الرعد آية ۸
اَللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۗ وَكُلُّ شَىْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ
طاہر القادری:
اﷲ جانتا ہے جو کچھ ہر مادہ اپنے پیٹ میں اٹھاتی ہے اور رحم جس قدر سکڑتے اور جس قدر بڑھتے ہیں، اور ہر چیز اس کے ہاں مقرر حد کے ساتھ ہے،
English Sahih:
Allah knows what every female carries and what the wombs lose [prematurely] or exceed. And everything with Him is by due measure.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے ہر چیز کے لیے اُس کے ہاں ایک مقدار مقر رہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ جانتا ہے جو کچھ کسی مادہ کے پیٹ میں ہے اور پیٹ جو کچھ گھٹتے بڑھتے ہیں اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے
3 Ahmed Ali
الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ ہر مادہ اپنے پیٹ میں لیے ہوئے ہے اورجو کچھ پیٹ میں سکڑتا اور بڑھتا ہے اور اس کے ہاں ہر چیز کا اندازہ ہے
4 Ahsanul Bayan
مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ تعالٰی بخوبی جانتا ہے (١) اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی (٢) ہرچیز اس کے پاس اندازے سے ہے (٣)۔
٨۔١ رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔
٨۔٢ اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر ٩ مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت ١٠ مہینے اور کسی وقت ٧،٨ مہینے ہو جاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔
٨۔٣ یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) ۔ اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے
6 Muhammad Junagarhi
ماده اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی، ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ ہی جانتا ہے کہ ہر عورت (اپنے پیٹ میں) کیا اٹھائے پھرتی ہے؟ اور اس کو بھی (جانتا ہے) جو کچھ رحموں میں کمی یا بیشی ہوتی رہتی ہے اور اس کے نزدیک ہر چیز کی ایک مقدار مقرر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہر عورت کے شکم میں کیا ہے اور اس کے رحم میں کیا کمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے اور ہر شے کی اس کے نزدیک ایک مقدار معین ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا ہی اس بچے سے واقف ہے جو عورت کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پیٹ کے سکڑنے اور بڑھنے سے بھی (واقف ہے) اور ہر چیز کا اس کے ہاں ایک اندازہ مقرر ہے۔
آیت نمبر ٨ تا ١٨
ترجمہ : اللہ بخوبی جانتا ہے کہ مادہ کس چیز سے حاملہ ہے ؟ آیا لڑکا ہے یا لڑکی اور ایک ہے یا متعدد وغیرہ وغیرہ اور مدت حمل میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اس کو بھی جانتا ہے ہر چیز اس کے نزدیک مقدار اور تحدید کے ساتھ ہے کہ اس (مقررہ مقدار) سے تجاوز نہیں ہوتا، پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ عظیم اور اپنی مخلوق پر قوت کے ذریعہ غالب ہے، (المتعال میں) یاء اور بغیر یاء دونوں قراءتیں ہیں تم میں سے کوئی شخص خواہ آہستہ بات کرے یا زور سے، اللہ تعالیٰ کے علم میں سب برابر ہے اور وہ جو رات کی تاریکی میں چھپا ہو اور (یا) دن میں راستہ میں چلنے (پھرنے) کی وجہ سے ظاہر ہو ہر انسان کے ساتھ آگے پیچھے (نگرانی) کیلئے رات دن کی ڈیوٹی والے فرشتے لگے رہتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی نگرانی کرتے ہیں، یعنی اس کے حکم سے جن وغیرہ سے حفاظت کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حالات کو نہیں بدلتا یعنی اس کی نعمتوں کو سلب نہیں کرتا تاآنکہ وہ خود ان صفات کو