مریم آية ۸۳
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّيٰـطِيْنَ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّا ۙ
طاہر القادری:
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر بھیجا ہے وہ انہیں ہر وقت (اسلام کی مخالفت پر) اکساتے رہتے ہیں،
English Sahih:
Do you not see that We have sent the devils upon the disbelievers, inciting them [to evil] with [constant] incitement?
1 Abul A'ala Maududi
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ ہم نے اِن منکرین حق پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو اِنہیں خُوب خُوب (مخالفتِ حق پر) اکسا رہے ہیں؟
2 Ahmed Raza Khan
کیا تم نے نہ دیکھا کہ ہم نے کافروں پر شیطان بھیجے کہ وہ انہیں خوب اچھالتے ہیں
3 Ahmed Ali
کیا تو نے نہیں دیکھا ہم نے شیطانو ں کوکافروں پر چھوڑ رکھا ہے وہ انھیں ابھارتے رہتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم کافروں کے پاس شیطانوں کو بھیجتے ہیں جو انہیں خوب اکساتے ہیں (١)
٨٣۔١ یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کر لے جاتے ہیں
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ ان کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ ہم کافروں کے پاس شیطانوں کو بھیجتے ہیں جو انہیں خوب اکساتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے (رسول(ص)) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے جو انہیں برابر اکساتے رہتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیاطین کو کافروں پر مسلّط کردیا ہے اور وہ ان کو بہکاتے رہتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو برانگیختہ کرتے رہتے ہیں ؟
آیت نمبر 83 تا 98
ترجمہ : کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر مسلط کر رکھا ہے جو انہیں معصیت پر خوب اکساتے ابھارتے رہتے ہیں تو آپ ان پر عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کیجئے ہم تو خود ہی ان کے لیل و نہار یا سانس عذاب کے وقت تک (موت تک) شمار کر رہے ہیں، اس دن کا بھی تذکرہ کیجئے جس دن ہم متقیوں کو ان کے ایمان کی بدولت (بطور) مہمان سوار کر کے جمع کریں گے وفدٌ وافد کی جمع ہے معنی میں راکبٌ کے ہے اور مجرمین کو ان کے کفر کے سبب سے سخت پیاس کی حالت میں دوزخ کی طرف ہانکیں گے ورْدٌ واردٌ کی جمع ہے پیاسے پیدل کسی شخص کو شفاعت کا اختیار نہ ہوگا بجز اس شخص کے جس نے رحمٰن کے پاس سے اجازت لی ہو (اور اجازت سے مراد) شھادۃ ان لا الٰہ الاَّ اللہ ولا حول ولا قوۃ الاَّ باللہ کا اقرار ہے اور یہودو نصاریٰ نے اور ان لوگوں نے کہ جن کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں کہا کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم نے یقیناً بڑی بھاری یعنی بڑی ناپسندیدہ بات کہی ہے تکاد تا اور یا کے ساتھ ہے، قریب ہے کہ اس بات کی (نحوست) کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین ٹکڑے ہوجائے پھٹ کر اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گرجائیں یعنی ان کے اوپر گرجائیں اس وجہ سے کہ انہوں نے رحمٰن کے لئے اولاد قرار دی ہے یَنْفَطِرنَ نون کے ساتھ ہے اور ایک قرأت میں یَتَفَطَّرْنَ تا اور یا اور طا مشددہ کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے یعنی یہ اس کی شایان شان نہیں زمین و آسمانوں میں جو کچھ بھی ہے سب کے سب اللہ کے سامنے بندے بن کر حاضر ہونے والے ہیں یعنی ذلیل خوار ہو کر قیامت کے دن اور انہیں میں سے عزیر (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں ان سب کا اس نے احاطہ کر رکھا ہے اور سب کو پوری طرح شمار کر رکھا ہے لہٰذا نہ تو اس سے ان کی مجموعی تعداد مخفی ہے اور نہ ان کا