الرعد آية ۲۷
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖۗ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۤءُ وَيَهْدِىْۤ اِلَيْهِ مَنْ اَنَابَ ۖ
طاہر القادری:
اور کافر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول) پر اس کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری، فرما دیجئے: بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے (نشانیوں کے باوجود) گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے اپنی جانب رہنمائی فرما دیتا ہے،
English Sahih:
And those who disbelieved say, "Why has a sign not been sent down to him from his Lord?" Say, [O Muhammad], "Indeed, Allah leaves astray whom He wills and guides to Himself whoever turns back [to Him] –
1 Abul A'ala Maududi
یہ لوگ جنہوں نے (رسالت محمدیؐ کو ماننے سے) انکار کر دیا ہے کہتے ہیں "اِس شخص پر اِس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری" کہو، اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اُسی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف رجوع کرے
2 Ahmed Raza Khan
اور کافر کہتے ان پر کوئی نشانی ان کے رب کی طرف سے کیوں نہ اتری، تم فرماؤ بیشک اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور اپنی راہ اسے دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع لائے،
3 Ahmed Ali
اور کافر کہتے ہیں اس پراس کے رب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری کہہ دو الله جس کو چاہتا ہے گمراہ کر دیتاہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے اپنے تک پہنچنے کا راستہ دکھاتا ہے
4 Ahsanul Bayan
کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ جواب دیجئے کہ اللہ جسے گمراہ کرنا چاہے کر دیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکے اسے راستہ دکھا دیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی۔ کہہ دو کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جو (اس کی طرف) رجوع ہوتا ہے اس کو اپنی طرف کا رستہ دکھاتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
کافر کہتے ہیں کہ اس پر کوئی نشانی (معجزه) کیوں نازل نہیں کیا گیا؟ جواب دے دیجئے کہ جسے اللہ گمراه کرنا چاہے کر دیتا ہے اور جو اس کی طرف جھکے اسے راستہ دکھا دیتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ (اگر یہ نبی برحق ہیں) تو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر (ہماری پسند کی) کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ کہہ دیجیئے! اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت کرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ان کے اوپر ہماری پسند کی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی تو پیغمبر کہہ دیجئے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جو اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں انہیں ہدایت دے دیتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور کافر کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی کہہ دو کہ خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے۔ اور جو (اسکی طرف) رجوع ہوتا ہے اسکو اپنی طرف کا راستہ دکھاتا ہے۔
آیت نمبر ٢٧ تا ٣١
