البقرہ آية ۱۲۷
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُۗ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۗ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
طاہر القادری:
اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) کہ اے ہمارے رب! تو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے، بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
And [mention] when Abraham was raising the foundations of the House and [with him] Ishmael, [saying], "Our Lord, accept [this] from us. Indeed, You are the Hearing, the Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
اور یاد کرو ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو دعا کرتے جاتے تھے: "اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے، تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور جب اٹھاتا تھا ابراہیم ؑ اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیل ؑ یہ کہتے ہوئے اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بیشک تو ہی ہے سنتا جانتا،
3 Ahmed Ali
اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اے ہمارے رب ہم سے قبول کر بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ ہمارے پروردگار تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
ابراہیم ﴿علیہ السلام﴾ اور اسماعیل ﴿علیہ السلام﴾ کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے واﻻ اور جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل اس گھر (خانہ کعبہ) کی بنیادیں بلند کر رہے تھے۔ (اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا کرتے جاتے تھے) اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ عمل) قبول فرما۔ بے شک تو بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم علیھ السّلامو اسماعیل علیھ السّلامخانہ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے اوردل میں یہ دعا تھی کہ پروردگار ہماری محنت کو قبول فرمالے کہ تو بہترین سننے والا اورجاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کیے جاتے تھے کہ) اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔
آیت نمبر ١٢٧ تا ١٢٩
ترجمہ : اور یاد کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) اس گھر کی بنادیں یا دیواریں اٹھا رہے تھے یعنی اس کی تعمیر کر رہے تھے مِنَ البَیْت، یَرْفَعُ کے متعلق ہے، اور اِسْمَاعِیْلُ کا عطف اِبْرَاھِیْمُ پر ہے، دونوں دعاء کرتے جاتے تھے، اے ہمارے پروردگار ! تو ہماری طرف سے اس تعمیر کو قبول فرما تو باتوں کا سننے والا اور کاموں کا جاننے والا ہے، اے ہمارے پروردگار ! تو ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی امت اٹھا کہ جو تیری فرمانبردار ہو، اور مِنْ تبعیضیہ ہے، اور سابق میں لَا یَناَلُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ آجانے کی وجہ سے مِنْ تبعیضیہ لائے ہیں، اور تو ہم کو ہماری عبادت کے طریقے سکھا، یعنی ہماری عبادت کے احکام، یا ہمیں ہمارے حج کا طریقہ سکھا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، بیشک تو بڑا معاف کرنے والا ہے، دونوں کے معصوم ہونے کے باوجود توبہ کا سوال کرنا تو اضعًا اور اپنی ذریت کی تعلیم کے لئے تھا، اے ہمارے پروردگار ! ان میں یعنی اہل بیت میں ایک ایسا رسول مبعوث فرما، چناچہ اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شکل میں ان کی دعا قبول فرمالی، جو انہیں تیری آیات قرآنی سکھائے اور انہیں کتاب قرآن و حکمت جس میں احکام ہوں سکھائے اور انہیں شرک سے پاک کرے یقیناً تو غلبہ والا حکمت والا ہے، اپنی صنعت میں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : عطف علی ابراھیم یہ عبارت اس شبہ کا دفعیہ ہے کہ واسمٰعِیل جملہ مستانفہ ہے، اس لئے کہ اگر اسماعیل کا ابراہیم پر عطف ہوتا تو اسمٰعیلُ کو اَلقَوَاعِدَ مفعول سے مقدم کرتے۔
جواب : اسماعیل کو اس لئے مؤخر کیا ہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حقیقت میں بانی نہیں ہیں بلکہ معاون ہیں، بانی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، لیکن چونکہ تعمیر اور بناء میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی حصہ تھا اس لئے اصل بانی پر معاون کا عطف کردیا۔
