البقرہ آية ۱۳۰
وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ ۗ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِى الدُّنْيَا ۚ وَاِنَّهٗ فِى الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ
طاہر القادری:
اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو، اور بیشک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں (بھی) منتخب فرما لیا تھا اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گے،
English Sahih:
And who would be averse to the religion of Abraham except one who makes a fool of himself. And We had chosen him in this world, and indeed he, in the Hereafter, will be among the righteous.
1 Abul A'ala Maududi
اب کون ہے، جو ابراہیمؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو، اس کے سو ا کون یہ حرکت کرسکتا ہے؟ ابراہیمؑ تو وہ شخص ہے، جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چُن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
اور ابراہیم کے دین سے کون منہ پھیرے سوا اس کے جو دل کا احمق ہے اور بیشک ضرور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا اور بیشک وہ آخرت میں ہمارے خاص قرب کی قابلیت والوں میں ہے -
3 Ahmed Ali
اور کون ہے جو ملت ابراھیمی سے روگردانی کرے سوائے اس کے جو خود ہی احمق ہو اور ہم نے تو اسے دنیا میں بھی بزرگی دی تھی اور بے شک وہ آخرت میں بھی اچھے لوگوں میں سے ہوگا
4 Ahsanul Bayan
دین ابراہیمی سے وہ ہی بےرغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے (١)
١٣٠۔١ عربی زبان میں رَغِبَ کا صلہ عَنْ تو اس کے معنی بےرغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالٰی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالٰی نے انہیں دنیا اور آخرت میں عطا فرمائی ہے یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بےرغبتی بےوقوفوں کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں ہو سکتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے، بجز اس کے جو نہایت نادان ہو۔ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہٴ) صلحا میں سے ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
دین ابراہیمی سے وہی بےرغبتی کرے گا جو محض بےوقوف ہو، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیده کیا تھا اور آخرت میں بھی وه نیکوکاروں میں سے ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کون ہے جو ابراہیم (ع) کی ملت (و مذہب) سے روگردانی کرے سوا اس کے جو اپنے کو احمق بنائے اور ہم نے انہیں دنیا میں منتخب کیا اور آخرت میں بھی ان کا شمار نیکوکاروں میں ہوگا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور کون ہے جو ملّاُ ابراہیم علیھ السّلام سے اعراض کرے مگر یہ کہ اپنے ہی کوبے وقوف بنائے . اور ہم نے انہیں دنیا میں منتخب قرار دیا ہے اور وہ آخرت میں نیک کردار لوگوں میں ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے بجز اس کے جو نہایت نادان ہو ؟ ہم نے ان کو دنیا میں بھی منتخب کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ (زمرہ) صلحاء میں ہوں گے
آیت نمبر ١٣٠ تا ١٣٦
ترجمہ : اور کون ہے ؟ یعنی کوئی نہیں جو بےرغبتی کرے ملت ابراہیمی سے کہ اس کو ترک کر دے مگر وہی جس نے اپنے آپ کو بیوقوف بنا لیا (یعنی بیوقوف محض ہو) (اور) اس بات سے ناواقف ہو کہ وہ اللہ کی مخلوق ہے، اور یہ کہ اس پر اللہ کی عبادت واجب ہے، یا یہ معنی ہیں کہ اس نے اپنے نفس کی تحقیر کی ہے، اور اس کو ذلیل کر رکھا ہے، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی رسالت اور دوستی کے لئے منتخب کرلیا ہے، اور بلاشبہ وہ آکرت میں بھی ان صالحین میں ہوگا جن کے لئے مراتب عالیہ ہیں اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب اس سے اس کے رب نے کہا سرتسلیم خم کر دے یعنی اللہ کا فرمانبردار ہوجا اور اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر، تو