الکہف آية ۶
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّـفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَـدِيْثِ اَسَفًا
طاہر القادری:
(اے حبیبِ مکرّم!) تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ (عزیز بھی) گھلا دیں گے اگر وہ اس کلامِ (ربّانی) پر ایمان نہ لائے،
English Sahih:
Then perhaps you would kill yourself through grief over them, [O Muhammad], if they do not believe in this message, [and] out of sorrow.
1 Abul A'ala Maududi
اچھا، تو اے محمدؐ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے
2 Ahmed Raza Khan
تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں غم سے
3 Ahmed Ali
پھر شایدتو ان کے پیچھے افسوس سے اپنی جان ہلاک کر دے گا اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائے
4 Ahsanul Bayan
پس اگر یہ لوگ اس بات (١) پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے
٦۔١ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس بات) سے مراد قرآن کریم ہے۔ کفار کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش آپ رکھتے تھے اور ان کے اعراض و گریز سے آپ کو سخت تکلیف ہوتی تھی، اس میں آپ کی اسی کیفیت اور جذبے کا اظہار ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم کے ان پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے
6 Muhammad Junagarhi
پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے پیغمبر(ص)!) شاید آپ ان کے پیچھے اس رنج و افسوس میں اپنی جان دے دیں گے کہ وہ اس کلام پر ایمان نہیں لائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو کیا آپ شدّت هافسوس سے ان کے پیچھے اپنی جان خطرہ میں ڈال دیں گے اگر یہ لوگ اس بات پرایمان نہ لائے
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے۔
آیت نمبر 6 تا 8
ترجمہ : شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ قرآن پر ایمان نہ لائے تو خود کو افسوس کی وجہ سے غم وغصہ میں ہلاک کرلیں گے یعنی ان کے آپ سے اعراض کرنے کے بعد آپ کے ان کے ایمان پر حریص ہونے کی وجہ سے، اور اَسَفًا مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے بیشک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے حیوانات اور نباتات اور اشجار وانہار وغیرہ کو زمین کے لئے زینت بنایا ہے تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں۔۔۔ ان لوگوں کو آزمائیں جو اس کی طرف مائل ہیں، کہ ان میں سے کون ما علی الارض کے بارے میں عمل کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے، یعنی ان میں سے کون دنیا سے زیادہ بےرخی کرنے والا ہے اور ہم زمین کی تمام چیزوں کو چینل میدان کردیں گے یعنی خشک سپاٹ میدان بنادیں گے جو زراعت کے لائق نہ ہو۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
مُھْلِکٌ کا اضافہ بیان معنی کے لئے ہے قولہ بَعْدَھم یہ آثار کی تفسیر ہے اور بَعْدَ تولیھم تفسیر کی تفسیر ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر اتنا غم نہ کیجئے کہ خود کو ہلاک کر ڈالیں لَعَلَّ ترجی اور اشفاق کے لئے آتا ہے، مگر یہاں نہی کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی آپ کو اس قدر زیادہ غم کرنے سے منع کرنے کے لئے آثار اَثَرً کی جمع ہے، ان کے پیچھے یعنی ان کی فکر میں آپ خود کو ہلاک نہ کریں قولہ اِنْ لَمْ یومنوا اس کی دو ترکیبیں ہوسکتی ہیں (١) انْ لم یومنوا شرط ہے اور ما قبل پر اعتماد کرتے ہوئے جزاء محذوف ہے یعنی فلا تھلک نفسک سَک (٢) اِنْ لمْ یومِنُوْا شرط مؤخر اور فَلَعَلُّکَ باء۔۔۔۔ اء مقدم قولہ اَسَفًا باخع کا مفعول لہ ہے یا باخع کی ضمیر۔ حال ہے قولہ لحرصکَ یہ علۃ العلۃ ہے یعنی آپ کو اتنا زیادہ غم کیوں ہے اس لئے کہ آپ ان کے ایمان پر حریص ہیں قولہ اناجعلنا یہ جملہ مستانفہ ہے اگر جَعَلَ صَبَّرَ کے معنی میں ہو تو زینۃً اس کا مفعول ثانی ہوگا، لَھَا کا لام زینۃً سے متعلق ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کائنۃً سے متعلق ہو کر زینۃً کی صفت ہو، ما علی الارض مفعول اول ہے اور اگر جَعَلَ بمعنی خَلَقَ ہو تو زینۃً یا تو حال ہوگا یا پھر مفعول لہ قولہ ناظرین الی ذلک یہ مِن الناس سے حال ہے قولہ جُرُزًا صعیداً کی صفت ہے اس میں اسناد مجازی ہے اس لئے کہ جُرُز کے اصل معنی ایسی زمین کے ہیں جس کی گھاس کاٹ دی گئی ہو یہ ما علی الارض کا وصف قرار دیا ہے حالانکہ یہ ارض کا وصف ہے لہٰذا علاقہ مجاورت کی وجہ سے اسناد مجازی ہوگی۔
قولہ اَیُّھُمْ بترکیب اضافی مبتداء ہے اور اَحْسَنُ اس کی خبر اور عملاً تمیز ہے جملہ ہو کر نبلوْا کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے فیہ کی ضمیر کا مرجع ما علی الارض ہے مراد دنیا ومافیہا ہے قولہ اَزَھَدُ لہٗ یہ اَحْسَنُ عملاً کی تفسیر ہے قولہ اَسَفًا کی تفسیر غیضاً وحُزْنًا سے کرنے کا مقصد تعیین معنی ہے اس لئے کہ اَسَفًا متعدد معنی کے لئے آتا ہے قولہ من الحیوان والنبات یہ ما علی الارض کا بیان ہے قولہ ناظرین الی ذلک سے اشارہ ہے کہ ھُمْ ذوالحال ہے اور ناظرین اس سے حال ہے۔
تفسیر وتشریح
کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ اس قدر غم نہ کریں کہ خود کو ہلاک ہی کر ڈالیں، اس آیت میں نفس حزن سے منع نہیں کیا گیا اس لئے کہ کفر پر نفس حزن تو ایمان کی علامت ہے، آپ کو حد سے زیادہ غم کرنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ دنیا عالم امتحان ہے اس میں کفر و ایمان، خیر و شر دونوں رہیں گے اسی امتحان کے لئے ہم نے زمین کی چیزوں کو زمین کے لئے رونق بنایا ہے، تاکہ ہم اس کے ذریعہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے یعنی کون دنیا سے اعراض کرتا ہے اور کون اس دنیا کی زینت اور رونق پر مفتون ہو کر آخرت سے غافل ہوجاتا ہے، غرضیلہ یہ عالم ابتلا ہے تکوینی طور پر کوئی مومن رہے گا اور کوئی کافر پھر حد سے زیادہ غم کرنا بیکار ہے، آپ تبلیغ و رسالت کا اپنا کام کرتے رہئے اور باقی معاملہ ہمارے اوپر چھوڑ دیجئے، چناچہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم زمین کو چٹیل میدان کردیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلائق کی ہدیت کی بے انتہا خواہش رکھتے تھے اور ان کی ہدایت کے لیے بے حد کوشاں رہتے تھے۔ آپ دین اسلام اختیار کرنے والے کے ہدایت قبول کرنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ تکذیب کرنے والے گمراہ لوگوں پر رحم و شفقت کی بنا پر متاسف اور غم زدہ ہوتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کے رویے پر افسوس اور تاسف میں مشغول نہ ہوں جو اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا ہے: ﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴾ (الشعرا:26؍3) ” شاید آپ اسی غم میں اپنے آپ کو ہلکان کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ﴾ (فاطر35؍8) ” پس ان لوگوں کے غم میں آپ کی جان نہ گھلے۔“ یہاں فرمایا : ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ﴾ ” کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک ڈالیں گے۔“ یعنی ان کے غم میں حالانکہ آپ کا اجرو ثواب تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہوچکا ہے اگر ان لوگوں کی کوئی بھلائی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی تو وہ ضرور ان کو ہدایت سے نواز دیتا۔ مگر اسے معلوم ہے کہ یہ لوگ آگ کے سوا، کسی چیز کے قابل نہیں ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور وہ راہ راست نہ پا سکے آپ کا ان کے غم اور تاسف میں اپنے آپ کو مشغول کرنا آپ کو کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
