البقرہ آية ۱۶۴
اِنَّ فِىْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِىْ فِى الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۤءِ مِنْ مَّاۤءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ کُلِّ دَاۤ بَّةٍۖ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۤءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ
طاہر القادری:
بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں،
English Sahih:
Indeed, in the creation of the heavens and the earth, and the alternation of the night and the day, and the [great] ships which sail through the sea with that which benefits people, and what Allah has sent down from the heavens of rain, giving life thereby to the earth after its lifelessness and dispersing therein every [kind of] moving creature, and [His] directing of the winds and the clouds controlled between the heaven and earth are signs for a people who use reason.
1 Abul A'ala Maududi
(اِس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکا رہے تو) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، اُن کشتیوں میں جوا نسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اِسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں،
3 Ahmed Ali
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے بدلنے میں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کی نفع دینے والی چیزیں لے کر چلتے ہیں اور اس پانی میں جسسے الله نے آسمان سے نازل کیا ہے پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور اس میں ہر قسم کے چلنے والے جانور پھیلاتا ہے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کا تابع ہے البتہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں
4 Ahsanul Bayan
آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کونفع دینے والی چیزیں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا۔ آسمان سے پانی اتار کر، مردہ زمین کو زندہ کر دینا (١) اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔
١٦٤۔١ یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی آیت میں نہیں١۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں۔ ٢۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کر دینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔٣۔ سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ ٤۔ بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ٥۔ ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ ٦۔ ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی گرم بھی، بارآور بھی اور غیر بارآور بھی، مشرقی مغربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ ٧۔ بادل جنہیں اللہ تعالٰی جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالٰی کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے، یقینا کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقینا نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں اور جہازوں میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لے کر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانےمیں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔ عقلمندوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
6 Muhammad Junagarhi
آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مرده زمین کو زنده کردینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش میں اور رات دن کی آمد و رفت (الٹ پھیر) میں اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں لے کر سمندر میں چلتی ہیں اور (بارش کے) اس پانی میں جسے خدا نے آسمان (بلندی) سے برسایا اور پھر اس کے ذریعہ زمین کو اس کے بے جان (بے کار) ہو جانے کے بعد جاندار بنا دیا (سرسبز و شاداب بنا دیا) اور اس میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے (جانور) پھیلا دیئے۔ اور ہواؤں کی گردش (ہیر پھیر) میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرکے (تابع فرمان بنا کے) رکھے گئے ہیں۔ (ان سب باتوں میں) خدا کے وجود اور اس کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل و خرد سے کام لیتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک زمین و آسمان کی خلقت روز و شب کی رفت وآمد. ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کے لئے چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعہ مفِدہ زمینوںکو زندہ کردیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دیئے ہیںاور ہواؤں کے چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان لَسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبانِ عقل کے لئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اور کشتیوں (اور جہازوں) میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کی چیزیں لیکر رواں ہیں اور مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا اور اس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سرسبز) کردیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں عقلمندوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں
آیت نمبر ١٦٤ تا ١٦٧
ترجمہ : اور مشرکین نے جب اس پر دلیل کا مطالبہ کیا تو یہ آیت ان خلق السماوات الخ اتری بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی ساخت آسمانوں اور زمین کی ساخت میں اور ان کے عجائبات میں اور رات و دن کی آمدورفت اور بڑھنے گھٹنے کے ذریعہ تغیر میں اور ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے لئے نفع بخش سامان تجارت اور بوجھ لے کر چلتی ہیں، اور بوجھل ہونے کے باوجود ڑوبتی نہیں ہیں اور اس پانی میں جسے آسمان سے بارش کی شکل میں اللہ نے برسایا ہے پھر اس پانی سے نباتات کے ذریعہ مردہ یعنی خشک زمین کو زندہ کیا اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلایا اس لئے کہ ان کا نشو و نما اس سبزے سے ہوتا ہے جو پانی سے پیدا ہوتا ہے اور ہواؤں کو جنوباً و شمالاً اور گرم و سرد بدلنے میں اور ان بادلوں میں جو اللہ کے حکم کے تابع ہیں (اور) زمین و آسمان کے درمیان بغیر کسی بندھن کے معلق ہیں (اور) جدھر اللہ چاہتا ہے ادھر چلتے ہیں ان میں عقلمندوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں اللہ کی وحدانیت کی نشانیاں ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غیر اللہ (یعنی) بتوں کو (اللہ کا) ہمسر ٹھہراتے ہیں، تعظیم اور عاجزی کے ذریعہ ان سے ایسی گرویدگی کا معاملہ کرتے ہیں جیسا کہ اللہ کے ساتھ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں، ان کے شرکاء کی محبت کے مقابلہ میں، اس لئے کہ وہ کسی حال میں بھی اللہ سے نہیں پھرتے اور کفار مصیبت کے وقت (اپنے شریک کردوہ شرکاء کو چھوڑ کر) اللہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں، اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ ان لوگوں کو دیکھیں جنہوں نے شریک ٹھہرا کر ظلم کیا ہے جب کہ وہ عذاب کو دیکھیں گے (یَرَونَ ) معروف و مجہول دونوں ہیں، تو آپ ایک امر عظیم (ہولناک منظر) دیکھیں گے اور اِذْ بمعنی اذا ہے، اس لئے کہ پوری قدرت اور غلبہ اللہ ہی کے لئے ہے۔ (جمیعًا) کائنًۃ (مقدر) سے حال ہے، اور اللہ سخت عذاب والا ہے، اور ایک قراءت میں یَرَیٰ تحتا نیہ کے ساتھ اور کہا گیا ہے کہ یریٰ کا فاعل مخاطب کی ضمیر ہے اور کہا گیا ہے کہ الذِیْنَ ظَلمُوْا ہے اور یَرَیٰ بمعنی یعلم ہے، اور أنَّ اور اس کا مابعد دو مفعولوں کے قائم مقام ہے اور لَوْ کا جواب محذوف ہے، اور معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ دنیا میں جان لیں، قیامت کے دن ان کے عذاب کو دیکھنے کے وقت اللہ واحدہ کی قدرت اور شدت عذاب کو تو اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اِذْ ، سابقہ اِذْ سے بدل ہے، جبکہ پیشوا یعنی سردار اپنے ماتحتوں سے اظہار لا تعلقی کریں گے، یعنی ان کو گمراہ کرنے کے الزام