Skip to main content

لَـقَالُوْۤا اِنَّمَا سُكِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ

They would surely say
لَقَالُوٓا۟
البتہ وہ کہیں گے
"Only
إِنَّمَا
بیشک
have been dazzled
سُكِّرَتْ
سست ہوگئیں ہیں۔ مدہوش کردی گئیں ہیں
our eyes
أَبْصَٰرُنَا
ہماری نگاہیں
Nay
بَلْ
بلکہ
we
نَحْنُ
ہم
(are) a people
قَوْمٌ
ایک قوم ہیں
bewitched"
مَّسْحُورُونَ
سحر زدہ۔ جادو کیے گئے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے

English Sahih:

They would say, "Our eyes have only been dazzled. Rather, we are a people affected by magic."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

جب بھی یہی کہتے کہ ہماری نگاہ باندھ دی گئی ہے بلکہ ہم پر جادو ہوا ہے

احمد علی Ahmed Ali

البتہ کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی تھی بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے۔ (١)

١٥۔١ یعنی ان کا کفر و عناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ فرشتوں کا نزول تو رہا ایک طرف، اگر خود ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں اور یہ ان دروازوں سے آسمان پر آ جائیں، تب بھی انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے اور رسولوں کی تصدیق نہ کریں بلکہ یہ کہیں کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے یا ہم پر جادو کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم آسمان پر آ جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

تو بھی یہی کہیں کہ ہماری آنکھیں مخمور ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

تو پھر بھی وہ یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کو مدہوش کر دیا گیا ہے بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

تو بھی کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کو مدہوش کردیا گیا ہے اور ہم پر جادو کردیا گیا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(تب بھی) یہ لوگ یقیناً (یہ) کہیں گے کہ ہماری آنکھیں (کسی حیلہ و فریب کے ذریعے) باندھ دی گئی ہیں بلکہ ہم لوگوں پر جادو کر دیا گیا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ستارے اور شیطان
اس بلند آسمان کا جو ٹھہرے رہنے والے اور چلنے پھرنے والے ستاروں سے زینت دار ہے، پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ جو بھی اسے غور و فکر سے دیکھے وہ عجائبات قدرت اور نشانات عبرت اپنے لئے بہت سے پاسکتا ہے۔ بروج سے مراد یہاں پر ستارے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا 61؀) 25 ۔ الفرقان ;61) بعض کا قول ہے کہ مراد سورج چاند کی منزلیں ہیں، عطیہ کہتے ہیں وہ جگہیں جہاں چوکی پہرے ہیں۔ اور جہاں سے سرکش شیطانوں پر مار پڑتی ہے کہ وہ بلند وبالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں۔ جو آگے پڑھتا ہے، شعلہ اس کے جلانے کو لپکتا ہے۔ کبھی تو نیچے والے کے کان میں بات ڈالنے سے پہلے ہی اس کا کام ختم ہوجاتا ہے، کبھی اس کے برخلاف بھی ہوتا ہے جیسے کہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں صراحتا مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی امر کی بابت فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر جھکا لیتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر۔ پھر جب ان کے دل مطمئن ہوجاتے ہیں تو دریافت کرتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ؟ وہ کہتے ہیں جو بھی فرمایا حق ہے اور وہی بلند وبالا اور بہت بڑا ہے۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لئے جنات اوپر کی طرف چڑھتے ہیں اور اس طرح ایک پر ایک ہوتا ہے۔ راوی حدیث حضرت صفوان نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح بتایا کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں کشادہ کر کے ایک کو ایک پر رکھ لی۔ شعلہ اس سننے والے کا کام کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کردیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کہہ دے۔ اسی وقت وہ جل جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ اس سے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آجائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہوجائیں پھر تو وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں پیلا دیتا ہے۔ جب اس کی وہ ایک بات جو آسمان سے اسے اتفاقا پہنچ گئی تھی صحیح نکلتی ہے تو لوگوں میں اس کی دانشمندی کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ دیکھو فلاں نے فلاں دن یہ کہا تھا بالکل سچ نکلا۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین کا ذکر فرماتا ہے کہ اسی نے اسے پیدا کیا، پھیلایا، اس میں پہاڑ بنائے، جنگل اور میدان قائم کئے، کھیت اور باغات اور تمام چیزیں اندازے، مناسبت اور موزونیت کے ساتھ ہر ایک موسم، ہر ایک زمین، ہر ایک ملک کے لحاظ سے بالکل ٹھیک پیدا کیں جو بازار کی زینت اور لوگوں کے لئے خوشگوار ہیں۔ زمین میں قسم قسم کی معیشت اس نے پیدا کردیں اور انہیں بھی پیدا کیا جن کے روزی رساں تم نہیں ہو۔ یعنی چوپائے اور جانور لونڈی غلام وغیرہ۔ پس قسم قسم کی چیزیں، قسم قسم کے اسباب، قسم قسم کی راحت، ہر طرح کے آرام، اس نے تمہارے لئے مہیا کر دئیے۔ کمائی کے طریقے تمہیں سکھائے جانوروں کو تمہارے زیر دست کردیا تاکہ کھاؤ بھی، سواریاں بھی کرو، لونڈی غلام دیئے کہ راحت و آرام حاصل کرو۔ ان کی روزیاں بھی کچھ تمہارے ذمہ نہیں بلکہ ان کا رزاق بھی اللہ ہے۔ نفع تم اٹھاؤ روزی وہ پہنچائے فسبحانہ اعظم شانہ۔