الرعد آية ۳۸
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّيَّةً ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّأْتِىَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۗ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ
طاہر القادری:
اور (اے رسول!) بیشک ہم نے آپ سے پہلے (بہت سے) پیغمبروں کو بھیجا اور ہم نے ان کے لئے بیویاں (بھی) بنائیں اور اولاد (بھی)، اور کسی رسول کا یہ کام نہیں کہ وہ نشانی لے آئے مگر اﷲ کے حکم سے، ہر ایک میعاد کے لئے ایک نوشتہ ہے،
English Sahih:
And We have already sent messengers before you and assigned to them wives and descendants. And it was not for a messenger to come with a sign except by permission of Allah. For every term is a decree.
1 Abul A'ala Maududi
تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور اُن کو ہم نے بیوی بچوں والا ہی بنایا تھا اور کسی رسول کی بھی یہ طاقت نہ تھی کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی خود لا دکھاتا ہر دور کے لیے ایک کتاب ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیبیاں اور بچے کیے اور کسی رسول کا کام نہیں کہ کوئی نشانی لے آئے مگر اللہ کے حکم سے، ہر وعدہ کی ایک لکھت ہے
3 Ahmed Ali
او رالبتہ تحقیق ہم نے تجھ سے پہلے کئی رسول بھیجے اور ہم نے انہیں بیویاں اور اولاد بھی دی تھی اور کسی رسول کے اختیار میں نہ تھا کہ وہ الله کے حکم کے سوا کوئی معجزہ لاتا ہر زمانے کے مناسب احکام ہوتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا (١) کسی رسول سے نہیں ہو سکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے (٢) ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے (٣)
٣٨۔١ یعنی آپ سمیت جتنے بھی رسول اور نبی آئے، سب بشر ہی تھے، جن کا اپنا خاندان اور قبیلہ تھا اور بیوی بچے تھے وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کے لیے ان سے مانوس ہونا اور ان کے قریب ہونا ناممکن تھا جس سے ان کو بھیجنے کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامے میں آتے تو دنیا میں نہ ان کا خاندان اور قبیلہ ہوتا اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے جس سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحثییت جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مزکورہ آیت میں ازواجا سے رہبانیت کی تردید اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ہوتی ہے کیونکہ ذریۃ جمع ہے کم از کم تین ہوں گے
٣٨۔ ٢ یعنی معجزات کا صدور، رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ جب ان سے مطالبہ کیا جائے تو وہ صادر کر کے دکھا دیں بلکہ یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ معجزے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح اور کب دکھایا جائے۔
٣٨۔٣ یعنی اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا، اس کا ایک وقت مقرر ہے، اس وقت پر یہ واقع ہو کر رہے گا اس لئے اللہ کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔ ہر وہ امر، جسے اللہ نے لکھ رکھا ہے، اس کا ایک وقت مقرر ہے، یعنی معاملہ، کفار کے ارادے اور منشاء پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے۔ اور ان کو بیبیاں اور اولاد بھی دی تھی ۔اور کسی پیغمبر کے اختیار کی بات نہ تھی کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے۔ ہر (حکم) قضا (کتاب میں) مرقوم ہے
6 Muhammad Junagarhi
