البقرہ آية ۱۰۹
وَدَّ کَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا ۚ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَـقُّ ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَأْتِىَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ۗ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى کُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ
طاہر القادری:
بہت سے اہلِ کتاب کی یہ خواہش ہے تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں، اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بیشک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے،
English Sahih:
Many of the People of the Scripture wish they could turn you back to disbelief after you have believed, out of envy from themselves [even] after the truth has become clear to them. So pardon and overlook until Allah delivers His command. Indeed, Allah is over all things competent.
1 Abul A'ala Maududi
اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے اس کے جواب میں تم عفو و در گزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
بہت کتابیوں نے چاہا کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں اپنے دلوں کی جلن سے بعد اس کے کہ حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے تو تم چھوڑو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے -
3 Ahmed Ali
اکثر اہلِ کتاب تو اپنے حسد سے حق ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے تمہیں ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹا کر لے جائیں سو معاف کرو اور درگزر کرو جب تک کہ الله اپنا حکم بھیجے بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہو جانے کے محض حسد و بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالٰی اپنا حکم لائے۔ یقیناً اللہ تعالٰی ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے کے بعد تم کو پھر کافر بنا دیں۔ حالانکہ ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے۔ تو تم معاف کردو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ خدا اپنا (دوسرا) حکم بھیجے۔ بے شک خدا ہر بات پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسد وبغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰاپنا حکم ﻻئے۔ یقیناً اللہ تعالے ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو!) بہت سے اہل کتاب اپنے ذاتی حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد تمہیں پھر کافر بنا دیں باوجودیکہ ان پر حق واضح ہو چکا ہے سو تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ ان کے بارے میں اپنا حکم بھیجے یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بہت سے اہلِ کتاب یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں بھی ایمان کے بعد کافر بنالیں وہ تم سے حسد رکھتے ہیں ورنہ حق ان پر بالکل واضح ہے تو اب تم انہیں معاف کردو اور ان سے درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی حکم بھیج دے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے
9 Tafsir Jalalayn
بہت سے اہل کتاب اپنے دل کی جلن سے یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لا چکنے کے بعد تم کو پھر کافر بنادیں حالانکہ ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے تو تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے بیشک خدا ہر بات پر قادر ہے
آیت نمبر ١٠٩ تا ١١٢