نہ بدل دے جو اس میں ہیں یعنی اپنی صفات جمیلہ کو معصیت سے نہ بدل دے، اور جب کسی قوم کے بارے میں عذاب کا فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر اسے کوئی نہیں ٹال سکتا خواہ نگران فرشتے ہوں یا اور کوئی اللہ تعالیٰ جن کو سزا دینے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے مقابلہ میں ان کا کوئی حامی نہیں ہوتا کہ ان کو عذاب سے بچا سکے (مِنْ والٍ ) میں مِنْ زائدہ ہے وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلی چمکاتا ہے جس سے مسافروں کو اندیشہ لاحق ہوتا ہے اور مقیمین کو بارش کی امید ہوتی ہے وہی ہے جو پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو پیدا کرتا ہے اور بادلوں کی گرج کہ وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں کے چلانے پر مقرر ہے حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتا ہے یعنی وہ سبحان اللہ وبحمدہ کہتا ہے اور فرشتے اس کی یعنی اللہ ہیبت سے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ بجلیوں کو بھیجتا ہے اور وہ ایک قسم کی آگ ہے جو بادلوں سے نکلتی ہے سو وہ جس پر چاہتا ہے گرا دیتا ہے تو وہ اس کو جلا ڈالتی ہے (آئندہ آیت) اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جس کو دعوت دینے کیلئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو بھیجا، تو اس شخص نے کہا اللہ کا رسول کون ؟ اور اللہ کیا ؟ آیا وہ سونے کا ہے یا چاندی کا ہے یا تانبے کا ہے تو اس پر (آسمانی) بجلی گری اور اس کی سر کی کھوپڑی کو اچک لے گئی اور کفار اللہ کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑ رہے ہیں فی الواقع وہ زبردست قوت والا یا پکڑ والا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلمہ برحق ہے اور اس کا کلمہ ” لا اِلٰہَ الا اللہ “ ہے اور وہ ہستیاں جن کو وہ پکارتے ہیں اس کے علاوہ اور وہ بت ہیں، بندگی کرتے ہیں ان کو کچھ بھی جواب نہیں دے سکتیں، اس چیز کے بارے میں جس کو وہ طلب کر رہے ہیں ان کو پکارنا تو قبولیت کے بارے میں ایسا ہے کہ کوئی پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر کنویں کے کنارے کھڑے ہو کر پانی سے کہے کہ اے پانی تو کنویں سے نکل کر میرے منہ میں پہنچ جا، حالانکہ وہ پانی اس کے منہ تک کبھی پہنچنے والا نہیں، اسی طرح وہ (اصنام) بھی ان کی پکار کا جواب دینے والے نہیں ہیں اور کافروں کا بتوں کی بندگی کرنا یا حقیقۃً ان کو پکارنا اکارتِ محض ہے (یعنی تیر بےہدف ہے) (اور اللہ ہی ہے) کہ جس کیلئے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز بخوشی جیسا کہ مومنین اور ناخوشی جیسا کہ منافقین اور وہ جس کو تلوار کے ذریعہ مجبور کردیا گیا ہو اور سب چیزوں کے سایہ صبح و شام (اللہ کو) سجدہ کرتے ہیں، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے ؟ اور اگر وہ جواب نہ دیں تو خود ہی بتادو کہ وہ اللہ ہے، اس لئے کہ اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں، (پھر) ان سے کہو کہ (جب حقیقت یہ ہے) تو کیا تم نے اللہ کے غیر (یعنی) بتوں کو کارساز بنا لیا جن کی تم بندگی کرتے ہو جو اپنے بھی نفع نقصان کے مالک نہیں اور تم نے نفع نقصان کے مالک کو چھوڑ دیا ؟ یہ استفہام توبیخی ہے، (ان سے پوچھو) کیا نابینا اور بینا یعنی کافر اور مومن (اور) کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی یکسان ہوتی ہے، نہیں ہوتی، اور اگر ایسا نہیں تو کیا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک ٹھہرا رکھے ہیں کہ جنہوں نے اللہ کے مانند کچھ پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے شرکاء کی پیدا کردہ اللہ کی پیدا کردہ شئ ان پر مشتبہ ہوگئی ؟ کہ ان کی تخلیق کی وجہ سے ان کو مستحق عبادت یقین کرلیا، یہ استفہام انکاری ہے، یعنی بات ایسی نہیں ہے اور خالق (حقیقی) کے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں ہے، کہو ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اس میں اس کا کوئی شریک نہیں، لہٰذا عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں، وہ یکتا ہے (اور) اپنے بندوں پر غالب ہے، پھر حق و باطل کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا تو ندی (نالے) اپنی گنجائش کے مطابق اس کو لے کر بہہ نکلے پھر اس سیلاب نے پانی پر چڑھے جھاگوں کو اٹھا لیا وہ سطح آب پر آنے والا کوڑا کرکٹ وغیرہ ہے اور ارضیاتی دھاتوں میں سے مثلاً سونا اور چاندی، اور تانبا جس کو آگ میں تپاتے ہیں زیور بنانے کیلئئے یا سازوسامان بنانے کیلئے تاکہ ان سے استفادہ کیا جائے مثلاً برتن جبکہ اس کو پگھلایا جائے اسی طرح کے یعنی سیلاب کے جھاگوں کے مانند جھاگ ہیں اور وہ، وہ میل ہوتا ہے جس کو بھٹی الگ کردیتی ہے، مذکورہ مثال کے مانند اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے، سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھات کے جھاگ تو وہ ناکارہ ہو کر ختم ہوجاتے ہیں یعنی بیکار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے، اور جس سے لوگ نفع اٹھاتے ہیں کہ وہ پانی اور دھات ہے تو وہ زمین پر ایک زمانہ تک ٹھہر جاتا ہے، اور حق ثابت اور باقی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ مذکورہ مثال کی طرف مثالیں بیان کرتا ہے اور جن لوگوں نے اپنے رب کی حکم برداری کی یعنی اطاعت کے ذریعہ فرمانبرداری کی، ان کیلئے جنت ہے، اور جن لوگوں نے کہ وہ کافر ہیں اس کی حکم برداری نہیں کی اگر ان کیلئے زمین میں جو کچھ ہے اور اسکے ساتھ اتنا ہی اور بھی ہو تو اس کو عذاب کے عوض میں دیدیں گے یہی ہیں وہ لوگ جن کیلئے برا حساب ہے اور وہ انکے تمام اعمال کا مواخذ ہے اس میں سے کچھ بھی معاف نہیں کیا جائیگا، اور جن کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بری جگہ ہے وہ برا بچھونا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الْمتَعَالِ اسم فاعل واحد مذکر غائب، (تَفَاعلٌ سے) مصدر تَعَالِیٌ، المُتَعَال اصل میں المتعالیُ تھا آخر سے یاء حذف ہوگئی، مادہ عُلُوٌّ ہے، یہاں ثلاثی مجرد کو ثلاثی مزید میں لیجانے کا مقصد معنی میں زیادتی کو بیان کرنا ہے، اس کے معنی ہیں برتر، بزرگ تر، المتعال میں دو قراءتیں ہیں یاء کے ساتھ یعنی المتعالی اور بغیر یاء کے یعنی المتعال۔
قولہ : سوآء منکم الخ اس میں دو ترکیبیں ہیں، (١) سواءٌ خبر مقدم اور مَنْ اَسَرَّ ومَنْ جَھَرَ مبتداء مؤخر۔
سوال : جب مبتداء دو ہیں تو خبر بھی تثنیہ لانی چاہیے تھی یعنی سواء ان کہنا چاہیے تھا۔
جواب : سواء چونکہ مصدر بمعنی مستو ہے لہٰذا اس میں واحد تثنیہ جمع سب برابر ہیں، (٢) سواء مبتداء اور اَسَرَّ القولَ الخ اس کی خبر۔
سوال : سواء نکرہ ہے اس کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : سواء کی صفت چونکہ منکم موجود ہے لہٰذا اس میں تخصیص پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے سواءٌ کا مبتداء بننا درست ہوگیا۔
قولہ : ساربٌ یہ سربٌ سے اسم فاعل ہے بمعنی، راہ میں چلنے والا، گلیوں میں پھرنے والا، سارب کی جمع سَرْبٌ ہے جیسا کہ راکبٌ کی جمع رَکْبٌ آتی ہے ساربٌ کا عطف من ھو مستخفٍ پر ہے نہ کہ مستخف پر۔
قولہ : معقِّبات یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے اور مُعَقِّبَۃٌ کی جمع ہے (تفعیل) سے تعقیب مصدر ہے، باری باری سے روز و شب میں آنے والے فرشتے۔ (بیضاوی، و کبیر)