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں واﻻ بنایا تھا، کسی رسول سے نہیں ہو سکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے۔ ہر مقرره وعدے کی ایک لکھت ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ہیں اور ان کے لئے بیوی بچے قرار دیئے اور کسی رسول کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرے ہر وقت کے لیے ایک کتاب (نوشتہ) ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں اور ان کے لئے ازواج اور اولاد قرار دی ہے اور کسی رسول کے لئے یہ ممکن نہیں ہے وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے کہ ہر مدّت اور معیاد کے لئے ایک نوشتہ مقرر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے اور ان کو بیبیاں اور اولاد بھی دی تھی۔ اور کسی پیغمبر کے اخیتار کی بات نہ تھی کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی نشانی لائے۔ ہر (حکم) قضاُ (کتاب میں) مرقوم ہے۔
آیت نمبر ٣٨ تا ٤٢
ترجمہ : آئندہ آیت اس وقت نال ہوئی کہ جب انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کثرت ازواج پر عار دلائی، ہم آپ سے پہلے بھی رسول بھیج چکے ہیں، ہم نے ان میں سے ہر ایک کو بیوی بچوں والا بنایا، اور آپ بھی ان کی مثل ہیں ان میں سے کسی رسول کی یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی معجزہ لاسکے، اس لئے کہ وہ تربیت یافتہ بندے ہیں، ہر دور کیلئے ایک کتاب ہے وہ اسی (دور) کیلئے محدود ہے اللہ جس چیز کو چاہتا ہے اس میں سے مٹا دیتا ہے اور جن احکام وغیرہ کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے ام الکتاب (اصل) اسی کے پاس ہے اصل کتاب کہ اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کرتا اور وہ وہی ہے جس کو اس نے ازل میں لکھا اور جس عذاب کی دھمکیوں کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے (اِمَّا) میں اِنْ شرطیہ کا ما زائدہ میں ادغام ہے ان میں سے بعض ہم آپ کو دکھادیں (یعنی) آپ کی زندگی ہی میں (ان پر) وہ عذاب آجائے اور جواب شرط محذوف ہے، ای فذاک، یعنی ایسا بھی ہوسکتا ہے، یا ان کو عذاب دینے سے پہلے ہی آپ کو وفات دیدیں آپ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے اور بس یعنی آپ پر تبلیغ کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور ہمارے ذمہ ان کا حساب ہے جب ہمارے پاس آئیں گے تو ہم ان کو بدلہ دیں گے کیا اہل مکہ نہیں دیکھتے کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح دیکر زمین اس کی اطراف سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں اور اللہ اپنی مخلوق میں جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کو ٹالنے والا نہیں وہ جلد حساب لینے والا ہے، ان سے پہلے امتوں نے بھی اپنے انبیاء کے ساتھ مکاریاں کی ہیں جیسا کہ آپ کے ساتھ مکاریاں کی ہیں، لیکن تمام تدبیریں اللہ ہی کی ہیں اور ان کی تدبیریں اس کی تدبیر جیسی نہیں ہیں، اسلئے کہ اللہ تعالیٰ ہر متنفس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کیا کرے گا لہٰذا اس کیلئے اس کی جزاء تیار رکھتا ہے اور یہی اس کی مکمل تدبیر ہے، اسلئے کہ اس کو اس طرح بروئے کارلاتا ہے کہ ان کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، اور کافروں کو عنقریب معلوم ہوجائیگا اور کافر سے مراد جنس کافر ہے، اور ایک قراءت میں (کافر کے بجائے) کفار ہے کہ دار آخرت کس کے لئے ہے (یعنی) دار آخرت میں بہتر انجام کس کا ہے، ان کا یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور ان کے اصحاب کا یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں آپ ان سے کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان میری صداقت پر اللہ گواہ کے اعتبار سے کافی ہے اور وہ کہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے (اور وہ) یہود و نصاری میں سے مومنین ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فَذَاک، مبتداء ہے اور شافیک اس کی خبر محذوف ہے مبتداء خبر سے مل کر جملہ ہو کر (اِمَّا) کا جواب شرط ہے۔