میں انکار کردیں گے حالانکہ عذاب کو (بچشم خود) دیکھ لیں گے، اور تمام رشتے ناتے منقطع ہوجائیں گے یعنی وہ تعلقات جو ان کے درمیان قرابت اور دوستی کے دنیا میں تھے (ختم ہوجائیں گے) تَقطَّعْت کا عطف تَبَرّأ پر ہے، اور ماتحت لوگ کہیں گے کاش ہم کو دنیا میں واپسی کا موقع مل جائے تو ہم بھی ان مبتوعین سے اسی طرح اظہار لا تعلقی کریں گے جس طرح آج انہوں نے ہم سے اظہار لاتعلقی کیا ہے، اور لَوْ تمنی کے لئے ہے فَنَتَبَرَّأ جواب تمنی ہے، اسی طرح جیسا کہ دکھلائی ان کو اپنے عذاب کی شدت اور بعض کی بعض سے اظہار بیزاری دکھلائے گا اللہ ان کو ان کے برے اعمال حال یہ کہ ان کے اوپر ندامت طاری ہوگی اور وہ داخل ہونے کے بعد آگ سے نکلنے والے نہیں ہیں، حَسَراتٍ بمعنی دامات، ھُم ضمیر سے حال ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَطَلَبُوا آیۃً علیٰ ذٰلک مشرکین کی جانب سے صفات باری کے مطالبہ کے جواب میں جب اللہ تعالیٰ نے وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ الخ فرمایا، تو مشرکین نے قرآن کے اس دعوت پر دلیل کا مطلابہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے دلیل کے طور پر اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ (الآیۃ) نازل فرمائی، اِنَّ حرف مشبہ بالفعل ناصب ہے اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ الخ کائِنَۃً کے متعلق ہو کر اِنَّ کی خبر مقدم ہے اور لَاَیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلوْنَ اس کا اسم مؤخر ہے۔ قولہ : فُلکِ الَّتی تجرِی۔ فُلْکٌ جب مفرد ہو تو مذکر ہے اور اگر جمع ہو تو جمع مکسر ہونے کی وجہ سے مؤنث ہے یہاں فُلْکْ مؤنث ہے اور قرینہ اَلَّتی تجری اس کی صفت ہے۔
سوال : جمع مکسر مفرد میں تغیر کرکے بنائی جاتی ہے، جیسے رَجُلٌ سے رِجَالٌ مگر یہاں مفرد اور جمع دونوں ایک ہی وزن پر ہیں جمع میں کوئی تغیر نہیں ہوا، تو پھر یہ جمع مکسر کیسے ہوئی ؟ جواب : اس میں تغیر معنوی ہوا ہے اس لیے کہ جب فُلک قُفْلٌ کے وزن پر ہو تو مفرد ہوگا اور جب اُسُدٌ کے وزن پر ہو تو جمع ہوگا۔
قولہ : من التجارات اس میں اشارہ ہے کہ بِمَا یَنْفَعُ میں ما موصولہ ہے ای تجری فی البحر بالذی ینفعُ الناس اور بعض نے مَا کو مصدریہ بھی کہا ہے، ای تجری فی البحرِ بِنَفْعِ الناس۔ قولہ : بِلَا عِلَاقۃ عین کے کسرہ کے ساتھ محسوس رابطہ جیسے تلوار کا پٹکا اور عین کے فتحہ کے ساتھ معنوی غیر محسوس رابطہ جیسے عشق و محبت کا رابطہ یا حسد و عداوت کا تعلق۔ قولہ : تَبْصُرُ مفسر علام نے یَرَیٰ کی تفسیر تَبْصُرُ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یَرَی سے رویت بصری مراد ہے نہ کہ قلبی اس لئے ہ رویت قلبی کے لئے دو مفعولوں کی ضرورت ہوگی جو کہ موجود نہیں ہیں۔ قولہ : اِذْ بمعنی اِذَا یہ دو سوالوں کا جواب ہے۔
سوال : (١) لَو اور اِذْ ماضی پر داخل ہوتے ہیں نہ کہ مضارع پر یہاں مضارع پر داخل ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اِذْ یِرَونَ العذابَ میں رویت کا ووقوع چونکہ یقینی ہے لہٰذا مضارع پر اِذْ داخل کردیا تاکہ بتاویل ماضی ہو کر یقینی الوقوع ہونے پر دلالت کرے۔ سوال : (٢) تو پھر مضارع کے بجائے ماضی کا صیغہ لانا چاہیے تھا تاکہ حقیقۃ یقینی الوقوع پر دلالت کرتا۔ جواب : چونکہ رویت در حقیقت مستقبل یعنی روز قیامت میں ہوگی اس کی طرف مضارع کا صیغہ لاکر اشارہ کردیا۔
قولہ : لِاَنّ یہ جواب شرط محذوف کی علت ہے۔ قولہ : فَھِیَ بمعنی یَعْلَمُ یَرٰی کو یَعلَم کے معنی میں اس لئے لیا ہے کہ ظالموں کا اللہ کے عذاب کی شدت کو دنیا میں بچشم سر دیکھنا ممکن نہیں ہے، اس لئے کہ عذاب کا تحقیق آخرت میں ہوگا، لہٰذا رویت سے رویت قلبی مراد ہے یعنی یَرَی، یَعْلَمُ کے معنی میں ہے۔ قولہ : وفق مُعَاینَتِھم یہ اَنَّ اللہ شدید العذاب کا ظرف ہے۔
