الحجر آية ۴۵
اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِىْ جَنّٰتٍ وَّعُيُوْنٍۗ
طاہر القادری:
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے،
English Sahih:
Indeed, the righteous will be within gardens and springs,
1 Abul A'ala Maududi
بخلاف اِس کے متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں
3 Ahmed Ali
بے شک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں رہیں گے
4 Ahsanul Bayan
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہونگے (١)
٤٥۔١ جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لئے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لئے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہوگی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک صاحبان ه تقوٰی باغات اور چشموں کے درمیان رہیں گے
9 Tafsir Jalalayn
جو متقی ہیں وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
آیت نمبر 45 تا 60
ترجمہ : (شرک و کفر سے) بچنے والے (متقی) باغوں اور چشموں میں ہوں گے جو باغوں میں جاری ہوں گے، ان سے کہا جائیگا ہر گھبراہٹ سے سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ، (یعنی) حال یہ کہ تم ہر خطرہ سے سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ، یا سلام کے ساتھ، یعنی سلام کرو اور داخل ہوجاؤ، ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہوگئی ہم اس کو نکالدیں گے وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر مسہریوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے (اخوانا) ھم ضمیر سے ھال ہے (متقابلین) بھی اخوانا سے حال ہے یعنی کوئی کسی کی گدی (پشت) کو نہ دیکھے گا، اسلئے کہ ان کے تخت دائرہ کی شکل میں ہوں گے، نہ وہاں انھیں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے اے محمد میرے بندوں کو بتادو کہ میں مومنوں کیلئے درگذر کرنے والا اور ان پر بہت مہربان ہوں (اور ساتھ ہی یہ بھی بتادو کہ) نافرمانوں کیلئے میرے عذاب بڑے دردناک ہیں، اور انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کا قصہ بھی سنا دو اور وہ (مہمان) بارہ یا دس یا تین فرشتے تھے ان میں جبرائیل (علیہ السلام) بھی تھے جب وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان کو سلام کیا یعنی انہوں نے لفظ سلاما کہا، جب ان کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) نے کھانا پیش کیا اور انہوں نے نہ کھایا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا، ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ایک ذی علم فرزند کی آپ کو خوشخبری دیتے ہیں یعنی زیادہ علم والے فرزند کی، وہ فرزند اسحاق ہیں جیسا کہ سورة ہود میں ذکر کیا گیا، (ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیا تم بڑھا پالاحق ہونے کی حالت میں مجھے لڑکے کی خوش خبری دے رہے ہو ؟ ! (علی ان الخ) حال ہے یعنی حال یہ ہے کہ مجھے بڑھاپا لاحق ہوگیا ہے یہ خوش خبری تم کس بنا پردے رہو ہو ؟ استفہام تعجبی ہے، فرشتوں نے جواب دیا ہم آپ بالکل سچی خوش خبری سنادی ہے ہیں، لہذا آپ مایوس ہونے والوں میں نہ ہوں ، (ابراہیم (علیہ السلام) نے) فرمایا اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں (یقنط) نون کے کسرہ اور اس کے فتحہ کے ساتھ ہے، ابراہیم (علیہ السلام) نے دریافت کیا اے (خدائی) فرستادو آپ کس مہم پر تشریف لائے ہو وہ بولے ہم ایک مجرم کافر قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں یعنی قوم لوط کی جانب ان کو ہلاک کرنے کیلئے، صرف لوط (علیہ السلام) کے گھر والے مستثنیٰ ہیں، ہم ان سب کو ان کے ایمان کی وجہ سے بچا لیں گے سوائے اس کی بیوی کے جس کے لئے (اللہ فرماتا ہے) کہ ہم نے مقدر کردیا ہے کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں شامل رہے گی یعنی اپنے کفر کی وجہ سے عذاب میں پھنسنے والوں میں رہے گی۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سالمین، سلام کی تفسیر سالمین سے کرنے کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ سلام مصدر ہے اس کا حمل ھا، ضمیر پر درست نہیں ہے اسلئے کہ ضمیر سے مراد جنت ہے جو ذات ہے اور مصدر کا حمل ذات پر درست نہیں ہوتا۔
جواب : یہ ہے کہ مصدر بتاویل مشتق سالمین ہو کر حال ہے لہٰذا حمل درست ہے۔
قولہ : مع سلام اس میں اشارہ ہے کہ بسلام میں باء بمعنی مع ہے نہ کہ سببیہ۔ قولہ : ای سلموا ای سلم علیکم الملائکۃ۔
قولہ : ادخلوا۔ سوال : ادخلوا مقدر ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : اس مٰن اشارہ ہے آمنین ادخلوا کی ضمیر سے حال ثانیہ ہے نہ کہ بسلام سے اسلئے کہ عمل میں اصل فعل ہے نہ کہ مصدر۔
قولہ : حال من، ھم، یعنی اخوانا، ھم سے حال ہے نہ کہ صفت سے۔
سوال : حال مضاف سے ہوا کرتا ہے نہ کہ مضاف الیہ سے اور یہاں اخوانا، ھم ضمیر سے حال واقع ہے جو کہ مضاف الیہ ہے۔
جواب : مضاف الیہ جب مضاف کا جز ہو تو حال واقع ہونا درست ہوتا ہے یہاں چونکہ مجاف الیہ مضاف کا بعض ہے لہٰذا حال واقع ہونا درست ہے اور ادخلوا کی ضمیر سے ھال واقع ہونا بھی درست ہے اور متقابلین، اخوانا سے بھی حال واقع ہوسکتا ہے جبکہ اخوانا متصافین یا متحابین کے معنی میں ہو اور اخوانا کی صفت بھی واقع ہوسکتا ہے۔