ترجمہ : اور اہل مکہ میں سے کافر کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) عصا اور ید بیضاء اور ناقۂ صالح جیسی کیوں نہیں اتاری ہوگئی ؟ ان سے کہہ دو کہ اللہ جس کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں اس کو بےراہ کردیتے ہیں نشانیاں (معجزات) اس کو کچھ بھی فائدہ نہیں دیتے، اور جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اس کی اپنے دین کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور مَنْ سے اَلَّذِیْن آمنوا، بدل ہے، جو لوگ ایمان لائے ان کے قلوب اللہ کے ذکر یعنی اس کے وعدہ سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی مومنوں کے دلوں کو تسلی ہوتی ہے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بھی کئے ان کیلئے خوشحالی ہے اور بہترین ٹھکانہ ہے (اَلَّذِیْنَ آمنوا) مبتداء ہے اور (طوبیٰ ) اس کی خبر ہے (طوبیٰ ) الطیب سے مصدر ہے یا جنت میں ایسا درخت ہے کہ (گھوڑ) سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا تب بھی اس کی مسافت طے نہ کرسکے گا، یعنی جس طرح آپ سے پہلے ہم نے انبیاء بھیجے اسی طرح ہم نے آپ کو ایسی امت میں بھیجا ہے کہ جس سے پہلے بہت سی امتیں گذر چکی ہیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو وہ قرآن پڑھ کر سنائیں جس کو ہم نے آپ کی طرف بذریعہ وحی بھیجا ہے، یہ رحمن کے منکر ہیں اسلئے کہ جب ان سے کہا گیا کہ رحمن کو سجدہ کرو، انہوں نے کہا رحمن کیا چیز ہے ؟ آپ کہئے کہ میرا پروردگار تو وہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے، اور (آئندہ آیت اس وقت) نازل ہوئی کہ جب کفار مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر تم نبی ہو تو مکہ کے پہاڑوں کو ہمارے لئے مکہ میں نہریں اور چشمے جاری کردو، تاکہ ہم درخت لگائیں اور کھیتی کریں اور ہمارے مردہ آباء و اجداد کو زندہ کردو تاکہ وہ ہمیں بتائیں کہ تم اللہ کے نبی ہو، اور اگر بالفرض کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ جس کے ذریعہ پہاڑ اپنی جگہ سے منتقل کر دئیے جاتے یا زمین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاتے یا اس کے ذریعہ مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں بایں طور کہ ان کو زندہ کردیا جاتا، تو پھر بھی یہ ایمان نہ لاتے، بلکہ پورا اختیار اللہ ہی کو ہے نہ کہ کسی اور کو، تو بھی کوئی ایمان نہ لاتا مگر وہی جس کے ایمان کو اللہ چاہتا نہ کہ دوسرا، اگرچہ ان کی مطلوبہ نشانیاں دکھا دی جاتیں، اور (آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جبکہ صحابہ نے اہل مکہ کے ایمان کی خواہش کرتے ہوئے ان کی مطلوبہ نشانیوں کو ظاہر کرنے کی تمنا کی تو کیا ایمان والے اس بات کو نہیں جانتے کہ بات یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو بغیر نشانی کے سب لوگوں کو ایمان کی ہدایت دیدیتا اور کافروں (یعنی) اہل مکہ پر ان کے کرتوتوں یعنی کفر کی بدولت مختلف قسم کے ایسے حوادث مسلسل پہنچتے رہیں گے جو ان کو جھنجھوڑتے رہیں گے مثلاً قتل اور قید اور جنگ اور خشک سالی اے محمد آپ اپنے لشکر کے ساتھ مکہ کے قریب (حدیبیہ میں) نزول فرمائیں گے یہاں تک ان کے خلاف اللہ کا نصرت کا وعدہ آجائے یقیناً اللہ (اپنے) وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور آپ نے حدیبیہ میں نزول فرمایا یہاں تک کہ مکہ کی فتح آگئی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیر فوائد
قولہ : ھَلاَّ ، لَوْلا کی تفسیر ھَلاَّ سے کرکے اشارہ کردیا کہ لولا تحضیضیہ ہے۔
قولہ : ویبدل مِنْ مَنْ یعنی مَنْ انابَ سے اَلَّذِیْنَ آمنوا الخ جملہ ہو کر بدل الکل ہے۔
قولہ : الذین آمنوا میں ترکیب کے اعتبار سے پانچ صورتیں ہوسکتی ہیں (١) الّذین آمنوا مبتداء اور بعد میں آنے والا اَلَّذِیْنَ آمنوا جملہ ہو کر اس کی خبر اور درمیان میں وتطمئنُّ قلوبھم بذکر اللہ، جملہ معترضہ، (٢) الَّذِیْنَ آمنوا، مَنْ اناب سے بدل الکل، (٣) اَلَّذِیْنَ آمنوا، مَنْ کا عطف بیان ہو، (٤) مبتداء محذوف کی خبر ہو، ای ھم الذین آمنوا (٥) فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہو ای امْدَحُ الَّذِیْنَ آمنوا۔ اس لئے
