وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَاۤ اَنْ يُّرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًاۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا
English Sahih:
And as for the boy, his parents were believers, and we feared that he would overburden them by transgression and disbelief.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ مسلمان تھے تو ہمیں ڈر ہوا کہ وہ ان کو سرکشی اور کفر پر چڑھاوے
احمد علی Ahmed Ali
اور رہا لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے سو ہم ڈرے کہ انہیں بھی سر کشی اور کفر میں مبتلا نہ کرے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے، ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز و پریشان نہ کر دے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دنوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ (وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوتا کہیں) ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے۔ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز وپریشان نہ کر دے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اور جہاں تک اس بچے کا معاملہ ہے تو اس کے ماں باپ مؤمن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (بڑا ہوکر) ان کو بھی سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے پس ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (اگر زندہ رہا تو کافر بنے گا اور) ان دونوں کو (بڑا ہو کر) سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
اللہ کی رضا اور انسان۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس نوجوان کا نام حیثور تھا۔ حدیث میں ہے کہ اس کی جبلت میں ہی کفر تھا۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ بہت ممکن تھا کہ اس بچے کی محبت اس کے ماں باپ کو بھی کفر کی طرف مائل کر دے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس کی پیدائش سے اس کے ماں باپ بہت خوش ہوئے تھے اور اس کی ہلاکت سے وہ بہت غمگین ہوئے حالانکہ اس کی زندگی ان کے لئے ہلاکت تھی۔ پس انسان کو چاہے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے۔ رب انجام کو جانتا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں۔ مومن جو کام اپنے لئے پسند کرتا ہے، اس کی اپنی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لئے پسند فرماتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے اللہ کے فیصلے ہوتے ہیں وہ سراسر بہتری اور عمدگی والے ہی ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے ( فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَهُوْا شَـيْـــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللّٰهُ فِيْهِ خَيْرًا كَثِيْرًا 19) 4 ۔ النسآء ;19) یعنی بہت ممکن ہے کہ ایک کام تم اپنے لئے برا اور ضرر والا سمجھتے ہو اور وہ دراصل تمہارے لئے بھلا اور مفید ہو۔ حضرت خضر فرماتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ اللہ انہیں ایسا بچہ دے جو بہت پرہیزگار ہو اور جس پر ماں باپ کو زیادہ پیار ہو۔ یا یہ کہ جو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس لڑکے کے بدلے اللہ نے ان کے ہاں ایک لڑکی دی۔ مروی ہے کہ اس بچے کے قتل کے وقت اس کی والدہ کے حمل سے ایک مسلمان لڑکا تھا اور وہ حاملہ تھیں۔