قولہ : نتوفینک بھی شرط سابق پر معطوف ہونے کی وجہ سے شرط ہے اس کا بھی جواب محذوف ہے اور وہ فلا تقصیر منک ہے فانما عَلَیْکَ اس محذوف کی علت ہے شاید مفسر علام نے شرط ثانی کے جواب کے حذف کی طرف اول پر اعتماد کرتے ہوئے یا علت پر اعتماد کرتے ہوئے اشارہ نہیں کیا بخلاف پہلی شرط کے جواب کے کہ اس کی علت بیان نہیں کی گئی۔
قولہ : المراد بہ الجنس۔
سوال : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ الکافر میں الف لام عہد کا ماننے کا تو کوئی قرینہ نہیں ہے اسلئے کہ کوئی متعین و مخصوص کافر مراد نہیں ہے نہ مطلقاً ایک کافر مراد ہے تو پھر الکافر کو مفرد لانے کا کیا مقصد ہے ؟
جواب : الکافر میں الف لام کا ہے جو جمع کے معنی پر مشتمل ہے فلا اعتراض۔
تفسیر و تشریح
تمام انبیاء ورسل بشر ہی تھے : ولقد ارسلنا رسلا الخ یعنی مع آپ کے جتنے بھی رسول اور نبی آئے سب بشر ہی تھے جن کا اپنا خاندان تھا، قبیلہ تھا، بیوی بچے تھے، نہ وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے، کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کیلئے ان سے مانوس ہونا اور ان سے قریب ہونا ناممکن تھا، جس سے ان کے بھیجنے کا اصل مقصد جو اصلاح و تہذیب ہے فوت ہوجاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامہ میں بشری خصوصیات کے ساتھ ہوتے تو وہی اعتراض ہوتا جواب رہا ہے اور بشری خصوصیات کے بغیر آتے تو نہ ان کا دنیا میں کوئی خاندان ہوتا اور نہ قبیلہ اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے اس صورت میں وہ امت کیلئے نمونہ نہ ہوتے کہ ان کی اقتداء و اطاعت کی جاتی، اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحیثیت جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مذکورہ آیت میں ازواجاً سے رہبانیت کی تردید ہوتی ہے اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید ہوتی ہے اسلئے کہ ذریۃ جمع ہے جس کا کم ازکم تین پر اطلاق ہوتا ہے۔
نبیوں اور رسولوں کے متعلق کفار و مشرکین کا عام تصور : کفار و مشرکین کا رسول اور نبی کے متعلق ایک عام تخیل یہ تھا کہ وہ جنس بشر کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق مثل فرشتوں کے ہونی چاہیے جس کی وجہ سے عام انسانوں سے ان کی برتری واضح ہوجائے، قرآن کریم نے ان کے اس خیال فاسد کا جواب متعدد آیات میں دیا ہے کہ تم نے نبوت و رسالت کی حقیقت اور حکمت کو ہی نہیں سمجھا، اس لئے تمہارے ذہن میں اس قسم کے واہی خیالات پیدا ہوئے، کیونکہ رسول کو حق تعالیٰ ایک نمونہ بنا کر بھیجتے ہیں کہ امت کے سارے انسان کی پیروی کریں، انہی جیسے اعمال و اخلاق سیکھیں، اور یہ ظاہر ہے کہ انسان اپنے ہم جنس انسان ہی کی پیروی کرسکتا ہے، جو اس کی جنس کا نہ ہو اس کی پیروی انسان سے ناممکن ہے، مثلاً فرشتے کو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس اور نہ نفسانی خواہشات سے ان کو کوئی واسطہ نہ اس کو نیند آئے نہ اونگھ نہ تکان لاحق ہو نہ کسل اب اگر انسان کو ان کی پیروی کا حکم دیا جاتا تو یہ ان کی قدرت سے زائد تکلیف ہوجاتی۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تعداد ازواج : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی لوگوں کو یہی اعتراض اور شبہ ہوا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعداد ازواج سے ان کا یہ شبہ اور بڑھ گیا، اس کا جواب آیت کے پہلے جملہ میں یہ دیا گیا ہے کہ ایک یا اس سے زائد نکاح کرنے اور بیوی بچوں والا ہونے کو تم نے کس دلیل سے نبوت و رسالت کے منافی سمجھ لیا اللہ تعالیٰ کی تو ابتداء آفرنیش سے یہی سنت رہی ہے کہ اپنے پیغمبروں کو صاحب اولاد بناتے ہیں جتنے انبیاء (علیہ السلام) پہلے گذرے ہیں اور ان میں سے بعض کی نبوت کے تو تم بھی قائل ہو وہ سب متعدد بیویاں رکھتے تھے اور صاحب اولاد تھے۔
حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تین سو بیویاں اور سات سو باندیاں تھیں : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تین سو بیویاں آزاد اور سات سو باندیاں تھیں اور ان کے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی سو بیویاں تھیں اور کثرت ازواج سے ان کی نبوت میں نہ کوئی نقص تھا اور نہ قباحت لہٰذا یہ آپ کی نبوت کیلئے قادح اور عیب کیسے ہوسکتا ہے ؟
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد کی تفصیل : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سات اولاد تھیں چار لڑکیاں اور تین لڑکے ان کی ترتیب اس طرح تھی، سب سے بڑے قاسم (رض) اس کے بعد زینب (رض) پھر رقیہ (رض) ، پھر فاطمہ (رض) پھر کلثوم (رض) اس کے بعد عبد اللہ جن کا لقب طیب و طاہر تھا، ان کے بعد ابراہیم (رض) یہ سب حضرت خدیجہ سے تھے سوائے ابراہیم کے کہ وہ ماریہ قبطیہ سے تھے اور سوائے فاطمہ (رض) کے سب کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا تھا، البتہ حضرت فاطمہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کے بعد چھ ماہ بقید حیات رہیں۔
کفار و مشرکین کے معاندانہ سوالات : ہر زمانہ میں کفار مشرکین اپنے زمانہ کے نبی کے سامنے معاندانہ سوالات پیش کرتے رہے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے مشرکین نے آپ سے بھی اسی قسم کے سوالات کئے تھے، ان میں دو سوال بہت عام ہیں ایک یہ کہ اللہ کی کتاب میں ہماری خواہش کے مطابق احکام نازل ہوا کریں جیسا کہ سورة یونس میں ان کا مطالبہ مذکور ہے ” اِئتِ بقرآنٍ غیر ھذا اَوْ بدِّلْہُ “ یعنی یا تو اس موجودہ قرآن کے بجائے بالکل ہی دوسرا قرآن لا دیجئے جس میں ہمارے بتوں کی عبادت کو منع نہ کیا گیا ہو یا پھر آپ اس قرآن میں کچھ ردو بدل اور ترمیم کرکے ان آیتوں کا نکال دیجئے جن سے ہمارے بتوں کی مذمت نکلتی ہے یا جن میں عذاب کی دھمکی دی گئی ہے یعنی حلال کی جگہ حرام اور حرام کی جگہ حلال کر دیجئے۔
موجودہ اعداءِ اسلام کی ذہنیت آج بھی یہی ہے : مغربی صیہونی ذہن میں یہ بات آپ کی بعثت کے روز اول ہی سے کھٹک رہی ہے ان کی طرف سے بار بار مطالبہ ہوتا ہے کہ قرآن سے ان آیتوں کو حذف کردیا جائے جن سے یہودیت اور نصرانیت کی مذمت ثابت ہوتی ہے، مختلف طریقوں سے اس کی ترغیب دی جاتی ہے کبھی مالی لالچ دیا جاتا ہے تو کبھی اقتصادی پابندی کی دھمکی دی جاتی ہے ایسی کوششیں ماضی میں بھی متعدد بار ہوچکی ہیں جو ناکام رہی ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ناکام رہیں گی اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اپنی کتاب کی حفاظت کا تاکیدی وعدہ فرمایا ہے، حال ہی میں اخبارات کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے اپنی مشترکہ کوششوں سے ایک نیا قرآن، ” فرقان الحق “ کے نام سے مشائع کیا ہے جس سے وہ تمام آیتیں جو یہود و نصاری کی مذمت پر دلالت کرتی ہیں نکالدی ہیں، دنیا کا مسلمان صیہونیوں کی اس سازش سے واقف اور باخبر ہے اور ان کے ناپاک عزائم کو ناکام کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ دوسرا مطالبہ نت نئے معجزات طلب کرنے کا ہے کہ اگر فلاں قسم کا معجزہ دکھا دیا جائے تو ہم اسلام قبول کرلیں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا کھلا اعلان ہے کہ کسی نبی یا رسول کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ جب چاہے اور جس طرح کا چاہے معجزہ ظاہر کرسکے۔