قولہ : ای وعدہ، ذکر اللہ کی تفسیر وعدہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں عام بول کر خاص مراد ہے ورنہ ذکر اللہ اور وعید دونوں کو شامل ہے اور وعید سے قلوب مطمئن ہونے کے بجائے مضطرب ہوتے ہیں مفسر علام نے وعدہ سے اسی سوال کے جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : طوبیٰ ، خوش حالی، جنت کے درخت کا نام، علامہ آلوسی نے طوبی کو طاب یطیب (ض) کا مصدر بتایا ہے جیسا کہ بشریٰ ، زُلفیٰ اور یاء ساکن اپنے ماقبل ضمہ ہونے کی وجہ سے واؤ سے بدلی ہوئی ہے اصل میں طیبیٰ تھا۔
قولہ : فَسَیّر عنا، ای سیّر بقراء تِکَ عنا جبالَ مکۃ . قولہ : شُقِّقَتْ یعنی آپ کی قراءت کی وجہ سے زمین شق ہو کر اس میں چشمے اور نہریں جاری ہوجاتیں، اور بعض نے کہا ہے قطعت کا مطلب ہے قرآن کے ذریعہ طیّ الارض یعنی سرعت کے ساتھ آناً فاناً مسافت طے ہوجایا کرے۔ قولہ : لَمَا آمنوا یہ لَوْ کا جواب ہے جو کہ محذوف ہے۔
قولہ : لا بغیرہ اس میں اشارہ ہے کہ للہ الامر جمیعا، اصل عبارت ہے الامر جمیعا للہ جار مجرور کو اختصاص کے لئے مقدم کردیا جس کو مفسر علام نے لابغیرہ کہہ کر ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : یعلم، یَیْئَس کی تفسیر یعلم سے کی ہے یعنی لم یَیْئَسو کی تفسیر لم یعلموا سے لغت بنی نخع یا ہوازن کے مطابق ہے اور یا یأس کے علم کے معنی کو متضمن ہونے کی وجہ سے کی ہے اسلئے کہ جو شخص مایوس ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے۔
قولہ : بصنعھم ما صنعوا کی تفسیر بصنعھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ ما، مصدریہ ہے نہ کہ موصولہ، لہٰذا عدم عائد کا اعتراض واقع نہ ہوگا
قولہ : الدّاھیۃ، الامر العظیم۔
تفسیر و تشریح
ویقول الذین کفروا یعنی یہ مشرکین مکہ ازراہ طعن وعناد کہتے تھے کہ یہ صاحب جو مدعی نبوت پیدا ہوئے ہیں آخر اپنے خدا کے یہاں سے کوئی معجزہ ہماری پسند کا کیوں نہیں لا دیتے ؟
الذین۔۔۔۔ بذکر اللہ، ذکر اللہ سے مراد توحید کا بیان ہے جس سے مومنوں کے دلوں میں انشراح اور کافروں کے دل میں انقیاض پیدا ہوتا ہے یا خدا کی بندگی، تلاوت قرآن، نوافل اور دعاء و مناجات مراد ہیں جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے، یا اس کے احکام و فرامین کی بجا آوری مراد ہے جس کے بغیر اہل ایمان وتقویٰ بےقرار رہتے ہیں، یعنی ذکر الٰہی کی خاصیت ہی یہ ہے کہ یہ انسان کے قلب کو غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے الجھاوے سے بچا دیتا ہے، اور شرک سے جو انتشار ذہنی پیدا ہوتا ہے یقیناً توحید اس کیلئے تریاق کا کام دیتی ہے، البتہ اس اطمینان کے بھی مختلف درجے ہیں جس درجہ کا ذکر الٰہی ہوتا ہے اسی نسبت سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ ذکر الٰہی کے آثار میں سے ایک اثر خوف و خشیت کا ہے ” اِذَا ذکر اللہ وجلت قلوبھم “ لیکن یہ ماسوا کی طرف سے اطمینان اور فراغت، خوف خدا کے منافی بالکل نہیں بلکہ یہ دونوں کیفیتیں تو عین ایک دوسرے کی متمم اور مکمل ہیں۔
کذالک۔۔۔۔ الخ جس طرح ہم نے آپ کو تبلیغ رسالت کیلئے بھیجا ہے اسی طرح پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھے، ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی تھی اور جس طرح تکذیب کے نتیجہ میں وہ قومیں عذاب الٰہی سے دو چار ہوئیں انہیں بھی اس انجام سے بےفکر نہیں رہنا چاہیے۔
مشرکین مکہ ” رحمن “ کے لفظ سے بہت بدکتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ لکھے گئے تو انہوں نے کہا تھا کہ یہ رحمن اور رحیم کیا ہے ؟ ہم نہیں جانتے۔ (ابن کثیر)