ترجمہ : اور اہل کتاب میں سے اکثر یہ چاہتے ہیں لَو مصدر یہ ہے کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے کفر کی طرف پھیر دیں، اس حسد کی وجہ سے جو خود ان کی طرف سے ہے، حَسَدًا مفعول لہٗ ہے (یعنی بلاوجہ) حسد پر ان کو ان کے خبیث نفس نے آمادہ کیا ہے، اس کے باوجود کہ تورات میں نبی کی بابت ان پر حق ظاہر ہوچکا ہے (اس کے باوجود) تم فعو و درگزر سے کام لو، اور نظر اندوز کرو اور ان سے بدلہ نہ لو، تاآنکہ ان سے قتال کے بارے میں خود اللہ کا حکم آجائے، بلاشبہ وہ ہر شئی پر قادر ہے، نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے لئے جو بھلائی مثلاً نماز، صدقہ، تم آگے بھیجو گے تو تم اس کو یعنی اس کے اجر کو اللہ کے پاس پاؤ گے، جو کچھ تم کرتے ہو وہ اللہ کی نظر میں ہے وہ اس کا تم کو اجر دے گا، ان کا کہنا ہے کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ کوئی نہ جائے گا، ھُود، ھائد کی جمع ہے، یہ بات مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے نصاریٰ نے اس وقت کہی جب ان دونوں فریقوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مناظرہ کیا، یہود نے کہا : یہود کے سوا جنت میں کوئی نہ جائے گا، اور نصاریٰ نے کہا : نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہ جائے گا، یہ باتیں ان کی تمنائیں ہیں (یعنی باطل خواہشیں ہیں) آپ ان سے کہئے کہ اس بات پر اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اس دعوے میں سچے ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَدَّ ماضی واحد مذکر غائب (س) مصدر، وَدٌّ، مَوَدَّۃٌ چاہنا، آرزو کرنا۔
قولہ : لَوْ مَصْدَریّۃ لَو حرف مصدری ہے جب فعل کے بعد واقع ہوتا ہے تو تمنی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وَدَّ کثیرٌ رَدَّکم الخ رَدَّ چونکہ صیَّرَ کے معنی میں ہے، دو مفعولوں کو نصب دیتا ہے، مفعول اول کُم ہے، اور ثانی کُفَّارًا ہے۔
قولہ : کائنًا مِن عِنْدِ اَنفُسِھِم مفسر علام نے کائنًا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِم کائنًا محذوف کے متعلق ہو کر حَسَدًا کی صفت ہے۔
قولہ : مِنْ بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ ، مِن بعدِ ، وَدَّ کے متعلق ہے، اور مَا مصدریہ ہے ای بَعْدَ تَبْیِیْنِ الحقِّ لَھُمْ ۔
قولہ : ھُوْدٌ جمع ھَائِدٍ ، ھَائد بمعنی تائب ابتداءً اس شخص کو ھائد کہتے تھے جس نے گوسالہ پرستی سے توبہ کرلی تھی، بعد میں پوری قوم کے لئے علم کے طور پر استعمال ہونے لگا، اس میں ایک اعتراض کے جواب کی طرف بھی شارہ ہے۔
اعتراض : مَن کان ھودًا۔ کَانَ کے اندر ضمیر مفرد کان کا اسم اور ھُوْدًا کان کی خبر ہے، جو کہ جمع ہے حالانکہ اسم و خبر میں مطابقت ضروری ہے۔
جواب : کان کے اسم کے مفرد لانے میں لفظ مَن کی رعایت کی گئی ہے، اور ھوداً کے جمع لانے میں مَن کے معنی کی رعایت کی گئی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : عمار بن یاسر (رض) اور حذیفۃ بن الیمان (رض) غزوہ احد سے جب لوٹ رہے تھے تو یہود کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی، یہود نے کہا : کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ یہودی مذہب حق ہے ؟ اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب باطل ہے اگر محمد کا دین حق ہوتا تو ان کے اصحاب قتل نہ کئے جاتے، حالانکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ ہے کہ جب وہ قتال کرتے ہیں تو اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے، تو عمار بن یاسر (رض) نے جواب دیا کہ عہد شکنی کا تمہارے یہاں کیا حکم ہے، یہود نے جواب دیا : نہایت بری ہے، تو حضرت عمار (رض) نے فرمایا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی اتباع پر تاموت عہد کرچکا ہوں، یہود نے کہا : عمار بےدین ہوگیا، اور حضرت حذیفہ نے جواب دیا : رضیتُ باللہِ ربًّا، وبِالاِسلامِ دِینًا، والکعبۃ قبلۃً ، والقرآن امَامًا، والمؤمنینَ اِخوانًا چناچہ یہ حضرات واپس پہنچے اور اس واقعہ کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اَصبتُما الخیرَ واَفْلَحْتُمَا (تم خیر کو پہنچے اور کامیاب ہوئے) اس کے بعد وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ نازل ہوئی۔ (صاوی)
