الفلق آية ۱
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ
طاہر القادری:
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے انتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وجود میں لانے والے رب کی پناہ مانگتا ہوں،
English Sahih:
Say, "I seek refuge in the Lord of daybreak
1 Abul A'ala Maududi
کہو، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ میں اس کی پناہ لیتا ہوں جو صبح کا پیدا کرنے والا ہے
3 Ahmed Ali
کہہ دو صبح کے پیدا کرنے والے کی پناہ مانگتا ہوں
4 Ahsanul Bayan
آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں (١)
١۔١ فلَق کے معنی صبح کے ہیں۔ صبح کی تخصیص اس لئے کی کہ جس طرح اللہ تعالٰی رات کا اندھیرا ختم کر کے دن کی روشنی لا سکتا ہے، وہ اللہ اسی طرح خوف اور دہشت کو دور کر کے پناہ مانگنے والے کو امن بھی دے سکتا ہے۔ یا انسان جس طرح رات کو اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ صبح روشنی ہو جائے گی، اسی طرح خوف زدہ آدمی پناہ کے ذریعے سے صبح کامیابی کے طلوع کا امیدوار ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہو کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناه میں آتا ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے کہ میں پناہ لیتا ہوں صبح کے پروردگار کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ چاہتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
کہو کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں
ترجمہ،۔ شروع کرتا ہوں ال لہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، کہو کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی (یعنی) حیوان مکلف اور غیر مکلف کے شر سے اور جماد کے شر سے مثلاً زہرہ وغیرہ، اور رات کی تاریکی کے شر سے جب وہ چھا جائے، یعنی رات کے شر سے جب وہ تاریک ہوجائے، یا چاند کے شر سے جب وہ غروب ہوجائے، اور پھونکنے والی جادو گرنیوں کے شر سے جو گرہوں میں تھوک کے بغیر پھونکیں وہ گرہیں کہ جن کو وہ دھاگے میں لگاتی ہیں اور زمخرشی نے کہا ہے، تھوک کے ساتھ جیسا کہ لبید مذکور کی بیٹیاں اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے یعنی اپنے حسد کو ظاہر کرے اور اس کے مقتضی پر عمل کرے جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد کرنے والے یہود میں سے لبید مذکور ہے اور تینوں کو جن کو ماخلق شامل ہے ماخلق کے بعد ذکر کرنا ان کے شر کے شدید ہونے کی وجہ سے ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الفلق اسم فعل : تڑکا، اول صبح، فلق، بمعنی مفلوق
قولہ : وقب ماضی، واحد مذکر غائب (ض) وقباً وقوباً چھا جانا
قولہ : غاسق اسم فاعل، رات کی تاریکی غسق (ن) غسوقاً رات کا تاریک ہونا۔
قولہ : او القمر یہ غاسق کی دوسری تفسیر ہے۔
قولہ : السواحر یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نفثت کا موصوف محذوف ہے، مفسر علام نے موصوف، السواحر محذوف نکالا ہے یعنی سحر کرنے والی عورتیں، مراد لبیدبن اعصم یہودی کی لڑکیاں ہیں، اس کا موصوف نفوس بھی ہوسکتا ہے، نفثت، نفاثۃ کی جمع اور مبالغہ کا صیغہ ہے نفث (ض ن) نفثاً ہے تھتکارنا، نفث اور تفل میں فرق یہ ہے کہ نفث میں تھوک کم ہوتا ہے اور تفل میں تھوک زیادہ ہوتا ہے۔
تفسیر و تشریح
سورة فلق اور سورة ناس کے فضائل :
قل اعوذ برب الفلق یہ ( سورة فلق) اور اس کے بعد جو سورة ناس ہے، ان دونوں سورتوں کی مشترکہ فضیلت بعض احادیث میں بیان کی گئی ہے ایک حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آج کی رات مجھ پر کچھ ایسی آیات نازل ہوئیں ہیں جن کی مثل میں نی کبھی نہیں دیکھی یہ فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دونوں سورتیں تلاوت فرمائیں۔ (صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا)
ابوحابس جہنمی (رض) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابو حابس (رض) ! کیا میں تجھے سب سے بہترین تعویذ نہ بتائوں، جس کے ذریعہ پناہ طلب کرنے والے پناہ مانگتے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا، ہاں ! ضرور بتایئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سورتوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ یہ دونوں ” معوذ تان “ ہیں۔
جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تو جبرئیل (رح) تعالیٰ یہی دو سورتیں لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ ایک یہودی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا ہے اور یہ جادو فلاں کنوئیں میں ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھیج منگوایا (یہ ایک کنگھی کے دندانوں اور بالوں کے ساتھ ایک تانت میں گایرہ گرہ لگا کر کیا گیا تھا اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبوئی ہوئی تھیں) ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معمول تھا کہ رات کو سوتے وقت سورة اخلاص اور معوذتین پڑھ کر ہتھیلیوں پر دم کرتے اور پھر انہیں پورے جسم پر ملتے پھر سر اور چہرے پر اور جسم کے اگلے حصہ پر پھیرتے، اس کے بعد جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پہنچتے یہ عمل آپ تین مرتبہ فرماتے۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن)
سحر، نظر بد اور تمام آفات کا علاج :
سورة فلق اور سورة ناس ایک ہی ساتھ ایک ہی واقعہ میں نازل ہوئی ہیں، ان دونوں سورتوں کو سحر، نظر بد اور تمام آفات روحانی و جسمانی کے دور کرنے میں عظیم تاثیر ہے۔
زمانہ نزول :
ان دونوں سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے، حضرت حسن بصری (رح) تعالیٰ عکرمہ (رح) تعالیٰ وغیر ہما کا قول ہے کہ یہ سورتیں مکی ہیں، حضرت ابن عباس (رض) کی بھی ایک روایت یہی ہے، مگر ان سے ہی ایک روایت مدنی ہونے کی بھی ہے، اور یہی قول حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) اور قتادہ (رض) کا بھی ہے، جن روایتوں سے اس قول کی تقویت ہوئی ہے ان میں سے یہ روایت بھی ہیں کہ جب مدینہ میں یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا تو اس کے اثر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمیار ہوگئے تھے، اس وقت یہ سورتیں نازلہ وئی تھیں، ابن سعد نے واقدی کے حوالہ سیبیان کیا ہے کہ یہ واقعہ ٧ ھ کا ہے، نیز ابن سعد، محی السنتہ بغوی، امام نسفی، امام بیہقی، حافظ ابن حجر (رح) تعالیٰ وغیرہ ہم نے روایت کیا ہے کہ مدینہ میں یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا جس کے اثر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تھے، اس وقت یہ سورتیں نازل ہوئی تھیں، ان روایات سے اس کی تقویت ہوتی ہے کہ یہ دونوں سورتیں مدنی ہیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہونا :
یہاں ایک اہم مسئلہ ی ہے کہ روایات کی رو سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تھا، اور اس کے اثر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تھے اور اس اثر کو زائل کرنے کے لئے جبرائیل (رح) تعالیٰ نے آپ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سورتیں پڑھنے کی ہدایت کی تھی، اس پر قدیم اور جدید زمانے کے بہت سے عقلیت پسندوں نے اعتراض کیا ہے کہ اگر یہ روایات مان لی جائیں تو شریعت ساری کی ساری مشتبہ ہوجاتی ہے کیونکہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے جیسا کہ روایات کی رو سے اثر ہو بھی گیا تھا تو نہیں کہا جاسکتا کہ مخلافین نے جادو کے زور سے نبی سے کیا کیا کہلوا لیا اور کروا لیا ہو۔ اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا درحقیقت مستند تاریخی روایات کی رو سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہوا تھا۔ اگر ہوا تھا تو وہ اثر کس حد تک تھا ؟ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ تاریخ سے ثابت ہے اس پر وہ اعتراضات وارد ہوتے ہیں یا نہیں جو کئے گئے ہیں ؟
جہاں تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہونے کا تو یہ واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے، اسے حضرت عائشہ (رض) حضرت زید بن ارقم (رض) اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بخاری و مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ا امام احم، عبدالرزاق، حمیدی، بیہقی طبرانی، ابن سعد وغیرہم محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر التعداداسندوں سے نق کیا ہے جس کا نفس مضمون تواتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے، اس سلسلہ کی جو روایات آئی ہیں، انہیں اگر مجموعی طور پر مرتب کیا جائے تو اس سے ایک مربوط واقعہ کی شکل اس طرح بنتی ہے۔
واقعہ کی تفصیل :
واقعہ کی تفصیل :