شان نزول : لوأن۔۔۔۔ الخ مشرکین مکہ نے یہود کی تعلیم و ترغیب سے اس قسم کی فرمائشیں کی تھیں کہ دعویٰ تو پیغمبری کا ہے مگر داؤد (علیہ السلام) پیغمبر کی طرح پہاڑوں کی تسخیر کا تماشا کیوں نہیں دکھا دیتے، یا سلیمان (علیہ السلام) بن داؤد کی طرح ہوا کے دوش پر سفر کیوں نہیں کرواتے یا عیسیٰ نبی اللہ کی طرح مردوں سے کیوں گفتگو نہیں کرا دیتے۔ مذکورہ آیت ان ہی بیہودہ فرمائشوں کے جواب میں نازل ہوئی، تفسیر بغوی میں اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔
مشرکین مکہ جن میں ابوجہل بن ہشام اور عبد اللہ بن امیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، ایک روز بیت اللہ کے پیچھے جاکر بیٹھ گئے اور عبد اللہ بن امیہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا، اس نے کہا اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ قوم اور ہم سب آپ کے رسول ہونے کو تسلیم کرلیں تو ہمارے چند مطالبات ہیں اپنے قرآن کے ذریعہ ان کو پورا کر دیجئے تو ہم سب اسلام قبول کرلیں گے۔
مطالبات میں ایک تو یہ تھا کہ شہر مکہ کی زمین بڑی تنگ ہے چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے اور زمین بھی سنگ لاخ ہے جس میں نہ کاشت و زراعت کی گنجائش نہ باغات کی اور دوسری ضروریات کی، آپ معجزے کے ذریعہ ان پہاڑوں کو دور ہٹا دیجئے، تاکہ مکہ کی زمین کشادہ ہوجائے آخر آپ کے کہنے کے مطابق داؤد (علیہ السلام) کیلئے پہاڑ مسخر کر دئیے گئے تھے، اور داؤد (علیہ السلام) تسبیح پڑھتے تو پہاڑ بھی تسبیح پڑھتے، آپ بقول خود اللہ کے نزدیک داؤد (علیہ السلام) سے کم تو نہیں ہیں۔ دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح سلیمان (علیہ السلام) کیلئے آپ کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہوا کو مسخر کرکے زمین کے بڑے بڑے فاصلوں کو مختصر کردیا تھا آپ بھی ہمارے لئے ایسا ہی کردیں کہ ہمارے لئے شام و یمن وغیرہ کے سفر آسان ہوجائیں۔ تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) مردوں کو زندہ کردیتے تھے آپ ان سے کچھ کم تو ہیں نہیں آپ بھی ہمارے لئے ہمارے دار قصی کو زندہ کر دیجئے تاکہ ہم ان سے یہ دریافت کرسکیں کہ آپ کا دین سچا ہے یا نہیں۔ (معارف، مظھری، بحوالہ بغوی وابن ابی حاتم وابن مردویہ)
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قرآن کے ذریعہ بطور معجزہ ان کے یہ مطالبات پورے کرا دئیے جائیں تب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا، پہاڑوں کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے سے اور تسخیر ہوا سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے، اسی طرح بےجان کنکریوں کا آپ کے دست مبارک میں بولنا اور تسبیح کرنا کسی مردہ انسان کے دوبارہ زندہ ہو کر بولنے سے کہیں زیادہ عظیم معجزہ ہے، لیلۃ المعراج میں مسجد اقصی اور وہاں سے آسمانوں کا سفر اور بہت مختصر وقت میں واپسی تسخیر ہوا اور تخت سلیمانی کے اعجاز سے بہت زیادہ عظیم ہے مگر یہ ظالم یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی جب ایمان نہ لائے تو اب ان مطالبات سے بھی ان کی نیت محض دفع الوقتی معلوم ہوتی ہے اسلئے کہ جب ہمارے مطالبہ معجزے پیش نہ کئے جائیں گے تو ہمیں یہ کہنے کا موقع مل جائیگا کہ یہ اللہ کے نبی نہیں ہیں اسلئے کہ اگر یہ اللہ کے سچے نبی ہوتے تو ہمارے مطلوبہ معجزے دکھا دیتے۔
افلم یا یئس۔۔۔۔ الخ امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ صحابۂ کرام نے جب مشرکین کے یہ مطالبات سنے تو یہ تمنا کرنے لگے کہ بطور معجزہ کے یہ مطالبات پورے کر دئیے جائیں تو بہتر ہے سارے مکہ والے مسلمان ہوجائیں گے، اور اسلام کو بڑی قوت حاصل ہوجائے گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ کیا اہل ایمان ان مشرکوں کی حیلہ جوئی اور معاندانہ بحثوں کو دیکھنے اور جاننے کے باوجود اب تک ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے ہیں کہ ایسی تمنا کرنے لگے جبکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب ہی انسانوں کو ایسی ہدایت دیدیتا کہ وہ ایمان لائے بغیر نہ رہ سکتے مگر حکمت کا تقاضا یہ نہ تھا کہ سب کو ایمان و اسلام پر مجبور کردیا جائے بلکہ حکمت یہی تھی کہ ہر شخص کا اپنا اختیار باقی رہے اپنے اختیار سے اسلام کو پسند کرے یا کفر کو۔