قولہ : کما ذکر فی الھود ای فبشرنھا باسحٰق۔ قولہ : بکسر النون ای من باب ضرب، وبفتح النون ای من باب فتح۔
تفسیر و تشریح
ان المتقین۔۔۔ (الآیۃ) قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب بیان ہے کہ وہ متقابلین کو بیان کرتا ہے تاکہ دونوں کا فرق خوب واضح ہوجائے یہاں وہی اسلوب اختیار کیا ہے پچھلی آیتوں میں جہنم اور اہل جہنم کا ذکر تھا اب اسکے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ ہے تاکہ جنت کی رغبت اور دوزخ سے نفرت پیدا ہو، اور متقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک سے بچتے رہے اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان مراد ہیں جو ہر قسم کے معاصی سے بچتے رہے غرضیکہ اسمیں وہ سب لوگ داخل ہیں جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور انہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیت کی زندگی گزاری ہو۔ متقی اور پرہیزگار لوگ ہر حزن و ملال سے بیخوف اور ہر مصیبت و آفت سے مامون اور ہر تعب و مشقت سے محفوظ سلامتی کیساتھ آپس میں مبارک بادی دیتے ہوئے اور سلامتی کی
دعائیں دیتے اور لیتے ہوئے اور خود ذات خداوندی کی طرف سے دائمی سلامتی کا اعلان سنتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔
ونزعنا ما فی۔۔۔۔۔ متقابلین، یعنی جن لوگوں کے درمیان آپس کی غلط فہمیوں کی بنا پر دنیا میں اگر کچھ رنجشیں اور کدورتیں رہی ہوں گی تو جنت میں داخل ہوتے وقت وہ دور کردی جائیں گی اور ان کے دل آپس میں ایک دوسرے کیلئے بالکل صاف شفاف کر دئیے جائیں گے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علی نے فرمایا تھا، کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور طلحہ اور زبیر کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔
جب عبد اللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو سب سے پہلے ان کے سامنے پانی کے دو چشمے پیش کئے جائیں گے پہلے چشمے سے جب وہ پانی پئیں گے تو ان سب کے دلوں سے باہمی رنجش و کدورت جو کبھی دنیا میں پیش آئی تھی اور طبعی طور پر اس کا اثر آخرت تک موجود رہا وہ سب دھل جائے گا اور سب کے دلوں میں باہمی محبت و الفت پیدا ہوجائیگی کیونکہ باہمی رنجش بھی ایک تکلیف اور عذاب ہے اور جنت ہر تکلیف سے پاک رہے۔
کینہ کے ہوتے ہوئے جنت میں داخل نہ ہونے کا مطلب : حدیث میں وارد ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی کسی مسلمان کی طرف سے کینہ ہوگا وہ جنت میں نہ جائیگا، اس سے مراد وہ کینہ ہے جو دنیوی غرض سے اور اپنے قصد و اختیار سے ہو اور اس کی وجہ سے یہ شخص اس کے درپے رہے کہ جب موقع ملے اپنے دشمن کو تکلیف اور نقصان پہنچائے، طبعی انقباض جو خاصۂ بشری اور غیر اختیاری ہے وہ اس میں داخل نہیں، اسی طرح جو کسی شرعی بنیاد پر مبنی ہو، وہ بھی اس کینہ اور بغض میں داخل نہیں۔
قال انا منکم وجلون الخ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان فرشتوں سے ڈر اس لئے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تیار کیا ہوا کھانا نہیں کھایا، اور عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر آنے والا مہمان میزبان کے یہاں کھانا نہ کھائے تو سمجھا جاتا تھا کہ آنے والے مہمان کی نیت اچھی نہیں ہے، اس کا تکلیف پہنچانے کا ارادہ ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کوئی غیب کا علم تو تھا نہیں کہ وہ سمجھ جاتے کہ انسانی شکل میں آنے والے فرشتے ہیں اور ان کیلئے کھانا تیار نہ کرائے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے کی عمر میں اولاد ہونے پر جو تعجب اور حیرت تھی وہ صرف اپنے بڑھاپے اور ضعف کی وجہ سے تھی نہ یہ کہ وہ خدا کی رحمت سے ناامید یا خدانخواستہ ان کو خدا کی قدرت میں شک تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ یہ صرف اولاد کی بشارت دینے ہی نہیں آئے بلکہ ان کی آمد کا اصل مقصد کچھ اور ہے چناچہ ان سے پوچھا، فما خطبکم ایھا المرسلون ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں یہ ذکر فرمایا کہ آخرت میں اس کے دشمنوں یعنی ابلیس کیپ یرو کاروں کو کیا سخت عذاب اور سزا دی جائے گی وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کو کس فضل عظیم اور دائمی نعمتوں سے نوازے گا۔ چنانچہ فرمایا : ﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ﴾ ” بے شک پرہیز گار“ جو شیطان کی اطاعت، اس کے وسوسوں، گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچتے ہیں ﴿فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴾ ” باغات اور چشموں میں ہوں گے“ جن میں درختوں کی تمام اقسام ہوں گی اور اس میں ہر قوت اور ہر قسم کے پکے ہوئے پھل ہوں گے۔ جنت میں داخل ہوتے وقت ان سے کہا جائے گا ۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( doosri taraf ) muttaqi log baaghaat aur chashmon kay darmiyan rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
جنت میں کوئی بغض و کینہ نہ رہے گا
دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ باغات، نہروں اور چشموں میں ہوں گے۔ ان کو بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہوگئے نہ نعمتوں کے زوال کا ڈر، نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نہ کمی۔ اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوں رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے شکوے ختم ہوجائیں گے۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بےکینہ ہوجائیں گے۔ چناچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ مومن جہنم سے نجات پا کر جنت دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لئے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے، ان کا ادلہ بدلہ ہوجائے گا اور پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے۔ اشتر نے حضرت علی (رض) کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس وقت آپ کے پاس حضرت طلحہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بلایا اس نے کہا کہ شاید ان کی وجہ سے مجھے آپ نے دیر سے اجازت دی ؟ آپ نے فرمایا سچ ہے۔ کہا پھر تو اگر آپ کے پاس حضرت عثمان (رض) ان لوگوں میں سے ہوں گے، جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کردی، بھائی بھائی ہو کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر حضرت علی (رض) کے پاس آئے آپ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں کے غصے اللہ دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا، اللہ کا عہد اس سے بہت بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں ؟ آپ نے غصے سے فرمایا اگر اس آیت سے مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے ؟ اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور حضرت علی (رض) نے اس دھمکی اور بلند آواز سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا۔ اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ نے غصے ہو کر جو چیز آپ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا۔ این جرموز جو حضرت زبیر (رض) کا قاتل تھا جب دربار علی (رض) میں آیا تو آپ نے بڑی دیر بعد اسے داخلے کی اجازت دی۔ اس نے آ کر حضرت زبیر (رض) اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد کیا تو آپ نے فرمایا تیرے منہ میں مٹی۔ میں اور طلحہ اور زبیر (رض) تو انشاء اللہ ان لوگوں میں ہیں جن کی بابت اللہ کا یہ فرمان ہے۔ حضرت علی (رض) قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ہم بدریوں کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے۔
کثیر کہتے ہیں میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں، میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں۔ واللہ میں ابوبکر اور عمر سے بری ہوں۔ اس وقت حضرت ابو جعفر نے فرمایا اگر میں ایسا کروں تو یقینا مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں۔ ناممکن کہ میں اس وقت ہدایت پر قائم رہ سکوں۔ ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) سے تو اے کثیر محبت رکھ، اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر۔ پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تلاوت فرمائی۔ اور فرمایا کہ یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے ابو بکر، عمر عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبد الرحمن بن عوف، سعد بن الی وقاص، سعید بن زید اور عبداللہ بن مسعود (رض) اجمعین۔ یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تلاوت فرما کر فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں انہیں کوئی مشقت، تکلیف اور ایذاء نہ ہوگی۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں حضرت خدیجہ (رض) کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت۔ یہ جنتی جنت سے کبھی نکالے نہ جائیں گے حدیث میں ہے ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبہی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ جاؤ گے۔ اور آیت میں ہے وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ ان کی جگہ ان سے چھنے گی۔
اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ میں ارحم الراحمین ہوں۔ اور میرے عذاب بھی نہایت سخت ہیں۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا چاہئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے ہیں جنت دوزخ کی یاد کرو، اس وقت یہ آیتیں اتریں۔ یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے۔ آپ بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ کے پاس آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا، جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور فرمایا کہ جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے ؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے المناک ہونے کی خبر دے دے۔ اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر بندے اللہ تعالیٰ کی معافی کو معلوم کرلیں تو حرام سے بچنا چھوڑ دیں اور اگر اللہ کے عذاب کو معلوم کرلیں تو اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں۔