اور (جبرائیل میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہو کہ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر (زمین پر) نہیں اتر سکتے، جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے (سب) اسی کا ہے، اور آپ کا رب (آپ کو) کبھی بھی بھولنے والا نہیں ہے،
English Sahih:
[Gabriel said], "And we [angels] descend not except by the order of your Lord. To Him belongs that before us and that behind us and what is in between. And never is your Lord forgetful –
1 Abul A'ala Maududi
اے محمدؐ، ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اُترا کرتے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے ہر چیز کا مالک وہی ہے اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں ہے
2 Ahmed Raza Khan
(اور جبریل نے محبوب سے عرض کی (ٖف ۱۰۹) ہم فرشتے نہیں اترتے مگر حضور کے رب کے حکم سے اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے درمیان ہے اور حضور کا رب بھولنے والا نہیں
3 Ahmed Ali
اورہم تیرے رب کے حکم کے سوا نہیں اترتے اسی کا ہے جو کچھ ہمارے سامنے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے او ر تیرا رب بھولنے والا نہیں
4 Ahsanul Bayan
ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے (١) ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں، تیرا پروردگار بھولنے والا نہیں۔
٦٤۔١ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ مریم)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (فرشتوں نے پیغمبر کو جواب دیا کہ) ہم تمہارے پروردگار کے حکم سوا اُتر نہیں سکتے۔ جو کچھ ہمارے آگے ہے اور پیچھے ہے اور جو ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں
6 Muhammad Junagarhi
ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے، ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اسی کی ملکیت میں ہیں، تیرا پروردگار بھولنے واﻻ نہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) ہم (فرشتے) آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر (زمین پر) نازل نہیں ہوتے جو کچھ ہمارے آگے ہے یا جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ اسی کا ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اے پیغمبر علیھ السّلامہم فرشتے آپ کے پروردگار کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے ہیں ہمارے سامنے یا پس پشت یا اس کے درمیان جو کچھ ہے سب اس کے اختیار میں ہے اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور فرشتوں نے پیغمبر کو جواب دیا کہ ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اتر نہیں سکتے جو کچھ ہمارے آگے اور جو پیچھے ہے اور جو ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے
10 Tafsir as-Saadi
ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دیر سے نازل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا ’’آپ جتنی بار ہمارے پاس آتے ہیں، کاش اس سے زیادہ ہمارے پاس آئیں“ آپ نے یہ بات جبرئیل علیہ السلام کی طرف اشتیاق اور اس کی جدائی سے وحشت محسوس کرتے ہوئے کہی تاکہ اس کے نزول سے اطمینان قلب حاصل ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرئی علیہ السلام کی زبانی فرمایا : ﴿ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ﴾ ” ہم تو اپنے رب کے حکم ہی سے اترتے ہیں“ یعنی اس معاملے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں اگر ہمیں نازل ہونے کا حکم دیا جاتا ہے تو ہم اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں ہم اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرسکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿لَّا يَعْصُونَ اللّٰـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ (التحریم :66؍6) ” اللہ جو حکم ان کو دیتا ہے، وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔“ ہم تو مامور و محکوم بندے ہیں۔ ﴿ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ﴾ ” اسی کیلئے ہے جو ہمارے سامنے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان میں ہے۔“ یعنی وہی ہے جو ہر زمان و مکان میں، امور ماضی، امور حاضر اور امور مستقبل کا مالک ہے اور جب یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ اختیار میں ہیں، تو ہم محض اس کے بندے اور اس کی دست تدبیر کے تحت ہیں، اس لئے تمام معاملہ ان دو باتوں کے مابین ہے: 1۔ آیا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا کرتی ہے، کہ وہ اسے نافذ فرمائے؟ 2۔ یا حکمت الٰہی اس فعل کا تقاضا نہیں کرتی؟ کہ وہ اسے مؤخر کر دے؟ اس لئے فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾ ” اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں ہے۔“ یعنی آپ کا رب آپ کو فراموش کر کے مہمل نہیں چھوڑے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ﴾( الضحیٰ :93؍3) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑا ہے نہ وہ آپ سے ناراض ہے۔“ بلکہ وہ اپنے بہترین قوانین جمیلہ اور تدابیر جلیلہ کے مطابق، آپ کے لئے احکام جاری کرتے ہوئے آپ کے تمام امور کو درخور اعتناء رکھتا ہے، یعنی جب ہم وقت معتاد سے تاخیر سے نازل ہوتے ہیں تو یہ چیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غمزدہ نہ کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تاخیر کا ارادہ کیا ہے کیونکہ اس میں اس کی حکمت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( farishtay tum say yeh kehtay hain kay ) hum aap kay rab kay hukum kay baghair utar ker nahi aatay . jo kuch humaray aagay hai , aur jo kuch humaray peechay hai , aur jo kuch inn kay darmiyan hai , woh sabb ussi ki milkiyat hai . aur tumhara rab aisa nahi hai jo bhool jaya keray .