لکل اجل کتاب، اجل کے معنی مدت متعینہ کے ہیں اور کتاب اس جگہ مصدر کے معنی میں ہے، یعنی تحریر، معنی یہ ہیں کہ ہر چیز کی میعاد اور مقدار اللہ تعالیٰ کے پاس لکھی ہوئی ہے، اس نے ازل میں لکھ دیا ہے کہ فلاں شخص فلاں وقت پیدا ہوگا اور اتنے دن زندہ رہے گا، کہاں کہاں جائے گا اور کہاں مرے گا۔ اس طرح یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ فلاں زمانہ میں فلاں پیغمبر پر کیا وحی اور کیا احکام نازل ہوں گے اسلئے کہ احکام ہر قوم اور ہر زمانہ کے مناسب آتے ہیں اور یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں پیغمبر سے فلاں فلاں معجزہ کس کس وقت ظہور پذیر ہوگا کس نبی کی شریعت کتنی مدت کیلئے ہے۔
احکام قرآنی میں محوو اثبات کا مطلب : یمحوا اللہ ما یشاء ویثبتُ وعندہ ام الکتاب، اُمُّ الکتاب کے لفظی معنی ہیں اصل کتاب، مراد اس سے لوح محفوظ ہے جس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ آیت کے معنی یہ ہیں کہ حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس حکم کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اس محو و اثبات کے بعد کچھ مواقع ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہے جس پر نہ کسی کی دست رس ہے نہ اس میں کوئی کمی و بیشی ہوسکتی ہے۔
ائمہ تفسیر میں سے حضرت سعید بن جبیر اور قتادہ وغیرہ نے اس آیت میں محو و اثبات سے احکام کا محو و اثبات مراد لیا ہے اور آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ اور ہر قوم کیلئے مختلف رسولوں کے ذریعہ قوموں کے حالات اور زمانوں کے تغیرات کے مناسب احکام بھیجتے ہیں اور قوموں کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق احکام میں بھی محو اثبات کرتے رہتے ہیں اور اصل کتاب بہر حال اس کے پاس محفوظ ہے جس میں محو و اثبات کی پوری تفصیل لکھی ہوئی ہے اور جو احکام شرائط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں وہ بھی اس میں لکھے ہوتے ہیں، اور کچھ احکام علم الٰہی کے مطابق میعادی ہوتے ہیں مگر ان کو مطلق بیان کیا جاتا ہے جس کو بندہ اپنی لاعلمی کی بنا پر دائمی سمجھ لیتا ہے حالانکہ جب ان کی میعاد پوری ہوجاتی ہے تو وہ حکم ختم ہوجاتا ہے اور بندہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوگیا حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔
مذکورہ آیت کی دوسری تفسیر : سفیان ثوری، وکیع وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کی آیک دوسری تفسیر نقل کی ہے جس میں آیت کا تعلق نوشۃ تقدیر سے قرار دیا ہے اور آیت کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ قرآن و حدیث کی تصریحات کے مطابق مخلوقات کی پیدائش سے بھی پہلے لکھ دی ہیں پھر بچہ کی پیدائش کے وقت فرشتوں کو بھی لکھوا دیا جاتا ہے اور ہر سال شب قدر میں اس سال کے اندر پیش آنے والے معاملات کا چٹھا فرشتوں کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ہر فرد مخلوق کی عمر، رزق، حرکات و سکنات سب متعین ہیں اور لکھے ہوئے ہیں مگر اللہ اس نوشۃ تقدیر میں سے جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے، ” وعندہ ام الکتاب “ یعنی اصل کتاب جس کے مطابق محو و اثبات کے بعد انجام کار عمل ہوتا ہے وہ اللہ کے پاس ہے اس میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اعمال سے انسان کی عمر اور رزق بڑھ جاتے ہیں اور بعض سے گھٹ جاتے ہیں، صحیح بخاری میں ہے کہ صلہ رحمی عمر میں زیادتی کا سبب بنتی ہے غرضیکہ اسی قسم کی بہت سی احادیث محو و اثبات پر دلالت کرتی ہیں۔
