النحل آية ۶۶
وَاِنَّ لَـكُمْ فِىْ الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۗ نُّسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِىْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۤٮِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ
طاہر القادری:
اور بیشک تمہارے لئے مویشیوں میں (بھی) مقامِ غور ہے، ہم ان کے جسموں کے اندر کی اس چیز سے جو آنتوں کے (بعض) مشمولات اور خون کے اختلاط سے (وجود میں آتی ہے) خالص دودھ نکال کر تمہیں پلاتے ہیں (جو) پینے والوں کے لئے فرحت بخش ہوتا ہے،
English Sahih:
And indeed, for you in grazing livestock is a lesson. We give you drink from what is in their bellies – between excretion and blood – pure milk, palatable to drinkers.
1 Abul A'ala Maududi
اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خو ش گوار ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک تمہارے لیے چوپایوں میں نگاہ حاصل ہونے کی جگہ ہے ہم تمہیں پلاتے ہیں اس چیز میں سے جو ان کے پیٹ میں ہے، گوبر اور خون کے بیچ میں سے خالص دودھ گلے سے سہل اترتا پینے والوں کے لیے،
3 Ahmed Ali
اوربے شک تمہارے لیے چارپایوں میں سوچنے کی جگہ ہے ہم نےان کے جسم سے خون او رگوبر کے درمیان خالص دودھ پیدا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے
4 Ahsanul Bayan
تمہارے لئے تو چوپایوں (١) میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے سہتا پچتا ہے (٢)۔
٦٦۔١ اَنْعَام (چوپائے) سے اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ، دنبہ) مراد ہوتے ہیں۔
٦٦۔٢ یہ چوپائے جو کچھ کھاتے ہیں، معدے میں جاتا ہے، اسی خوراک سے دودھ، خون، گوبر اور پیشاب بنتا ہے، خون رگوں میں اور دودھ تھنوں میں اسی طرح گوبر اور پیشاب اپنے اپنے مخرج میں منتقل ہو جاتا ہے اور دودھ میں نہ خون کی رنگت شامل ہوتی ہے اور نہ گوبر پیشاب کی بدبو۔ سفید اور شفاف دودھ باہر آتا ہے جو نہایت آسانی سے حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور تمہارے لیے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (وغور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے
6 Muhammad Junagarhi
تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں اس کے پیٹ میں جو کچھ ہے اسی میں سے گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے سہتا پچتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت کا سامان موجود ہے ہم ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان سے نکال کر تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تمہارے لئے حیوانات میں بھی عبرت کا سامان ہے کہ ہم ان کے شکم سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ نکالتے ہیں جو پینے والوں کے لئے انتہائی خوشگوار معلوم ہوتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور تمہارے لئے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (وغور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔
آیت نمبر 66 تا 70