12 Tafsir Ibn Kathir
جبرائیل (علیہ السلام) کی آمد میں تاخیر کیوں ؟ صحیح بخاری شریف میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا آپ جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے ؟ اس کے جواب پر یہ آیت اتری ہے۔ یہ بھی مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے آنے میں تاخیر ہوگئی جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمگین ہوئے پھر آپ یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ روایت ہے کہ بارہ دن یا اس سے کچھ کم تک نہیں آئے تھے جب آئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟ مشرکین تو کچھ اور ہی اڑانے لگے تھے اس پر یہ آیت اتری۔ پس گو یہ یہ آیت سورة والضحی کی آیت جیسی ہے۔ کہتے ہیں کہ چالیس دن تک ملاقات نہ ہوئی تھی جب ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا میرا شوق تو بہت ہی بےچین کئے ہوئے تھا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اس سے کسی قدر زیادہ شوق خود مجھے آپ کی ملاقات کا تھا لیکن میں اللہ کے حکم کا مامور اور پابند ہوں وہاں سے جب بھیجا جاؤں تب ہی آسکتا ہوں ورنہ نہیں اسی وقت یہ وحی نازل ہوئی۔ لیکن یہ روایت غریب ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے آنے میں دیر لگائی پھر جب آئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رک جانے کی وجہ دریافت کی آپ نے جواب دیا کہ جب لوگ ناخن نہ کتروائیں، انگلیاں اور پوریاں صاف نہ رکھیں، مونچھیں پست نہ کرائیں، مسواک نہ کریں تو ہم کیسے آسکتے ہیں ؟ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام سلمہ (رض) سے فرمایا مجلس درست اور ٹھیک ٹھاک کرلو آج وہ فرشتہ آرہا ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نہیں آیا۔ ہمارے آگے پیچھے کی تمام چیزیں اسی اللہ کی ہیں یعنی دنیا اور آخرت اور اس کے درمیان کی یعنی دونوں نفخوں کے درمیان کی چیزیں بھی اسی کی تملیک کی ہیں۔ آنے والے امور آخرت اور گزر چکے ہوئے امور دنیا اور دنیا آخرت کے درمیان کے امور سب اسی کے قبضے میں ہیں۔ تیرا رب بھولنے والا نہیں اس نے آپ کو اپنی یاد سے فرماموش نہیں کیا۔ نہ اس کی یہ صفت۔ جیسے فرمان ( وَالضُّحٰى ۙ ) 93 ۔ الضحی :1) قسم ہے چاشت کے وقت کی اور رات کی جب وہ ڈھانپ لے نہ تو تیرا رب تجھ سے دستبردار ہے نہ ناخوش۔ ابن ابی حاتم میں ہے آپ فرماتے ہیں جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا وہ حلال ہے اور جو حرام کردیا حرام ہے اور جس سے خاموش رہا وہ عافیت ہے تم اللہ کی عافیت کو قبول کرلو، اللہ کسی چیز کا بھولنے والا نہیں پھر آپ نے یہی جملہ تلاوت فرمایا۔ آسمان و زمین اور ساری مخلوق کا خالق مالک مدبر متصرف وہی ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے کسی حکم کو ٹال سکے۔ تو اسی کی عبادتیں کئے چلا جا اور اسی پر جما رہ اس کے مثیل شبیہ ہم نام پلہ کوئی نہیں۔ وہ بابرکت ہے وہ بلندیوں والا ہے اس کے نام میں تمام خوبیاں ہیں جل جلالہ۔