البقرہ آية ۱۴۸
وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَافَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ۗ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَأْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا ۗ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ
طاہر القادری:
اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت (مقرر) ہے وہ اسی کی طرف رُخ کرتا ہے پس تم نیکیوں کی طرف پیش قدمی کیا کرو، تم جہاں کہیں بھی ہوگے اﷲ تم سب کو جمع کر لے گا، بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے،
English Sahih:
For each [religious following] is a [prayer] direction toward which it faces. So race to [all that is] good. Wherever you may be, Allah will bring you forth [for judgement] all together. Indeed, Allah is over all things competent.
1 Abul A'ala Maududi
ہر ایک کے لیے ایک رُخ ہے، جس کی طرف وہ مڑتا ہے پس بھلا ئیوں کی طرف سبقت کرو جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پا لے گا اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور ہر ایک کے لئے توجہ ایک سمعت ہے کہ وہ اسی طرف منہ کرتا ہے تو یہ چاہو کہ نیکیوں میں اوروں سے آگے نکل جائیں تو کہیں ہو اللہ تم سب کو اکٹھا لے آئے گا بیشک اللہ جو چاہے کرے-
3 Ahmed Ali
اور ہر ایک کے لیے ایک طرف ہے جس طرف وہ منہ کرتا ہے پس تم نیکیوں کی طرف دوڑو تم جہاں کہیں بھی ہو گے تم سب کو الله سمیٹ کر لے آئے گا بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے
4 Ahsanul Bayan
ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے (١) تم اپنی نیکیوں کی طرف دوڑو۔ جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے۔
١٤٨۔١ یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک راستہ اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ) 5۔ المائدہ;48) یعنی اللہ تعالٰی نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالٰی چاہتا تو سب کو ایک ہی راستے یعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سب اختیارات دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اے مسلمانوں تم تو خیر کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر محروم ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہر ایک (فرقے) کے لیے ایک سمت (مقرر) ہے۔ جدھر وہ (عبادت کے وقت) منہ کیا کرتے ہیں۔ تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو۔ تم جہاں رہو گے خدا تم سب کو جمع کرلے گا۔ بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے
6 Muhammad Junagarhi
ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے تم نیکیوں کی طرف دوڑو۔ جہاں کہیں بھی تم ہوگے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہر ایک کے لئے ایک سمت ہے جدھر وہ (نماز کے لیے) منہ کرتا ہے (اے مسلمانو! تم اس نزاع کو چھوڑ دو) پس تم بڑھ چڑھ کر نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔ تم جہاں بھی ہوگے اللہ تم سب کو (جزا و سزا کے لئے ایک جگہ) لے آئے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہر ایک کے لئے ایک رخ معین ہے اور وہ اسی کی طرف منہ کرتا ہے. اب تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو اور تم سب جہاں بھی رہوگے خدا ایک دن سب کو جمع کردے گا کہ وہ ہر شے پر قادر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہر ایک (فرقے) کیلئے ایک سمت (مقرر) ہے جدھر وہ (عبادت کے وقت) منہ کیا کرتے ہیں تو تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرو تم جہاں ہو گے خدا تم سب کو جمع کرلے گا بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