ترجمہ : اور امر واقعہ یہ ہے کہ چوپایوں میں (بھی) تمہارے لئے بڑی عبرت ہے چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے ہم اسی گوبر (یعنی) معدہ کے فضلے اور خون کے درمیان سے، (نسقیکم) عبرہ کا بیان ہے، مِنْ ابتدائیہ ہے نسقیکم کے متعلق ہے، ہم پینے والون کو خوشگوار (خوش ذائقہ) صاف دودھ پلاتے ہیں جو حلق میں بآسانی اترنے والا اور حلق میں نہ پھنسنے والا ہے، جس میں نہ گوبر اور خون کے مزے کی آمیزش ہے اور نہ رنگ وبو کی، حالانکہ وہ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے اور انگوروں اور کھجوروں کے پھلوں میں بھی (تمہارے لئے عبرت ہے) کہ جن سے تم شراب بناتے ہو، جو نشہ آور ہوتی ہے خمر کا نام سَکَر (بطور مبالغہ) مصدر کے ساتھ رکھا گیا ہے اور یہ (امتنان) شراب کو حرام کرنے سے پہلے کی بات ہے، اور کھانے کی عمدہ چیزیں بناتے ہو مثلاً چھوارے اور سرکہ اور شیرہ، جو لوگ عقل (سلیم) رکھتے ہیں (یعنی) غور و فکر کرتے ہیں ان کے لئے ان مذکورہ چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی نشانی ہے اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں وحی الہامی کے ذریعہ یہ بات ڈال دی (أن) مفسرہ یا مصدر یہ ہے، کہ پہاڑوں میں گھر (چھتّے) بنائے تاکہ اس میں پناہ لے سکے اور درختوں پر بھی (چھتے) بنائے اور ان ٹہنیوں میں بھی جن کو لوگ تیرے لئے ٹھکانے بناتے ہیں ورنہ تو تو اس میں پناہ نہیں لے سکتی تھی، اور ہر طرح پھلوں کا رس اور اپنے رب کی آسان راہوں میں اپنی غذا کی جستجو کے لئے داخل ہو کر چلتی پھرتی رہ ذُلُلًا، ذَلول کی جمع ہے اور (ذُلُلًا) سُبُلٌ سے حال ہے (یعنی) حال یہ ہے کہ تیرے لئے (راستوں کو) آسان کردیا جس کی وجہ سے تیرے لئے کوئی دشواری نہیں ہوتی اگرچہ وہ راہیں (دوسروں کیلئے) کتنی ہی دشوار گذار کیوں نہ ہوں، اور تو راستہ بھٹکتی نہیں ہے اگرچہ وہ راہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہو، اور کہا گیا ہے کہ (ذُلُلًا) اُسلکی کی ضمیر سے حال ہے یعنی اس کے (حکم) کے تابع فرمان ہو کر داخل ہو جو تجھ سے مطلوب ہے، اور اس کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے اور وہ شہد ہے، اس میں لوگوں کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے کہا گیا ہے کہ بعض بیماریوں کے لئے شفاء ہے جیسا کہ (لفظ) شفاء کی تنکیر پر دلالت کرتی ہے یا تمام بیماریوں کے لئے شفاء ہے دیگر دواؤں کے ساتھ مل کر میں کہتا ہوں بغیر ملائے بھی (ہرمرض کی شفاء ہے) بشرطیکہ نیت خالص ہو، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد کے استعمال کو اس شخص کو حکم فرمایا جس کا پیٹ چل رہا تھا (یعنی دست آرہے تھے) رواہ الشیخان اور اللہ کی صنعت میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت بڑی نشانی ہے، اور اللہ نے تم کو پیدا فرمایا حالانکہ تمہارا کوئی وجود نہیں تھا اور تمہاری (مدت عمر) پوری ہونے کے بعد تم کع موت دے گا، تم میں کے بعض وہ ہیں جن کو نکمی عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے، بعض گھٹیا ترین عمر کو اور وہ بڑھاپے اور سٹھا جانے کی عمر ہے کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہ جانے، (حضرت) عکرمہ (رض) نے فرمایا کہ جو شخص فرآن کا مشغلہ رکھتا ہے اس کی ایسی حالت نہیں ہوتی بیشک اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی تدبیر سے واقف ہے اور جو چاہے اس پر قادر ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : ممافی بطونہٖ ، من تبعیضیہ، ابتدائیہ ہے۔ قولہ : من بین فرثٍ ، لبنًا سے حال مقدم ہے یا ما سے حال ہے جو اس سے مقدم ہے
