الکہف آية ۲
قَيِّمًا لِّيُنْذِرَ بَأْسًا شَدِيْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًا ۙ
طاہر القادری:
(اسے) سیدھا اور معتدل (بنایا) تاکہ وہ (منکرین کو) اﷲ کی طرف سے (آنے والے) شدید عذاب سے ڈرائے اور مومنین کو جو نیک اعمال کرتے ہیں خوشخبری سنائے کہ ان کے لئے بہتر اجر (جنت) ہے،
English Sahih:
[He has made it] straight, to warn of severe punishment from Him and to give good tidings to the believers who do righteous deeds that they will have a good reward [i.e., Paradise].
1 Abul A'ala Maududi
ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے
2 Ahmed Raza Khan
عدل والی کتاب کہ اللہ کے سخت عذاب سے ڈرائے اور ایمان والوں کو جو نیک کام کریں بشارت دے کہ ان کے لیے اچھا ثواب ہے،
3 Ahmed Ali
ٹھیک اتاری تاکہ اس سخت عذاب سے ڈراوے جو اس کے ہاں ہے اورایمان داروں کو خوشخبری دے جو اچھے کام کرتے ہیں کہ ان کے لیے اچھا بدلہ ہے
4 Ahsanul Bayan
بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے (١) پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کر دے اور ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنادے کہ ان کے لئے بہترین بدلہ ہے۔
٢۔١ مِنْ لَّدنہ، جو اس اللہ کی طرف سے صادر یا نازل ہونے والا ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سیدھی (اور سلیس اتاری) تاکہ لوگوں کو عذاب سخت سے جو اس کی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے کہ اُن کے لئے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی) بہشت ہے
6 Muhammad Junagarhi
بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کردے اور ایمان ﻻنے اور نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبریاں سنا دے کہ ان کے لئے بہترین بدلہ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بالکل سیدھی اور ہموار تاکہ وہ (مکذبین کو) اللہ کی طرف سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے اور ان اہل ایمان کو خوشخبری دے جو نیک عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بہترین اجر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اسے بالکل ٹھیک رکھا ہے تاکہ اس کی طرف سے آنے والے سخت عذاب سے ڈرائے اورجو مومنین نیک اعمال کرتے ہیں انہیں بشارت دے دوکہ ان کے لئے بہترین اجر ہے
9 Tafsir Jalalayn
(بلکہ) سیدھی (اور سلیس اتاری) تاکہ (لوگوں کو) عذاب سخت سے جو اسکی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے کہ ان کے لیے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی بہشت) ہے
آیت نمبر 2 تا 5
ترجمہ : اور حال یہ ہے کہ وہ بالکل سیدھی مستقیم ہے قَیّمًا کتاب سے حال ثانیہ ہے اور جملہ حالیہ کی تاکید ہے، تاکہ ڈرائے (اللہ) کتاب کے ذریعہ کافروں کو اپنے سخت عذاب سے، جو کہ اس کی طرف سے ہے اور تاکہ ان مومنین کو خوشخبری دے جو نیک عمل کرتے ہیں یہ کہ ان کے لئے اجر حسن ہے حال یہ ہے کہ وہ اس اجر حسن میں کہ وہ جنت ہے ہمیشہ رہیں گے، اور منجملہ کافروں سے ان کافروں کو ڈرائے جو کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے اس قول کی نہ ان کے پاس کوئی سند ہے اور نہ ان کے آباء کے پاس جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں اور وہ بھی اسی بات کے قائل تھے اور یہ بات جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے بڑی بھاری ہے، کلمۃً تمیز ہے جو کہ کَبُرَتْ کی ھِیَ ضمیر مبہم کی تفسیر کر رہی ہے اور مخصوص بالذم محذوف ہے اور وہ ان کا قول مذکور (اِتَّخَذَ اللہ ولدًا ہے) اور وہ اس بارے میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں بکتے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیر فوائد