اس نے فوراً ہی کہا میں نے رب العالمین کے سامنے سرتسلیم خم کردیا، اور اسی طریقے پر چلنے کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو ہدایت کی اور ایک قراءت میں اَوْصٰی ہے، اور یعقوب نے (بھی) اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی، کہا : اے میرے بچو ! اللہ نے تمہاری لئے یہی دین اسلام پسند کیا ہے، لہٰذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا ترک اسلام سے منع فرمایا اور مرتے دم تک اس پر ثابت قدم رہنے کا حکم فرمایا، اور جب یہود نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے انتقال کے روز اپنی اولاد کو یہودیت کی وصیت کی تھی (تو یہ آیت) نازل ہوئی، کیا تم اس وقت موجود تھے کہ جب یعقوب (علیہ السلام) (اس دنیا سے) رخصت ہو رہے تھے، یہ اِذْ ، سابقہ اِذْ سے بدل ہے، اس (یعقوب) نے (انتقال کے وقت) اپنے بچوں سے پوچھا تم میرے بعد یعنی میرے انتقال کے بعد کسی کی بندگی کروگے ؟ جواب دیا : ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے، جو آپ کے آباء ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق کا معبود ہے، اور اسماعیل (علیہ السلام) کو آباء میں شمار کرنا تغلیباً ہے، اور اس لئے بھی کہ چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے، اِلٰھًا واحِد ًا، اِلٰھکَ سے بدل ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں، اور اَمْ بمعنی ہمزہ انکاری ہے، یعنی تم (یعقوب) کی موت کے وقت حاضر نہیں تھے، تو تم اس کی طرف ایسی بات کی نسبت کیوں کرتے ہو جو اس کی شایان شان نہیں ہے ؟ وہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی تلک مبتداء اور اشارہ ابراہیم ارور یعقوب اور ان کے بیٹوں کی طرف ہے، اور (تلک) کو خبر ہے مؤنث ہونے کی وجہ سے مؤنث لائے ہیں، جو اعمال انہوں نے کئے ان کے لئے ہیں، یعنی اس کی جزاء ان کے لئے ہے یہ (جملہ) مستانفہ ہے اور جو تم کرو گے اس کو جزا تم کو ملے گی، خطاب یہودیوں کو ہے ان کے اعمال کے بارے میں تم سے سوال نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ ان سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا، جملہ ماقبل کی تاکید ہے، یہود کہتے ہیں، یہودی جو جاؤ، ہدایت پا جاؤ گے اور نصاریٰ کہتے ہیں نصرانی ہوجاؤ ہدایت پاؤ گے، اَوْ تفصیل کے لئے ہے، اول (قول) کے قائل مدینہ کے یہود ہیں اور ثانی (قول) کے قائل نجران کے نصاریٰ ہیں، آپ ان سے کہہ دیجئے ہم تو ملت ابراہیم کی اتباع کریں گے، جس میں کجی کا نام نہیں (حنیفا) ابراہیم سے حال ہے، حال یہ کہ وہ تمام ادیان (باطلہ) سے دین مستقیم کی جانب مائل ہونے والے ہیں، اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے، کہو ! یہ مومنین کو خطاب ہے ہم تو اللہ پر ایمان لائے اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے، قرآن (اس پر ایمان لائے) اور ان دس صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) پر نازل ہوئے اور اسماعیل (علیہ السلام) پر اور اسحٰق پر اور یعقوب (علیہ السلام) پر اور اس کی اولاد پر نازل ہوئے اور جو عطا کیا گیا موسیٰ (علیہ السلام) کو یعنی تورات اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو یعنی انجیل اور جو کتابیں اور آیتیں ان کو عطا کی گئیں ان کے رب کی جانب سے (ایمان رکھتے ہیں) بایں طور کہ ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے یہود و نصاریٰ کے مانند کہ بعض پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں، ہم تو اللہ تعالیٰ کے مطیع ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَمَنْ اَی لا یَرْغبُ ، مَن استفہام انکاری مبتداء ہے، یَرْغَبُ خبر، اس کے اندر ضمیر ہے جو مَن کی طرف راجع ہے۔
قولہ : دین السلام اس میں اشارہ ہے کہ الدِّین میں الف لام عہد کا ہے اور دلیل فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ہے۔
قولہ : نھی عَن ترک الاسلامِ اس سے ایک سوال کا جواب مقصود ہے۔