سوال : بطونہٖ کی ضمیر انعام کی طرف راجع ہے اور انعام جمع ہونے کی وجہ سے مؤنث ہے اور اس کی طرف کوٹنے والی ضمیر مذکر ہے دونوں میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : لفظ انعام کی رعایت سے ضمیر مذکر کی لائے ہیں اور سورة المؤمنون میں معنی کی رعایت سے مؤنث لائے ہیں سیبویہ نے کہا ہے کہ انعام بروزن افعال مفرد ہے۔ قولہ : وھو بینھما، یہ لبنًا سے حال ہے۔
قولہ : من ثمراتِ النخیل، یہ نسقیکم، محذوف کے متعلق ہے اور اس کا عطف وان لکم فی الانعام الخ پر ہے۔
قولہ : سُمیت للمصدر، یعنی سَکَرًا اگرچہ مصدر ہے مگر معنی میں خمرًا کے ہے ای تتخذون منہ خمرًا، اب حمل کے بارے میں کوئی
اشکال نہیں اور خمر کا نام سَکَر مبالغہ و مجازاً رکھا ہے۔
قولہ : ھذا قبل تحریمھا، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ تتخذون منہ سکرًا (احسان) جتانے کے طور پر بیان ہوا ہے حالانکہ شراب حرام ہے اور حرام چیز کے ساتھ احسان جتانا درست نہیں، جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ امتنان حرمت نازل ہونے سے پہلے ہے آیت مکی ہے اور شراب کی حرمت مدینہ میں نازل ہوئی۔
قولہ : مما یَعْرِشون ای ما بین الناس بیوتا للنحل التی تتعسَّلُ فیھا، یعنی یعرشون سے مرادوہ ٹٹیاں ہیں جو لوگ شہد کی مکھیاں پالنے کے لیے چھتے بناتے ہیں۔
قولہ : جمع ذلول، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ سُبُلٌ جمع ہے جو کہ ذولحال ہے اور ذُلُلًا مفرد ہے اور وہ حال ہے لہٰذا حال و ذوالحال میں مطابقت نہیں ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ ذُلُلًا مفرد نہیں ہے بلکہ ذلول کی جمع ہے لہٰذا عدم مطابقت کا اعتراخ ختم ہوگیا۔
قولہ : وان تو عَّرت، اَلوعر، ضد السھل، دشوار۔
تفسیر وتشریح
وَاِنَّ ۔۔۔ لعبرۃ (الآیۃ) انعام چوپائے سے اونٹ، گائے بکری اور بھیڑ دنبہ وغیرہ مراد ہوتے ہیں چوپائے جو کچھ کھاتے ہیں، معدے میں جاتا ہے، اسی خوراک سے دودھ، خون، گوبر، اور پیشاب بنتا ہے، خون رگوں میں اور دودھ تھنوں میں اسی طرح گوبر اور پیشاب اپنے اپنے مخرج میں منتقل ہوجاتے ہیں اور دودھ میں نہ خون کی رنگت شامل ہوتی ہے نہ گوبرو پیشاب کی بدبو، سفید اور شفاف دودھ باہر آتا ہے جو نہایت آسانی سے حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں سے گوبر اور خون وغیرہ گندی چیزیں اور فضلے پیدا ہوتے ہیں وہیں سے اللہ تعالیٰ دودھ جیسی نفیس اور پاکیزہ خوشگوار اور مفید نعمت انسان کے لئے تیار کردیتا ہے جس کے آگے بڑے بڑے کیمیا دان دنگ رہ جائیں یہ دلیل ایک صناع اعظم کے وجود کی نہیں تو اور کیا ہے ؟