اے مسلمانو ! تم کو واپس کفر کی طرف لیجانے کی یہود کی خواہش اور تمنا کسی خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبہ کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں سے عناد اور حسد کی وجہ سے ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ان پر اسلام کا حق ہونا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انبی برحق ہونا واضح ہوگیا ہے، اس کے باوجود ایمان نہیں لائے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ صبر اور عفو و درگذر سے کام لیتے رہیں، ان کے حسد وعناد کو دیکھ کر مشتعل نہ ہوں، ان سے بحث و مباحثہ کرنے میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں، اور صبر کے ساتھ دیکھتے رہیں کہ اللہ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
عموماً مفسرین نے شان نزول کے مخصوص واقعہ کی وجہ سے یہاں اہل کتاب سے یہود یا احبار یہود مراد لئے ہیں، لیکن وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ کی قرآنی الفاظ عام ہیں، اس عموم میں یہود و نصاریٰ دونوں داخل ہیں، مسیحیوں کی طرف ہے جو کھلا ہوا زبردست اور منظم اور علماء یہود کی طرف سے نسبۃً ہلکا اور مخفی پروپیگنڈہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف، سیاسی، معاشرتی، تاریخی غرضیکہ ہر قسم کا جاری رہتا ہے، وہ سب اسی حقیقت کے مظاہر ہیں، ان تمام سرگرمیوں اور کوششوں کا مقصود یہی ہوتا ہے کہ مسلمان اگر مسیحیت اور یہودیت کو قبول نہ بھی کریں تو کم از کم اپنے دین سے ضرور برگشتہ اور بدگمان ہوجائیں۔
تِلْکَ اَمٰنِیُّھُمْ (الآیۃ) یعنی دراصل ان کی یہ باتیں ہیں تو محض ان کے دلوں کی خواہشیں اور آرزوئیں مگر وہ انہیں بیان اس طرح کر رہے ہیں کہ گویا فی الواقع اسی طرح ہونے والا ہے۔
اللہ کے یہاں قوم و نسل کی قیمت نہیں ایمان اور عمل صالح کی قیمت ہے :
کوئی بھی شخص محض قومیت کے زعم میں خود کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھ لے تو یہ صرف اس کی خود فریبی ہے، جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی قوم، نسل یا علاقہ اور وطن کی بنیاد پر مقبول و مقرب نہیں بن سکتی جب تک اس میں ایمان و عمل صالح کی روح موجود نہ ہو۔
پھر اصول ایمان تو ہر رسول کے زمانہ میں مشترک اور یکساں رہے ہیں، البتہ عمل صالح کی شکلیں ادلتی بدلتی رہتی ہیں، تورات کے زمانہ میں عمل صالح وہ سمجھا گیا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کی تعلیم کے مطابق تھا، انجیل کے دور میں یقیناً عمل صالح وہی عمل تھا جو حضرت عیسیٰ اور انجیل کی تعلیم سے مطابقت رکھتا تھا، اور قرآن کے زمانہ میں وہی عمل صالح کہے جانے کا مستحق ہے جو نبی آخر الزمان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان اور اللہ کی کتاب قرآن کی ہدایت کے مطابق ہوگا۔
مطلب یہ کہ یہودو نصاریٰ کے اس اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دونوں قومیں جہالت کی باتیں کر رہی ہیں، دونوں میں سے کوئی بھی جنت کا ٹھیکیدار نہیں اور نہ ہی دونوں کے مذہب بےبنیاد اور بےاصل ہیں، بلکہ دونوں مذہبوں کی صحیح بنیاد موجود ہے۔
غلط فہمی کا سبب : غلط فہمی کا اصلی سبب یہ ہے کہ انھوں نے مذہب و ملت کی اصل روح یعنی عقائد و اعمال و نظریات کو چھوڑ کر نسلی یا وطنی بنیاد پر کسی قوم کو یہود ٹھہرایا اور کسی کو نصرانی سمجھا، جو یہود کی نسل سے تعلق رکھتا ہو یا یہود کے شہر میں بستا ہو یا مردم شماری میں خود کو یہود شمار کراتا ہو اس کو یہود سمجھ لیا گیا، اسی طرح نصرانیوں کی تشخیص و تعیین کی گئی، حالانکہ اصول ایمان کو توڑ کر اور اعمال صالحہ سے منہ موڑ کر نہ کوئی یہودی، یہودی رہتا ہے اور نہ نصرانی، نصرانی
قرآن کریم میں اس اختلاف اور اس فیصلہ کا ذکر مسلمانوں کو سنانے اور متنبہ کرنے کے لئے ہے کہ کہیں وہ بھی اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ ہم تو پشتی مسلمان ہیں ہر دفتر اور رجسٹر میں ہمارا نام مسلمان کے خانہ میں درج ہے اور زبان سے بھی خود کو مسلمان کہتے ہیں، اس لئے جنت کے نیز ان تمام انعامی وعدوں کے وہی مستحق ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ مسلمانوں سے کئے گئے۔
اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ کوئی شخص نہ محض دعوے سے حقیقی مسلمان بنتا ہے نہ مسلمان نام درج کرانے سے یا مسلمان کی صلب یا ان کے کسی شہر میں پیدا ہونے سے بلکہ مسلمان ہونے کے لئے اول اسلام ضروری ہے، اور اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو سپرد کردینا دوسرے احسان، یعنی عمل سنت کے مطابق کرنا۔
لیکن قرآن کی اس تنبیہ کے باوجود بہت سے مسلمان اسی یہودی اور نصرانی غلطی کا شکار ہوگئے کہ خدا و رسول اور آخرت و قیامت سے بالکل غافل رہ کر اپنا نسلی مسلمان ہونا مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھنے لگے اور قرآن و حدیث میں فلاح دین و آخرت کے جو وعدے مسلمانوں سے کئے گئے ہیں خود کو ان کا مستحق سمجھ کر ان کے پورے ہونے کا انتظار کرنے لگے، اور جب وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے تو قرآن و حدیث کے وعدوں میں شک کرنے لگے، اس کو نہیں دیکھتے کہ قرآن نے محض نسلی مسلمانوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا، جب تک وہ اپنے تمام ارادوں کو اللہ اور اس کے رسول کے تابع نہ کردیں، یہی خلاصہ ہے آیت مذکورہ بَلیٰ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ للہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ کا۔
آج کل پوری دنیا کے مسلمان مصائب کا شکار کیوں ؟
آج کل پوری دنیا کے مسلمان طرح طرح کے مصائب و مشکلات کا شکار ہیں، اس کو دیکھ کر بہت سے ناواقف لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ان آفات و مصائب کا سبب اسلام ہے، لیکن مذکورہ تحریر سے واضح ہوگیا کہ ان کا اصل سبب ہمارا اسلام نہیں بلکہ ترک اسلام ہے کہ ہم نے اسلام کا صرف نام باقی رکھا ہے، نہ اسلام کے عقائد ہمارے اندر نہ اخلاق نہ اعمال، پھر ہمیں کیا حق ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے وعدوں اور انعاموں کا ہم انتظار کریں۔
ایک شبہ اور اس کا جواب : یہاں ایک (شبہ) سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کچھ بھی سہی کم از کم نام تو اسلام کا لیتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کے نام لیوا تو ہیں اور جو کفار کھلے طور پر اللہ و رسول کی مخالفت کرتے ہیں، اسلام کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے وہ تو آج دنیا میں ہر طرح کی ترقی کر رہے ہیں، بڑی بڑی حکومتوں کے مالک ہیں، دنیا کی صنعتوں اور تجارتوں کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ؛ لیکن اگر ذرا غور سے کام لیا جائے، تو یہ شبہ خودبخود ختم ہوجائے گا۔
اول تو اس لئے کہ دوست اور دشمن کے ساتھ معاملہ یکساں نہیں ہوا کرتا، دوست کو قدم قدم پر اور بات بات پر ٹوکا جاتا ہے، اور اولاد اور شاگرد کو ذرا ذرا سی بات پر تنبیہ کی جاتی ہے ؛ لیکن دشمن کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا، اس کو ڈھیل دی جاتی ہے اور وقت آنے پر دفعۃً پکڑ لیا جاتا ہے۔
مسلمان جب تک ایمان و اسلام کا نام لیتا ہے اور اللہ کی عظمت و محبت کا دم بھرتا ہے وہ دوستوں کی فہرست میں داخل ہے، اس کے برے اعمال کی سزا عموماً دنیا ہی میں دیدی جاتی ہے تاکہ آخرت کا بار ہلکا ہوجائے، بخلاف کافر کے کہ اس پر باغیوں کا قانون جاری ہے، دنیا کی ہلکی ہلکی سزاؤں سے اس کا بار عذاب ہلکا نہیں کیا جاتا، ان کو یک لخت عذاب میں پکڑا جائے گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشادِ گرامی کا یہی مطب ہے ” کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے “۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں کے حسد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ﴿ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ښ﴾ ” کاش تمہیں تمہارے ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں۔“ اس کے لیے انہوں نے پوری کوشش اور فریب کاری کے جال بچھائے، مگر ان کے مکر و فریب پلٹ کر انہی پر پڑگئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾(آل عمران : 3؍ 72) ” اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے وہ کتاب جو اہل ایمان پر نازل کی گئی ہے اس پر دن کے پہلے حصے میں ایمان لاؤ اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ اسلام سے باز آجائیں۔“ یہ ان کا حسد تھا جو ان کے اندر سے پھوٹ رہا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہود کی برائی اور بدخلقی کے مقابلے میں عفو اور درگزر سے کام لینے کا حکم دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے۔
پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کا حکم دے دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شفا بخشی، چنانچہ اہل ایمان نے ان یہودیوں میں سے جو قتل کے مستحق تھے ان کو قتل کیا، جو قیدی بنائے جا سکے ان کو قیدی بنا لیا اور کچھ کو ملک بدر کردیا۔ ﴿’ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
. ( musalmano ) boht say ehal-e-kitab apney dilon kay hasad ki bana per yeh chahtay hain kay tumharay emaan laney kay baad tumhen palta ker phir kafir bana den , bawajood-yeh-kay haq unn per wazeh hochuka hai . chunacheh tum moaaf kero aur darguzar say kaam lo yahan tak kay Allah khud apna faisla bhej dey . beyshak Allah her cheez per qadir hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
قومی عصبیت باعث شقاوت ہے
ابن عباس سے مروی ہے کہ حی بن اخطب اور ابو یاسر بن اخطب یہ دونوں یہودی سب سے زیادہ مسلمانوں کے حاسد تھے لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے اور عربوں سے جلتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کعب بن اشرف کا بھی یہی شغل تھا زہری کہتے ہیں اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے یہ بھی یہودی تھا اور اپنے شعروں میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو کیا کرتا تھا گو ان کی کتاب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق موجود تھی اور یہ بخوبی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفتیں جانتے تھے اور آپ کو اچھی طرح پہچانتے تھے پھر یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ قرآن ان کی کتاب کی تصدیق کر رہا ہے ایک امی اور ان پڑھ وہ کتاب پڑھتا ہے جو سراسر معجزہ ہے لیکن صرف حسد کی بنا پر کہ یہ عرب میں آپ کیوں مبعوث ہوئے کفر و افکار پر آمداہ ہوگئے بلکہ اور لوگوں کو بھی بہکانا شروع کردیا پس اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ تم درگزر کرتے رہو اور اللہ کے حکم کا اور اس کے فیصلے کا انتظار کرو۔ جیسے اور جگہ فرمایا تمہیں مشرکوں اور اہل کتاب سے بہت کڑوی باتیں سننی پڑیں گی مگر بعد میں حکم نازل فرما دیا کہ ان مشرکین سے اب دب کر نہ رہو ان سے لڑائی کرنے کی تمہیں اجازت ہے حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضور اور آپ کے اصحاب مشرکین اور اہل کتاب سے درگزر کرتے تھے اور ان کی ایذاء اور تکلیف سہتے تھی اور اس آیت پر عمل پیرا تھے یہاں تک کہ دوسری آیتیں اتریں اور یہ حکم ہٹ گیا اب ان سے بدلہ لینے اور اپنا بچاؤ کرنے کا حکم ملا اور پہلی ہی لڑائی جو بدر کے میدان میں ہوئی اس میں کفار کو شکست فاش ہوئی اور ان کے بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں میدان میں بچھ گئیں پھر مومنوں کو رغبت دلائی جاتی ہے کہ تم نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کی حفاظت کرو یہ تمہیں آخرت کے عذابوں سے بچانے کے علاوہ دنیا میں بھی غلبہ اور نصرت دے گی پھر فرمایا کہ اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہر نیک و بدعمل کا بدلہ دونوں جہاں میں دے گا اس سے کوئی چھوٹا، بڑا، چھپا، کھلا، اچھا، برا، عمل پوشیدہ نہیں یہ اس لئے فرمایا کہ لوگ اطاعت کی طرف توجہ دیں اور نافرمانی سے بچیں مبصر کے بدلے بصیر کہا جیسے مبدع کے بدلے بدیع اور مولم کے بدلے الیم۔ ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت میں سمیع بصیر پڑھتے تھے اور فرماتے تھے اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا ہے۔