الکہف آية ۴۷
وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً ۙ وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا ۚ
طاہر القادری:
وہ دن (قیامت کا) ہوگا جب ہم پہاڑوں کو (ریزہ ریزہ کر کے فضا میں) چلائیں گے اور آپ زمین کو صاف میدان دیکھیں گے (اس پر شجر، حجر اور حیوانات و نباتات میں سے کچھ بھی نہ ہوگا) اور ہم سب انسانوں کو جمع فرمائیں گے اور ان میں سے کسی کو (بھی) نہیں چھوڑیں گے،
English Sahih:
And [warn of] the Day when We will remove the mountains and you will see the earth exposed, and We will gather them and not leave behind from them anyone.
1 Abul A'ala Maududi
فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے، اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے، اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھو گے اور ہم انہیں اٹھائیں گے تو ان میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے،
3 Ahmed Ali
اورجس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے
4 Ahsanul Bayan
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے (١) اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک بھی باقی نہ چھوڑیں گے (٢)
٤٧۔١ یہ قیامت کی ہولناکیاں اور بڑے بڑے واقعات کا بیان ہے۔ پہاڑوں کو چلائیں گے کا مطلب، پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ جائیں گے اور پہاڑ ایسے ہونگے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون، زمین سے جب پہاڑ جیسی مضبوط چیزیں ختم ہو جائیں گی، تو مکانات، درخت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کس طرح وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ اسی لئے آگے فرمایا ' 'و زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا '
٤٧۔٢ یعنی اولین و آخرین، چھوٹے بڑے، کافر و مومن سب کو جمع کریں گے، کوئی زمین کی تہ میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کسی جگہ چھپ سکے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو گے اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ دن (یاد کرو) جب ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو دیکھوگے کہ وہ کھلا ہوا میدان ہے اور ہم اس طرح سب لوگوں کو جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو گے اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے
آیات نمبر 47 تا 49
ترجمہ : اور یاد کرو اس دن کو کہ وہ (اللہ) چلا دے گا پہاڑوں کو یعنی اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو روئے زمین سے اکھاڑ دیں گے اور پہاڑ پراگندہ غبار ہوجائیں گے اور ایک قرأت میں نُسَیِّرُ نون اوری کے کسرہ اور جبال کے نصب کے ساتھ ہے اور اے مخاطب تو زمین کو دیکھے گا کہ ایک کھلا میدان ہے کہ اس پر پہاڑ وغیرہ کچھ نہ رہیں گے اور ہم تمام انسانوں کو خواہ مومن ہوں یا کافر سب کو جمع کریں گے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے اور سب کے سب تیرے رب کے رو برو صف بستہ حاضر کئے جائیں گے صفًّا حال ہے (اور معنی میں) مصطفین کے ہے ہر امت کی ایک صف ہوگی اور ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو آخر کار تم ہمارے پاس آئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا یعنی تن تنہا یا برہنہ پا، ننگے دھڑ نگے غیر مختون اور منکرین بعث سے کہا جائے گا تم یہ سمجھتے رہے تھے کہ ہم تمہارے بعث کیلئے کوئی وقت موعود نہ لائیں گے اَنَّ مخففہ عن المثقلہ ہے یعنی أنَّہ اور نامہ عمل سامنے رکھ دیا جائے گا یعنی ہر شخص کا نامہ عمل، اگر مومن ہوگا تو دائیں ہاتھ میں اور اگر کافر ہوگا تو بائیں ہاتھ میں دے دیا جائے گا تو اے مخاطب تو دیکھے گا مجرموں کافروں کو کہ اس تحریر سے جو اس میں ہوگی خوف زدہ ہو رہے ہوں گے اور اس (نامہ اعمال) میں لکھی ہوئی بداعمالیوں کو دیکھ کر کہیں گے ہائے ہماری بدنصیبی وَیْلَتَنَا، ھَلَکَتْنَا کے معنی میں ہے اور ویل ایسا مصدر ہے کہ اس کا فعل (اس مادہ) سے مستعمل نہیں ہے یہ (نامہ عمل) کیسی عجیب کتاب ہے کہ جس نے نہ کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا اور نہ بڑا جس کا احاطہ نہ کیا ہو ؟ یعنی ہر گناہ کو شمار کر کے قلمبند کرلیا اور مجرمین نامہ اعمال کی اس کیفیت سے تعجب کریں گے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا موجود پائیں گے یعنی اپنے اعمال ناموں میں لکھا ہوا پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا یعنی نا کردہ گناہ کی سزا نہ دے گا اور نہ کسی مومن کا اجر کم کرے گا
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
قولہ تعالیٰ حَشَرْنَا وعُرِ ضُوْا ووُضِعَ مذکورہ تینوں افعال ماضی کے صیغہ ہیں مگر معنی میں استقبال کے ہیں، وقوع یقینی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ماضی لایا گیا ہے لَمْ نُغادِر کا عطف حَشَرْنَا پر ہے اس لئے کہ لم نغادر لَمْ کی وجہ سے ماضی منفی کے معنی میں ہے قولہ صَفًّا عُرضُوْا کی ضمیر سے حال سے مصدر ہونے کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے یُسَیِّرُ کی تفسیر یذھَبُ بھا سے کرنے میں اشارہ ہے کہ یُسَیِّرُ متعدی بالباء ہے اور الجبالَ اس کا مفعول اول ہے قولہ نغادرُ کی تفسیر نَتْرُکُ سے کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نُغَادرُ باب مفاعلہ اگرچہ طرفین سے فعل کا تقاضہ کرتا ہے مگر یہاں طرفین سے فعل مراد نہیں ہے بلکہ غَادَرَ بمعنی غَدَرَ ہے، ای نترک اور عاقبتُ اللصَ کے قبیل سے ہے قولہ مصطفین سے اشارہ کردیا کہ صفًّا اگرچہ مفرد ہے مگر مصدر ہونے کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے قولہ کماءٍ یا تو مفعول مطلق ہے یا ضمیر مرفوع سے حال ہے، پہلی صورت میں کماء مصدر محذوف کی صفت ہوگا ای فَجِئْنَا کائنًا کماءٍ الخ قولہ أنْ مخففہ عن المثقلہ ہے اس کا اسم، ضمیرِ شان محذوف ہے ای اَنَّہ اور جملہ لَن نَجْعَلَ اس کی خبر ہے دوسرا کلمہ لَنْ حرف ناصب ہے اَنْ کانون لَنْ کے لام میں مدغم کردیا گیا ہے اور قرآنی رسم الخط میں نون کو حذف کردیا گیا لَکُمْ نجعل کا مفعول ثانی ہے اور موعدًا مفعول اول ہے قولہ کتاب کلّ امریٔ مفسر علام نے الکتاب کی تفسیر کتاب کل امریٔ سے کر کے اشارہ کردیا کہ الکتاب کا الف لام مضاف الیہ کے عوض میں ہے قولہ مشفقین کی تفسیر خائفین سے کرنے کا مقصد تعیین معنی ہیں اس لئے کہ مشفقین مختلف معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں خوف کے معنی مراد ہیں، حسن اور ابن کثیر اور ابو عمر نے تُسَیِّرُ الجبالُ مجہول پڑھا ہے اور الجبالُ کو نائب فاعل قرار دیا ہے اور ابن محیص (رح) نے تُسِیْرُ الجبالُ پڑھا ہے اور الجبالُ کو فاعل قرار دیا ہے، اور امام باقون نے نُسَیِّرُ الجبالَ پڑھا ہے اور جبال کو مفعول قرار دیا ہے، اور فاعل اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے یاد رہے کہ نُسَیِّرُ ، فعل محذوف اذکر کا ظرف ہے قولہ مال ھٰذا الکتاب میں ما استفہامیہ مبتدا ہے یہ استفہام تو بیخی ہے لام جارہ ہے ھٰذا اسم اشارہ الکتاب مشار الیہ لھٰذا کا لام یہاں پر رسم الخط قرآنی کے مطابق ھٰذا سے الگ لکھا جاتا ہے مصحف عثمانی میں اسی طرح لکھا ہوا ہے قولہ صغیرۃ وکبیرۃ کا موصوف ھَنُۃ ً یا فعلۃً محذوف ہے معصیۃ بھی مقدر مان سکتے ہیں۔
تفسیر وتشریح
وَاِنَّ نُسَیِّرُ الجبال سے اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کو بیان فرما رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ یہ باغ و بہار زندگی اور سرسبز و شاداب زمین کس طرح ویران ہوجائے گی اور آخرت کی گھڑی کافروں کے لئے کس قدر حسرت ناک ہوگی ارشاد فرمایا اس دن کو یاد کرو کہ جس دن ہم پہاڑوں کو چلتا کردیں گے اور یہ پہاڑ دھنی ہوئی روئی اور بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے سورة النمل آیت ٨٨ میں فرمایا کہ تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ بڑی مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں مگر وہ اس طرح چلیں گے جس طرح بادل چلتے ہیں اور آپ اے محمد باہر مخاطب زمین کو ایک کھلا میدان دیکھے گا اس دن پہاڑ، دریا اور ٹیلے، عمارتیں، درخت غرضیکہ ہر چیز ناپید ہوجائے گی اور کہیں کوئی نشیب و فراز نہ رہے گا سورة طٰہٰ میں ارشاد فرمایا لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں معلوم کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ میرا پروردگار ان کو بالکل اڑا دے گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمام انسانوں کو سفید بھوری زمین پر جمع کیا جائے گا جو میدے کی روٹی کی طرح ہوگی اس میں کسی بھی انسان کی کوئی علامت باقی نہیں رہے گی اور ہم سب انسانوں کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے یعنی اولین و آخرین چھوٹے بڑے کافر مومن سب کو جمع کریں گے کوئی زمین کی تہہ میں یا کسی گوشے میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کہیں چھپ سکے گا صفًّا کے معنی کھڑے ہونے کی حالت میں بھی ہوسکتے ہیں یعنی بارگاہ خداوندی میں سب کی حاضری حالت قیام میں ہوگی کوئی بیٹھا ہوا نہ ہوگا اور صفًّا کے معنی صفوفًا کے بھی ہیں یعنی قطار در قطار کے بھی ہوسکتے ہیں، حدیث شریف میں ہے کہ اہل محشر کی ١٢٠ صفیں ہوں گی جن میں سے اسّی صفیں اس امت کی ہوں گی اور جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے ان سے کہا جائے گا کہ لو دیکھ لو آگئے نا تم ہمارے پاس اسی طرح کہ جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا یعنی جان ومال، آل واولاد اور اپنی ہر اس چیز سے خالی ہاتھ ہو کر جس پر تم دنیا میں ناز کیا کرتے تھے ننگ دھڑنگ ہماری بارگاہ میں حاضر ہوگئے بخاری شریف اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! تم قیامت میں اپنے رب کے سامنے ننگے پاؤں ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع کئے جاؤ گے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة انبیاء کی آیت ١٠٤ تلاوت فرمائی اور قیامت میں سب سے اول جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے (متفق علیہ عن ابن عباس) ایک دوسری روایت میں ہے کہ مذکورہ حدیث سن کر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا سب مردوزن ننگے ہوں گے اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے، آپ نے فرمایا اس وقت معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہوگا کہ کوئی کسی کو دیکھے یعنی اس روز ہر ایک کو ایسی فکر دامن گیر ہوگی کہ کسی کو کسی طرف دیکھنے کا ہوش ہی نہ ہوگا سب کی نظریں اوپر کو اٹھی ہوئی ہوں گی اور منکرین قیامت سے یہ بھی کہا جائے گا بلکہ تم نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وعدہ کا وقت مقرر نہیں کیا بتاؤ تم دوبارہ پیدا ہوگئے یا نہیں ؟ اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا پھر آپ دیکھیں گے کہ مجرم لوگ اس کے مندرجات سے ڈر رہے ہوں گے اپنے گناہوں کی فہرست پڑھ کر خوف کھا رہے ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ دیکھئے اب کیسی سزا ملتی ہے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کمبختی یہ کیسی عجیب کتاب ہے کہ اس نے نہ ہماری چھوٹی بات چھوڑی اور نہ بڑی مگر اس نے سب احاطہ کرلیا ہے یعنی کوئی بات ایسی نہیں رہی کہ جو اس میں درج نہ ہوگئی ہو اور جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کیا تھا وہ سب موجود پائیں گے اور آپ کا پروردگار کسی پر ظلم نہ کرے گا، اس کا مفہوم عام طور پر حضرات مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ اپنے کئے ہوئے اعمال کی جزاء کو موجود پائیں گے اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (رح) فرماتے تھے کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں بیشمار روایات حدیث اس بات پر شاہد ہیں کہ یہی اعمال آخرت کی جزاء سزاء بن جائیں گے ان اعمال کی شکلیں وہاں بدل جائیں گی نیک اعمال جنت کی نعمتوں کی شکل اختیار کرلیں گے اور برے اعمال جہنم کی آگ اور سانپ اور بچھوؤں کی شکل اختیار کرلیں گے، اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کا مال قبر میں ایک بڑے سانپ کی شکل میں آکر اس کو ڈسے گا، اور کہے گا اَنا مالک (میں تیرا مال ہوں) اور نیک اعمال ایک حسین عورت کی شکل میں انسان کی قبر کی تنہائی میں وحشت دور کرنے کے لئے آئیں گے وغیرہ وغیرہ، ان تمام روایات کو عموماً مجاز پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر مذکورہ تحقیق کو لیا جائے تو پھر مجاز کی ضرورت نہیں رہتی۔