قولہ : وقَدْ ، قد کو محذوف ماننے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ واؤ حالیہ ہے، اور قدْ رأوا العذَابَ ، الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا اور اَلَّذِیْن اتَّبَعُّوْا دونوں کی ضمیر سے حال ہے ای رَائین جیسے لَقِیْتُ زیدًا رَاکِبَیْنِ اور چونکہ ماضی بغیر قد کے حال واقع نہیں ہوسکتا قَد خواہ حفظًا خواہ لفظاً ہو یا تقدیراً ، لہٰذا یہاں قَدْ کو مقرر مانا ہے۔ قولہ : لَوْ للتَّمَنّی، لَوْتمنی کے لئے ہے اور فَنَتَبَرَّأ اس کا جواب ہے، یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں : سوال : (١) لَو کا جواب لام کے ساتھ ہوتا ہے، نہ کہ فاء کے ساتھ، حالانکہ یہاں فَنَتَبرَّأ، فا کے ساتھ ہے۔ سوال : (٢) فَنَثَبَرَّأ کے منصوب ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ جب کہ ناصب نہ لفظاً ہے اور نہ تقدیراً ۔ جواب : مفسر علام نے لو للتمنی کہہ کر ان دونوں اعتراضوں کا جواب دیا ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ مذکورہ دونوں باتیں لَو شرطیہ کے لئے ضروری ہیں اور یہ لَو تمنیہ ہے، لَو تمنیہ کے بعد ان مقدر ہونے کی وجہ سے جواب تمنی منصوب ہوتا ہے۔ (کما لا یخفیٰ علیٰ مَن لہ درایۃ فی علم النحو) ۔
تفسیر و تشریح
شان نزول : اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ابن عبای حاتم اور ابن مردویہ نے عمدہ سند متصل کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : خدا سے دعا کرو کہ کوہ صفا کو ہمارے لئے سونے کا بنا دے تاکہ اس کی وجہ سے ہم کو دشمن پر قوت حاصل ہو، تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ فرمایا : میں ایسا کرسکتا ہوں لیکن اگر اس کے بعد بھی کفر کیا تو میں ان کو ایسا عذاب دوں گا کہ دنیا میں کسی کو نہ دیا گیا ہوگا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کیا : اے میرے پروردگار ! تو مجھے اور میری قوم کو اسی حالت پر چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ یہ لوگ کوہ صفا کو سونے کا بنانے کا مطالبہ کس طرح کر رہے ہیں حالانکہ وہ میری قدرت کی نشانیوں میں سے اس سے کہیں زیادہ عظیم و عجیب نشانیاں کائنات عالم میں دیکھ رہے ہیں۔ مشرکین کی جانب سے صفات رب کے مطالبہ کے جواب میں جب اللہ تعالیٰ نے وَاِلْھُکُمْ اِلٰۃٔ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ نازل فرمائی تو مشرکین نے دعوائے وحدت والوہیۃ پر دلیل کا مطالبہ کیا تو اللہ نے اس کے جواب میں اِنَّ فِی خلق السَّمٰواتِ والَارضِ (الآیۃ) نازل فرمائی، یہ آیت اس معنی کے اعتبار سے بڑی اہم اور عظیم ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت والوہیت وقدرت پر یکجا دس نشانیوں بیان فرمائی ہیں۔ یعنی تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اس رحمان و رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے، اس حقیقت کو پہچاننے کے لئے اگر کوئی نشانی و علامت درکار ہے، تو جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے مسلسل ادلنے بدلنے میں نیز ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ تعالیٰ آسمانوں سے نازل کرتا ہے پھر اس کے ذریعہ زندگی بخشتا ہے اور اپنی اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش اور ان کے رخ بدلنے میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بیشمار نشانیاں ہیں۔
یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانہ کو جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل و خرد سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصب سے آزاد ہو کر سوچے تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں، اس نتیجے پر پہنچانے کے لئے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظلم الشان نظام ایک ہی قادر مطلق، حکیم کے زیر فرمان ہے، تمام اقتدار و اختیار بالکل اسی کے ہاتھ میں ہے کسی دوسرے کا اس میں قطعا دخل نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان عظیم مخلوقات میں باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت، اس کی عظیم قدرت، رحمت اور اس کی تمام صفات کے دلائل ہیں، لیکن یہ تمام دلائل صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان امور میں اپنی عقل استعمال کرتے ہیں جن کے لیے عقل پیدا کی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو جتنی عقل سے نوازا ہے وہ اتنا ہی آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی عقل اور تفکر و تدبر سے ان آیات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پس ﴿ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ﴾ ” آسمانوں کے پیدا کرنے میں۔