قولہ : یَقُولَان، یقولان کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا، اِبْرَاھیمَ واسمٰعِیلَ سے حال واقع ہے، حالانکہ حال واقع ہونا درست نہیں ہے، اس لئے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنّا دع اہونے کی وجہ سے جملہ انشائیہ ہے، اور جملہ انشائیہ حال واقع نہیں ہوسکتا۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ اس سے پہلے یقولون محذوف ہے جس کی وجہ سے یہ جملہ خبر یہ ہوگیا، لہٰذا حال واقع ہونا صحیح ہوگیا، یَقُولان مقدر ماننے کی دوسرے وجہ یہ ہے کہ اگر یَقُولَان مقدر نہ مانیں تو خطاب واحد میں شئ واحد کا بغیر عطف کے غائب و متکلم ہونا لازم آتا ہے، اس لئے کہ تَرْفَعُ ابراہیمُ القواعدَ الخ غائب ہے، اور رَبَّنَا تَقَبَّلْ الخ متکلم ہے، اور جب یَقُولان مقدر مان لیا تو دونوں جملے غائب ہوگئے۔
قولہ : ومِنْ للتبعِیضِ ، وَمِنْ ڈُرِّیَّتِنَا میں مِنْ کو تبعیضیہ قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ اوپر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ اس کا مطلب یہ ہے کہ وعدہ امامت پوری ذریت سے نہیں بلکہ صرف ان سے ہے جو مومن اور صالح ہوں گے، اگر مِنْ کو تبعیضیہ نہ مانا جائے تو لاینالُ عَھْدِی الظّٰلِمینَ اور وَمِن ذرِیتنَا میں تعارض ہوگا، اس لئے کہ مِنْ ذرّیتِنَا کا مطلب ہے بغیر استثناء پوری ذریت کے لئے امامت کی دعاء فرمائی۔
سوال : مِنْ ذُرِّیتنا میں من تبعیضیہ لینے کی صورت میں دعاء میں بخل لازم آتا ہے، یعنی سب کے لئے دعا نہیں کی بلکہ بعض کے لئے دعا کی۔
جواب : مِنْ کو ابتدائیہ لینا چونکہ ما قبل میں مذکور لَایَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِینَ کے معارض و منافی ہے، اس لئے مِن کا تبعیضیہ لیا ہے۔
سوال : رَرِنَا یہ رَأیٰ سے ماخوذ ہے، جو متعدی بدو مفعول ہے اور جب باب افعال سے لایا گیا تو متعدی بسہ مفعول ہوگیا حالانکہ یہاں صرف دو مفعول ہی مذکور ہیں، ایک نا اور دوسرا مَنَاسِکَ ۔
جواب : اَرَی بمعنی علم وَاَبْصَرَ ہے، جو متعدی بیک مفعول ہے، باب افعال میں آنے کی وجہ سے متعدی بدو مفعول ہوگیا۔
قولہ : سَألاہ التوبۃَ الخ یہ بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا توبہ قبول کرنے کی درخواست کرنا یہ ان کی معصومیت کے خلاف ہے، حالانکہ نبی معصول ہوتا ہے۔
جواب : تواضعاً اور تعلیماً لِلامَّۃِ توبہ کی درخواست کی۔
قولہ : اھلُ البیت اس جملہ کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ ہے کہ وابْعَثْ فِیھم میں ھم ضمیر ذریۃً کی طرف راجع ہے، حالانکہ ذریۃً مؤنث ہے، لہٰذا فِیھَا ہونا چاہئے
جواب : ذریۃً سے مراد اھل البیت ہیں جو کہ ذریۃً ے مفہوم ہیں، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
تفسیر و تشریح
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھِیْمُ الْقَوَاعِدَ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) جب بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے، اے ہمارے پروردگار ! تو ہماری یہ تعمیری خدمت قبول فرما، تو سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے، اور اے ہمارے پروردگار ! تو ہم دونوں کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم (جماعت) اٹھا جو تیری فرمانبردار ہو، اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، اور خود اسی قوم میں سے ایسا رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے تو بڑا قادر و حکمت والا ہے۔
حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کی یہ آخری دعا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی، اور حضرت اسماعیل کی اولاد سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا، اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔ (فتح الربابی)
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت سے مراد یہ قول ہے مُبِشِّرْا بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗ احْمَدُ اور والدہ کے خواب سے وہ خواب مراد ہے جو آپ کی والدہ ماجدہ نے حالت حمل میں دیکھا تھا کہ میرے بطن سے ایک نور نکلا جس نے ملک شام کے محلات کو جگمگا دیا۔
البیت العتیق : عبادت خانوں میں قدیم ترین بلکہ سب سے قدیم کعبۃ اللہ ہے، اس کا دوسرا نام البیت العتیق بھی ہے، جب اَلبَیْت مطلق بولا جاتا ہے تو خانہ کعبہ ہی مراد ہوتا ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، جس طرح الکتاب سے قرآن اور النبی سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہوتے ہیں۔
قابل غور بات : یہاں یَرْفَعُ کا لفظ استعمال کیا گیا یُؤَسِّسُ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا، اس کا مطلب ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی نبی اد نہیں رکھی بلکہ سابقہ رکھی ہوئی بنیاد کو اٹھایا، بنیاد تو غالباً حضرت آدم (علیہ السلام) ہی نے اپنے زمانہ میں رکھی تھی، مسیحیوں کو قدامت کعبہ سے جو ضد اور کد ہے وہ ظاہر ہے، خانہ کر بہ کی قدامت کے خلاف زبان و قلم سے ہر امکانی کوشش کرچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے۔