قرآن کریم نے یتیم کے مال کو ناجائز طریقہ سے کھانے کو آگ فرمایا (اِنَّمَا یَاکُلُوْنَ فِی بطُوْنِھِمْ نَارًا) مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقت بھی آگ ہے مگر اس کے آثار محسوس کرنے کے لئے اس دنیا سے گذرنا شرط ہے جیسے کہ کوئی ماچس کے بکس کو آگ کہے تو صحیح ہے مگر اس کے آگ ہونے کے لئے رگڑنا شرط ہے، خلاصہ یہ کہ انسان جو کچھ نیک یا بد عمل دنیا میں کرتا ہے یہ عمل ہی آخرت میں جزاء یا سزاء کی شکل اختیار کرے گا، اس وقت اس کے آثار و علامات اس دنیا میں مختلف ہوں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن کا حال بیان کرتا ہے کہ اس میں پریشان کن ہولناکیاں اور تڑپا دینے والی سختیاں ہوگی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ﴾ ” اور جس دن ہم چلائیں گے پہاڑ“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو ان کی جگہ سے ہٹا کر انکو ریت کے ٹیلے بنا دے گا، پھر ان کو دھنکی ہوئی اون کی مانند کر دے گا پھر وہ مضمحل ہو کر غبار کی مانند اڑ جائیں گی اور زمین ایک ہموار میدان نظر آئے گی جس میں کوئی نشیب و فراز نہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس زمین پر تمام مخلوق کو اکٹھا کرے گا کسی کو باقی نہیں چھوڑے گا۔ وہ اگلوں پچھلوں سب کو صحراؤں کے پیٹوں سے اور سمندروں کی گہرائیوں سے نکال کر ایک جگہ اکٹھا کرے گا۔ جب ان کے اجزا بکھر چکے ہوں گے اور وہ پارہ پارہ ہوچکے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو نئی زندگی عطا کرے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( uss din ka dhiyan rakho ) jiss din hum paharon ko chalyen gay , aur tum zameen ko dekho gay kay woh khuli parri hai , aur hum inn sabb ko gher ker ikattha kerden gay , aur inn mein say kissi aik ko bhi nahi choren gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
سب کے سب میدان حشر میں
اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے ان کا ذکر کر رہا ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے۔ آخر روئی کے گالوں کی طرح ہوجائیں گے زمین صاف چٹیل میدان ہوجائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی نہ اس میں کوئی مکان ہوگا نہ چھپر۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہوگی۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہوگی۔ کوئی درخت پتھر گھاس پھوس دکھائی نہ دے گا تمام اول و آخر کے لوگ جمع ہوں گے کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہوگا تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے، اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے۔ تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہوگی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کرلیا اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے۔ نامہ اعمال سامنے کردیئے جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بہی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر ہم چلے، ایک میدان میں منزل کی۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے فرمایا جاؤ جسے کوئی لکڑی، کوئی کوڑا، کوئی گھاس پھوس مل جائے لے آؤ ہم سب ادھر ادھر ہوگئے چپٹیاں، چھال، لکڑی، پتے، کانٹے، جرخت، جھاڑ، جھنکاڑ جو ملا لے آئے۔ ڈھیر لگ گیا تو آپ نے فرمایا دیکھ رہے ہو ؟ اسی طرح گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اللہ سے ڈرتے رہو، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچو کیونکہ سب لکھے جا رہے ہیں اور شمار کئے جا رہے ہیں جو خیر و شر بھلائی برائی جس کسی نے کی ہوگی اسے موجود پائے گا جیسے آیت ( يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا 30 ) 3 ۔ آل عمران :30) اور آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13ۭ ) 75 ۔ القیامة :13) اور آیت ( يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ ۙ ) 86 ۔ الطارق :9) میں ہے تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہوجائیں گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہی ہر بدعہد کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا اس کی بدعہدی کے مطابق جس سے اس کی پہچان ہوجائے۔ اور حدیث میں ہے کہ یہ جھنڈا اس کی رانوں کے پاس ہوگا اور اعلان ہوگا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے۔ تیرا رب ایسا نہیں کہ مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرے ہاں البتہ درگزر کرنا، معاف فرما دینا، عفو کرنا، یہ اس کی صفت ہے۔ ہاں بدکاروں کو اپنی قدرت و حکمت عدل و انصاف سے وہ سزا بھی دیتا ہے جہنم گنہگاروں اور نافرمانوں سے بھر جائے پھر کافروں اور مشرکوں کے سوا اور مومن گنہگار چھوٹ جائیں گے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا نیکیوں کو بڑھاتا ہے گناہوں کو برابر ہی رکھتا ہے عدل کا ترازو اس دن سامنے ہوگا کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہوگی، الخ۔
مسند احمد میں ہے حضرت جابر عبداللہ (رض) فرماتے ہیں مجھے روایت پہنچی کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک حدیث سنی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں میں نے اس حدیث کو خاص ان سے سننے کے لئے ایک اونٹ خریدا سامان کس کر سفر کیا مہینہ بھر کے بعد شام میں ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عبداللہ بن انیس (رض) ہیں۔ میں نے دربان سے کہا جاؤ خبر کرو کہ جابر دروازے پر ہے انہوں نے پوچھا کیا جابر بن عبداللہ ؟ ( رض) میں نے کہا جی ہاں۔ یہ سنتے ہیں، جلدی کے مارے چادر سنبھالتے ہوئے جھٹ سے باہر آ کئے اور مجھے لپٹ گئے معانقہ سے فارغ ہو کر میں نے کہا مجھے یہ روایت پہنچی کہ آپ نے قصاص کے بارے میں کوئی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے تو میں نے چاہا کہ خود آپ سے میں وہ حدیث سن لوں اس لئے یہاں آیا اور سنتے ہی سفر شروع کردیا اس خوف سے کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے مر نہ جاؤں یا آپ کو موت نہ آجائے اب آپ سنائیے وہ حدیث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن اپنے تمام بندوں کا اپنے سامنے حشر کرے گا، ننگے بدن، بےختنہ، بےسرو سامان پھر انہیں ندا کرے گا جسے دور نزدیک والے سب یکساں سنیں گے فرمائے گا کہ میں مالک ہوں میں بدلے دلوانے والا ہوں کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہ جائے گا جب تک اس کا جو حق کسی جنتی کے ذمہ ہو میں نہ دلوا دوں اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہوسکتا ہے جب تک اس کا حق جو جہنمی پر ہے میں دلوا دوں گو ایک تھپڑ ہی ہو۔ ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ حق کیسے دلوائے جائیں گے حالانکہ ہم سب تو وہاں ننگے پاؤں، ننگے بدن، ننگے بدن، بےمال و اسباب ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ہاں اس دن حق نیکیوں اور برائیوں سے ادا کئے جائیں گے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں دار بکری نے مارا ہے تو اس سے بھی اس کو بدلہ دلوایا جائے گا اس کے اور بھی بہت شاہد ہیں جنہیں ہم نے بالتفصیل آیت ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا 47) 21 ۔ الأنبیاء :47) کی تفسیر میں اور آیت (اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38) 6 ۔ الانعام :38) کی تفسیر میں بیان کئے ہیں۔