ولا یزال۔۔۔ الخ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ قارعۃ کے معنی مصیبت اور آفت کے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کے مطلوبہ معجزے اس لئے پورے نہیں کئے گئے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ مطلوبہ معجزے دیکھنے کے بعد بھی یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے، تو اللہ کے نزدیک یہ اسی کے مستحق ہیں کہ ان پر دنیا میں بھی آفتیں اور مصیبتیں آئیں جیسا کہ اہل مکہ پر کبھی قحط کی مصیبت آئی اور کبھی اسلامی غزوات، بدر وغیرہ میں ان کے قتل و قید ہونے کی آفت نازل ہوئی، کسی پر بجلی گری اور کوئی کسی بلا میں مبتلا ہوا۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں، اللہ کے رسول سے بطریق تلبیس بے سوچے سمجھے سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں ﴿لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ ﴾ ” کیوں نہ اتری اس پر کوئی نشانی اسکے رب کی طرف سے“ یعنی ان کے زعم کے مطابق، اگر ان کے پاس معجزہ آگیا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ ﴾ ” کہہ دیجئے ! اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہے اور راہ دکھلاتا ہے اپنی طرف اس کو جس نے رجوع کیا۔“ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلب گار ہوا۔ پس ہدایت اور گمراہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ وہ اسے آیات و معجزات پر موقوف قرار دیں، بایں ہمہ وہ سخت جھوٹے ہیں۔ ﴿وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ ﴾ )الانعام : 6؍ 111( ” اگر ہم ان پر فرشتے نازل کردیں، ان کے ساتھ مردے ہم کلام ہوں اور ان کے سامنے ہر چیز اکٹھی کردیں تب بھی یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ایمان نہیں لائیں گے۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جاہل ہیں۔ “
یہ لازم نہیں کہ رسول ان کے پاس وہی متعین معجزہ لے کر آئے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں بلکہ وہ جو نشانی لے کر آئے جس سے حق واضح ہوجائے تو کافی ہے اور اس سے مقصد حاصل ہوجاتا ہے اور ان کے لئے ان کے متعین معجزات کے طلب کرنے سے زیادہ نفع مند ہے۔ کیونکہ اگر ان کے مطالبے کے مطابق نشانی آجائے اور وہ اس پر ایمان لانے سے انکار کردیں تو بہت جلد ان کو اللہ تعالیٰ کا عذاب آلے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jinn logon ney kufr apna liya hai , woh yeh kehtay hain kay inn per ( yani Muhammad SallAllaho-alehi-wa-aalihi-wasallam per ) inn kay perwerdigar ki taraf say koi nishani kiyon nahi utaari gaee-? keh do kay : Allah jiss ko chahta hai , gumrah ker deta hai , aur apney raastay per unhi ko lata hai jo uss ki taraf rujoo keren .
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرکین کے اعتراض
مشرکین کا ایک اعتراض بیان ہو رہا ہے کہ اگلے نبیوں کی طرح یہ ہمیں ہمارا کہا ہوا کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتا ؟ اس کی پوری بحث کئی بار گزر چکی کہ اللہ کو قدرت تو ہے لیکن اگر پھر بھی یہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو انہیں نیست و نابود کردیا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ اللہ کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی آئی کہ ان کی چاہت کے مطابق میں صفا پہاڑ کو سونے کا کردیتا ہوں، زمین عرب میں میٹھے دریاؤں کی ریل پیل کردیتا ہوں، پہاڑی زمین کو زراعتی زمین سے بدل دیتا ہوں لیکن پھر بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو انہیں وہ سزا دوں گا جو کسی کو نہ ہوتی ہو۔ اگر چاہوں تو یہ کر دوں اور اگر چاہوں تو ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھلا رہنے دوں تو آپ نے دوسری صورت پسند فرمائی۔ سچ ہے ہدایت ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے وہ کسی معجزے کے دیکھنے پر موقوف نہیں بےایمانوں کے لئے نشانات اور ڈراوے سب بےسود ہیں جن پر کلمہ عذاب صادق ہوچکا ہے وہ تمام تر نشانات دیکھ کر بھی مان کر نہ دیں گے ہاں عذابوں کو دیکھ تو پورے ایماندار بن جائیں گے لیکن وہ محض بیکار چیز ہے فرماتا ہے ولو اننا الخ، یعنی اگر ہم ان پر فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہر چھپی چیز ان کے سامنے ظاہر کردیتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں اکثر جاہل ہیں۔ جو اللہ کی طرف جھکے اس سے مدد چاہے اس کی طرف عاجزی کرے وہ راہ یافتہ ہوجاتا ہے۔ جن کے دلوں میں ایمان جم گیا ہے جن کے دل اللہ کی طرف جھکتے ہیں، اس کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، راضی خوشی ہوجاتے ہیں اور فی الواقع ذکر اللہ اطمینان دل کی چیز بھی ہے۔
ایمانداروں اور نیک کاروں کے لئے خوشی، نیک فالی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ ان کا انجام اچھا ہے، یہ مستحق مبارک باد ہیں یہ بھلائی کو سمیٹنے والے ہیں ان کا لوٹنا بہتر ہے، ان کا مال نیک ہے۔ مروی ہے کہ طوبی سے مراد ملک حبش ہے اور نام ہے جنت کا اور اس سے مراد جنت ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں جنت کی جب پیدائش ہوچکی اس وقت جناب باری نے یہی فرمایا تھا۔ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت کا نام بھی طوبی ہے کہ ساری جنت میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں، ہر گھر میں اس کی شاخ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے، لولو کے دانے سے پیدا کیا ہے اور بحکم الہٰی یہ بڑھا اور پھیلا ہے۔ اس کی جڑوں سے جنتی شہد، شراب، پانی اور دودھ کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے طوبی نامی جنت کا ایک درخت ہے سوا سال کے راستے کا۔ اسی کے خوشوں سے جنتیوں کے لباس نکلتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس نے آپ کو دیکھ لیا اور آپ پر ایمان لایا اسے مبارک ہو ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسے بھی مبارک ہو۔ اور اسے دوگنا مبارک ہو جس نے مجھے نہ دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔ ایک شخص نے پوچھا طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جنتی درخت ہے جو سو سال کی راہ تک پھیلا ہوا ہے جنتیوں کے لباس اس کی شاخوں سے نکلتے ہیں۔ بخاری مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے کہ سوار ایک سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہوگا اور روایت میں ہے کہ چال بھی تیز اور سواری بھی تیز چلنے والی۔ صحیح بخاری شریف میں آیت (وظل ممدود) کی تفسیر میں بھی یہی ہے۔ اور حدیث میں ہے ستر یا سو سال اس کا نام شجرۃ الخلد ہے۔ سدرۃ المنتہی کے ذکر میں آپ نے فرمایا ہے اس کی شاخ کے سائے تلے ایک سو سال تک سوار چلتا رہے گا اور سو سو سوار اس کی ایک ایک شاخ تلے ٹھیر سکتے ہیں۔ اس میں سونے کی ٹڈیاں ہیں، اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں ( ترمذی) آپ فرماتے ہیں ہر جنتی کو طوبیٰ کے پاس لے جائیں گے اور اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس شاخ کو چاہے پسند کرے۔ سفید، سرخ، زرد سیاہ جو نہایت خوبصورت نرم اور اچھی ہوں گی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں طوبٰی کو حکم ہوگا کہ میرے بندوں کے لئے بہترین لباس وغیرہ۔ ابن جریر (رح) نے اس جگہ ایک عجیب و غریب اثر وارد کیا ہے۔ رہب رحمۃ اللہ عیہ کہتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن راستہ ختم نہ ہوگا۔ اس کی تروتازگی کھلے ہوئے چمن کی طرح ہے اس کے پتے بہترین اور عمدہ ہیں اس کے خوشے عنبریں ہیں اس کے کنکر یاقوت ہیں اس کی مٹی کافور ہے اس کا گارا مشک ہے اس کی جڑ سے شراب، دودھ، اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ اس کے نیچے جنتیوں کی مجلسیں ہوں گی، یہ بیٹھے ہوئے ہوں گے جو ان کے پاس فرشتے اونٹنیاں لے کر آئیں گے۔ جن کی زنجریں سونے کی ہوں گی، جن پر یاقوت کے پالان ہوں گے جن پر سونا جڑاؤ ہو رہا ہوگا جن پر ریشمی جھولیں ہوں گی۔ وہ انٹنیاں ان کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ سواریاں تمہیں بھجوائی گئی ہیں اور دربار الہٰی میں تمہارا بلاوا ہے، یہ ان پر سوار ہوں گے، وہ پرندوں کی پرواز سے بھی تیز رفتار ہوں گی۔ جنتی ایک دوسرے سے مل کر چلیں گے وہ خود بخود ہٹ جائیں گے کہ کسی کو اپنے ساتھی سے الگ نہ ہونا پڑے یونہی رحمن و رحیم رب کے پاس پہنچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردے ہٹا دے گا یہ اپنے رب کے چہرہ کو دیکھیں گے اور کہیں گے دعا (اللہم انت السلام والیک السلام وحق لک الجلال والاکرام) ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ رب العزت فرمائے گا دعا (انا السلام ومنی السلام) تم پر میری رحمت ثابت ہوچکی اور محبت بھی۔ میرے ان بندوں کو مرحبا ہو جو بن دیکھے مجھ سے ڈرتے رہے میری فرماں برداری کرتے رہے جنتی کہیں گے باری تعالیٰ نہ تو ہم سے تیری عبادت کا حق ادا ہوا نہ تیری پوری قدر ہوئی ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے سجدہ کریں اللہ فرمائے گا یہ محنت کی جگہ نہیں نہ عبادت کی یہ تو نعمتوں راحتوں اور مالا مال ہونے کی جگہ ہے۔ عبادتوں کی تکلیف جاتی رہی مزے لوٹنے کے دن آگئے جو چاہو مانگو، پاؤ گے۔ تم میں سے جو شخص جو مانگے میں اسے دوں گا۔ پس یہ مانگیں گے کم سے کم سوال والا کہے گا کہ اللہ تو نے دنیا میں جو پیدا کیا تھا جس میں تیرے بندے ہائے وائے کر رہے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ شروع دنیا سے ختم دنیا تک دنیا میں جتنا کچھ تھا مجھے عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے تو کچھ نہ مانگا اپنے مرتبے سے بہت کم چیز مانگی، اچھا ہم نے دی۔ میری بخشش اور دین میں کیا کمی ہے ؟ پھر فرمائے گا جن چیزوں تک میرے ان بندوں کے خیالات کی رسائی بھی نہیں وہ انہیں دو چناچہ دی جائیں گی یہاں تک کہ ان کی خواہشیں پوری ہوجائیں گی ان چیزوں میں جو انہیں یہاں ملیں گی تیز رو گھوڑے ہوں گے ہر چار پر یاقوتی تخت ہوگا ہر تخت پر سونے کا ایک ڈیرا ہوگا ہر ڈیرے میں جنتی فرش ہوگا جن پر بڑی بڑی آنکھوں والی دو دو حوریں ہوں گی جو دو دو حلے پہنے ہوئے ہوں گی جن میں جنت کے تمام رنگ ہوں گے اور تمام خشبوئیں۔ ان خیموں کے باہر سے ان کے چہرے ایسے چمکتے ہوں گے گو یا وہ باہر بیٹھی ہیں ان کی پنڈلی کے اندر کا گودا باہر سے نظر آ رہا ہوگا جیسے سرخ یاقوت میں ڈورا پرویا ہوا ہو اور وہ اوپر سے نظر آ رہا ہو۔ ہر ایک دوسری پر اپنی فضیلت ایسی جانتی ہوگی جیسی فضیلت سورج کی پتھر پر اس طرح جنتی کی نگاہ میں بھی دونوں ایسی ہی ہوں گی۔ یہ ان کے پاس جائے گا اور ان سے بوس وکنار میں مشغول ہوجائے گا۔ وہ دونوں اسے دیکھ کر کہیں گی واللہ ہمارے تو خیال میں بھی نہ تھا کہ اللہ تم جیسا خاوند ہمیں دے گا۔ اب بحکم الہٰی اسی طرح صف بندی کے ساتھ سواریوں پر یہ واپس ہوں گے اور اپنی منزلوں میں پہنچیں گے۔ دیکھو تو سہی کہ رب وہاب نے انہیں کیا کیا نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں ؟ وہاں بلند درجہ لوگوں میں اونچے اونچے بالا خانوں میں جو نرے موتی کے بنے ہوئے ہوں گے جن کے دروازے سونے کے ہوں گے، جن کے منبر نور کے ہوں گے جن کی چمک سورج سے بالا تر ہوگی۔ اعلیٰ علیین میں ان کے محل ہوں گے۔ یاقوت کے بنے ہوئے۔ نورانی۔ جن کے نور سے آنکھوں کی روشنی جاتی رہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں ایسی نہ کر دے گا۔ جو محلات یاقوت سرخ کے ہوں گے ان میں سبز ریشمی فرش ہوں گے اور جو زمرد و یاقوت کے ہوں گے ان کے فرش سرخ مخمل کے ہوں گے۔ جو زمرد اور سونے کے جڑاؤ کے ہوں گے ان تختوں کے پائے جواہر کے ہوں گے، ان پر چھتیں لولو کی ہوں گی، ان کے برج مرجان کے ہوں گے۔ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی رحمانی تحفے وہاں پہنچ چکے ہوں گے۔ سفید یاقوتی گھوڑے غلمان لئے کھڑے ہوں گے جن کا سامان چاندی کا جڑاؤ ہوگا۔ ان کے تخت پر اعلیٰ ریشمی نرم و دبیز فرش بچھے ہوئے ہوں گے یہ ان سواریوں پر سوار ہو کر بےتکلف جنت میں جائیں گے دیکھیں گے کہ ان کے گھروں کے پاس نورانی ممبروں پر فرشتے ان کے استقبال کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کا شاندار استقبال کریں گے۔ ، مبارک باد دیں گے، مصافحہ کریں گے، پھر یہ اپنے گھروں میں داخل ہوں گے۔ انعامات الہٰی وہاں موجود پائیں گے، اپنے محلات کے پاس وہ جنتیں ہری بھری پائیں گے اور جو پھلی پھولی جن میں دو چشمے پوری روانی سے جاری ہوں گے اور ہر قسم کے جوڑ دار میوے ہوں گے اور خیموں میں پاک دامن بھولی بھالی پردہ نشین حوریں ہوں گی۔ جب یہ یہاں پہنچ کر راحت وآرام میں ہوں گے اس وقت اللہ رب العزت فرمائے گا میرے پیارے بندو تم نے میرے وعدے سچے پائے ؟ کیا تم میرے ثوابوں سے خوش ہوگئے ؟ وہ کہیں گے اللہ ہم خوب خوش ہوگئے ؟ بہت ہی راضی رضامند ہیں دل سے راضی ہیں کلی کلی کھلی ہوئی ہے تو بھی ہم سے خوش رہ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اگر میری رضامندی نہ ہوتی تو میں اپنے اس مہمان خانے میں تمہیں کیسے داخل ہونے دیتا ؟ اپنا دیدار کیسے کراتا ؟ میرے فرشتے تم سے مصافحہ کیوں کرتے ؟ تم خوش رہو باآرام رہو تمہیں مبارک ہو تم پھلو پھولو اور سکھ چین اٹھاؤ میرے یہ انعامات گھٹنے اور ختم ہونے والے نہیں۔ اس وقت وہ کہیں گے اللہ ہی کی ذات سزا وار تعریف ہے جس نے ہم سے غم و رنج کو دور کردیا اور ایسے مقام پر پہنچایا کہ جہاں ہمیں کوئی تکلیف کوئی مشقت نہیں یہ اسی کا فضل ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا اور قدر دان ہے۔ یہ سیاق غریب ہے اور یہ اثر عجیب ہے ہاں اس کے بعض شواہد بھی موجود ہیں۔ چناچہ صحیین میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے جو سب سے اخیر میں جنت میں جائے گا فرمائے گا مانگ جو مانگتا جائے گا اور اللہ کریم دیتا جائے گا یہاں تک کہ اس کا سوال پوار ہوجائے گا اور پائے گا۔ اب اس کے سامنے کوئی خواہش باقی نہیں رہے گی تو اب اللہ تعالیٰ خود اسے یاد دلائے گا کہ یہ مانگ یہ مانگ یہ مانگے گا اور پائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب میں نے تجھے دیا اور اتنا ہی اور بھی دس مرتبہ عطا فرمایا۔ صحیح مسلم شریف کی قدسی حدیث میں ہے کہ اے میرے بندو تمہارے اگلے پچھلے انسان جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہوجائیں اور مجھ سے دعائیں کریں اور مانگیں میں ہر ایک کے تمام سوالات پورے کروں گا لیکن میرے ملک میں اتنی بھی کمی نہ آئے گی جتنی کسی سوئی کو سمندر میں ڈوبونے سے سمندر کے پانی میں آئے، الخ۔ خالد بن معدان کہتے ہیں جنت کے ایک درخت کا نام طوبیٰ ہے اس میں تھن ہیں جن سے جنتیوں کے بچے دودھ پیتے ہیں کچے گرے ہوئے بچے جنت کی نہروں میں ہیں قیامت کے قائم ہونے تک پھر چالیس سال کے بن کر اپنے ماں باپ کے ساتھ جنت میں رہیں گے۔