یہاں (پتہ چلتا ہے) کہ سب اختیار اﷲ ہی کا ہے (جو) حق ہے، وہی بہتر ہے انعام دینے میں اور وہی بہتر ہے انجام کرنے میں،
English Sahih:
There the authority is [completely] for Allah, the Truth. He is best in reward and best in outcome.
1 Abul A'ala Maududi
اُس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے
2 Ahmed Raza Khan
یہاں کھلتا ہے کہ اختیار سچے اللہ کا ہے، اس کا ثواب سب سے بہتر اور اسے ماننے کا انجام سب سے بھلا،
3 Ahmed Ali
یہاں سب اختیار الله سچے ہی کا ہے اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیاہوا بدلہ اچھا ہے
4 Ahsanul Bayan
یہیں سے (ثابت ہے) کہ اختیارات (١) اللہ برحق کے لئے ہیں وہ ثواب دینے اور انجام کے اعتبار سے بہت (٢) ہی بہتر ہے۔
٤٤۔١ ولایۃ۔ کے معنی موالات اور نصرت کے ہیں یعنی اس مقام پر ہر مومن و کافر کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کی مدد کرنے پر اور اس کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پھر اس موقع پر بڑے بڑے سرکش اور جبار بھی اظہار ایمان پر مجبور ہو جاتے ہیں، گو اس وقت کا ایمان نافع اور مقبول نہیں۔ جس طرح قرآن نے فرعون کی بابت نقل کیا ہے کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہنے لگا۔ امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوا اسرائیل وانا من المسلمین۔ سورہ یونس۔ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر بنو اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ دوسرے کفار کی بابت فرمایا گیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہا ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن کو ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ان کا انکار کرتے ہیں سورۃ المومن۔ اگر ولایت واو کے کسرے کے ساتھ ہو تو پھر اس کے معنی حکم اور اختیارات کے ہیں جیسا کہ ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر۔ ٤٤۔٢ یعنی وہی اپنے دوستوں کو بہتر بدلہ دینے والا اور حسن عاقبت سے مشرف کرنے والا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہاں (سے ثابت ہوا کہ) حکومت سب خدائے برحق ہی کی ہے۔ اسی کا صلہ بہتر اور (اسی کا) بدلہ اچھا ہے
6 Muhammad Junagarhi
یہیں سے (ﺛابت ہے) کہ اختیارات اللہ برحق کے لئے ہیں وه ﺛواب دینے اور انجام کے اعتبار سے بہت ہی بہتر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(ثابت ہوا) کہ ہر قسم کا اختیار خدائے برحق کیلئے ہے۔ وہی بہتر ثواب دینے والا اور وہی بہترین انجام والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس وقت ثابت ہوا کہ قیامت کی نصرت صرف خدائے برحق کے لئے ہے وہی بہترین ثواب دینے والا ہے اور وہی انجام بخیر کرنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
یہاں (سے ثابت ہوا کہ) حکومت سب خدائے برحق ہی کی ہے اسی کا صلہ بہتر اور (اسی کا) بدلہ اچھا ہے .
10 Tafsir as-Saadi
﴿هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلّٰـهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا ﴾ ” وہاں سب اختیار اللہ برحق کا ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے“ یعنی اس حال میں جس میں اللہ تعالیٰ اس شخص کو سزا دینے کا حکم جاری کرتا ہے جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی اور عزت و تکریم اس شخص کے لئے جس نے ایمان لا کر نیک عمل کئے، اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا رہا اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دیتا رہا اس بنا پر واضح ہوگیا کہ حقیقی ولایت کا مالک صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا ولی اور دوست ہے، وہ اسے مختلف اقسام کی کرامات کے ذریعے سے تکریم بخشتا ہے اور اس کو شر اور تمام آفتوں سے بچاتا ہے۔ جو اپنے رب پر ایمان نہیں رکھتا اور نہ اسے اپنا والی اور سرپرست بناتا ہے، وہ دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھاتا ہے۔۔۔ پس اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دنیاوی اور اخروی ثواب بہترین ثواب ہے جس پر امیدوں کو مرتکز ہونا چاہئے۔ اس عظیم قصے میں اس شخص کے حال میں جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتیں عنایت کیں، مگر ان نعمتوں نے اسے آخرت سے غافل کر کے سرکش بنا دیا اور وہ ان میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگا۔۔۔ لوگوں کے لئے عبرت ہے کہ ان نعمتوں کا انجام زوال اور اضمحلال ہے اگر بندہ ان نعمتوں سے تھوڑا فائدہ اٹھاتا ہے تو طویل عرصے تک محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بندہ مومن کے لئے مناسب یہی ہے کہ جب اسے اپنے مال اور اولاد میں سے کچھ اچھا لگے تو وہ اس نعمت کو نعمت عطا کرنے والے کی طرف منسوب کرے اور یہ کہے : (ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ) تاکہ وہ شکر گزار بنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بقا کے لئے سبب بنے والا بنے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللّٰـهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰـهِ ﴾ ” کیوں نہ، جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں، کہا تو نے، جو چاہے اللہ سو وہ ہو۔ طاقت نہیں مگر جو دے اللہ۔ “ ان آیات کریمہ میں لذات دنیا اور اس کی شہوات کے بدلے میں ان بہتر چیزوں کے ذریعے تسلی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ فرمایا : ﴿ إِن تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنكَ مَالًا وَوَلَدًا فَعَسَىٰ رَبِّي أَن يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِّن جَنَّتِكَ﴾ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ مال اور اولاد اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مددگار نہ بنیں تو وہ کوئی فائدہ نہیں دیتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا﴾ (السبا:34؍37)” تمہارا مال اور تمہاری اولاد نہیں، جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو مگر وہی قریب ہوتا ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کرے۔“ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص کا مال اس کی سرکشی، کفر اور اس کے لئے اخروی خسارے کا سبب ہو اس مال کے تلف ہونے کی دعا کرنا جائز ہے۔ خاص طور پر جبکہ وہ اس مال کی بنا پر اپنے آپ کو اہل ایمان سے افضل سمجھتا ہو اور ان پر فخر کا اظہار کرتا ہو۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت اور عدم ولایت، اس وقت ظاہر ہوگی جب غبار چھٹ جائے گا، جزا و سزا ثابت ہوگی اور علم کرنے والے اپنا اجر پا لیں گے : ﴿هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلّٰـهِ الْحَقِّ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا﴾ ” اس وقت معلوم ہوگا کہ کار سازی تو اللہ برحق کے اختیار میں ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aesay moaqa per ( aadmi ko pata chalta hai kay ) madad ka sara ikhtiyar sachay Allah ko hasil hai . wohi hai jo behtar sawab deta aur behtar anjam dikhata hai .