الکہف آية ۹
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْـكَهْفِ وَالرَّقِيْمِۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَبًا
طاہر القادری:
کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف و رقیم (یعنی غار اور لوحِ غار یا وادئ رقیم) والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے (کتنی) عجیب نشانی تھے؟،
English Sahih:
Or have you thought that the companions of the cave and the inscription were, among Our signs, a wonder?
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور کتبے والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے،
3 Ahmed Ali
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور کتبہ والے ہماری نشانیوں والے عجیب چیز تھے
4 Ahsanul Bayan
کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے (١)
٩۔١ یعنی یہ واحد بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدائش اور اس کا نظام، شمس و قمر اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بیشمار نشانیاں، کیا تعجب انگیز نہیں ہیں۔ کَھْف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے۔ رقیم، بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے، بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع تھا بعض کہتے ہیں رَقِیْم بمعنی مَرْقُوْم ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی، جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اسے رقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر نام تحریر ہیں۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے اب الرقیب کہا جاتا ہے جو مرور زمانہ کے سبب الرقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہمارے نشانیوں میں سے عجیب تھے
6 Muhammad Junagarhi
کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے؟
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ کہف و رقیم (غار اور کتبے) والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب نشانی تھے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ کہف و رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب خیز نشانی تھے
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟
آیت نمبر 9 تا 12
ترجمہ : کیا آپ خیال کرتے ہیں یعنی گمان کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے کہف پہاڑ کے غار کو کہتے ہیں اور رقیم وہ تختی تھی جس میں اصحاب کہف کے نام اور ان کے اسماء کندہ تھے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا قصہ معلوم کیا گیا تھا، کہ وہ اپنے قصہ کے اعتبار سے ہماری آیات (قدرت) میں کچھ زیادہ عجیب تھے عجبًا کان کی خبر ہے اور اس کا ماقبل (یعنی من آیاتنا) کانوا کی ضمیر سے حال ہے یعنی وہ آیات قدرت میں عجیب تھے نہ کہ باقی آیات، یا عجائبات میں زیادہ عجیب تھے۔ حقیقت حال ایسی نہیں ہے، اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب چند نوجوانوں نے ایک غار میں پناہ لی تھی فِتیۃً فَتِیٌّ کی جمع ہے یعنی کامل نوجوان جب کہ وہ اپنے ایمان کے بارے میں اندیشہ کرتے ہوئے اپنی کافر قوم کے پاس سے نکلے تھے تو اس وقت انہوں نے یہ دعا کی اے ہمارے پروردگار تو ہم اپنے پاس سے یعنی اپنی خصوصی عنایت سے رحمت عطا فرما اور ہمارے معاملہ کو درست فرما تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال کے لئے پردہ ڈال دیا یعنی ان کو گہری نیند سلا دیا پھر ہم نے ان کو اٹھا یا یعنی بیدار کیا تاکہ ہم علم مشاہدہ کے طور پر معلوم کرلیں کہ ان کی مدت قیام میں اختلاف کرنے والے دو فریقوں میں سے کس نے ان کے قیام کی مدت کو یاد رکھا ؟ اِحضٰی فعل ماضی ہے ضَبَطَ
کے معنی میں لِمَا لَبِثُوْا اپنے ما بعد سے متعلق ہے اور امَدًا بمعنی غایت ہے۔
تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد
اَمْ حَسِبْتَ میں اَم منقطعہ بمغنی استفہام انکاری ہے، یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو یہ خیال نہ کرنا چاہیے قولہ انَّ اَصْحَابَ الکھفِ جملہ ہو کر حسِبْتَ کا مفعول بہ ہے، اور کانوا مِن آیاتِنَا عَجَبَا جملہ ہو کر انَّ کی خبر ہے اور عجبًا (آیۃ) محذوف کی صفت ہو کر انَّ کی خبر ہے، اور اصحاب الکھف أنَّ کی خبر ہے، اور اصحاب الکھف انّ کا اسم ہے کہف مفرد ہے جمع کھوف واکَھُفٌ ہے بمعنی غار، کہف اور غار میں فرق یہ ہے کہ غار تنگ اور چھوٹی ہوتی ہے اور کہف کشادہ اور بڑی ہوتی ہے رقیم بمعنی مرقوم، لکھا ہوا، نوشتہ، رقیم کے بارے میں مفسرین کے چھ قول ہیں (١) اس بستی کا نام جہاں سے اصحاب کہف نکلے تھے (٢) اس پہاڑ کا نام ہے جس میں وہ غار ہے (٣) اصحاب کہف کے کتے کا نام ہے (٤) اس میدان کا نام ہے جو اس غار کے دامن میں واقع ہے (٥) وہ تختی جس میں اصحاب کہف کے نام ونسب و حالات لکھے ہوئے ہیں اور غار کے دہانے پر نصب تھی (٦) سیسہ کی وہ لوح جس پر اصحاب کہف کے نام کندہ کر کے شاہی خزانہ میں محفوظ کردی گئی تھی، امام بخاری (رح) نے اس قول کو اپنی صحیح میں تعلیقاً ذکر کیا ہے، حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے ھَیَّئ ھَیَّئ تَھیئۃُ سے فعل امر، اصلاح کرنا، درست کرنا، مہیا کرنا اَحصٰی باب افعال کا فعل ماضی ہے نہ کہ اسم تفصیل اس لئے کہ ثلاثی مزید سے اسم تفضیل افعل کے وزن پر نہیں آتا اَیُّ الحزبین بترک اضافی مبتداء احصٰی ہو کر خبر، احصیٰ کی ضمیر کا مرجع کل واحد من الحزبین ہے، لِمَا لَبِثُوْا بواسطہ حرف جر احصیٰ کا مفعول بہ ہے اور اَمَدًا تمیز ہے قولہ ضَرَبْنَا علیٰ آذانِھِمْ ضرَبْنَاکا مفعول حجاباً محذوف ہے، کلام میں مجاز ہے اس لئے کہ القاء نوم کو ضرب حجاب سے تشبیہ دی ہے اور ضَرَبْنَا بمعنی انَمْنا ہے قولہ عدَدًا بمعنی معدودًا سنین کی صفت ہے۔
تفسیر وتشریح
مذکورہ آیات میں اصحاب کہف کے واقعہ کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ اجمال کے بعد تفصیل جاننے کا شوق پیدا ہو، کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے کچھ زیادہ عجیب چیز تھے یا ہمارے عجائبات قدرت میں سب سے زیادہ عجیب چیز تھے، یعنی عجائبات قدرت اور حیرت انگیز نشانیاں تو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں یہ بےستونوں والا آسمان اور یہ عظیم کرہ ارض اور یہ فلک بوس پہاڑ اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا اور سمندر کیا کچھ کم عجائبات قدرت ہیں جو تم غار والوں اور رقیم والوں کی داستان پوچھتے ہو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے نزدیک اس واقعہ سے زیادہ کوئی حیرت زا، بات نہیں ہے، حالانکہ یہ واقعہ تو واقعات قدرت میں سے ایک معمولی واقعہ۔
فائدہ : اصحاب کہف کے بعد، الرقیم اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اصحاب کہف متعدد ہیں (١) ضحاک فرماتے ہیں کہ روم کے ایک شہر میں ایک غار ہے جس میں اکیس آدمی لیٹے ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سو رہے ہیں (٢) ابن عطیہ نے ملک شام میں ایک غار کا ذکر کیا ہے جس میں کچھ مردہ لاشیں ہیں اور اس غار کے پاس ایک مسجد بھی ہے (٣) ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ساحل عقبہ کے پاس فلسطین سے نیچے ایلہ کے قریب ایک غار ہے (٤) ایک واقعہ افسوس شہر کا بیان کیا گیا ہے جس کا اسلامی نام طرطوس ہے، یہ شہر ایشیائے کو چک کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔
غرض کہ اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لئے غار میں پناہ لینے کے متعدد واقعات ہوئے ہیں، قرآن کریم نے ان واقعات میں سے اصحاب کہف کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جن کے نام اور حالات سیسے کی لوح پر کندہ کر کے شاہی خزانہ میں رکھ لئے گئے تھے، چونکہ یہ نوجوان اونچے خاندان کے چشم وچراغ تھے ان کی اچانک گمشدگی ان کے اہل خاندان اور خود حکومت کے لئے تشویش کا باعث تھی، یہ چند نوجوان زمانہ کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر اور کافر حکمرانوں کے ظلم وستم سے بھاگ کر دین کی حفاظت کے لئے شہر سے نکل گئے تھے اور جنگل میں ایک غار میں پناہ لی تھی، وہاں انہوں نے بارگاہ ایزدی میں گڑ گڑا کر دعاء کی، خدایا تو اپنی خاص مہربانی سے ہم کو نواز دے اور ہمارے دین کی حفاظت فرما اس لئے کہ ہم آپ کی مدد کے بغیر راہ راست پر قائم نہیں رہ سکتے، مخالفت کی آندھیوں کے جھکڑ چل رہے ہیں دشمن ہاتھ دھو کر ہمارے قتل کے پیچھے پڑا ہوا ہے، اپنی جان کا تو ہمیں فکر نہیں کہیں دین کی رسی ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے، اللہ تعالیٰ نے ان شکستہ دل بندوں کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ان کی حفاظت کا بہترین انتظام فرما دیا۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ استفہام، نفی اور نہی کے معنیٰ میں ہے۔ یعنی اصحاب کہف کے قصہ اور ان کے واقعات کو اللہ تعالیٰ کی آیات کے سامنے انہونی بات، اس کی حکمت میں انوکھا واقعہ نہ سمجھو اور نہ یہ سمجھو کہ اس کی کوئی نظیر نہیں اور اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار تعجب خیز معجزات ہیں جو اصحاب کہف کے معجزے کی جنس میں سے ہیں یا اس سے بھی بڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے اپنے بندوں کو آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتا رہا ہے جن سے حق و باطل اور ہدایت و ضلالت واضح ہوتے ہیں۔ نفی سے مراد یہ نہیں کہ اصحاب کہف کا قصہ عجائبات میں سے نہیں بلکہ یہ قصہ تو اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہے اور اس سے صرف یہ مراد ہے کہ اس جنس کے اور بہت سے معجزات ہیں، اس لیے صرف اس ایک معجزے پر تعجب کے ساتھ ٹھہر جانا علم و عقل میں نقص ہے۔ بندہ مومن کا وظیفہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان آیات میں غور و فکر کرے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو غورو فکر کی دعوت دی ہے کیونکہ غورو فکر ایمان کی کلید اور علم و ایقان کا راستہ ہے۔ اصحاب کہف کو (الکھف) اور ( الرقیم)کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ کہف سے مراد پہاڑ کے اندر ایک غار ہے اور رقیم سے مراد کتبہ ہے جس پر اصحاب کہف کے نام اور ان کا واقعہ درج تھا کہ وہ طویل زمانے تک اس غار میں پڑے رہے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiya tumhara yeh khayal hai kay ghaar aur raqeem walay log humari nishaniyon mein say kuch ( ziyada ) ajeeb cheez thay ?
12 Tafsir Ibn Kathir
اصحاف کہف
اصحاف کہف کا قصہ اجمال کے ساتھ بیان ہو رہا ہے پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہوگا فرماتا ہے کہ وہ واقعہ ہماری قدرت کے بیشمار واقعات میں سے ایک نہایت معمولی واقعہ ہے۔ اس سے بڑے بڑے نشان روز مرہ تمہارے سامنے ہیں آسمان زمین کی پیدائش رات دن کا آنا جانا سورج چاند کی اطاعت گزاری وغیرہ قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں جو بتلایا رہی ہیں کہ اللہ کی قدرت بےانداز ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اس پر کوئی مشکل نہیں اصحاب کہف سے تو کہیں زیادہ تعجب خیز اور اہم نشان قدرت تمہارے سامنے دن رات موجود ہیں کتاب و سنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کردی ہیں کہف کہتے ہیں پہاڑی غار کو وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے رقیم یا توایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا ان کی اس جگہ کی عمارت کا نام ہے یہ کسی آبادی کا نام ہے یا اس پہاڑ کا نام ہے اس پہاڑ کا نام نجلوس بھی آیا ہے غار کا نام حیزوم کہا گیا ہے اور ان کے کتے کا نام حمران بتایا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں سارے قرآن کو میں جانتا ہوں لیکن لفظ حنان اور لفظ اواہ اور لفظ رقیم کو۔ مجھے نہیں معلوم کہ رقیم کسی کتاب کا نام ہے یا کسی بنا کا۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ وہ کتاب ہے۔ سعید کہتے ہیں کہ یہ پتھر کی ایک لوح تھی جس پر اصحاب کہف کا قصہ لکھ کر غار کے دروازے پر اسے لگا دیا گیا تھا۔ عبد الرحمن کہتے ہیں قرآن میں ہے کتاب مرقوم پس آیت کے ظاہری الفاظ تو اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی امام ابن جریر (رض) کا مختار قول ہے کہ رقیم فعیل کے زون پر مرقوم کے معنی میں ہے جیسے مقتول قتیل اور مجروح جریح واللہ اعلم۔ یہ نوجوان اپنے دین کے بچاؤ کیلئے اپنی قوم سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے کہ کہیں وہ انہیں دین سے بہکا نہ دیں ایک پہاڑ کے غار میں گھس گئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ہمیں اپنی قوم سے چھپائے رکھ۔ ہمارے اس کام میں اچھائی کا انجام کر۔ حدیث کی ایک دعا میں ہے کہ اللہ اے اللہ جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے اسے انجام کے لحاظ سے بھلا کر۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعا میں عرض کرتے کہ اے اللہ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذابوں سے بچا لے۔ یہ غار میں جا کر جو پڑ کر سوئے تو برسوں گزر گئے پھر ہم نے انہیں بیدار کیا ایک صاحب درہم لے کر بازار سے سودا خریدنے چلے ؟ اسے ہم بھی معلوم کریں۔ امد کے معنی عدد یا گنتی کے ہیں اور کہا گیا ہم کہ غایت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے جیسے کہ عرب کے شاعروں نے اپنے شعروں میں اسے غایت کے معنی میں باندھا ہے۔