بعض حق گو محققین کی شہادت : ضد اور تعصب کی تاریکیوں میں بعض اوقات راست گوئی اور حق پسندی کی روشنی نمودار ہو کر ضد اور تعصب کی ظلمت کے دامن کو تار تار کرکے مینارہ نور کھڑا کردیتی ہے، مخالفوں اور دشمنوں کی شہادت زیادہ وزنی ہوا کرتی ہے، سنئے ! جارج سیل (SALE) مترجم قرآن اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں لکھتا ہے :
” مکہ جسے بکّہ بھی کہا جاتا ہے اور یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں اور ان کے معنی مقام اجتماع عظیم کے ہیں، یقیناً دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ہے، اور بعض کی رائے میں توریت کے (شہر) میسا سے یہی مراد ہے “۔
پھر وہی آگے لکھتا ہے :” مکہ کا معبد اہل عرب کے درمیان مقدس اور ایک عبادت گاہ کی حیثیت سے بہت ہی قدیم زمانہ سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت سی صدیوں قبل سے چلا آتا ہے “۔
باسورتھ استمھ اپنے لکچرزان محمد اینڈ محمڈن ازم میں لکھتا ہے :
” بناء کعبہ کا سلسلہ حسب روایات اسماعیل اور ابراہیم تک پہنچتا ہے بلکہ شیث و آدم (علیہما السلام) تک، اور اس کا نام بیت ایل خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ اسے ابتدائی شکل میں کسی ایسے ہی بزرگ نے تمیر کیا ہے۔ (ماجدی)
سب سے بڑھ کر قابل لحاظ شہادت سرولیم میور کے قلم سے ہے :
” مکہ کے مذہب کی تاریخ بہت ہی قدیم ماننی پڑتی ہے، روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ ایک نامعلوم زمانہ سے عرب کا مرکز چلا آتا ہے، جس مقام کا تقدس اتنے وسیع رقبہ میں مسلم ہو اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کی بنیاد قدیم ترین زمانہ سے چلی آتی ہے۔ (ماجدی)
رَسُوْلًا مِّنْھُمْ دعاء ابراہیم و اسماعیل ابھی چل رہی ہے، جس میں عرض کیا جا رہا کہ اے پروردگار ! تو ہم دونوں کی نسل سے ایک امت مسلمہ پیدا فرما، اس کے معاً بعد مِنْھُمْ کا لفظ لاتے ہیں، اس سے کھلا اشارہ نسل اسماعیلی کی طرف ہے۔ رَسُولًا ایک تو صیغہ واحد کا، دوسرے تنوین، گویا کہ یہ اشارہ قریب بصراحت پہنچ گیا کہ وہ رسول ایک ہی ہوگا، متعدد نہ ہوں گے، چناچہ حضرت اسماعیل کی نسل میں ایک ہی گوہر یتیم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شکل میں مبعوث ہوا۔
یہود کا دعویٰ ہے اور نصاریٰ بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں، کہ نبوت و رسالت تو بنی اسرائیل کے ساتھ خصوص تھی یہ نیا پیغمبر بنی اسماعیل میں کیسے پیدا ہوگیا ؟ لیکن ان ہی کی تورات باوجود ان کی تمام تحریفات کے اب تک شہادت ان کے دعوے کے خلاف دے رہی ہے، ایک جگہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی بات کی طرف کان دھرو۔ (استثناء : ١٨: ١٥)
قطع نظر اس سے کہ بنی اسرائیل میں ایک نہیں نہ معلوم کتنے انبیاء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد پیدا ہوتے رہے، جب کہ دعاء ایک نبی برپا کرنے کی فرمائی، اس کے علاوہ خود ” تیرے ہی بھائیوں میں “ سے اس کی تصریح بتارہی ہے کہ مراد نبی اسرائیل نہیں بلکہ ان کے ہم جد بھائی بنی اسماعیل ہیں، اگر اسرائیلی نبی کی خبر دینی مقصود ہوتی تو بجائے تیرے بھائیوں میں سے کے، عبارت ” تجھ ہی میں سے “ ہوتی، اب رہے تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں وغیرہ کے الفاظ تو یہ محض جذبہ انس اور موانست پیدا کرنے کے لئے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اے میرے ہم قومو ! جب وہ نبی آئے تو اس کی اطاعت کرنا وہ بھی تمہارا غیر نہیں، تمہارے ہی بھائیوں میں سے ہوگا۔
اس کے دو ہی آیت بعد تو رات میں بعینہٖ یہی مضمون براہ راست حق تعالیٰ کی جانب سے ادا کیا گیا ہے، خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا سو اچھا کہا، میں ان کے لئے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا، اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔ (استثناء : ١٨، ١٨)
آپ ذرا غور کیجئے کہ اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، یعنی لفظی کلام الہٰی ہونے کا مصداق بجز قرآن کے تمام آسمانی کتابوں میں اور کون ہے ؟ دوسری کسی آسمانی کتاب کا کلام لفظی ہونے کا کوئی مطلب ہی نہیں اور نہ کوئی قائل، اس کے بعد لفظ ” تجھ سا “ پر غور کیجئے یعنی موسیٰ کے مانند ہونے کا مصداق تاریخ کی دنیا میں بجز ذات محمدی کے اور کون ہے ؟
یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ رسول کا پہلا کلام اپنی امت کے سامنے تلاوت آیات ہوتا ہے یعنی اللہ کا کلام پہنچانا، گویا رسول کی پہلی حیثیت مبلغ اعظم کی ہوتی ہے۔