آیت نمبر ١٤٨ تا ١٥٢
ترجمہ : ہر امت کا ایک قبلہ ہے جس کی طرف وہ طرف وہ اپنی عبادت میں رخ کرتی ہے اور ایک قراءت میں مُوَلَّاھَا ہے (جس کی طرف پھیرا گیا ہے) نیکیوں کی طرف سبقت کرو یعنی طاعتوں اور اس کے قبول کی جانب جلدی کرو، تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تم کو جمع کر لائے گا (یعنی) روز قیامت تم کو جمع کرے گا، اور تمہارے اعمال کی جزا دے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ جہاں سے بھی سفر شروع کریں (نماز میں) رخ مسجد حرام کی جانب کریں، یہی آپ کے رب کا فیصلہ ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بیخبر نہیں ہے تاء اور یاء کے ساتھ، اسی جیسی آیت گزر چکی ہے، سفر و حضر میں حکم کی یکسانیت کو بیان کرنے کے لئے (آیت) مکرر ذکر کی ہے، اور (اے مسلمانو ! تم بھی) جس جگہ سے سفر شروع کرو اپنا رخ مسجد حرام کی جانب کرو تاکید کے لئے مکرر ذکر کیا ہے، تاکہ لوگوں (یعنی) یہود یا مشرکین کو، تمہارے ساتھ کوئی نزاع نہ رہے (ان کے) قبلہ کی مخالف جانب رخ کرنے کی وجہ سے، یعنی تاکہ تمہارے ساتھ ان کی حجت بازی ختم ہوجائے، اس بات میں کہ یہود کہتے ہیں کہ (محمد) ہمارے دین کا (تو) انکار کرتے ہیں مگر ہمارے قبلہ (بہت المقدس) کی اتبار کرتے ہیں، اور مشرکوں کا کہنا یہ ہے، کہ محمد ملت ابراہیمی کا تو دعویٰ کرتے ہیں مگر اس کے قبلہ کی مخالفت کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے کہ جنہوں نے ان میں سے بوجہ عناد کے ظلم کیا، ان کا کہنا ہے کہ کعبہ کی جانب رخ محض اپنے آباء کے دین کی طرف میلان کی وجہ سے کیا ہے اور (للناس) استثناء متصل ہے، اور معنی یہ ہیں کہ تم پر کسی کا کوئی اعتراض نہ رہے گا، مگر (ظالم) لوگوں کا لہٰذا تم کعبہ کی جانب رخ کرنے میں ان کے جھگڑنے سے نہ ڈرو، میرا حکم بجالا کر مجھ سے ڈرتے رہو اور تاکہ میں تم کو تمہارے دین کے احکام کی طرف رہنمائی کرکے تمہارے اوپر اپنی نعمت کی تکمیل کر دوں، اور اس لئے تاکہ تم حق کی طرف ہدایت پاؤ جس طرح ہم نے تمہارے لئے تم ہی میں سے ایک رسول (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا (کَمَا اَرْسَلْنَا) اُتَمَّ سے متعلق ہے، یعنی اس طرح نعمت کی تکمیل کرکے جس طرح ہم نے تم ہی میں سے رسول بھیج کر نعمت کی تکمیل کی، جو تم کو ہماری قرآنی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور تم کو شرک سے پاک کرتا ہے، اور تم کو کتاب یعنی قرآن اور حکمت سکھاتا ہے جس کے اندر احکام ہیں اور تمہیں وہ چیزیں سکھاتا ہے، جس سے تم ناواقف تھے، لہٰذا تم نماز و تسبیح کے ذریعہ میرا ذکر کرو میں تمہیں یاد کروں گا، کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ہیں میں تم کو جزاء دوں گا، اور حدیث قدسی میں ہے کہ جو شخص مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جو مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اس کے مجمع سے بہتر مجمع میں اس کو یاد کرتا ہوں اور میری نعمتوں کا طاعت کے ذریعہ شکر ادا کرو اور معصیۃ کے ذریعہ ناشکری نہ کرو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ مفسر علام نے مِنَ الُامَمِ محذوف مان کر حذف مضاف الیہ کی طرف اشارہ کیا ہے حذب مضاف کی طرف حذف مضاف الیہ کی مثالیں بھی عام ہے، لِکُلٍّ ای لکُلٍّ اُمَّۃٍ یعنی ہر دین و دھرم والوں کے لئے خواہ دین حق ہو یا باطل ایک مرکزی رخ ہوتا ہے جس کو ان کا قبلہ کہا جاسکتا ہے۔ قولہ : ھُوَ مُوَلِّیْھَا، ھو سے فریق مراد ہے، جو اُمَمٌ سے مفہوم ہے، کُلٌ کی مناسبت سے ھو لایا گے ہے، اگر مفسر علام امم کے بجائے فریق سے تعبیر کرتے تو زیادہ واضح ہوتا۔ (صاوی) ۔ قولہ : مُوَلِّیھَا، مُوَلِّیْ اسم فاعل ہے، ھَا مفعول اول ہے وَجْھہٗ مفعول ثانی ہے، جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے، وفی قراء ۃٍ مُوْلَّاھَا بصیغہ اسم مفعول اس کا نائب فاعل مفعول اول ہے۔ قولہ : قِبْلَۃٌ مفسر علام نے وِجْھَۃٌ کی تفسیر قبلۃٌ سے کرکے دو اعتراضوں کا جواب دیا ہے :
