Skip to main content

وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِى الْاَرْضِۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۤءُ ۗ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۤءُۚ وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ

And thus
وَكَذَٰلِكَ
اور اسی طرح
We established
مَكَّنَّا
اقتدار دیا ہم نے
[to] Yusuf
لِيُوسُفَ
یوسف کو
in
فِى
میں
the land
ٱلْأَرْضِ
زمین
to settle
يَتَبَوَّأُ
جگہ بنائے
therein
مِنْهَا
اس میں سے
where ever
حَيْثُ
جہاں
he willed
يَشَآءُۚ
چاہے
We bestow
نُصِيبُ
ہم پہنچاتے ہیں
Our Mercy
بِرَحْمَتِنَا
اپنی رحمت کو
(on) whom
مَن
جس کو
We will
نَّشَآءُۖ
ہم چاہتے ہیں
And not
وَلَا
اور نہیں
We let go waste
نُضِيعُ
ہم ضائع کرتے
(the) reward
أَجْرَ
اجر
(of) the good-doers
ٱلْمُحْسِنِينَ
محسنین کا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا

English Sahih:

And thus We established Joseph in the land to settle therein wherever he willed. We touch with Our mercy whom We will, and We do not allow to be lost the reward of those who do good.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یوسفؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی وہ مختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور یوں ہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ (اَجر) ضائع نہیں کرتے،

احمد علی Ahmed Ali

اور ہم نے اس طور پر یوسف کو اس ملک میں بااختیار بنا دیا کہ اس میں جہاں چاہے رہےہم جس پر چاہیں اپنی رحمت متوجہ کر دیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے (١) ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکوکاروں کا ثواب ضائع نہیں کرتے (٢)۔

٥٦۔١ یعنی ہم نے یوسف علیہ السلام کو زمین میں ایسی قدرت و طاقت عطا کی کہ بادشاہ وہی کچھ کرتا جس کا حکم حضرت یوسف علیہ السلام کرتے، اور سرزمین مصر میں اس طرح تصرف کرتے جس طرح انسان اپنے گھر میں کرتا ہے اور جہاں چاہتے، وہ رہتے، پورا مصر ان کے زیرنگین تھا۔
٥٦۔٢ یہ گویا اجر تھا ان کے صبر کا جو بھائیوں کے ظلم و ستم پر انہوں نے کیا اور ثابت قدمی کا زلیخا کی دعوت گناہ کے مقابلے میں اختیار کی اور اس کی اولو العزمی کا جو قید خانے کی زندگی میں اپنا رکھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ورغلانے کی مذموم سعی کی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ حضرت یوسف علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوگیا تھا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیز مصر، جس کا نام اطفیر تھا، فوت ہوگیا تو اس کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف علیہ السلام سے ہوگیا اور دو بچے بھی ہوئے، ایک نام افرأیم اور دوسرے کا نام میشا تھا، افرأیم ہی یوشع بن نون اور حضرت ایوب علیہ السلام کے والد تھے (تفسیر ابن کثیر) لیکن یہ بات مستند روایت سے ثابت نہیں اس لئے نکاح والی بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عورت سے جس کردار کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے ایک نبی کے حرم سے اس کی وابستگی، نہایت
نامناسب بات لگتی ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا۔ کہ وه جہاں کہیں چاہے رہے سہے، ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکو کاروں کا ﺛواب ضائع نہیں کرتے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور اس طرح ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں اختیار و اقتدار دیا کہ وہ اس میں جہاں چاہے رہے ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور اس طرح ہم نے یوسف کو زمین میں اختیار دے دیا کہ وہ جہاں چاہیں رہیں -ہم اپنی رحمت سے جس کو بھی چاہتے ہیں مرتبہ دے دیتے ہیں اور کسی نیک کردار کے اجر کو ضائع نہیں کرتے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

زمین مصر میں یوں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ترقی ہوئی۔ اب ان کے اختیار میں تھا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں۔ جہاں چاہیں مکانات تعمیر کریں۔ یا اس تنہائی اور قید کو دیکھئے یا اب اس اختیار اور آزادی کو دیکھئے۔ سچ ہے رب جسے چاہے اپنی رحمت کا جتنا حصہ چاہے دے۔ صابروں کا پھل لا کر ہی رہتا ہے۔ بھائیوں کا دکھ سہا، اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لئے عزیز مصر کی عورت سے بگاڑ لی اور قید خانے کی مصیبتیں برداشت کیں۔ پس رحمت الہی کا ہاتھ بڑھا اور صبر کا اجر ملا۔ نیک کاروں کی نیکیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔ پھر ایسے باایمان تقوی والے آخرت میں بڑے درجے اور اعلی ثواب پاتے ہیں۔ یہاں یہ ملا، وہاں کے ملنے کی تو کچھ نہ پوچھئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں بھی قرآن میں آیا ہے کہ یہ دنیا کی دولت و سلطنت ہم نے تجھے اپنے احسان سے دی ہے اور قیامت کے دن بھی تیرے لئے ہمارے ہاں اچھی مہمانی ہے۔ الغرض شاہ مصر ریان بن ولید نے سلطنت مصر کی وزارت آپ کو دی، پہلے اسی عہدے پر اس عورت کا خاوند تھا۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا، اسی نے آپ کو خرید لیا تھا۔ آخر شاہ مصر آپ کے ہاتھ پر ایمان لایا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ کے خریدنے والے کا نام اطغر تھا۔ یہ انہی دنوں میں انتقال کر گیا۔ اس کے بعد باشاہ نے اس کی زوجہ راعیل سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نکاح کردیا۔ جب آپ ان سے ملے تو فرمایا کہو کیا یہ تمہارے اس ارادے سے بہتر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے صدیق مجھے ملامت نہ کیجیئے آپ کو معلوم ہے کہ میں حسن و خوبصورتی والی دھن دولت والی عورت تھی میرے خاوند مردمی سے محروم تھے وہ مجھ سے مل ہی نہیں سکتے تھے۔ ادھر آپ کو قدرت نے جس فیاضی سے دولت حسن کے ساتھ مالا مال کیا ہے وہ بھی ظاہر ہے۔ پس مجھے اب ملامت نہ کیجئے۔ کہتے ہیں کہ واقعی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں کنواری پایا۔ پھر ان کے بطن سے آپ کو دو لڑکے ہوئے افراثیم اور میضا۔ افراثیم کے ہاں نون پیدا ہوئے جو حضرت یوشع کے والد ہیں اور رحمت نامی صاحبزادی ہوئی جو حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی ہیں۔ حضرت فضیل بن عیاض (رح) فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بیوی ہیں۔ حضرت فضیل بن عیاض (رح) فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سواری نکلی تو بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ الحمد اللہ اللہ کی شان کے قربان جس نے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے غلاموں کو بادشاہی پر پہنچایا اور اپنی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہوں کو غلامی پر لا اتارا۔