمیر مفعولِ اول ہے اور دوسرا مفعول اَنْ یُصیبَکم الخ ہے، اور تم کو ویسا ہی عذاب پہنچ جائے جیسا قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح کو پہنچا تھا، اور قوم لوط یعنی اسکے مکانات یا ان کی ہلاکت کا زمانہ تم سے دور نہیں ہے، لہٰذا عبرت حاصل کرو اور اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو، یقین مانو میرا رب مومنین پر بڑا مہربان اور ان سے بہت محبت کرنے والا ہے بےتوجہی کو ظاہر کرنے کیلئے ان لوگوں نے کہا اے شعیب تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں، اور ہم تو تجھ کو اپنے اندر کمزور ذلیل پاتے ہیں، اگر تیرے قبیلہ کا خیال نہ ہوتا یقیناً ہم تجھے سنگسار کردیتے اور تجھ کو سنگسار کردینا ہمارے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا البتہ تیرا قبیلہ عزت دار ہے، شعیب (علیہ السلام) نے جواب دیا اے میری قوم کے لوگو کیا میرا قبیلہ تمہارے نزدیک اللہ سے بھی زیادہ ذی عزت ہے ؟ کہ جن کی وجہ سے تم میرے قتل سے باز رہتے ہو، اور اللہ کیلئے میری حفاظت نہیں کرتے ہو اور تم نے اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے یعنی تم نے اس کو پس پشت ڈالا ہوا سمجھ لیا ہے جس کی وجہ سے تم اس کی نگہداشت نہیں کرتے ہو بلاشبہ میرا رب تمہارا علمی احاطہ کئے ہوئے ہے لہٰذا وہ تم کو جزاء دے گا، اور اے میری قوم کے لوگو تم اپنے طریق پر عمل کئے جاؤ اور میں اپنے طور پر عمل کر رہا ہوں تمہیں عنقریب معلوم ہوجائیگا کہ مَن موصولہ تعلمون کا مفعول ہے کون ہے وہ کہ جس کے پاس رسوا کن عذاب آئیگا ؟ اور جھوٹا کون ہے ؟ اور تم اپنے معاملہ کے انجام کا انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں، اور جب انکو ہلاک کرنے کا ہمارا حکم آگیا تو ہم نے شعیب (علیہ السلام) کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے اپنی رحمت سے بچا لیا اور ظالموں کو ایک چیخ نے جس کو جبرائیل (علیہ السلام) نے مارا تھا پکڑ لیا تو وہ اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل مردہ ہو کر پڑے رہ گئے (کأنْ ) مخففہ ہے یعنی اصل میں کأنَّھم تھا گویا کہ وہ ان گھروں میں کبھی رہتے ہی نہ تھے، خوب سن لو (اہل) مدین کو (رحمت سے) دوری ہوئی جیسی دوری ثمود کو ہوئی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : مَدْیَنَ ، ای اھل مدین ، شعیب (علیہ السلام) اسی قوم کے ایک فرد تھے جو ان کی طرف مبعوث کئے گئے تھے، مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا نام ہے جو ہاجری اور سارہ کے علاوہ ایک تیسری بیوی قطورا کے بطن سے تھے ان ہی کے نام پر ایک شہر کا نام مدین رکھا گیا، اس کا محل و قوع عقبہ سے شرقی جانب تھا آج کل اس کو ” معان “ کہتے ہیں یہ لوگ تجارت پیشہ تھے مصر فلسطین اور لبنان سے تجارت کرتے تھے۔
قولہ : وصف الیوم بہ مجازٌ لوقوعہ فیہ، یہ عبارت اس سوال کا جواب ہے کہ محیط، عذاب کی صفت ہے نہ کہ یوم کی حالانکہ محیط کی اضافت یوم کی جانب ہے۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ اس میں مجاز ہے چونکہ عذاب یوم میں واقع ہوگا اور یوم عذاب کا ظرف ہوگا اسی مناسبت کی وجہ سے مظروف کی اضافت ظرف کی جانب کردی ہے۔
قولہ : حال مؤکدۃ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ تَعْثَوْا کے معنی فساد کے ہیں اور مفسدین کے معنی بھی فساد کے ہیں لہٰذا اس میں تکرار ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ تکرار نہیں بلکہ باعتبار معنی کے تاکید ہے۔
قولہ : لا تَعْثَوْا عِثِیٌّ اور عُثِیٌ سے نہی جمع مذکر حاضر، تم فساد برپا نہ کرو۔
قولہ : لمعنی عاملھا، یعنی مفسدین اپنے عامل لا تَعْثَوا کے معنی سے حال ہے اور معنی فساد ہیں۔