قولہ : تَعْتَقِبُ اس میں اشارہ ہے کہ مُعَقِّبَاتٌ اِعْتَقَبَ سے ہے، اصل میں مُتَعَقِّباتٌ تھا تاء کو قاف میں ادغام کردیا وہ ملائکہ جو آمدورفت میں ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہیں، مراد وہ ملائکہ ہیں جو شب و روز میں ڈیوٹی بدلتے ہیں۔
قولہ : مَرَدَّ ، اسم فعل، ٹالنا، لوٹانا۔
قولہ : مِنْ والٍ ، مِنْ زائدہ ہے وَال اسم فاعل اصل میں والِیٌ تھا (ض) یاء حذف کردی گئی، مددگار، حمایتی۔
قولہ : خوفاً وطمعًا، اور کہا گیا ہے یہ دونوں یریکم کے کاف سے حال ہیں، ای حَالَ کو نکم خائفین وطامعین، ابو البقاء نے کہا ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے فعلوں کے مفعول بھی ہوسکتے ہیں، (مگر زمخشری نے انکار کیا ہے) اور بعض حضرات نے اَلْبَرْقَ سے بھی حال قرار دیا ہے۔ (اعراب القرآن للدرویش)
قولہ : تُسَبِّحُ اس میں اشارہ ہے کہ الملائکۃ کا عطف الرَّعد پر ہے نہ کہ قریب پر۔
قولہ : بقحف، قُحف کھوپڑی، کاسۂ سر (جمع) اقحاف، قُحوف۔
قولہ : ای کلمۃ اس میں اشارہ ہے کہ دعوت دعاء کے معنی میں نہیں ہے اور نہ بمعنی اَلدَّعوۃ المجابۃ کے معنی میں ہے۔
قولہ : اِستجابۃً ۔ سوال : استجابۃ مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : در وجہ سے اول یہ کہ مستثنیٰ ، مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہوجائے اسلئے کہ مستثنیٰ متصل ہی اصل ہے، اور مستثنیٰ منہ استجانۃ ہے جو یستجیبون سے مفہوم ہے اسلئے کہ فعل مصدر پر دلالت کرتا ہے دوسرے یہ کہ اگر استجابۃ کو مقدر نہ مانا جائے تو تشبیہ العرض بالذات لازم آئے گی جو کہ جائز نہیں ہے، اسلئے کہ ستجابۃ عرض ہے اور باسط کفیہ ذات، بتوں سے مراد مانگنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جو پانی سے کہہ رہا ہو کہ اے پانی تو میرے منہ میں آجا ظاہر ہے کہ یہ حماقت و سفاہت ہے اسلئے کہ پانی جماد ہے اس میں کسی کی فریاد سننے کی صلاحیت نہیں ہے، اسی طرح وہ شخص جو بتوں سے مرادیں مانگ رہا ہے وہ بھی سفیہ اور احمق ہے اسلئے کہ بت بھی جماد بےحس ہیں۔
قولہ : غُدُوٌّ، غداۃ کی جمع ہے، صبح کا وقت۔ قولہ : ا لآصال، یہ اصیل کی جمع ہے شام کا وقت۔
قولہ : جُفَاءٌ بروزن غُرابٌ، باطل، بےفائدہ یقال، جَفَا الوادی والقدرُ یعنی وادی (ندی) اور ہانڈی نے جھاگ باہر نکل دئیے۔
قولہ : اجابوہ بالطاعۃ اس میں اشارہ ہے کہ استجابوا (استفعال) افعال کے معنی میں ہے لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ یہاں طلب کے معنی مقصود نہیں ہیں۔
قولہ : الجنۃ، اس کے اضافہ سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے الحُسْنٰی الجنۃ محذوف کی صفت ہے الجنۃُ الحُسْنٰی، مبتداء مؤخر اور للذین الخ خبر مقدم ہے۔
تفسیر و تشریح
اللہ یعلم۔۔۔ (الآیۃ) رحم مادر میں کیا ہے ؟ نر ہے یا مادہ، خوبصورت ہے بدصورت، خوش نصیب ہے یا بد نصیت، نہ نیک ہے یابد، طو یل العمر ہے یا نا قصیرالمر، نا قص تو لد ہوگا یا کا مل، یہ سب با تیں صرف اللہ ہی جانتا ہے اس کا علم بلا واسطہ ہے، نہ کسی آلہ کا محتاج اور نہ ذریعہ کا۔ غرضیکہ وہ ہر ذرہ کے بدلتے ہوئے حالات سے واقف ہے، قرائن اور تخمینہ سے کوئی حکیم یا ڈاکٹر جو کچھ اس معاملہ میں رائے دیتا ہے اس کی حیثیت ایک گمان اور اندازہ کی ہوتی ہے بسا اوقات واقعہ اس کے خلاف نکلتا ہے، اَلٹرا ساؤنڈ یا ایکسرے مشین کے ذریعہ حاصل ہونے والی معلومات بھی یقینی نہیں ہوتیں ان کا غلط ہونا بھی تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہے اس کے علاوہ مشینوں کے ذریعہ معلومات حاصل کرنا ایک قسم کے مشاہدہ سے حاصل ہونے والا علم ہے جیسا کہ کوئی آپریشن کرکے نرومادہ ہونے کو متعین کرلے، اس کا علم غیب سے کوئی تعلق نہیں غیب سے مراد وہ چیز ہے جو انسانی حواس سے غائب ہو یعنی نہ آنکھوں سے اور نہ آلات سے اس کو دیکھا جاسکے اور نہ کانوں