بطونہٖ ، کی ضمیر واحد مذکر غائب انعام کی طرف مذکور کے معنی میں لوٹ رہی ہے کسائی اور مبرد نے یہی کہا ہے، نیز لفظ کی رعایت سے بھی مذکر کی ضمیر لانا جائز ہے، اگر معنی کی رعایت ہو تو ضمیر مؤنث کی ہوگی جیسا کہ سورة مومنون میں ہے۔
اَوحٰی۔۔۔ النحل، وحی کے یہاں اصلاحی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ معنی مراد ہیں وہ یہ کہ مخاطب کو کوئی خاص بات مخفی طور پر اس طرح سمجھا دے کہ دوسرا شخص اس کو نہ سمجھ سکے۔ النحل شہد کی مکھی اپنی عقل و فراست اور حسن تدبیر کے لحاظ سے تمام حیوانات میں ممتاز جانور ہے۔
شہد کی مکھی کی فہم و فراست : شہد کی مکھیوں کی فہم و فراست کا اندازہ ان کے نظام حکومت سے بخوبی ہوتا ہے اس ضعیف جانور کا نظام زندگی انسانی سیاست و حکمرانی کے اصول پر چلتا ہے، تمام نظم ایک بڑی مکھی جس کو یعسوب (رانی) کہتے ہیں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو تمام مکھیوں کی حکمراں اور ملکہ ہوتی ہے اس کی تنظیم اور تقسیم کار کی وجہ سے پورا نظام صحیح سمت میں چلتا رہتا ہے، اس کے عجیب و غریب نظام اور مستحکم قوانین کو دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے، خود یہ ملکہ تین ہفتوں میں چھ ہزار سے بارہ ہزار تک انڈے دیتی ہے ملکہ (رانی) اپنی قدوقامت اور وضع و قطع کے لحاظ سے دوسری مکھیوں سے ممتاز ہوتی ہے ملکہ تقسیم کار کے اصول پر اپنی رعایا کو مختلف امور پر مامور کرتی ہے ان میں سے بعض دربانی کے فرائض انجام دیتی ہیں، اور کسی نامعلوم خارجی فرد جو اندر داخل نہیں ہونے دیتیں، بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں، بعض نابالغ بچوں کی تربیت کرتی ہیں بعض معماری اور انجینئیر کے فرائض انجام دیتی ہیں، ان کے تیار کردہ چھتوں کے خانے بیس ہزار تک ہوتے ہیں، بعض موم جمع کرکے معماروں کے پاس پہنچاتی رہتی ہیں جس سے وہ اپنے مکانات تعمیر کرتی ہیں، یہ مختلف پارٹیوں اور جماعتیں اپنے اپنے مفوضہ امور کع نہایت سرگرمی سے انجام دیتی ہیں اور اپنی ملکہ کے حکم کو دل سے قبول کرتی ہیں ان کی ڈیوٹی کی تبدیلی کا نظام بھی بڑی استواری کے ساتھ چلتا ہے، نظافت و پاکیزگی کا اس قدر اہتمام کرتی ہیں کہ اگر کوئی مکھی کسی گندی یا مضر چیز پر بیٹھ جائے تو چھتے کے دربان اس کو باہر ہی روک لیتے ہیں اور تفتیش و تحقیق کے بعد اگر ثابت ہوجائے کہ ان کا لایا ہوا مادہ مضر و نقصان دہ ہے تو ملکہ اس کو قتل کردیتی ہے ان کے اس حیرت انگیز نظام اور حسن کارکردگی کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑجاتا ہے، ماہرین حیوانات نے شہد کی مکھی کے نظام حیات کار اور ضابطۂ حکمرانی کے متعلق کتابیں تصنیف کی ہیں اور ایسے ایسے عجیب و غریب انکشافات کئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
شہد کے منافع و فضائل : شہد کے منافع طب یونانی اور طب ہندی (ویدک) طب افرن کی (ڈاکٹری) سب کو مسلم ہیں اس کے فوائد شروع سے مسلم چلے آتے ہیں طب یونانی اور طب ہندی کی کتابوں میں ہزار ہاسال سے برابر درج ہیں، ادھر چند سالوں سے یورپ بھی ادھر زیادہ متوجہ ہوا ہے، اور جرمن، سوئٹزرلینڈ، فرانس اور روس کے ڈاکٹروں نے بالخصوص اس کے معالجاتی تجربے کئے ہیں ان سے ثابت ہوا ہے کہ امراض دوران خون، امراض تنفس، امراض جگر، امراض صدر، امراض شرائین، امراض امعاء، امراض چشم، امراض جلد وغیرہ میں نہایت درجہ مفید ہے، اور ڈاکٹرز کی علی مبارک ایک طبی مقالہ میں لکھتے ہیں کہ دراصل شہد ایک قدرتی نعمت ہے جو بہت سی ایسی ضرورتوں میں کام آتا ہے جسے پوری طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔
أن۔۔۔ بیوتا تقریبًا ہر جاندار اپنے رہنے سہنے کے لئے ٹھکانہ بناتا ہے مگر شہد کی مکھی کو خاص طور پر اپنے گھر بنانے کی نہ صرف ہدایت دی ہے بلکہ بنانے کا طریقہ اور جائے وقوع کی نشان دہی بھی فرمادی ہے، اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کے علاوہ مکھی کے چھتے پر بیت کا اطلاق فرمایا جو عمومًا انسانی رہائش گاہوں کے لئے بولا جاتا ہے، اس سے اشارہ ایک تو اس طرف کردیا کہ مکھیوں کو جو شہد تیار کرنا ہے اس کے لئے پہلے سے ایک محفوظ گھر بنالیں اور دوسرا اس طرف اشارہ کردیا کہ جو گھر یہ بنائیں گی وہ عام جانوروں کے گھروں کی طرح نہیں ہوں گے بلکہ ان کی ساخت اور بناوٹ غیر معمولی قسم کی ہوگی چناچہ ان کے گھر دیگر جانوروں کے گھر سے ممتاز ہوتے ہیں، جن کو دیکھ کر انسانی عقل بھی حیران و ششدر رہ جاتی ہے، ان کے گھر مسدس شکل کے ہوتے ہیں پرکار اور مسطر سے بھی اگر ان کی پیمائش کی جائے تو بال برابر بھی فرق نہیں نکلتا مسدس شکل کے علاوہ دوسری کسی شکل مثلاً مربع، مخمس وغیرہ کو اس لئے اختیار نہیں کرتی کہ ان کے بعض گوشے بےکار رہ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف گھر بنانے ہی کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کا محل وقوع بھی بتلا دیا کسی بلندی پر ہونا چاہیے کیونکہ ایسی جگہ پر شہد گندگی اور آلودگی سے محفوظ رہتا ہے اور صاف اور تازہ ہوا ملتی ہے جس کی وجہ سے صاف اور شفاف رہتا ہے، نیز توڑ پھوڑ سے بھی محفوظ رہتا ہے چناچہ فرمایا ” من الجبال ومن الشجر وممایعرشون “ یعنی ان کے گھروں کی تعمیر پہاڑوں درختوں اور عمارتوں پر ہونی چاہیے تاکہ شہدبالکل محفوظ طریقہ پر تیار ہوسکے۔
ثم۔۔۔ الثمرات، یہ دوسری ہدایت ہے جس میں مکھی کا حکم دیا گیا ہے کہ اپنی رغبت اور پسند کے مطابق پھلوں، پھولوں سے رس چوسے من کل الثمرات دنیا بھر کے پھل پھول مراد نہیں ہیں بلکہ وہ پھل پھول مراد ہیں جن تک بآسانی رسائی ہوسکے، معلوم ہوا کہ کل سے کل استغراقی مراد نہیں ہے بلکہ ان کی تمام ضروریات و مناسبات مراد ہیں۔ یہ مکھیاں پھلوں اور پھولوں کے ایسے قیمتی اور مفید اجزاء چوستی ہیں کہ آج کے سائنسی دور میں مشینوں سے بھی وہ جوہر نکالا نہیں جاسکتا۔
فاسلکی۔۔۔ ذُلُلاً ، شہد کی مکھی کو یہ تیسری ہدایت ہے کہ اپنے رب کے ہموار کئے ہوئے راستوں پر چلے، شہد کی مکھی جب اپنے گھر سے دور دراز مقامات پر پھلوں اور پھولوں کا رس چوسنے کے لئے جاتی ہے تو بظاہر اس کا اپنے گھر واپس آنا مشکل ہونا چاہیے تھا لیکن اللہ نے اس کے لئے راہوں کو آسان بنادیا ہے، چناچہ وہ میلوں دور نکل جاتی ہے اور بغیر بھولے بھٹکے اپنے گھر واپس پہنچ جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فضا میں اس کے لئے راستے بناد یئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس حقیر و ناتواں کے لئے فضا کو مسخر کردیا ہے تاکہ وہ کسی روک ٹوک کے بغیر اپنے گھر اسانی سے آجا سکے۔