“ یعنی آسمانوں کی بلندی، ان کی وسعت، ان کے محکم اور مضبوط ہونے میں، نیز ان آسمانوں میں سورج، چاند اور ستاروں کی تخلیق اور بندوں کے مصالح کے لیے ان کی منظم گردش میں۔ ﴿ وَالْاَرْضِ ﴾” اور زمین میں“ یعنی مخلوق کے لیے فرش کے طور پر زمین کو پیدا کیا تاکہ وہ اس پر ٹھہر سکیں اور زمین اور جو کچھ اس کے اوپر ہے اس سے استفادہ کریں۔ نیز اس سے عبرت حاصل کریں کہ تخلیق اور تدبیر کائنات میں اللہ تعالیٰ ایک متفرد ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا بیان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو تخلیق کیا اور اس کی حکمت کا، جس کی بنا پر اس نے زمین کو محکم، حسین اور موزوں بنایا اور اس کی رحمت اور علم کا، جن کی بنا پر اس نے زمین کے اندر مخلوقات کے فائدے کی اشیاء اور ان کی حاجات و ضروریات ودیعت کیں اور اس میں اس کے کمال اور اس کے واحد لائق عبادت ہونے پر سب سے زیادہ مؤثر دلیل ہے، کیونکہ کائنات کی پیدائش اور اس کی تدبیر اور تمام بندوں کے معاملات کا انتظام کرنے میں وہ متفرد ہے (اس لیے عبادت کا تمام تر مستحق بھی صرف وہی ہے نہ کہ کوئی اور، جن کا کوئی حصہ پیدائش میں ہے نہ تدبیر میں اور نہ بندوں کے معاملات کے انتظام میں)
﴿ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ﴾ ” اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں۔“ یعنی رات اور دن کادائمی طور پر ایک دوسرے کے تعاقب میں رہنا۔ جب ان میں سے ایک گزر جاتا ہے تو دوسرا اس کے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ گرمی، سردی اور معتدل موسم میں، دنوں کا لمبا، چھوٹا اور متوسط ہونا اور ان کی وجہ سے موسموں میں تغیر و تبدل کا ہونا۔ جن کے ذریعے سے تمام بنی آدم، حیوانات اور روئے زمین کی تمام نباتات کا انتظام ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے انتظام، تدبیر اور تسخیر کے تحت ہو رہا ہے جسے دیکھ کر عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے عقل مند لوگ اس کے ادراک سے عاجز ہیں۔ یہ چیز اس کائنات کی تدبیر کرنے والے کی قدرت، علم و حکمت، رحمت واسعہ، لطف و کرم، اس کی اس تدبیر و تصرف، جس میں وہ اکیلا ہے، اس کی عظمت، اقتدار اور غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور یہ اس بات کی موجب ہے کہ اس کو الٰہ مانا جائے اور اس کی عبادت کی جائے، صرف اسی سے محبت کی جائے، اسی کی تعظیم کی جائے، اسی سے ڈرا جائے، اسی سے امید رکھی جائے اور اس کے محبوب اور پسندیدہ اعمال میں جدوجہد کی جائے۔
﴿ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ﴾” اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں چلتی ہیں“ اس آیت کریمہ میں (فُلْکِ) سے مراد جہاز اور کشتیاں وغیرہ ہیں جن کی صنعت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں الہام کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے داخلی اور خارجی آلات تخلیق کیے اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی۔ پھر اس نے اس بحربے کراں اور ہواؤں کو ان کے لیے مسخر کردیا جو سمندروں میں اموال تجارت سمیت کشتیوں کو لیے پھرتی ہیں جن میں لوگوں کے لیے منفعت اور ان کی معاش کے انتظامات اور مصلحتیں ہیں۔
وہ کون ہے جس نے ان کشتیوں کی صنعت انہیں الہام کی اور ان کے استعمال پر انہیں قدرت عطا کی اور ان کے لیے وہ آلات پیدا کیے جن سے وہ کام لیتے ہیں؟ وہ کون ہے جس نے کشتیوں کے لیے بے پایاں سمندر کو مسخر کیا جس کے اندر یہ کشتیاں اللہ کے حکم اور اس کی تسخیر سے چلتی ہیں؟ اور وہ کون ہے جس نے ہواؤں کو مسخر کیا؟ وہ کون ہستی ہے جس نے بری اور بحری سفر کی سواریوں کے لیے آگ اور وہ معدنیات پیدا کیں جن کی مدد سے وہ سواریاں (فضاؤں اور سمندروں میں) چلتی اور ان کے مال و اسباب بھی اٹھائے پھرتی ہیں؟