صلح حدیبیہ کے بعد جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے تو محرم ٧ ھ میں خیبر سے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور جادوگر لبیدبن الاعصم سے ملا جو انصار کے قیلہ بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا (بعض روایتوں میں یہودی اور بعض میں مناف بھی مذکر ہے) ان لوگوں نے اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تمہیں معلوم ہے، ہم نے ان پر بہت جادو کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی کامیابی نہیں ملی، اب ہم تمہارے پاس آئے ہیں، کیونکہ تم ہم سے بڑے جادوگر ہو، لو یہ تین اشرفیاں حاضر ہیں، انہیں قبول کرو اور محمد پر ایک زور دار جادو کردو، اس زمانہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہاں ایک یہودی لڑکا خدمت گار تھا، اس سے ساز باز کر کے ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی کا ایک ٹکڑا حاصل کرلیا، جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موئے مبارک بھی تھے، ان ہی بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر جادو کیا گیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شکل کا موم کا ایک پتلا بھی بنایا اور اس میں گیارہ سوئیاں چبھو دی گئی تھیں، ایک روایت میں یہ ہے کہ تانت میں گیارہ گرہ لگا کر انگرہوں میں سوئیاں چبھوئی گئی تھیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لبید نے خود جادو کیا تھا اور بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی لڑکیوں نے جادو کیا تھا اور بعض میں بہنوں کا ذکر ہے، ان میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ سب نے مل کر یہ کام کیا ہو، ان تمام چیزوں کو ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر لبید نے بنی زریق کے کنوئیں ذروان کی تہہ میں پتھر کے نیچے دبا دیا، ابتداء میں اس جادو کا اثر بہت ہلکا تھا، مگر بتدریج آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہونی شروع ہوگئی، آخری چالیس روز سخت خراب ہوئی ان میں بھی آخری تین روز زیادہ سخت گزرے، مگر اس کا زیادہ سے زیادہ جو اثر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوا وہ بس یہ تھا کہ آپ گھلتے چلے جا رہے تھے کسی کام کے متعلق خیال ہوتا کہ وہ کرلیا ہے، حالانکہ نہیں کیا ہوتا اپنی ازواج کے متعلق خیال فرماتے کہ ان کے پاس گئے ہیں، حالانکہ نہیں گئے ہوتے تھے وغیرہ وغیرہ، یہ تمام اثر آپ کی ذات تک محدود رہے، حتی کہ دوسرے لوگوں کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گذر رہی ہے، رہی آپ کے نبی ہونے کی حیثیت تو اس میں آپ کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہیں ہونے پایا۔
ایک روز کا واقعہ ہے کہ آپ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے یہاں تھے کہ آپ نے بار بار اللہ سے دعا مانگی اسی حالت میں آپ کو نیند آگئی اور پھر بیدار ہو کر آپ نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا کہ میں نے جو بات اپنے رب سے پوچھی تھی وہ اس نے مجھے بتادی، حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا وہ کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا دو آدمی (یعنی دو فرشتے آدمی کی صورت میں) میرے پاس آئے ایک سرہانے کی طرف تھا اور دوسرا پائنتی کی طرف، ایک نے دوسرے سے پوچھا انہیں کیا ہوا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے، اس نے پوچھا کس نے کیا ہے ؟ جواب دیا لبیدین الاعصم نے پوچھا : کس چیز میں کیا ہے ؟ جواب دیا کنگھی اور بالوں میں ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف کے اندر، پوچھا وہ کہاں ہے ؟ جواب دیا بنی زریق کے کنوئیں ذروان کی تہہ میں پتھر کے نیچے ہے۔ پوچھا اب اس کے لئے کیا کیا جائے ؟ جواب دیا کنوئیں کا پانی نکال دیا جائے اور پتھر کے نیچے سے اس کو نکال لیا جائے، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی، حضرت عمار بن یاسر اور حضرت زبیر کو بھیجا ان کے ساتھ جبیرایاس اور قیس بن محصن (رض) بھی شامل ہوگئے، بعد میں خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چند اصحاب کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے پانی نکالا گیا اور وہ غلاف برآمد کرلیا گیا اس کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتہ تھا جس میں سوئیاں چھبوئی ہوئی تھیں، جبرئیل (رح) تعالیٰ نے آ کر بتایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معوذ تین پڑھیں، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک سوئی نکالی جاتی غرضیکہ سورتوں کے خاتمہ تک پہنچتے پہنچتے ساری گرہیں کھل گئیں اور تمام سوئیاں نکل گئیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جادو کے اثر سے نکل کر ایسے ہوگئے جیسے کوئی شخص بندھا ہوا تھا پھر کھل گیا، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لبید کو بلا کر باز پرس کی، اس نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو چھوڑ دیا، کیونکہ اپنی ذات کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔
یہ ہے سارا قصہ جادو کا اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب نبوت میں قادح ہو، ذاتی طور پر اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخمی کیا جاسکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچھو کاٹ سکتا ہے جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہو نیکی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذاتی حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہوسکتے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے، یہ بات تو قرآن کریم سے بھی ثابت ہے، سورة طہ، میں ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انہوں نے پھینکی تھیں، ان کے متعلق عام لوگوں ہی نے نہیں، بلکہ حضرت موسیٰ (رض) نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی شکل میں دوڑی چلی آرہی ہیں اور اس سے حضرت موسیٰ (رح) تعالیٰ خوف زدہ بھی ہوگئے تھے۔
معوذ تین کی قرآنیت :
معوذتین کے قرآن ہونے پر تمام صحابہ (رض) کا اجماع ہے اور عہد صحابہ (رض) سے بتواتر ثابت ہے، اس میں قطعی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، مگر حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) جیسے عظیم المرتبہ صحابی (رض) سے متعدد روایتوں میں یہ بات منقول ہوئی ہے کہ وہ ان دونوں سورتوں کو قرآن کی سورتیں نہیں مانتے تھے اور اپنے مصحف سے ان کو ساقط کردیا تھا، امام احمد، بزار طبرانی، ابن مردویہ، ابویعلی، عبداللہ بن احمد بن حنبل، حمیدی، ابو نعیم، ابن حبان (رح) تعالیٰ وغیرہ محدثین نے مختلف سندوں سے جن میں اکثر و بیشتر صحیح ہیں، یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے۔
قرآن میں مخالفین کا طعن :
ان روایات کی بنا پر مخالفین اسلام کو قرآن کے بارے میں شہبات ابھارنے اور طعن کرنے کا موقع مل گیا کہ معاذ اللہ یہ کتاب تحریف سے محفوظ نہیں ہے، بلکہ اس میں جب یہ دو سورتیں عبداللہ بن مسعود (رض) کے بیان کے مطابق الحاق ہیں تو نہ معلوم اور کیا کیا حذف و اضافے اس میں ہوئے ہوں گے ؟
طعن کے جوابات :
قاضی ابوبکر (رض) باقلانی اور قاضی عیاض (رض) وغیرہ نے ان کے طعن کا یہ جواب دیا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود (رض) معوذ تین کی قرآنیت کے منکر نہ تھے، بلکہ صرف ان کو مصحف میں درج کرنے سے انکار کرتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک مصحف میں صرف وہی چیز درج کی جانی چاہیے تھی جس کے ثبت کرنے کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دی اور ابن مسعود (رض) تک ان کے درج کرنے کی اجازت کی اطلاع نہیں پہنچیھی۔ (فتح الباری صفحہ :081 ج :8)
یہ واضح رہے کہ ان کو بھی ان سورتوں کے کلام اللہ ہونے میں شبہ نہ تھا، وہ مانتے تھے کہ بلا ریب یہ اللہ کا کلام ہے اور بلاشبہ آسمان سے نازل ہوا ہے، مگر ان کے نازل کرنے کا مقصد رقیہ اور علاج تھا، معلوم نہیں کہ تلاوت کی غرض سے نازل کی گئی ہے یا نہیں ؟ اس لئے وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کو مصحف میں درج کرنا اور اس کو قرآن میں شامل کرنا جس کی تلاوت نماز وغیرہ میں مطلوب ہے، خلاف احتیاط ہے، روح البیان میں ہے ” انہ کان لا یعد المعوذتین من القرآن وکان لایکتبھما فی مصحفہ یقول انھما منزلتان من السماء وھما من کلام رب العالمین ولکن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کان یرقی و یعوذ بھما، فاشتبہ علیہ انھما من القرآن فلم یکتبھما فی مصحفہ (روح البیان، صفحہ 823، ج 03 فوائد عثمانی)
بہرحال ان کی یہ رائے بھی شخصی اور انفرادی تھی اور جیسا کہ بزار نے نقل کیا ہے کہ کسی ایک صحابی (رض) نے بھی ان سے اتفاق نہیں کیا، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ” واجیب باحتمال انہ کان متواترافی عصر ابن مسعود (رض) لکن لم یتواتر عند ابن مسعود فانحلت العقدۃ بعون اللہ تعالیٰ “ اور صاحب معانی فرماتے ہیں ” ولعل ابن مسعود رجع عن ذلک “ (فوائد عثمانی ملخصاً )
10 Tafsir as-Saadi