قولہ : بَقیَّتُ اللہ لمبی تاء (تاء مطلولہ) کے ساتھ اور ابو عمرو، کسائی اور باقیوں نے تاء مدورہ کے ساتھ پڑھا ہے، بَقیّۃ بچی ہوئی چیز، فعیلۃ کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے یعنی پورا تولنے اور حقوق ادا کرنے کے بعد جو بچے وہ تمہارے لئے اس سے بدد جہا بہتر ہے جو تم کم ناپ تول کر لوگوں کے حقوق مار کر بچا کر اور جمع کرتے ہو، بقیت کی اضافت اللہ کی طرف اس لئے ہے کہ اس ہی نے رزق عطاء کیا ہے یہاں طاعت اور اعمال صالحہ کے معنی میں نہیں ہے۔
قولہ : بتکلیفنا ای بتکلیفک ایّانا، بتکلیفنا مقدر مان کر مفسر علام نے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔
سوال : یہ ہے کہ ترک، کفار کا فعل ہے اور مامور اَصَلٰوتک تامرکَ میں شعیب (علیہ السلام) ہیں ترک کا ترجمہ یہ ہوگا اے شعیب کیا تیری نماز تجھ کو یہ حکم کرتی ہے کہ ہم بتوں کی بندگی ترک کردیں، اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ترک کا حکم تو شعیب (علیہ السلام) کو ہو اور عمل اس پر کافر کریں۔
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے اور وہ بتکلیفنا ہے، اب ترجمہ یہ ہوگا کہ اے شعیب کیا تیری نماز تجھ کو اس بات کا حکم کرتی ہے کہ تو ہم کو بتوں کی بندگی کو ترک کا مکلف بنائے۔
قولہ : نَتْرک، اس سے اشارہ کردیا کہ اَنْ نفعل کا بتاویل مصدر ہو کر مَا پر عطف ہے۔
قولہ : افَأشوبہ اس کے حذف میں اشارہ ہے اِنْ شرطیہ کا جواب محذوف ہے۔
قولہ : وَاَذْھَبْ ۔ سوال : اَذْھَبَ مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : اس لئے کہ یہاں اخالفَ کا صلہ اِلیٰ لایا گیا ہے حالانکہ اخالف کا صلہ الیٰ نہیں آتا بلکہ عن آتا ہے اذھب محذوف مان کر بتادیا کہ اخالفَ اَذْھَبَ کے معنی کو متضمن ہے لہٰذا الی صلہ لانا درست ہے۔
قولہ : ظِھْرِیًّا پس پشت ڈالا ہوا، الظھری ظَھْر کی جانب منسوب ہے، عرب کی یہ عادت ہے کہ کسی چیز کی طرف نسبت کرتے ہوئے تلفظ میں تغیر کرلیتے ہیں مگر اس پر دوسرے لفظ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ یہ تغیر کسی قاعدہ کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ غیر قیاسی ہوتا ہے مثلاً بصریٌ کسرہ کے ساتھ بولتے ہیں حالانکہ قیاس فتحہ کے ساتھ ہے اسی طریقہ پر ظھریٌ ہے حالانکہ قیاس ظَھْریٌ فتحہ ظاء کے ساتھ تھا۔
تفسیر و تشریح
حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں : وَاِلیٰ مَدْیَنَ أخاھم شُعَیبًا، حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ اعراف اور ھود اور شعراء میں قدرے تفصیل سے کیا گیا ہے اور حجر و عنکبوت میں اجمالی طور پر، قرآن کریم میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ذکر دس جگہ آیا ہے۔
قوم شعیب : حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بعثت مدین یا مدیان میں ہوئی تھی، مدین کسی مقام کا نام نہیں بلکہ ایک قبیلہ کا نام ہے یہ قبیلہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدین کی نسل سے تھا جو ان کی تیسری بیوی قطورا سے پیدا ہوا تھا، اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ خاندان بنی قطورا کہلایا، مدین اپنے اہل و عیال کے ساتھ علاتی بھائی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے قریبی علاقہ حجاز ہی میں آباد ہوگیا تھا یہی خاندان آگے چل کر ایک بڑا قبیلہ بن گیا اور شعیب (علیہ السلام) بھی چونکہ اسی نسل اور اسی قبیلہ سے تھے اس لئے ان کی بعثت کے بعد یہ قبیلہ قوم شعیب کہلایا۔
اصحاب مدین یا اصحاب ایکہ : یہ قبیلہ کس جگہ آباد تھا ؟ اس کے متعلق عبد الوہاب نجار لکھتے ہیں کہ یہ حجاز میں شام کے متصل ایسی جگہ آباد تھا کہ جس کا عرض البلد افریقہ کے جنوبی صحراء کے عرض البلد کے مطابق پڑتا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ شام کے متصل معان کے خطہ زمین پر آباد تھا۔ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ مدین اور اصحاب ایکہ دونوں ایک ہی قبیلہ کے نام ہیں یا الگ الگ قبیلہ تھے بعض کا خیال ہے کہ دونوں جدا جدا قبیلہ تھے، مگر راجح یہی ہے کہ دونوں ایک قبیلے کے نام ہیں حافظ عماد الدین ابن کثیر کا خیال ہے کہ یہاں ایکہ نام کا ایک درخت تھا اہل قبیلہ چونکہ اس درخت کی پوجا کرتے تھے لہٰذا اسی نسبت سے مدین کو اصحاب ایکہ کہا گیا، اصحاب الایکہ نسبی نام نہیں بلکہ مذہبی نام ہے، نسبی نسبت سے یہ قبیلہ مدین کہلایا اور مذہبی نسبت سے اصحاب الایکہ کہلایا، مذکورۃ الصدر آیات میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ مذکور ہے، ان کی قوم کفر و شرک اور ناپ تول میں کمی کے مرض میں مبتلا تھی، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو توحید کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا اور اس کے انجام بد سے بھی آگاہ کیا مگر قوم اپنے انکار اور سرکشی پر قائم رہی تو پوری قوم کو ایک سخت عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا، یہ عذاب سخت زلزلہ اور آگ کی شکل میں نازل ہوا تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَإِلَىٰ مَدْيَنَ ﴾ ” اور مدین کی طرف بھیجا“ مدین ایک معروف قبیلہ تھا جو فلسطین کے زیریں علاقے مدین میں آباد تھا۔ ﴿أَخَاهُمْ ﴾ یعنی نسب میں ان کے بھائی ﴿ شُعَيْبًا ﴾ شعیب علیہ السلام کو۔“ گویا وہ جناب شعیب علیہ السلام کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان سے ان کے لئے کچھ حاصل کرنا ممکن تھا۔ ﴿ قَالَ ﴾ شعیب علیہ السلام نے ان سے کہا : ﴿يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“ یعنی اس کے لئے عبودیت کو خالص کرو۔۔۔ کیونکہ وہ لوگ شرک میں مبتلا تھے۔ شرک کرنے کے ساتھ ساتھ ناپ تول میں بھی کمی کرتے تھے، اس لئے شعیب علیہ السلام نے ان کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔ ﴿وَلَا تَنقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ ﴾ ” اور نہ کم کرو ماپ اور تول کو“ بلکہ ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ ﴿إِنِّي أَرَاكُم بِخَيْرٍ ﴾ ” میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں۔“ یعنی میں دیکھتا ہوں کہ تم بے شمار نعمتوں، صحت اور کثرت مال و اولاد سے بہرہ مند ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ عطا کر رکھا ہے، اس پر اس کا شکر کرو اور کفر ان نعمت نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے یہ نعمتیں واپس لے لے ﴿وَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيطٍ ﴾ ” اور میں ڈرتا ہوں تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب سے“ یعنی ایسا عذاب جو تمہیں گھیر لے گا اور تم میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur madiyan ki taraf hum ney inn/unn kay bhai shoaib ko payghumber bana ker bheja . unhon ney ( unn say ) kaha kay : aey meri qoam ! Allah ki ibadat kero . uss kay siwa tumhara koi mabood nahi hai . aur naap tol mein kami matt kiya kero . mein dekh raha hun kay tum log khushal ho , aur mujhay tum per aik aesay din kay azab ka khof hai jo tumhen chaaron taraf say gher ley ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
اہل مدین کی جانب حضرت شعیب کی آمد
عرب کا قبیلہ جو حجاز و شام کے درمیان معان کے قریب رہتا تھا ان کے شہروں کا نام اور خود ان کا نام بھی مدین تھا۔ ان کی جانب اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیب (علیہ السلام) بھیجے گئے۔ آپ ان میں شریف النسب اور اعلی خاندان کے تھے اور انہیں میں سے تھے۔ اسی لیے اخاہم کے لفظ سے بیان کیا یعنی ان کے بھائی آپ نے بھی انبیاء کی عادت اور سنت اور اللہ کے پہلے اور تاکیدی حکم کے مطابق اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی ناپ تول کی کمی سے روکا کہ کسی کا حق نہ مارو۔ اور اللہ کا یہ احسان یاد لایا کہ اس نے تمہیں فارغ البال اور آسودہ حال کر رکھا ہے۔ اور اپنا ڈر ظاہر کیا کہ اپنی مشرکانہ روش اور ظالمانہ حرکت سے اگر باز نہ آؤ گے تو تمہاری یہ اچھی حالت بدحالی سے بدل جائے گی۔