مذکورہ آیت کے مضمون کا ماحصل یہ ہے کہ کتاب تقدیر میں لکھی ہوئی عمر یا رزق وغیرہ میں ردوبدل کسی عمل یا دعاء کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے مراد وہ کتاب تقدیر ہے جو فرشتوں کے ہاتھ یا انکے علم میں ہے اس میں بعض اوقات کوئی حکم کسی شرط پر معلق ہوتا ہے جب وہ شرط نہ پائی جائے تو وہ حکم بھی نہیں پایا جاتا یہ تقدیر معلق کہلاتی ہے جس میں اس آیت کی تصریح کے مطابق محو و اثبات ہوتا رہتا ہے لیکن آیت کے آخری جملہ میں ” ومَن عندہ علم الکتاب “ نے بتلا دیا کہ اس تقدیر معلق کے اوپر ایک تقدیر مبرم ہے، جو ام الکتاب میں لکھی ہوئی اللہ کے پاس ہے وہ صرف علم الہٰی کیلئے مخصوص ہے اس میں وہ احکام لکھے جاتے ہیں جو شرائط اعمال یا دعاء کے بعد آخری نتیجہ کے طور پر ہوتے ہیں اسی لئے وہ محو و اثبات اور کمی بیشی سے بالکل پاک ہے۔ (ابن کثیر، معارف)
واما نرینک۔۔۔۔ نتوفینک، اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے اور مطمئن کرنے کیلئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے آپ سے کئے ہیں کہ اسلام کی مکمل فتح ہوگی اور کفر اور کافر ذلیل ہوں گے یہ تو ہو کر رہے گا مگر آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ فتح مکمل کب ہوگی، ممکن ہے کہ آپ کی زندگی میں ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ہو، اور آپ کے اطمینان کیلئے تو اتنا کافی ہے آپ برابر دیکھ رہے ہیں کہ ہم کفار کی زمینوں کو ان کے اطراف سے برابر گھٹاتے چلے آرہے ہیں یعنی یہ اطراف لگا تار مسلمانوں کے قبضے میں آتے جا رہے ہیں اس سے ایک دن اس فتح کی تکمیل بھی ہوجائے گی، حکم اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے رسول نہیں ہیں، جن کو لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، کہ یہ لوگ آپ کی رسالت کو کوئی انوکھی چیز سمجھیں۔ فرمایا : ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً﴾ ” اور آپ سے پہلے ہم نے کئی رسول بھیجے اور دیں ہم نے ان کو بیویاں اور اولاد“ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن اس وجہ سے آپ کی عیب چینی نہ کریں کہ آپ کے بیوی بچے ہیں۔ آپ کے بھائی دیگر انبیاء و مرسلین کے بھی بیوی بچے تھے۔ تب وہ آپ میں کس بات پر جرح و قدح کرتے ہیں؟ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ سے قبل انبیاء ورسل بھی اسی طرح تھے۔ ان کی یہ عیب چینی اپنی اغراض فاسدہ اور خواہشات نفس کی خاطر ہے۔۔۔ اگر وہ آپ سے کوئی معجزہ طلب کرتے ہیں تو اپنی خواہش کے مطابق مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ کو کسی چیز کا بھی اختیار نہیں۔
﴿وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ﴾ ” اور کسی رسول سے یہ نہیں ہوا کہ وہ لے آئے کوئی نشانی، مگر اللہ کے حکم سے“ اور اللہ تعالیٰ معجزے دکھانے کی تب اجازت دیتا ہے جب اس کی قضا و قدر کے مطابق مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے۔ ﴿لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ﴾ ” ہر ایک وعدہ لکھا ہوا ہے۔“ اور یہ مقرر کیا ہوا وقت آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے، لہٰذا ان کا آیات و معجزات اور عذاب کے مطالبے میں جلدی مچانا اس بات کا موجب نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ وقت کو آگے کردے جس کو اس نے اپنی تقدیر میں موخر کررکھا ہے۔ بایں ہمہ کہ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay hum ney tum say pehlay bhi boht say Rasool bhejay hain , aur unhen biwi bacchay bhi ata farmaye hain , aur kissi Rasool ko yeh ikhtiyar nahi tha kay woh koi aik aayat bhi Allah kay hukum kay baghair lasakay . her zamaney kay liye alag kitab di gaee hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ہر کام کا وقت مقرر ہے