اس آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات کریمہ میں عبرت ہے۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے پر مامور شخص پر تبلیغ دعوت، ان تمام اسباب کے حصول میں کوشاں رہنا جو ہدایت کی منزل پر پہنچاتے ہیں، امکان بھر گمراہی کے راستوں کو مسدود کرنا اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر توکل فرض ہے۔ پس اگر وہ راہ راست پر گامزن ہوجائیں تو بہتر ہے ورنہ اس کو ان کے افسوس میں گھلنا نہیں چاہیے کیونکہ یہ چیز نفس کو کمزور اور قوی کو منہدم کردیتی ہے۔ اس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایسا کرنے سے وہ مقصد فوت ہوجائے گا جس پر اسے مامور کیا گیا ہے۔ تبلیغ، دعوت اور کوشش کے سوا ہر چیز اس کے اختیار سے باہر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (القصص 28؍56)” آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہتے ہیں۔“ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراف کیا۔ ﴿ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي ﴾ (المائدہ 5؍25)” اے میرے رب ! میں اپنے آپ پر اور اپنے بھائی کے سوا کسی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔“ تو انبیائے کرام کے علاوہ دیگر لوگ بدرجہ اولیٰ کسی کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتے، جنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ﴾ (الغاشیة :88؍22،21)” آپ نصیحت کیجیے۔ آپ تو صرف نصیحت کرنے والے ہیں، آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوئے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
abb ( aey payghumber ! ) agar log ( Quran ki ) iss baat per emaan naa layen , to aisa lagta hai jaisay tum afsos ker ker kay unn kay peechay apni jaan ko ghula betho gay !
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرکین کی گمراہی پر افسوس نہ کرو
مشرکین جو آپ سے دور بھاگتے تھے، ایمان نہ لاتے تھے اس پر جو رنج و افسوس آپ کو ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی کر رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ ان پر اتنا رنج نہ کرو، اور جگہ ہے ان پر اتنے غمگین نہ ہو، اور جگہ ہے ان کے ایمان نہ لانے سے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر، یہاں بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں تو تو اپنی جان کو روگ نہ لگا لے اس قدر غم و غصہ رنج و افسوس نہ کر نہ گھبرا نہ دل تنگ ہو اپنا کام کئے جا۔ تبلیغ میں کوتاہی نہ کر۔ راہ یافتہ اپنا بھلا کریں گے۔ گمراہ اپنا برا کریں گے۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے۔ پھر فرماتا ہے دنیا فانی ہے اس کی زینت زوال والی ہے آخرت باقی ہے اس کی نعمت دوامی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ پس دنیا سے اور عورتوں سے بچو بنو اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا۔ یہ دنیا ختم ہونے والی اور خراب ہونے والی ہے اجڑنے والی اور غارت ہونے والی ہے زمین ہموار صاف رہ جائے گی جس پر کسی قسم کی روئیدگی بھی نہ ہوگی۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم غیر آباد بنجر زمین کی طرف پانی کو لے چلتے ہیں اور اس میں سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جسے وہ خود کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی۔ کیا پھر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں زمین اور زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں پس تو کچھ بھی ان سے سنے انہیں کیسے ہی حال میں دیکھے مطلق افسوس اور رنج نہ کر۔