اور آلات سے اسے سنا جاسکے اور نہ ناک سے سونگھا جاسکے اور نہ زبان سے چکھا جاسکے اور نہ ہاتھوں سے چھوا جاسکے، اور شہادت سے اس کے بالمقابل وہ چیزیں مراد ہیں کہ جو انسانی حواس مذکورہ کے ذریعہ معلوم کیا جاسکے مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا علم غیب خاص اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے، اللہ تعالیٰ غائب کو اسی طرح جانتا ہے جس طرح حاضر و مشاہد کو جانتا ہے، عمومی حالات میں بچہ کے رحم مادر میں رہنے کی مدت ٢٨٠ دن ہوتی اگر کوئی عارض پیش نہ آئے۔
لہ معقبت۔۔۔ (الآیۃ) یعنی بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو ہرحال میں براہ راست خود دیکھ رہا ہے اور
ہر ذرہ کی تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے، بلکہ مزید براں اللہ کے مقرر کئے ہوئے نگرانِ کار بھی ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور اس کے پورے کارنامہ زندگی کا رکارڈ محفوظ کرتے جاتے ہیں، بخاری شریف کی روایت ہے کہ رات اور دن کے نگران فرشتے الگ الگ ہیں ان کی ڈیوٹی صبح فجر کی نماز کے بعد اور عصر کے بعد تبدیل ہوتی ہے۔
فلا مرد۔۔۔ وال، یعنی کسی کو بھی اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ کوئی پیر یا فقیر یا کوئی جن یا فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ تم خواہ کچھ بھی کرتے رہو وہ تمہاری نذروں اور نیازوں کی رشوت لے کر تم کو تمہارے برے اعمال کی پاداش سے بچا لے گا۔
ان اللہ لا یغیر۔۔۔۔ (الآیۃ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی کفرانِ نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ کے اوامرو نواہی سے اعراض کرکے اپنے احوال و اخلاق کو نہیں بدل لیتا اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتے یعنی ان کے امن و عافیت و مصیبت میں اس وقت تک تبدیل نہیں کرتے جب تک وہ قوم خود ہی اپنے اعمال و احوال کو برائی اور فساد میں تبدیل نہ کرے ورنہ تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا طرز عمل بدل دیتے ہیں۔
اس تشریح سے معلوم ہوا کہ آیت مذکورہ میں تغیر احوال سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم اطاعت و شکر گذاری چھوڑ کر اپنے حالات میں بری تبدیلی پیدا کرلے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا حفاظت و رحمت کا طرز بدل دیتے ہیں۔ اس آیت کا عام طور پر جو یہ مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ کسی قوم میں اچھا انقلاب اس وقت تک نہیں آتا جبتک وہ خود اچھے انقلاب کیلئے اپنے حالات کو درست نہ کرے، اسی مفہوم میں یہ شعر مشہور ہے۔ ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ بات اگرچہ ایک حد تک صحیح ہے مگر آیت مذکور کا یہ مفہوم نہیں ہے، اور اسکا صحیح ہونا بھی ایک عام قانون کی حیثیت سے ہے جو شخص خود اپنے حالات کی اصلاح کا ارادہ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اس کی امداد و نصرت کا وعدہ نہیں، بلکہ یہ وعدہ اسی حالت میں ہے کہ جب خود اصلاح کی فکر کرے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہدایت کے راستے تب ہی کھلتے ہیں جب خود ہدایت کی طلب موجود ہو، لیکن انعامات الٰہیہ اس قانون کے پابند نہیں بسا اوقات اس کے بغیر بھی عطا ہوجاتے ہیں۔ (معارف)
ھو الذی۔۔۔ (الآیۃ) یعنی اللہ ہی کی ذات پاک ہے کہ جو تم کو برق و بجلی دکھلاتی ہے جو انسان کیلئے خوف بھی بن سکتی ہے کہ جس جگہ پڑجائے سب کچھ خاک کر ڈالے، اور طمع وامید بھی ہوتی ہے کہ بجلی کی چمک کے بعد بارش آئے گی، جو انسانوں کی زندگی کا سہارا ہے۔