فیہ۔۔۔ للناس، اس کی کچھ تشریح سابق میں گذر چکی ہے شہد قوت بخش غذا ہے اور امراض کے لئے نسخۂ شفاء بھی، بلغمی امراض میں تو بلا واسطہ اور دیگر امراض میں دوسری دواؤں کے ساتھ ملا کر بطور دوا شہد کا استعمال ہوتا ہے، معجونوں میں خاص طور پر استعمال کرتے ہیں، اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ خود بھی خراب نہیں ہوتا اور دوسری اشیاء کی بھی طویل عرصہ تک حفاظت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سال سے اطباء اس کو الکحل کی جگہ استعمول کرتے آئے ہیں۔
شہد کے متعلق ایک صحابی کا واقعہ : اخرج البخاری و مسلم و غیر ھما من حدیث ابی سعید، أنَّ رجلاً اَتی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال یا رسول اللہ ! ان اخی استطلق بطنہ، فقال ” اسقہ عسلاً “ فسقاہ عسلاً ، ثم جاء فقال سقیتہٗ عسلاً فما زاد الا استطلاقًا، قال اذھب فاسقہ عسلاً فذھب فسقاہ فقال مازادہ الا استطلاقًا فقال، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدق اللہ و کذب بطن اخیک، اذھب فاسقہ عَسَلاً فذھب فسقاہ عسلاً فبرئَ.
شہد مسہل ہے اور پیٹ سے فاسد مادہ نکالنے میں بہت مفید ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک صحابی نے اپنے بھائی کے استطلاق بطن، یعنی دستوں کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد پلانے کا مشورہ دیا دوسرے دن اس نے آکر بتلایا بیماری بدستور ہے آپ نے پھر شہدپلانے کا مشورہ دیا تیسرے دن جب اس نے کہا اب بھی کوئی فرق نہیں ہے تو آپ نے فرمایا ” صدق اللہ و کذب بطن اخیک “ یعنی اللہ کا قول بلا ریب سچا ہے تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، مطلب یہ ہے کہ دواء کا قصور نہیں ہے بلکہ مریض کے مزاج خاص کی وجہ سے جلدی اثر نہیں ہوا یا یہ کہ فاسد مادہ زیادہ، مقدار میں تھا جب تمام فاسد مادہ نکل گیا تو فائدہ ہوگیا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ ﴾ ” اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں“ جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے فوائد کے لئے مسخر کیا ﴿لَعِبْرَةً ﴾ ”سوچنے کی جگہ ہے“ جس سے تم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور وسعت احسان پر استدلال کرسکتے ہو کیونکہ اس نے تمہیں ان مویشیوں کے پیٹ سے(دودھ) پلایا جس کا مادہ گوبر اور خون پر مشتمل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گوبر اور خون سے ایسا دودھ نکالا جو ہر قسم کی آلائش سے پاک اور اپنی لذت کی بنا پر پینے والوں کے لئے انتہائی خوش ذائقہ ہے، نیزیہ کہ اس کو پیا جاتا ہے اور اس سے غذا حاصل کی جاتی ہے۔ کیا یہ سب کچھ طبیعی امور کی بجائے قدرت الٰہیہ نہیں ہے؟ اس عالم طبیعیات میں کونسی چیز ہے جو اس چارہ کو جسے چوپائے کھاتے ہیں اور اس میٹھے یا کھارے پانی کو جسے یہ چوپائے پیتے ہیں، پینے والوں کے لئے خالص اور لذیذ دودھ میں بدل دیتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur beyshak tumharay liye maweshiyon mein bhi sochney samajnay ka bara samaan hai .unn kay pet mein jo gobar aur khoon hai uss kay bech mein say hum tumhen aisa saaf suthra doodh peenay ko detay hain jo peenay walon kay liye khushgawar hota hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
