اور (کفار گستاخی کرتے ہوئے) کہتے ہیں: اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے! بیشک تم دیوانے ہو،
English Sahih:
And they say, "O you upon whom the message has been sent down, indeed you are mad.
1 Abul A'ala Maududi
یہ لوگ کہتے ہیں "اے وہ شخص جس پر ذکر نازل ہوا ہے، تو یقیناً دیوانہ ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بولے کہ اے وہ جن پر قرآن اترا بیشک مجنون ہو
3 Ahmed Ali
اور انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے بے شک تو مجنون ہے
4 Ahsanul Bayan
انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے (١)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کفار کہتے ہیں کہ اے شخص جس پر نصیحت (کی کتاب) نازل ہوئی ہے تُو تو دیوانہ ہے
6 Muhammad Junagarhi
انہوں نے کہا کہ اے وه شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے یقیناً تو تو کوئی دیوانہ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ (کفار) کہتے ہیں: اے وہ جس پر ذکر (قرآن) اتارا گیا ہے یقینا تم دیوانہ ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ان لوگوں نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے تو دیوانہ ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور (کفار) کہتے ہیں کہ اے شخص جس پر نصیحت (کی کتاب) نازل ہوئی ہے تو تو دیوانہ ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے کفار نے تمسخر اور استہزا کے طور پر کہا۔ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ﴾ ” اے وہ شخص کہ اترا ہے اس پر قرآن“ یعنی تیرے زعم کے مطابق ﴿إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ﴾ ” بے شک تو دیوانہ ہے“ کیونکہ تو سمجھتا ہے کہ محض تیرے کہنے پر ہم تیری پیروی کرنے لگ جائیں گے اور اس مذبہ کو چھوڑ دیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yeh log kehtay hain kay : aey woh shaks jiss per yeh ziker ( yani Quran ) utaara gaya hai ! tum yaqeeni tor per majnoon ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
سرکش و متکبر ہلاک ہوں گے کافروں کا کفر، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں۔ اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں۔ فرعون نے بھی ہی کہا تھا کہ آیت ( فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ 53) 43 ۔ الزخرف :53) اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ اس کے ساتھ مل کر فرشتے کیوں نہیں آئے ؟ رب کی ملاقات کے منکروں نے آواز اٹھائی کہ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا یہی ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیتے دراصل یہ گھمنڈ میں آگئے اور بہت ہی سرکش ہوگئے۔ فرشتوں کو دیکھ لینے کا دن جب آجائے گا اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی یہاں بھی فرمان ہے کہ ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی۔ اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ لہ کی ضمیر کا مرجع نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حافظ وہی ہے جیسے فرمان ہے آیت (وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ 67) 5 ۔ المآئدہ :67) تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا۔ لیکن پہلا معنی اولی ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے۔