قَیّمًا صیغہ صفت ہے، اس کے دو معنی ہیں (1) درست، مستقیم، جیسے ذلک دین القَیِّمَۃ یہی طریقہ درست ہے (2) درست کرنے والا یعنی ایسی کتاب جو انسانوں کے دنیوی اور اخروی تمام معاملات کو درست کرنے والی ہے، اس صورت میں قیمًا مقوّم کے معنی میں ہوگا قَیّماً یہ الکتاب سے حال ثانی ہے اس صورت میں حال مترادفہ ہوگا، پہلا حال جملہ وَلَمْ یَجْعَل لَّہٗ عِوَجًا ہے، لَہٗ کی ضمیر سے حال ہوگا اس صورت میں حال متداخلہ ہوگا، اور یہ حال مؤکدہ کہلائے گا اس لئے کہ دوسرا حال پہلے حال کے مفہوم کی تاکید کرتا ہے، فعل محذوف کا مفعول ثانی بھی ہوسکتا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی جَعَلَہٗ قَیّمًا، قولہ لِیُنْذِرَ میں لام تعلیل یا عاقبت کا ہے اور اَنْزَلَ سے متعلق ہے اور لِیُنْذِرَ کا مفعول اول یعنی الکافرین محذوف ہے اور بأسًا شدیدًا مفعول ثانی ہے، اور مِنْ لَدُنْہٗ کائنًا محذوف کے متعلق ہو کر جملہ ہو کر بأسًا کی صفت ثانی ہے، ای باسًا شدیدًا کائنًا منہ یُبَشِّرُ کا عطف یُنْذِرَ پر ہے اور لام کے تحت ہے، المومنین یُبَشِّرُ کا مفعول ہے، اور الذین یعملون الخ المومنین کی صفت ہے أنَّ لَھُمْ کے پہلے ب حرف جار محذوف ہے۔
قولہ ما کِثِیْنَ ، لَھُمْ کی ضمیر سے حال ہے اور فیہِ کی ضمیر کا مرجع اجرً ہے دوسرے ینذر کا عطف لِیُنْذِرَ پر ہے یہ عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہے اور اس کا مفعول ثانی محذوف ہے، ای بأسًا شدیدًا، مالھُمْ جملہ مستانفہ ہے اور لَھُمْ خبر مقدم ہے منْ علم مبتداء مؤخر ہے اور من زائدہ ہے اور لا لِآبَائِھِمْ کا خبر پر عطف ہے اور بہ کی ضمیر کا مرجع قول ہے کَبُرَتْ فعل ماضی انشاء ذم کے لئے ہے اس میں ضمیرھی فاعل ہے جو کہ مقالتھم کی طرف راجع ہے کلمۃً تمیز ہے تخرج جملہ ہو کر کلمۃ کی صفت ہے اور مقالتُھُمْ المذکورۃ مخصوص بالذم ہے۔
تفسیری فوائد : قیمًا کے بعد مستقیمًا کا اضافہ تعیین معنی کے لئے ہے اس لئے کہ قیمًا دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک مستقیم سیدھا اور دوسرے مقوّم سیدھا کرنے والا، بعض نسخوں میں بالکتاب کے بجائے یُخَوِّفُ الکتابُ ہے اس صورت میں یُنذِرُ کا فاعل کتاب ہوگی، پیش نظر نسخہ میں بالکتاب ہے لہٰذا یُنذِرُ کا فاعل اللہ ہوگا یا پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے، مِنْ قبل اللہ کے اضافہ کا مقصد مِن کے ابتدائیہ ہونے کی طرف اشارہ ہے اور ھو الجنۃ کے اضافہ کا مقصد فیہ کی ضمیر کا مصداق متعین کرنا ہے، اس لئے کہ ہٖ ضمیر اجر کی طرف راجع ہے، مَنْ قَبْلَھُمْ یہ لِآبَائِھِمْ کا بیان ہے اور مراد وہ آباء ہیں جو خدا کے لئے اولاد کے قائل تھے، الاَّ کے بعد مقولاً کا اضافہ کر کے بتادیا کہ کِذبًا کا موصوف مقولاً محذوف ہے۔
تفسیر وتشریح
اس سورت کی ابتدائی آیتوں میں چار باتیں بیان کی گئی ہیں (١) حمد باری اور قرآن کریم کی عظمت (٢) نزول قرآن کے تین مقاصد (٣) حامل قرآن کی ذمہ داری کس قدر ہے ؟ (٤) اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات کس مقصد کے لئے پید افرمائی، اور اس کائنات کا انجام کیا ہوگا ؟
اجمال کی تفصیل : تمام تعریفیں اس ذات پاک کے لئے ہیں جس نے اپنے خاص بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب نازل فرمائی، یعنی وہ ذات جس نے کتاب نازل فرمائی تمام خوبیوں پر ہے، اور تمام تعریفوں کے لائق اور بہتر سے بہتر شکر کی مستحق ہے، اور تمام عیوب ونقائص اور کمزوریوں سے منزہ ہے،۔۔۔۔ وحدہ لا شریک ہے، اور اس کتاب میں ذرا بھی کجی نہیں باقی رکھی، نہ لفظی، کہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہو اور نہ معنوی، کہ اس کا کوئی حکم حکمت کے خلاف ہو، اور نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ کافروں کو اپنے سخت عذاب سے ڈرائے، اور اہل ایمان کو جو اعمال صالح بھی کرتے ہیں آخرت میں اچھے انجام یعنی اجر حسن کی خوشخبری سنائے، اور کافروں میں سے بالخصوص ان لوگوں کو ڈرائے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد کا عقیدہ رکھتے ہیں، اولاد کا عقیدہ رکھنے والے کافروں کا عام کافروں سے الگ ذکر اس لئے کیا ہے کہ اس باطل عقیدہ میں عرب کے عام لوگ اور یہود و نصاریٰ سب مبتلا تھے، نہ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے اور نہ ان کے آباء و اجداد کے پاس تھی عقیدۂ اولاد کے بارے میں جو بات ان کی زبان سے نکلتی ہے یہ بہت بھاری بات ہے ادنیٰ عقل رکھنے والا شخص بھی اس کا قائل نہیں ہوسکتا۔