خوشگوار دودھ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا گواہ ہے
اونٹ گائے بکری وغیرہ بھی اپنے خالق کی قدرت و حکمت کی نشانیاں ہیں۔ بطونہ میں ضمیر کو یا تو نعمت کے معنی پر لوٹایا ہے یا حیوان پر چوپائے بھی حیوان ہی ہیں۔ ان حیوانوں کے پیٹ میں جو الا بلا بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اسی میں سے پروردگار عالم تمہیں نہایت خوش ذائقہ لطیف اور خوشگوار دودھ پلاتا ہے۔ دوسری آیت میں بطونہا ہے دونوں باتیں جائز ہیں۔ جیسے آیت (كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ 11ۚ فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ 12ۘ) 80 ۔ عبس :12-11) میں ہے اور جیسے آیت ( وَاِنِّىْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ 35) 27 ۔ النمل :35) میں ہے پس جاء میں مذکر لائے۔ مراد اس سے مال ہے جانور کے باطن میں جو گوبر خون وغیرہ ہے، معدے میں غذا پہنچی وہاں سے خون رگوں کی طرف دوڑ گیا، دودھ تھن کی طرف پہنچا، پیشاب نے مثانے کا راستہ پکڑا، گوبر اپنے مخرج کی طرف جمع ہوا نہ ایک دو سرے سے ملے نہ ایک دوسرے کو بدلے۔ یہ خالص دودھ جو پینے والے کے حلق میں با آرام اتر جائے اس کی خاص نعمت ہے۔ اس نعمت کے بیان کے ساتھ ہی دوسری نعمت بیان فرمائی کہ کھجور اور انگور کے شیرے سے تم شراب بنا لیتے ہو۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے ہے۔ اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی شراب ایک ہی حکم میں ہے جیسے مالک (رح) شافعی (رح) احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اور یہی حکم ہے اور شرابوں کا جو گہیوں جو، جوار اور شہد سے بنائی جائیں جیسے کہ احادیث میں مفصل آچکا ہے۔ یہ جگہ اس کی تفصیل کی نہیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں شراب بناتے ہو جو حرام ہے اور اور طرح کھاتے پیتے ہو جو حلال ہے مثلاً خشک کھجوریں، کشمش وغیرہ اور نیند شربت بنا کر، سرکہ بنا کر اور کئی اور طریقوں سے۔ پس جن لوگوں کو عقل کا حصہ دیا گیا ہے، وہ اللہ کی قدرت و عظمت کو ان چیزوں اور ان نعمتوں سے بھی پہچان سکتے ہیں۔ دراصل جو ہر انسانیت عقل ہی ہے۔ اسی کی نگہبانی کے لئے شریعت مطہرہ نے نشے والی شرابیں اس امت پر حرام کردیں۔ اسی نعمت کا بیان سورة یٰسین کی آیت ( وَجَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّــرْنَا فِيْهَا مِنَ الْعُيُوْنِ 34ۙ ) 36 ۔ يس :34) میں ہے یعنی زمین میں ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگا دئیے اور ان میں پانی کے چشمے بہا دئیے تاکہ لوگ اسکا پھل کھائیں، یہ انکے اپنے بنائے ہوئے نہیں۔ کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہیں کریں گے ؟ وہ ذات پاک ہے جس نے زمین کی پیداوار میں اور خود انسانوں میں اور اس مخلوق میں جسے یہ جانتے ہی نہیں ہر طرح کی جوڑ جوڑ چیزیں پیدا کردی ہیں۔