یُعلِّمُھُمُ الْکِتَابَ رسول کا کام محض تبلیغ اور پیغام رسانی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تبلیغ کے بعد تعلیم کا بھی ہے اس تعلیم میں کتاب کی شرح و ترجمانی، تعمیم میں تخصیص اور تخصیص میں تعمیم سب داخل ہے اور یہیں سے ان کج فہموں کی بھی تردید ہوگئی جو رسول کا منصب محض ڈاکیہ یا قاصد کا سمجھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ رسول کی دوسری حیثیت معلم اعظم کی ہے۔
وَالْحِکْمَۃَ پھر رسول کا منصب صرف تعلیم کتاب ہی نہیں ہے بلکہ حکمت اور دانائی کی تلقین بھی منصب رسالت کے فرائض میں داخل ہے، احکام و مسائل دین کے قواعد اور آداب عوام و خواص سب کو سکھانا، یہی رسول کی ذمہ داری ہے، اور خواص کی رہنمائی اسرار و رموز میں بھی کریں گے، گو یا رسول کی تیسری حیثیت مرشد اعظم کی ہے۔
یُزَکِّیْھِمْ تزکیہ سے مراد دلوں کی صفائی ہے، رسول کا کام محض الفاظ اور احکام ظاہری کی تشریح تک محدود نہیں ہے بلکہ اخلاق کی پاکیزگی اور نیتوں کے اخلاص کے فرائض انجام دینا بھی ہے، گویا رسول کی یہ چوتھی مصلح اعظم کی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس حالت کو یاد کرو جب وہ بیت اللہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے اور اس عظیم کام پر تسلسل اور پابندی سے لگے ہوئے تھے اور یہ کہ اس وقت ان پر خوف اور امید کی کیسی کیفیت طاری تھی، حتیٰ کہ اس عظیم عمل کے باوجود انہوں نے دعا کی کہ ان کا عمل قبول کیا جائے، تاکہ اس کا فائدہ عام ہو اور انہوں نے اپنی ذات اور اپنی اولاد کے لیے اسلام کی دعا کی۔ جس کی حقیقت قلب کا خشوع و خضوع ہے اور دل کا اپنے رب کا مطیع ہوجانے اور اعضاء و جوارح کے فرماں بردار ہونے کو متضمن ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss waqt ka tasawwur kero jab Ibrahim baitullah ki buniyaden utha rahey thay , aur Ismail bhi ( unn kay sath shareek thay , aur dono yeh kehtay jatay thay kay : ) aey humaray perwerdigar ! hum say ( yeh khidmat ) qubool farma ley . beyshak tu , aur sirf tu hi , her aik ki sunney wala , her aik ko janney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سناٹے کی آغوش میں زندگی
اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور سنسان بیابان تھا کوئی اپنے سہنے والا وہاں نہ تھا یہاں پہنچ کر ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ نے پیٹھ موڑی اور جانے لگے تو مائی حاجرہ نے آواز دی اے خلیل اللہ ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیابان میں یکہ و تنہا چھوڑ کر جہاں ہمارا کوئی مونس و ہمدم نہیں آپ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں ؟ لیکن حضرت ابراہیم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہ تک نہ کی، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا حضرت ہاجرہ کے بار بار کہنے پر بھی آپ نے التفات نہ فرمایا تو آپ فرمانے لگیں اللہ کے خلیل آپ ہمیں کسے سونپ چلے ؟ آپ نے کہا اللہ تعالیٰ کو کہا اے خلیل اللہ کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں مجھے اللہ کا یہی حکم ہے یہ سن کر ام اسماعیل کو تسکین ہوگئی اور فرمانے لگیں پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہرگز ضائع نہ کرے گا اسی کا بھروسہ اور اسی کا سہارا ہے۔ حضرت ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور ابن نبی اللہ کو گود میں لے کر اس سنسان بیابان میں اس ہو کے عالم میں لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ رہیں۔ حضرت ابراہیم جب ثنیہ کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کرلیا کہ اب حضرت ہاجرہ پیچھے نہیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کرسکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا آیت (رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ) 14 ۔ ابراہیم :37) الہ العالمین میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد جنگل میں تیرے برگزیدہ گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں آپ نے یہ دعا کر کے حکم اللہ بجا لا کر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے ادھر حضرت ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہوگیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہمی جاتی ہے معلوم ہے کہ کسی انسان کا گزر اس بھیانک جنگل میں نہیں، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کہاں ؟ پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں آسکتا آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دواڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آجائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ چاروں طرف ڈالتی ہیں اور کسی کو بھی نہ دیکھ کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھ جاتی ہیں اس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب حضرت ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی ؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں حضرت جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو ؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں میں حضرت ابراہیم کے لڑکے کی ماں ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ گئے ہیں ؟ آپ فرماتی ہیں اللہ کو فرمایا پھر تو وہ کافی ہے حضرت ہاجرہ نے فرمایا اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا کچھ میرا کام بھی نکلے گا ؟ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا۔ حضرت ہاجرہ (علیہما السلام) نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کردی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ ام اسماعیل پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زم زم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا اب حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہ دیا کہ تم بےفکر رہو اللہ تمہیں ضائع نہ کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا حضرت ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچہ سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتا ہے اور یہاں امن رہتا کچھ مدت کے بعد جرہم کا قبیلہ خدا کے راستہ کی طرف سے اتفاقاً گزرا اور مکہ شریف کے نیچے کے حصہ میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدو رفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاں ؟ چناچہ انہوں نے اپنے آدمی اصلیت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے اب وہ سب آئے اور حضرت ام اسمعٰیل سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہے آپ نے فرمایا ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چناچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا حضرت اسماعیل بھی بڑے ہوگئے ان سب کو آپ سے بڑی محبت ہوگئی یہاں تک کہ آپ بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح بھی کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی مائی ہاجرہ (علیہما السلام) کا انتقام یہیں ہوا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے بعض روایات میں ہے کہ آپ کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس جاتے تھے یہاں آئے تو حضرت اسماعیل گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں آپ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ کیا برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے فرمایا اچھا تمہارے خاوند آویں تو انہیں سلام کہنا اور کہہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ حضرت ذبیح اللہ جب واپس آئے تو گویا آپ کو کچھ انس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے ؟ بیوی نے کہا ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے ؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزران کیسی چلتی ہے ؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے پوچھا کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں ؟ بیوی نے کہا ہاں کہہ گئے کہ وہ جب وہ آئیں میرا سلام کہنا اور کہ دینا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں آپ فرمانے لگے بیوی سنو یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس سے مطلب یہ ہے کہ (چونکہ تم نے ناشکری کی) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی انہیں طلاق دے کر آپ نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کرلیا ایک مدت کے بعد پھر حضرت ابراہیم باجازت الٰہی یہاں آئے اب کی مرتبہ بھی اتفاقاً حضرت ذبیح سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لئے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے۔ آپ نے فرمایا یہ تو بتاؤ کہ گزر بسر کیسی ہوتی ہے ؟ کیا حال ہے ؟ جواب ملا الحمد للہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے حضرت ابراہیم نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے ؟ کہا گوشت پوچھا تم پیتے کیا ہو ؟ جواب ملا پانی آپ نے دعا کی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو حضرت خلیل (علیہ السلام) ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کرسکتے ہیں۔ اور لوگ نہیں کرسکتے آپ نے فرمایا اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور اباد رکھیں بعد ازاں حضرت اسماعیل آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں (تم شکر گزار ہو)