سوال : فَلَاتَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنَتُمْ مُّسْلِمُوْنَ میں بظاہر موت سے نہی معلوم ہوتی ہے جو کہ بندہ کے اختیار میں نہیں۔
جواب : موت سے نہی نہیں ہے بلکہ ترک اسلام سے نہی ہے اس لئے کہ جب مقید پر نفی داخل ہوتی ہے تو قید کی نفی ہوتی ہے، اس لئے اگرچہ نہی موت پر داخل ہے اور مدخول نہی ہی مقصود عن النھی ہوتا ہے مگر چونکہ مدخول نہی اختیاری نہیں ہے اس لئے قید کی نہی مراد ہے۔
قولہ : اَمَرَ بالثباتِ علیہ اس عبارت سے یہ فائدہ ہے کہ نفس ایمان تو ان کو حاصل تھا، لہٰذا اس کے حاصل کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، بلکہ اسلام پر دوام مراد ہے۔
قولہ : بمنزلۃ الاب، اَلعَمُّ صنوُ اَبیہِ ۔ (الحدیث)
قولہ : والجملۃ تاکید لما قبلہ یہ تکرار کے فائدہ کا بیان ہے۔
قولہ : کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصَارٰی، اَو تنویع مقال کے لئے ہے نہ کہ تخییر کے لئے، اس لئے کہ ہر فریق ایک دوسرے کی تکفیر کرتا ہے۔
قولہ : قائل الاول الیھود اس اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے۔
اعتراض : کونوا ھودًا اونصاریٰ میں تناقض ہے، اللہ تعالیٰ کے قول لیست الیھود علیٰ شئ الخ سے۔
جواب : کا ماحصل یہ ہے کہ دونوں کے قائل مختلف ہیں لہٰذا کوئی تناقض نہیں ہے۔
قولہ : حال من ابراھیم یعنی حنیفًا ابراہیم سے حال ہے، حالانکہ مضاف الیہ سے حال واقع ہونا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اصل مضاف کی جگہ رکھنا درست ہو تو مضاف الیہ سے بھی حال واقع ہونا درست ہوتا ہے، یہاں ایسا ہی ہے اس لئے کہ ابراہیم کو ملۃ کی جگہ رکھنے کے بعد بھی مطلب صحیح رہتا ہے۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ (س) رَغَبًا توقع کرنا، صلہ جب عَنْ ہو تو اعراض و بےرخی کرنا جیسا کہ یہاں مستعمل ہے، اور اگر صلہ الٰی یا فی ہو تو مائل ہونا، رغبت کرنا۔
روایت کیا گیا ہے کہ عبد اللہ بن سلام نے اپنے بھتیجوں سلمہ اور مہاجر کو اسلام کی دعوت دی اور کہا کہ تم بخوبی جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے کہ میں اولاد اسماعیل میں ایک نبی مبعوث کرنے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا، جو اس پر ایمان لائے گا وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جو ایمان نہ لائے گا وہ ملعون ہوگا، چناچہ سلمہ ایمان لے آئے مگر مہاجر نے انکار کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (روح البیان)
یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت میں عطا فرمائی ہے، اور یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض و بےرخی بیوقوفوں ہی کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی وہ کون ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت کو پہچان لینے کے بعد ان کی ملت سے روگردانی کرے۔﴿اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ﴾ یعنی ایسا شخص وہی ہوسکتا ہے جس نے اپنے نفس کو جاہل رکھ کر حقیر بنا دیا ہو۔ اپنے نفس کے لیے کمتر چیز پر راضی ہو اور گھاٹے کے سودے میں اسے فروخت کردیا ہو۔ اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر کامل اور راست رو کوئی نہیں جو ملت ابراہیم میں رغبت رکھتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حالت کے بارے میں آگاہ فرمایا : ﴿وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا﴾ یعنی ہم نے حضرت ابراہیم کو چن لیا، انہیں ایسے اعمال کی توفیق سے نوازا جن کی بنا پر وہ چیدہ چیدہ نیک لوگوں میں شمار ہوئے۔ ﴿وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ﴾” اور وہ آخرت میں صالحین میں سے ہوں گے“ یعنی وہ نیک لوگ جو بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur kon hai jo Ibrahim kay tareeqay say inehraaf keray-? siwaye uss shaks kay jo khud apney aap ko himaqat mein mubtala ker-chuka ho ! haqeeqat to yeh hai kay hum ney duniya mein unhen ( apney liye ) chunn liya tha , aur aakhirat mein unn ka shumar sualeheen mein hoga .