ارشاد ہے کہ جیسے آپ باوجود انسان ہونے کے رسول اللہ ہیں۔ ایسے ہی آپ سے پہلے کے تمام رسول بھی انسان ہی تھے، کھانا کھاتے تھے، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے بیوی، بچوں والے تھے۔ اور آیت میں ہے کہ اے اشرف الرسل آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ آیت (انما انا بشر مثلکم یوحی الی) میں بھی تم جیسا ہی ایک انسان ہوں میری طرف وحی الہٰی کی جاتی ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا راتوں کو تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں گوشت بھی کھاتا ہوں اور عورتوں سے بھی ملتا ہوں جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑ لے وہ میرا نہیں۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ چار چیزیں تمام انبیاء کا دریقہ رہیں خوشبو لگانا، نکاح کرنا، مسواک کرنا اور مہندی، پھر فرماتا ہے کہ معجزے ظاہر کرنا کسی نبی کے بس کی بات نہیں۔ یہ اللہ عزوجل کے قبضے کی چیز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے ہر ایک بات مقررہ وقت اور معلوم مدت کتاب میں لکھی ہوئی ہے، ہر شے کی ایک مقدار معین ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کا اللہ کو علم ہے سب کچھ کتاب میں لکھا موجود ہے یہ تو اللہ پر بہت ہی آسان ہے۔ ہر کتاب کی جو آسمان سے اتری ہے اس کی ایک اجل ہے اور ایک مدت مقرر ہے ان میں سے جسے چاہتا ہے منسوخ کردیتا ہے جسے چاہتا ہے باقی رکھتا ہے پس اس قرآن سے جو اس نے اپنے رسول صلوات اللہ وسلامہ علیہ پر نازل فرمایا ہے تمام اگلی کتابیں منسوخ ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے سال بھر کے امور مقرر کر دئے لیکن اختیار سے باہر نہیں جو چاہا باقی رکھا جو چاہا بدل دیا۔ سوائے شقاوت، سعادت، حیات و ممات کے۔ کہ ان سے فراغت حاصل کرلی گئی ہے ان میں تغیر نہیں ہونا۔ منصور کہتے ہیں میں نے حضرت مجاہد (رح) سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کا یہ دعا کرنا کیسا ہے کہ الہٰی اگر میرا نام نیکوں میں ہے تو باقی رکھ اور اگر بدوں میں ہے تو اسے ہٹا دے اور نیکوں میں کر دے۔ آپ نے فرمایا یہ تو اچھی دعا ہے سال بھر کے بعد پھر ملاقات ہوئی یا کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا تھا تو میں نے ان سے یہی بات دریافت کی آپ نے آیت (انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ) سے دو آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا لیلۃ القدر میں سال بھر کی روزیاں، تکلیفیں مقرر ہوجاتی ہیں۔ پھر جو اللہ چاہے مقدم موخر کرتا ہے، ہاں سعادت شقاوت کی کتاب نہیں بدلتی۔ حضرت شفیق بن سلمہ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ اگر تو نے ہمیں بدبختوں میں لکھا ہے تو اسے مٹار دے اور ہماری گنتی نیکوں میں لکھ لے اور اگر تو نے ہمیں نیک لوگوں میں لکھا ہے تو اسے باقی رکھ تو جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے باقی رکھے اصل کتاب تیرے ہی پاس ہے۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے روتے روتے یہ دعا پڑھا کرتے تھے اے اللہ اگر تو نے مجھ پر برائی اور گناہ لکھ رکھے ہیں تو انہیں مٹا دے تو جسے چاہے مٹاتا ہے اور باقی رکھتا ہے ام الکتاب تیرے پاس ہی ہے تو اسے سعادت اور رحمت کر دے۔ حضرت ابن مسعود (رض) بھی یہی دعا کیا کرتے تھے۔ کعب (رح) نے امیر المومنین حضرت عمر (رض) سے کہا کہ اگر ایک آیت کتاب اللہ میں نہ ہوتی تو میں قیامت تک جو امور ہونے والے ہیں سب آپ کو بتادیتا پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ ان تمام اقوال کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر کی الٹ پلٹ اللہ کے اختیار کی چیز ہے۔ چناچہ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ بعض گناہوں کی وجہ سے انسان اپنی روزی سے محروم کردیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز بدل نہیں سکتی اور عمر کی زیادتی کرنے والی بجز نیکی کے کوئی چیز نہیں۔ نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ دعا اور قضا دونوں کی مڈ بھیڑ آسمان و زمین کے درمیان ہوتی ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اللہ عزوجل کے پاس لوح محفوظ ہے جو پانچ سو سال کے راستے کی چیز ہے سفید موتی کی ہے یاقوت کے دو پٹھوں کے درمیان۔ تریسٹھ بار اللہ تعالیٰ اس پر توجہ فرماتا ہے۔ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے ام الکتاب اسی کے پاس ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ رات کی تین ساعتیں باقی رہنے پر دفتر کھولا جاتا ہے پہلی ساعت میں اس دفتر پر نظر ڈالی جاتی ہے جسے اس کے سوا کوئی اور نہیں دیکھتا پس جو چاہتا ہے مٹاتا ہے جو چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے۔ کلبی فرماتے ہیں روزی کو بڑھانا گھٹانا عمر کو بڑھانا گھٹانا اس سے مراد ہے ان سے پوچھا گیا کہ آپ سے یہ بات کس نے بیان کی ؟ فرمایا ابو صالح نے ان سے حضرت جابر بن عبداللہ بن رباب نے ان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے۔ پھر ان سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو جواب دیا کہ جمعرات کے دن سب باتیں لکھی جاتی ہیں ان میں سے جو باتیں جزا سزا سے خالی ہوں نکال دی جاتی ہیں جیسے تیرا یہ قول کہ میں نے کھایا میں نے پیا میں آیا میں گیا وغیرہ جو سچی باتیں ہیں اور ثواب عذاب کی چیزیں نہیں اور باقی جو ثواب عذاب کی چیزیں ہیں وہ رکھ لی جاتی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جو کتابیں ہیں ایک میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور اللہ کے پاس ہے اصل کتاب وہی ہے فرماتے ہیں مراد اس سے وہ شخص ہے جو ایک زمانے تک تو اللہ کی اطاعت میں لگا رہتا ہے پھر معصیت میں لگ جاتا ہے اور اسی پر مرتا ہے پس اس کی نیکی محو ہوجاتی ہے اور جس کے لئے ثابت رہتی ہے۔ یہ وہ ہے جو اس وقت تو نافرمانیوں میں مشغول ہے لیکن اللہ کی طرف سے، اس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہوچکی ہے۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے۔ یہ ہے جس کے لئے فرمانبرداری پہلے سے مقرر ہوچکی ہے۔ پس آخری وقت وہ خیر پر لگ جاتا ہے اور طاعت الہٰی میں مرتا ہے۔ یہ ہے جس کے لئے ثابت رہتی ہے۔ سعید بن جبیر (رح) فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جسے چاہے بخشے جسے چاہے نہ بخشے۔ ابن عباس کا قول ہے جو چاہتا ہے منسوخ کرتا ہے جو چاہتا ہے تبدیل نہیں کرتا ناسخ کا اختیار اسی کے پاس ہے اور اول بدل بھی۔ بقول قتادہ یہ آیت مثل آیت (ما ننسخ الخ، کے ہے یعنی جو چاہے منسوخ کر دے جو چاہے باقی اور جاری رکھے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں جب اس سے پہلے کی آیت اتری کہ کوئی رسول بغیر اللہ کے فرمان کے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا تو قریش کے کافروں نے کہا پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالکل بےبس ہیں کام سے تو فراغت حاصل ہوچکی ہے پس انہیں ڈرانے کے لئے یہ آیت اتری کہ ہم جو چاہیں تجدید کردیں ہر رمضان میں تجدید ہوتی ہے پھر اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے روزی بھی تکلیف بھی دیتا ہے اور تقسیم بھی۔ حسن بصری فرماتے ہیں جس کی اجل آجائے چل بستا ہے نہ آئی ہو رہ جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے دن پورے کرلے۔ ابن جریر (رح) اسی قول کو پسند فرماتے ہیں۔ حلال حرام اس کے پاس ہے کتاب کا خلاصہ اور جڑ اسی کے ہاتھ ہے کتاب خود رب العلمین کے پاس ہی ہے۔ ابن عباس (رض) نے کعب سے ام الکتاب کی بابت دریافت کیا تو آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مخلوق کو اور مخلوق کے اعمال کو جان لیا۔ پھر کہا کہ کتاب کی صورت میں ہوجائے ہوگیا۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ام الکتاب سے مراد ذکر ہے۔