لہ دعوۃ الحق (الآیۃ) یعنی امید و بین کے وقت اسی ایک خدا کو پکارنا چاہیے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول کرتا ہے یہاں دعوت عبادت کے معنی میں ہے یعنی اس کی عبادت حق اور صحیح ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق ومالک اور مدبر و متصرف صرف وہی ہے اسلئے عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے، اور دعوۃ کے معنی کلمہ کے بھی ہیں جیسا کہ مفسر علام نے صراحت کی ہے۔ اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کیلئے پکارتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کنویں کی مَنْ (کنارے) پر کھڑا ہو کر اور دونوں ہاتھ پھیلا کر پانی سے کہے کہ اے پانی تو میرے منہ تک آجا ! ظاہر بات ہے کہ پانی جامد اور لاشعور چیز ہے اسے یہ پتہ ہی نہیں کہ ہاتھ پھیلانے والا پیاسا ہے اور نہ اسے یہ پتہ کہ یہ ہاتھ پھیلانے والا مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے، اور نہ اس میں یہ قدرت کہ اپنی جگہ سے حرکت کرکے اس کے منہ تک پہنچ جائے، اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن بتوں کو پکارتے ہیں انھیں نہ یہ پتہ کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔
انزل من السماء۔۔۔ بقدرھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تشبیہ و تمثیل کے پیدایہ میں حق و باطل کی حقیقت واضح کی ہے سورة بقرہ کے آغاز میں بھی منافقین کیلئے مثالیں بیان فرمائی ہیں، مثال سے مقصد بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرانا ہے۔
حق و باطل کی مثال : اس آیت میں مذکورہ مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان جامع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے، اسلئے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو دل سے تشبیہ دی ہے اسلئے کہ بارش کا پانی وادیوں اور ندی نالوں میں جاکر جمع ہوتا ہے اور بقدر وسعت پانی لے کر رواں ہوجاتا ہے جس طرح قرآن مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔ دونوں مثالوں کا حاصل یہ ہے کہ جیسا ان مثالوں میں میل کچیل برائے چندے (وقتی طور پر) اصلی چیز کے اوپر چڑھا ہوا نظر آتا ہے لیکن انجام کار وہ پھینک دیا جاتا ہے اور اصلی چیز رہ جاتی ہے اسی طرح باطل گو چند روز حق کے اوپر نظر آئے لیکن آخر کار باطل محو اور مغلوب ہوجاتا ہے اور حق باقی اور ثابت رہتا ہے۔ اسی طرح جب سونے چاندی وغیرہ کو بھٹی میں تپایا جاتا ہے تو میل کچیل اوپر آکر اچھل کود شروع کردیتا اور بڑی شان کے ساتھ کچھ دیر کیلئے اصل دھات پر چڑھ جاتا ہے اور سطح پر وہی نظر آتا ہے مگر کچھ ہی دیر کے بعد کوڑے دان کی نذر ہوجاتا ہے، اسی طرح بظاہر کچھ دیر کیلئے حق کو مغلوب کرلیتا ہے مگر کچھ مدت کے بعد حق باطل سے اس طرح ٹکراتا ہے کہ باطل کا بھیجہ پاش پاش کردیتا ہے۔
اولئک لھم سوء الحساب، بری حساب فہمی یا سخت حساب فہمی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی خطاء اور کسی لغزش کو معاف نہ کیا جائے اور ہر قصور پر مواخذہ کیا جائے۔
قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کا محاسبہ اپنے ان بندوں سے کرے گا جو اس کے باغی بن کر دنیا میں رہے ہیں، بخلاف انکے جنہوں نے اپنے خدا سے وفاداری کی ہے ان سے حساب یسیر یعنی ہلکا حساب لیا جائیگا، اور ان کی خدمات کے مقابلہ میں انکی خطاؤں کو درگذر کیا جائیگا اور ان کے مجموعی طرز عمل کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر ان کی بہت سی کوتاہیوں سے صرف نظر کرلیا جائیگا اس کی مزید توضیح اس حدیث سے ہوتی ہے جو حضرت عائشہ (رض) سے ابوداؤد میں مروی ہے، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے نزدیک کتاب اللہ میں سب سے زیادہ خوفناک آیت وہ ہے جس میں ارشاد ہے ” منیعمل سوءًا یجزبہ “ جو شخص کوئی برائی کرے گا وہ اس کی سزا پائیگا، اس پر حضور نے فرمایا، عائشہ، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا کے مطیع و فرمانبردار بندے کو دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے تو اللہ اسے اس کے کسی قصور کی سزا قرار دیکر دنیا ہی میں اس کا حساب صاف کردیتا ہے، آخرت میں تو جس سے بھی محاسبہ ہوگا وہ سزاپا کر رہے گا، حضرت عائشہ نے عرض کیا پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب کیا ہے ؟ ” فَامَّا مَنْ اُوْتِیَ کتابہ بیمینہٖ فَسَوْفَ یُحاسبُ حِسَابًا یَسِیْرًا “ جس کا اعمال نامہ اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائیگا اس سے ہلکا حساب لیا جائیگا، حضور نے جواب دیا اس سے مراد صرف پیشی ہے مگر جس سے باز پرس ہوئی وہ تو مارا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کا علم سب کو شامل، اس کی اطلاع بہت وسیع اور اس نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، چنانچہ فرماتا ہے : ﴿ اللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ ﴾ ”اللہ جانتا ہے جو پیٹ میں رکھتی ہے ہر مادہ“ یعنی انسان اور جانوروں میں سے ﴿وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ ﴾ ”اور جو کم کرتے ہیں پیٹ“ یعنی رحم میں موجود حمل میں جو کمی ہوتی ہے، یا وہ ہلاک ہوجاتے ہیں، یا وہ سکڑ کر مضمحل ہوجاتے ہیں،﴿وَمَا تَزْدَادُ ﴾ ” اور جو وہ زیادہ کرتے ہیں“ اور ان میں موجود بچے بڑے ہوجاتے ہیں۔ ﴿وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ ﴾ ” اور ہر چیز کا اس کے ہاں اندازہ ہے۔“ کوئی چیز اس مقدار سے آگے بڑھ سکتی ہے نہ پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ اس مقدار سے زیادہ ہوسکی نہ کم، مگر جس کا تقاضا اس کی حکمت اور علم کرے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jiss kissi mada ko jo hamal hota hai , Allah uss ko bhi janta hai , aur maon kay reham mein jo koi kami beshi hoti hai , uss ko bhi . aur her cheez ka uss kay haan aik andaza muqarrar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
علم الہٰی
اللہ کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ تمام جاندار مادہ حیوان ہوں یا انسان، ان کے پیٹ کے بچوں کا، ان کے حمل کا، اللہ کو علم ہے کہ پیٹ میں کیا ہے ؟ اسے اللہ بخوبی جانتا ہے یعنی مرد ہے یا عورت ؟ اچھا ہے یا برا ؟ نیک ہے یا بد ؟ عمر والا ہے یا بےعمر کا ؟ چناچہ ارشاد ہے آیت (ھو اعلم بکم) الخ وہ بخوبی جانتا ہے جب کہ تمہیں زمین سے پیدا کرتا ہے اور جب کہ تم ماں کے پیٹ میں چھپے ہوئے ہوتے ہو، الخ اور فرمان ہے آیت (يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰث) 39 ۔ الزمر :6) وہ تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں پیدا کرتا ہے ایک کے بعد دوسری پیدائش میں تین تین اندھیروں میں۔ ارشاد ہے آیت (ولقد خلقنا الانسان من سلالتہ) الخ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے نطفے کو خون بستہ کیا، خون بستہ کو لوتھڑا گوشت کا کیا۔ لوتھڑے کو ہڈی کی شکل میں کردیا۔ پھر ہڈی کو گوشت چڑھایا، پھر آخری اور پیدائش میں پیدا کیا پس بہترین خالق بابرکت ہے۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں فرمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے، پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ بصورت خون بستہ رہتا ہے پھر اتنے ہی دنوں تک وہ گوشت کا لوتھڑا رہتا ہے، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کا ایک فرشے کو بھیجتا ہے، جسے چار باتوں کے لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے، اس کا رزق عمر عمل اور نیک بد ہونا لکھ لیتا ہے۔