کوئی فرد اور یہ سب کے سب اس کے پاس قیامت کے دن تن تنہا حاضر ہوں کے مال اور مددگار کے بغیر جو اس کی حفاظت کرسکے بیشک جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان (باہمی) محبت پیدا کر دے گا وہ آپس میں مؤدت اور محبت رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت رکھیں گے ہم نے اس قرآن کو آپ کی عربی زبان میں آسان کردیا ہے تاکہ آپ اس کے ذریعہ ایمان کی بدولت جہنم سے ڈرنے والوں کو خوشخبری سنائیں ایک نسخہ لِتُبشر بہٖ المتقین الجنۃ الفائزین بالایمان ” تاکہ آپ اس قرآن کی بدولت ایمان کے ذریعہ کامیاب ہونے والوں کو جنت کی خوشخبری سنائیں اور جھگڑنے والی قوم کو اس کے ذریعہ ڈرائیں لُدًّا اَلَدُّ کی جمع ہے یعنی باطل کے ذریعہ بہت زیادہ خصومت کرنے والے کو، اور وہ کفار مکہ ہیں اور ہم نے اس سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کردیا ہے یعنی گذشتہ امتوں میں سے (بہت سی امتوں کو) رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے کیا ان میں سے آپ ایک کی بھی آہٹ پاتے ہیں یا ان کی آواز کی بھنک بھی آپ کے کان میں پڑتی ہے یعنی خفی آواز، نہیں، تو ہم نے جس طرح ان کو ہلاک کردیا ان کو بھی ہلاک کردیں گے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
تَؤُزُّ مضارع واحد مونث غائب (ن) اَزًّا ابھارنا اَزًّا تَؤُزُّ کا مفعول مطلق ہے اَلاَزْ فی الاصل الحرکۃ مع صوت متصل ماخوذ من آزیز القدر ای غلیانیہ والمراد تعجیب الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من اقاویل الکفرۃ (روح البیان) ۔ قولہ : اَو الأنفاس یہ نَعُدُّلَھُمْ کی دوسری تفسیر ہے اِنَّمَا نَعُدُّ لَھُمَ فلا تعجل کی علت ہے عَدًّا نَعُدُّ کا مفعول مطلق ہے یوم نَحْشُرُ اذکر فعل محذوف کا ظرف ہے یَومَ نَحْشُرُ کا عامل لا یَمْلِکُوْنَ ہے اور نَعُدُّ بھی ہوسکتا ہے ورْدًا وارد کی اسم جمع ہے، پیاسا، گھاٹ پر آنے والا لا یَمْلِکُوْنَ المجرمِیْنَ سے جملہ ہو کر حال ہے اِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ لا یَمْلِکُوْنَ کی ضمیر سے مستثنیٰ متصل ہے یَتَفَطَّرْنَ تَفَطَّرَ سے مضارع جمع مونث غائب، وہ پھٹ پڑیں ھذا تخِرُّ کا مفعول مطلقاً بغیر لفظہٖ ہے تَخِرُّ بمعنی تَھدّ ہے ای تَھُدُّ ھذا اور ھذا الجبالُ سے حال بھی ہوسکتا ہے مفسر علام نے من اجل مقدر مان کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ اَنْ دَعَوْ لِلرحمٰنِ وَلَدًا تَنْشَقُّ اور تَخِرُّ کا مفعول لہٗ ہے اور محل میں نصب کے ہے اَن سے پہلے لام محذوف مان کر جملہ محلاً مجرور بھی ہوسکتا ہے محلاً مرفوع بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اَنْ مصدریہ ہوگا، اور تقدیر عبارت یہ ہوگی الموجبُ لِذٰلک دعاءھم للرحمٰن ولَدًا اِن کل مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ والاَرْضِ میں مَنْ نکرہ موصوفہ ہے فی السموٰت اس کی صفت ہے، موصوف باصفت کل سے ملکر مبتداء الا آتیٍ اس کی خبر، آتیٍ کلُّ کے لفظ کی رعایت سے واحد لایا گیا ہے وُدًّا محبت، دوستی (س) لُدًّا اَلَدُّ کی جمع ہے جھگڑا کرنے والے مراد کفار و مشرکین ہیں۔ قولہ : العربی کے اضافہ سے مقصد بتانا ہے کہ یہاں لسان سے مراد لغت عربی ہے نہ کہ زبان (یعنی آلہ) رِکْزًا اسم ہے بھٹک، آہٹ۔
تفسیر و تشریح
الم تر انا ارسلنا الخ کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم کافروں کے پاس گمراہ کرنے اور بہکانے نیز معصیت میں مبتلا کرنے کے لئے شیاطین کو بھیجتے ہیں یہاں تک کہ وہ کافروں کو کفر و ضلال پر خوب ابھارتے ہیں، لہٰذا آپ ان کافروں کے لئے عذاب میں جلدی مبتلا ہونے کی درخواست نہ کریں ہم خود ہی ان کے شب و روز، اقوال و افعال حتی کہ انکے انفاس بھی شمار کر رہے ہیں جب ان کی تعداد پوری ہوجائے گی اور پانی سر سے گذر جائے گا اور پاپ کا گھڑا بھر جائے گا تو عذاب الٰہی اور قہر خداوندی میں مبتلا ہوجائیں گے۔