لَمْ یجعل لہ عوجًا سے جس مفہوم کو منفی انداز میں بیان کیا گیا ہے اسی مضمون کو قَیّمًا کے ذریعہ مثبت انداز میں بیان کیا گیا ہے، اس لئے کہ مستقیم وہی شئی ہوتی ہے جس میں کجی نہیں ہوتی۔
10 Tafsir as-Saadi
استقامت کا اثبات اس بات کا متقضی ہے کہ یہ کتاب جلیل ترین امور کا حکم دیتی اور جلیل ترین خبروں سے اگاہ کرتی ہے اور یہ وہ خبریں ہیں جو قلوب انسانی کو معرفت الہٰی اور ایمان و عقل سے لبریز کردیتی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور اس کے افعال کے بارے میں خبریں، نیز گزرے ہوئے اور آئندہ آنے والے غیبی معاملات کی خبریں۔ اس کتاب کی استقامت کا اثبات اس امر کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ اس کے اوامر و نواہی نفوس انسانی کا تزکیہ، ان کی نشو ونما اور ان کی تکمیل کرتے ہیں کیونکہ یہ اوامر و نواہی کامل عدل و انصاف، اخلاص اور اکیلے اللہ رب العالمین کے لیے عبودیت پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب، جس کے مذکورہ بالا اوصاف بیان کیے گئے ہیں، اس بات کی مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے نازل کرنے پر اپنی حمد بیان کرے اور اپنے بندے سے اپنی حمدو ستائش کا مطالبہ کرے۔
﴿ لِّيُنذِرَ بَأْسًا شَدِيدًا مِّن لَّدُنْهُ﴾ ” تاکہ وہ اپنی طرف سے ڈرائے سخت عذاب سے‘‘ یعنی اس شخص کو اپنی اس قضاو قدر سے ڈرائے جو اس کے احکامات کی مخالفت کرنے والوں کے لیے ہے۔ یہ دنیاوی عذاب اور اخروی عذاب دونوں کو شامل ہے، نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو خوف دلایا ہے اور ان کو ان امور سے ڈریا ہے جو ان کے لیے نقصان اور ہلاکت کا باعث ہیں۔ جیسا کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آگ کا وصف بیان کیا تو فرمایا : ﴿ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللّٰـهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ﴾ (الزمر: 39؍16)” اللہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اے میرے بندو! پس مجھ سے ڈرو“ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ان لوگوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں جو ان کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان سزاؤں کو ان کے سامنے بیان کردیا اور ان اسباب کو بھی واضح کردیا جو ان سزاؤں کے موجب ہیں۔
﴿وَيُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ﴾ ” اور خوشخبری دیجیے مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی، تاکہ اس کے ذریعے سے، نیز اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے، ان لوگوں کو خوشخبری سنائے جو اس کتاب پر ایمان لاکر اپنے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔ پس اس نے اپنے بندوں پر نیک اعمال واجب کئے اور اس سے مراد واجبات و مستحبات پر مشتمل نیک اعمال ہیں، جن میں اخلاص اور اتباع رسول جمع ہوں۔ ﴿ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا حَسَنًا ﴾ ” کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے“ اس سے مراد وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح پر مترتب کیا ہے۔ سب سے بڑا اور جلیل ترین ثواب، اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے جس کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے تصور میں اس کا گزر ہوا ہے اور اس اجر کو ” حسن“ کے وصف کے ساتھ موصوف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جنت میں کسی بھی لحاظ سے کوئی تکدر نہ ہوگا۔ کیونکہ اگر اس میں کسی قسم کا تکدر پایا جائے تو یہ اجر مکمل طور پر حسن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہ یہ اچھا اجر ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aik seedhi seedhi kitab jo uss ney iss liye nazil ki hai kay logon ko apni taraf say aik sakht azab say aagah keray , aur jo momin naik amal kertay hain unn ko khushkhabri dey kay unn ko behtareen ajar milney wala hai ,