(١) وِجْھَۃٌ مصدر ہے بمعنی توجہ، اس صورت میں معنی درست نہیں ہیں اس لئے کہ مقصود یہ نہیں ہے کہ ہر امت کے لئے توجہ ہے بلکہ مراد متوجہ الیہ ہے، یعنی جس کی جانب توجہ کی جائے، قِبْلَۃ کا اضافہ کرکے جواب دیدیا، کہ معنی مصدری مراد نہیں ہیں۔ مراد ظرف مکان ہے جس کو قبلہ کہا جاتا ہے۔ (٢) قیاس کا تقاضہ یہ ہے کہ جِھَۃٌ ہو اس لئے کہ تاء واؤ کے عوض میں ہے جیسا کہ عِدَۃٌ میں کہ اصل وِعْدٌ تھا، واؤ حذف کر کرے آخر میں تاء کا اضافہ کردیا جِھَۃٌ ہوگیا، وِجْھَۃٌ میں عوض اور معوض دونوں کا جمع ہونا لازم آتا ہے
جواب : وِجْھَۃٌ اگرچہ اصل میں مصدر ہے لیکن متوجہ الیہ کا نام ہوگیا ہے اور وہ قبلہ ہے اس میں واؤ کو باقی شاذ نہیں ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : الیھود او المشرکین اس میں اشارہ ہے کہ للناس میں لام عہد کا ہے۔ قولہ : ای مُجَادَلَۃ، حُجَّۃٌ کی تفسیر مجادلۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں حجۃ سے دلیل وبرہان مراد نہیں ہے اس لئے کہ ان کے پاس کوئی حجۃ وبرہان نہیں تھی بلکہ منازعت اور مجادلۃ بالباطل مراد ہے۔ قولہ : من قول الیھود الخ یہ مجادلۃ کا بیان ہے یعنی یہود یہ کہہ کر مجادلۃ کرتے ہیں اور مشرکین یہ کہہ کر مجادلہ کرتے ہیں۔ قولہ : الیٰ غِیْرِہٖ ، غیرہٖ کی ضمیر تَوَلِّی کی طرف راجع ہے، مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو ! ہم نے تم کو سمت کعبہ کی طرف رخ کرنے کا اس لئے حکم دیا ہے کہ رخ کرنے میں نزاع ہی ختم ہوجائے۔ قولہ : الاِ ستثناء متصل اس لئے ہے کہ مستثنیٰ منہ بھی ظالمین ہی ہے۔
تفسیر و تشریح
وَلِکُلٍّ وِّجھَۃٌ۔ ہر قوم راست را ہے دینے و قبلہ گا ہے۔ یعنی ہر قوم، ہر امت اپنی نماز و عبادت حتی کہ پوجا پاٹ کے لئے بھی کوئی نہ کوئی مرکزی رخ رکھتی ہے۔ سو امت اسلامیہ کے لئے بھی ایک متعین قبلہ ناگزیر ہے، مطلب یہ ہے کہ ہر قوم دامت کے لئے مختلف قبلہ ہوتے چلے آئے ہیں خواہ منجانب اللہ ہو یا خود ساختہ، بہر حال یہ امر واقعہ ہے کہ ہر قوم و ملت کا کوئی نہ کوئی قبلہ ہوتا ہے کوئی کسی کے قبلہ کو قبلہ تسلیم نہیں کرتا، اس لئے اپنے قبلہ کے حق ہونے پر ان لوگوں سے بحث و مباحثہ فضول ہے، لہٰذا اس فضول بحث کو چھوڑ کر اپنے اصل کام میں لگ جانا چاہیے، اور وہ اصل کام ہے نیک کاموں میں دوڑ دھوپ مسابقت میں لگ جانا، فضول بحثوں میں الجھنے سے وقت ضائع ہوتا ہے اور مسابقت الی الخٰرات میں سستی اور آخرت سے غفلت ہوتی ہے۔ وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ الخ قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم تین مرتبہ دہرایا گیا ہے، یا تو اس کی تاکید اور اہمیت ظاہر کرنے کے لئے، یا چونکہ یہ نسخ حکم کا پہلا تجربہ تھا اس لئے ذہنی خلجان دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے بار بار دہرا کر دلوں میں راسخ کردیا جائے، یا تعدد علت کی وجہ سے ایسا کیا گیا، ایک علت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی اور خواہش تھی ایک جگہ اسے بیان کیا گیا، دوسری علت ہر اہل ملت اور صاحب دعوت کے لئے ایک مستقل مرکز کا وجود درکار ہے، تیسری علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے لہٰذا تیسری مرتبہ دہرایا گیا۔ (فتح القدیر شوکانی)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی ہر ملت اور ہر دین والوں کے لیے ایک جہت مقرر ہے وہ اپنی عبادت میں اس کی طرف منہ کرتے ہیں۔ استقبال قبلہ کوئی بڑا معاملہ نہیں، اس لیے کہ یہ ان شریعتوں میں سے ہے جو احوال و زمان کے بدلنے کے ساتھ بدلتی رہی ہیں، اس میں نسخ اور ایک جہت سے دوسری جہت میں منتقل ہونا بھی داخل ہے، لیکن اصل اور اہم معاملہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کا تقرب اور اس کے قرب میں حصول درجات ہے یہی سعادت کا عنوان اور ولایت کا منشور ہے۔ یہی وہ وصف ہے کہ اگر نفوس اس سے متصف نہ ہوں تو دنیا و آخرت کے خسارے میں پڑجاتے ہیں جیسے اگر نفوس اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کرلیں تو یہی حقیقی منافع ہے۔ تمام شریعتوں میں یہ متفق علیہ امر ہے۔ اسی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو تخلیق کیا اور اسی کا اللہ تعالیٰ نے سب کو حکم دیا۔
نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا حکم، نیکی کرنے کے حکم پر ایک قدر زائد ہے، کیونکہ نیکیوں کی طرف سبقت، نیکیوں کے کرنے، ان کی تکمیل، کامل ترین احوال میں ان کو واقع کرنے اور نہایت سرعت سے ان کی طرف بڑھنے کو متضمن ہے۔ جو کوئی اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتا ہے وہ آخرت میں جنت کی طرف سبقت لے جائے گا پس سابقون (سبقت کرنے والے) تمام مخلوق میں بلند ترین درجے پر فائز ہوں گے۔
اور نیکیوں کا لفظ تمام فرائض، نماز، نوافل، روزے، زکوٰۃ، حج و عمرہ، جہاد اور لوگوں کو نفع پہنچانے وغیرہ کو شامل ہے۔ جب بات یہ ہے کہ سب سے طاقتور داعیہ جو نفوس کو نیکیوں میں مسابقت و مسارعت پر آمادہ کرتا ہے اور انہیں نشاط عطا کرتا ہے، وہ ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ ان نیکیوں پر عطا کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾” تم جہاں کہیں بھی ہو گے، اللہ تم سب کو لے آئے گا بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے“ وہ قیامت کے روز اپنی قدرت سے تمہیں اکٹھا کرے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى﴾ (النجم: 53؍31) ” تاکہ جن لوگوں نے برے کام کیے ہیں ان کو ان کے اعمال کا بدلہ دے اور جنہوں نے نیک کام کیے ہیں ان کو نیک بدلہ دے۔ “
اس آیت کریمہ سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ ہر اس فضیلت کو اختیار کرنا چاہئے جس سے کوئی عمل متصف ہوسکتا ہے، مثلاً اول وقت پر نماز ادا کرنا، روزے، حج، عمرہ اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے فوری طور پر بری الذمہ ہونا۔ تمام عبادات کی سنن و آداب کو پوری طرح ادا کرنا۔ پس کتنی جامع اور کتنی نفع مند آیت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur her giroh ki aik samt hai jiss ki taraf woh rukh kerta hai . lehaza tum naik kamon mein aik doosray say aagay barhney ki koshish kero . tum jahan bhi hogay , Allah tum sabb ko ( apney paas ) ley aaye ga . yaqeenan Allah her cheez per qadir hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سچا قبلہ
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہر مذہب والوں کا ایک قبلہ ہے لیکن سچا قبلہ وہ ہے جس پر مسلمان ہیں ابو العالیہ کا قول ہے کہ یہود کا بھی قبلہ ہے نصرانیوں کا بھی قبلہ ہے اور تمہارا بھی قبلہ ہے لیکن ہدایت والا قبلہ وہی ہے جس پر اے مسلمانو تم ہو۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ ہر ایک وہ قوم جو کعبہ کو قبلہ مانتی ہے وہ بھلائیوں میں سبقت کرے آیت (مولیھا) کی دوسری قرأت (مولاھا) ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا) 5 ۔ المائدہ :48) یعنی ہر شخص کو اپنے اپنے قبلہ کی پڑی ہوئی ہے ہر شخص اپنی اپنی راہ لگا ہوا ہے پھر فرمایا کہ گو تمہارے جسم اور بدن مختلف ہوجائیں گو تم ادھر ادھر بکھر جاؤ لیکن اللہ تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے اسی زمین سے جمع کرلے گا۔