12 Tafsir Ibn Kathir
توحید کے دعوے اور مشرکین کا ذکر
ان آیتوں میں بھی مشرکین کی تردید ہے کہ جو اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر بتاتے تھے حالانکہ کامل مشرک تھے جبکہ حضرت خلیل اللہ کی موحدوں کے امام تھے۔ توحید کو شرک سے ممتاز کرنے والے تھے عمر بھر میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا بلکہ ہر مشرک سے اور ہر قسم کے شرک سے اور ہر غیر اللہ سے جو اللہ مانا جاتا ہو وہ دل سے نفرت کرتے تھے اور ان سب سے بیزار تھے۔ اسی بنا پر قوم سے الگ ہوئے وطن چھوڑا بلکہ باپ تک کی مخالفت کی پروانہ کی اور صاف کہ دیا کہ آیت (قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :78) میں بیزار ہوں، اس چیز سے جسے تم شریک کرتے ہو میں نے تو یکسو ہو کر اپنی تمام تر توجہ اس پاک ذات کی طرف کردی ہے، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔ اور فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے صاف کہ دیا کہ میں تمہارے معبودوں سے بری ہوں تو اپنے خالق ہی کا گرویدہ ہوں، وہی مجھے راہ راست دکھائے گا۔ اور جگہ ہے آیت (وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ) 9 ۔ التوبہ :114) ابراہیم نے اپنے والد کے لیے بھی صرف ایک وعدے کی بنا پر استغفار کی تھی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ رب کعبہ کے پسندیدہ تھے اور راہ راست پر لگے ہوئے تھے، دنیا کے بھلے لوگوں میں سے تھے اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں ہوں گے۔ ان آیتوں کی طرح یہاں بھی فرمایا کہ " اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بےتدبیر اور گمراہ لوگ ہی ملت ابراہیمی کو ترک کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم کو اللہ نے ہدایت کے لیے چن لیا تھا اور بچپن سے ہی توفیق حق دے رکھی تھی، خلیل جیسا معزز خطاب انہی کو دیا گیا۔ وہ آخرت میں بھی سعید بخت لوگوں میں ہیں۔ ان کے مسلک و ملت کو چھوڑ کر ضلالت و گمراہی میں پڑنے والے سے زیادہ بیوقوف اور ظالم اور کون ہوگا ؟ " اس آیت میں یہودیوں کا بھی رد ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (ما کان ابراہیم یھودیا ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے، نہ نصرانی، نہ مشرک بلکہ موحد مسلمان اور مخلص تھے ان سے دوستی رکھنے والے صرف وہی جو ان کے فرماں بردار ہوئے اور یہ نبی اور ایمان دار اللہ بھی مومنوں کا ولی ہے، جب کبھی اللہ فرماتا کہ یہ مان لو وہ جواب دیتے کہ اے رب العالمین میں نے مان لیا، اسی ملت وحدانیت کی وصیت ابراہیم و یعقوب نے اپنی اولاد کو بھی کی۔ ھا کی ضمیر کا مرجع یا تو ملت ہے یا کلمہ، ملت سے مراد اسلام اور کلمہ سے مراد آیت (اسلمت لرب العالمین) ہے۔ دیکھئے ان کے دل میں اسلام کی کس قدر محبت و عزت تھی کہ خود بھی اس پر مدت العمر عامل رہے، اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کی۔ اور جگہ ہے آیت (وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف :28) ہم نے اس کلمہ کو ان کی اولاد میں بھی باقی رکھا، بعض سلف نے " و یعقوب " بھی پڑھا تو بینہ پر عطف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ خلیل اللہ نے اپنی اولاد کو اور اولاد کی اولاد میں حضرت یعقوب کو جو اس وقت موجود تھے دین اسلام کی استقامت کی وصیت کی۔ قشیری کہتے ہیں " حضرت یعقوب، حضرت ابراہیم کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے تھے، لیکن یہ مجرد دعویٰ ہے، جس پر کوئی صحیح دلیل نہیں۔ واللہ اعلم۔ بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت اسحاق کے ہاں حضرت ابراہیم کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ قرآن پاک کی آیت میں ہے آیت (فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ) 11 ۔ ہود :71) یعنی ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی اور اس کا نصب خفض کو ہٹا کر بھی پڑھا گیا ہے پس اگر حضرت یعقوب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات میں موجود نہ ہوں تو پھر ان کا نام لینے میں کوئی زبردست فائدہ باقی نہیں رہتا۔ سورة عنکبوت میں بھی ہے کہ ہم ابراہیم کو اسحاق و یعقوب عطا فرمایا اور اس کی اولاد میں ہم نے نبوت و کتاب دی اور اسی آیت میں ہے ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب زائد عطا فرمایا۔ " ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت ابراہیم کی زندگی میں ہی تھے اگلی کتابوں میں بھی ہے کہ وہ بیت المقدس میں آئیں گے۔ ابوذر (رض) ایک مرتبہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ کونسی مسجد پہلے تعمیر کی گئی ؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام پوچھا۔ پھر فرمایا، مسجد بیت المقدس میں نے کہا دونوں کے درمیان کس قدر مدت تھی ؟ فرمایا چالیس سال۔ ابن حبان نے کہا ہے کہ " حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کی درمیانی مدت سے متعلق یہ بیان ہے " حالانکہ یہ قول بالکل الٹ ہے۔ ان دونوں نبیوں کے درمیان تو ہزاروں سال کی مدت تھی بلکہ مطلب حدیث کا کچھ اور ہی ہے اور شاہ زمان حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ الرحمن تو اس مسجد کے مجدد تھے، موجد نہ تھے۔ اسی طرح حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی وصیت کی تھی، جیسے عنقریب ذکر آئے گا۔ وصیت اس امر کی ہوتی ہے جب تک زندہ رہو مسلمان ہو کر رہو تاکہ موت بھی اسی پر آئے۔
موت اور ہمارے اعمال
عموماً انسان زندگی میں جن اعمال پر رہتا ہے، اسی پر موت بھی آتی ہے اور جس پر مرتا ہے، اس پر اٹھے گا بھی۔ یہی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ بھلائی کے قصد کرنے والے کو بھلائی کی توفیق بھی دیجاتی ہے۔ بھلائی اس پر آسان بھی کردی جاتی ہے اور اسے ثابت قدم بھی رکھا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ انسان جنتیوں کے کام کرتے کرتے جنت میں ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے کہ اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں کا کام کر کے جہنمی بن جاتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے لیکن اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ کام اچھے برے ظاہری ہوتے ہیں، حقیقی نہیں ہوتے۔ چناچہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں قرآن کہتا ہے سخاوت، تقویٰ اور لا الہ الا اللہ کی تصدیق کرنے والے کو ہم آسانی کا راستہ آسان کردیتے ہیں اور بخل و بےپرواہی اور بھلی بات کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہم سختی کی راہ آسان کردیتے ہیں۔