اذکر یوم نحشر المتقین اس دن کو یاد کرو کہ جس دن متقیوں کو اونٹوں گھوڑوں یا ان کی من پسند سواریوں پر سوار کرا کے مہمانوں کے مانند نہایت عزت و احترام سے جنت کی طرف لیجائیں گے اور اس کے برعکس مجرموں کو بھوکا پیاسا جہنم میں نہایت ذلت کے ساتھ ہانک دیں گے، اور وہاں ان کا کوئی حمایتی اور سفارشی بھی نہ ہوگا اس لئے کہ وہاں کسی کو کسی کی سفارش کرنے کا اختیار نہ ہوگا بجز اس کے کہ جس نے رحمٰن کے پاس سے اجازت لے لی ہو اور اجازت بھی انبیاء اور صلحا کو ملے گی اور یہ حضرات سفارش بھی صرف مومنین کی کریں گے وقالوا اتخذ الرحمٰن ولَدًا یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار کر رکھی ہے یقیناً یہ عقیدہ ایسا خطرناک اور بھیانک ہے کہ بعید نہیں کہ اس قبیح اور مذموم عقیدہ کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑجائیں اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں وما ینبغی للرحمٰن الخ جب اللہ کے غلام اور اس کے عاجز بندے ہیں تو پھر اس کو اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے اور یہ اس کی شایان شان بھی نہیں ہے، اس نے سب کو احاطۂ قدرت میں لے رکھا ہے سب کے سب اس کے قابو اور گرفت میں ہیں اور سب کو اس نے شمار کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اس سے کوئی شئ مخفی نہیں ہے وکلھم آتیہٖ یوم القِیَامَۃ فردًا ہر شخص قیامت کے دن تن تنہا حاضر ہوگا نہ مال ساتھ آئے گا اور نہ حمایتی، جن کے بارے میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے حمایتی اور مددگارہوں گے وہاں سب غائب ہوجائیں گے یَومَ لا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلابنون۔
اِنَّ الَّذِیْں آمَنُوْا وعَمِلوا الصّٰلِحٰت الخ ماقبل کی آیات میں مومنین کی نعمتوں اور کافریں کی نقمتوں کا ذکر تھا، اب آخر میں مومنین صالحین کی ایک بڑی نعمت کا ذکر فرماتے ہیں، اس لئے کہ نعمت کا اصل مقصد راحت قلبی ہے اور محبت سے بھی دل کو سکون اور راحت حاصل ہوتی ہے جو کہ حاصل ہے تمام نعمتوں کا، اللہ تعالیٰ صالحین کی الفت اور محبت اہل دنیا کے دل میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے ڈال دیتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی نیک بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ جبرائیل (علیہ السلام) سے فرماتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر پس جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر جبرائیل (علیہ السلام) آسمانوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں تو تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت رکھ دی جاتی ہے، ” صحیح بخاری کتاب الادب باب المقت من اللہ تعالیٰ “ فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہ الخ قرآن کو آسان کرنے کا مطلب قرآن کو اس زبان میں نازل کرنا ہے جس کو پیغمبر جانتا ہو، نیز اس کے مضامین کا واضح اور کھلا ہوا ہونا، یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن اولاً مشکل تھا پھر اس کو آسان کردیا تاکہ آپ اس کے ذریعہ پرہیزگاروں اور متقیوں کو خوشخبری سنائیں اور جھگڑا لو یعنی کفار اور مشرکین کو عذاب آخرت سے ڈرائیں اوتَسْمَعُ لَہٗ رکزًا مطلب یہ ہے کہ سب حکومت و سلطنت نیز شان و شوکت اور قوت و طاقت والے جب اللہ کے عذاب میں پکڑے گئے تو ایسے ہوگئے کہ ان کی کوئی مخفی آواز اور حس و حرکت بھی سنائی نہیں دیتی۔
تم بحمد اللہ
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) kiya tumhen yeh maloom nahi hai kay hum ney kafiron per shayateen chorr rakhay hain jo enhen barabar uksatey rehtay hain-?