﴿قُلْ﴾ یعنی آپ اللہ کی پناہ مانگنے کے لیے کہیے: ﴿اَعُوْذُ﴾ میں پناہ ڈھونڈ تا ہوں اور اپنا بچاؤ تلاش کرتا ہوں۔ ﴿ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ ”رب فلق کے ذریعے سے۔“ یعنی جو دانے اور گھٹلی کو پھاڑتا ہے اور صبح کو نمودار کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
kaho kay : mein subha kay malik ki panah maangta hun ,
12 Tafsir Ibn Kathir
بیماری، وبا، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے باؤ کی دعا٭٭ حضرت جابر وغیرہ فرماتے ہیں فلق کہتے ہیں صبح کو، خود قرآن میں نور جگہ ہے فالق الاصباح ابن عباس سے مروی ہے فلق سے مراد مخلوق ہے، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں فلق جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے۔ لیکن وہ حدیث منکر ہے۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے۔ امام بخاری بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ تمام مخلوق کی برائی سے جسم میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی۔ غاسق سے مراد رات ہے۔ اذا وقت یس مراد سورج کا غروب ہوجانا ہے، یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آجائے، ابن زید کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غاسق کہتے ہیں۔ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے، ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ اور روایت میں ہے کہ غاسق اذا وقب سے یہی مراد ہے، دونوں قولوں میں با آسانییہ تطبیق ہوسکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آجائے، واللہ اعلم۔ گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں، حضرت مجاہد (رح) فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں نہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کیا آپ بیمار ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے یہ دعا پڑھی
یعنی اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفا دے۔ اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کردیا اور ان کی تدبیروں کو بےاثر کردیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائی۔ مسند احمد میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک یہودی نے جادہ کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گر ہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گر ہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا، صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہا آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے، حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے، جب یہ حالت آپ کی ہوگئی ایک دن آپ فرمانے لگے عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتادیا دو شخص آئے ایک میری سرہانے ایک پائیتوں کی طرف، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا ان کا کیا حال ہے ؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا کس نے جادو کیا ہے ؟ کہا عبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے، کہا کس چیز میں ؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں، پھر حضور صلی اللہ (علیہ السلام) اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے، میں نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسے بدلہ لینے چائے آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفا دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا، دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کرچکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حم سے بند کردیا گیا، یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی، تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس اور حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذرو ان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیما ہوگئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہوگیا اور آپ نے حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر (رض) کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گر ہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہوگئے، ادھر جبرائیل (علیہ السلام) نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گذر چکی ہے، لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کردیں آپ نے فرمایا نہیں اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں واللہ اعلم۔