اور حدیث میں ہے وہ پوچھتا ہے کہ اے اللہ مرد ہوگا یا عورت ؟ شق ہوگا یا سعید ؟ روزی کیا ہے ؟ عمر کتنی ہے ؟ اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اور وہ لکھ لیتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں بجز اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کے اور کوئی نہیں جانتا کل کی بات اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ پیٹ میں کیا بڑھتا ہے اور کیا گھٹتا ہے کوئی نہیں جانتا۔ بارش کب برسے گی اس کا علم بہی کسی کو نہیں کون شخص کہاں مرے گا اسے بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کب قائم ہوگی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے۔ پیٹ میں کیا گھٹتا ہے اس سے مراد حمل کا ساقط ہوجانا ہے اور رحم میں کیا بڑھ رہا ہے کیسے پورا ہو رہا ہے۔ یہ بھی اللہ کو بخوبی علم رہتا ہے۔ دیکھ لو کوئی عورت دس مہینے لیتی ہے کوئی نو۔ کسی کا حمل گھٹتا ہے، کسی کا بڑھتا ہے۔ نو ماہ سے گھٹنا، نو سے بڑھ جانا اللہ کے علم میں ہے۔ حضرت ضحاک کا بیان ہے کہ میں دو سال ماں کے پیٹ میں رہا جب پیدا ہوا تو میرے اگلے دو دانت نکل آئے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) کا فرمان ہے کہ حمل کی انتہائی مدت دو سال کی ہوتی ہے۔ کمی سے مراد بعض کے نزدیک ایام حمل میں خون کا آنا اور زیادتی سے مراد نو ماہ سے زیادہ حمل کا ٹھرا رہنا ہے۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں نو سے پہلے جب عورت خون کو دیکھے تو نو سے زیادہ ہوجاتے ہیں مثل ایام حیض کے۔ خون کے گرنے سے بچہ اچھا ہوجاتا ہے اور نہ گرے تو بچہ پورا پاٹھا اور بڑا ہوتا ہے۔ حضرت مکحول (رح) فرماتے ہیں بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں بالکل بےغم، بےکھٹکے اور باآرام ہوتا ہے۔ اس کی ماں کے حیض کا خون اس کی غذا ہوتا ہے، جو بےطلب آرام اسے پہنچتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کو ان دنوں حیض نہیں آتا۔ پھر جب بچہ پیدا ہوتا ہے زمین پر آتے ہی روتا چلاتا ہے، اس انجان جگہ سے اسے وحشت ہوتی ہے، جب اس کی نال کٹ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی روزی ماں کے سینے میں پہنچا دیتا ہے اور اب بھی بےطلب، بےجستجو، بےرنج وغم، بےفکری کے ساتھ اسے روزی ملتی رہتی ہے۔ پھر ذرا بڑا ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کھانے پینے لگتا ہے۔ لیکن بالغ ہوتے ہی روزی کے لئے ہائے ہائے کرنے لگتا ہے۔ موت اور قتل تک سے روزی حاصل ہونے کا امکان ہو تو پس وپیش نہیں کرتا۔ افسوس اے ابن آدم تجھ پر حیرت ہے جس نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں روزی دی، جس نے تجھے تیری ماں کی گود میں روزی دی جس نے تجھے بچے سے بالغ بنانے تک روزی دی۔ اب تو بالغ اور عقل مند ہو کر یہ کہنے لگا کہ ہائے کہاں سے کھاوں گا ؟ موت ہو یا قتل ہو ؟ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ ہر چیز اس کے پاس اندازے کے ساتھ موجود ہے رزق اجل سب مقرر شدہ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک صاحبزادی صاحبہ نے آپ کے پاس آدمی بھیجا کہ میرا بچہ آخری حالت میں ہے، آپ کا تشریف لانا میرے لئے خوشی کا باعث ہے۔ آپ نے فرمایا جاؤ ان سے کہہ دو کہ جو اللہ سے ثواب کی امید رکھیں۔
اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو بھی جانتا ہے جو بندوں سے پوشیدہ ہے اور اسے بھی جو بندوں پر ظاہر ہے، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں۔ وہ سب سے بڑا۔ وہ ہر ایک سے بلند ہے ہر چیز اس کے علم میں ہے ساری مخلوق اس کے سامنے عاجز ہے، تمام سر اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں تمام بندے اس کے سامنے عاجز لا چار اور محض بےبس ہیں۔