کیا یہ تمام امور اتفاقاً حاصل ہوگئے یا یہ کمزور، عاجز مخلوق انہیں وجود میں لائی ہے۔ جو اپنی ماں کے پیٹ سے جب باہر آئی تو اسے علم تھا نہ قدرت؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت عطا کی پھر اسے ہر اس چیز کی تعلیم دی جس کی تعلیم دینا وہ چاہتا تھا، یا ان تمام چیزوں کو مسخر کرنے والا ایک اللہ ہی ہے جو حکمت اور علم والا ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی اور کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ بلکہ تمام اشیاء اس کی ربوبیت کے سامنے سرنگوں، اس کی عظمت کے سامنے عاجز اور اس کے جبروت کے سامنے سرافگندہ ہیں اور نحیف و نزاربندے کی انتہا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان اسباب میں سے ایک سبب بنایا ہے جن کے ذریعے سے یہ بڑے بڑے کام سر انجام پاتے ہیں، پس یہ چیز اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر رحمت اور اس کی عنایت پر دلالت کرتی ہے اور یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ تمام تر محبت، خوف، امید، ہر قسم کی اطاعت، تذلل و انکسار اور تعظیم صرف اسی کی ذات کے لیے ہو۔
﴿ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ﴾” اور اس میں جو اللہ نے آسمان سے پانی اتارا‘‘ اس سے مراد وہ بارش ہے جو بادل سے برستی ہے ﴿فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ﴾” پس اس کے ذریعے سے اس نے زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کردیا“ پس زمین نے مختلف قسم کی خوراک اور نباتات ظاہر کیں جو مخلوق کی ضروریات زندگی میں شمار ہوتی ہیں، جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی۔ کیا یہ اس ذات کی قدرت و اختیار کی دلیل نہیں جس نے یہ پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے زمین سے مختلف چیزیں پیدا کیں؟ کیا یہ اپنے بندوں پر اس کی رحمت اور اس کا لطف و کرم اور اپنے بندوں کے مصالح کا انتظام نہیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ بندے ہر لحاظ سے اس کے سخت محتاج ہیں؟ کیا یہ چیز واجب نہیں کرتی کہ ان کا معبود اور ان کا الٰہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہو؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا؟
﴿ وَبَثَّ فِیْہَا﴾ ” اور پھیلائے اس میں“ یعنی زمین کے اندر ﴿ مِنْ کُلِّ دَاۗبَّۃٍ ۠﴾” ہر قسم کے جانور“ یعنی زمین کے چاروں طرف مختلف اقسام کے جانور پھیلائے، جو اس کی قدرت، عظمت، وحدانیت اور اس کے غلبے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو انسانوں کے لیے مسخر کردیا جن سے وہ ہر پہلو سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں۔ پس وہ ان میں سے بعض جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ پیتے ہیں۔ بعض جانوروں پر سواری کرتے ہیں، بعض جانوران کے دیگر مصالح اور چوکیداری کے کام آتے ہیں۔ بعض جانوروں سے عبرت پکڑی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہرقسم کے جانور پھیلائے ہیں۔ وہی ان کے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی ان کی خوراک کا کفیل ہے۔ ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ﴾ (ھود: 6؍11) ” زمین کے اندر پھرنے والا کوئی جانور نہیں مگر یہ کہ اللہ کے ذمے اس کا رزق ہے وہ اس کے ٹھکانے کو جانتا ہے اور جہاں اسے سونپا جاتا ہے۔ “
﴿ وَّتَـصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ﴾” اور ہواؤں کے پھیرنے میں“ یعنی ٹھنڈی، گرم، شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً اور ان کے درمیان ہواؤں کا چلنا، کبھی تو یہ ہوائیں بادل اٹھاتی ہیں کبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو بار دار کرتی ہیں، کبھی یہ بادل برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پھاڑ کر انہیں تتر بتر کرتی ہیں، کبھی اس کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، کبھی یہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان ہواؤں کو عذاب کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔
کون ہے وہ جو ان ہواؤں کو اس طرح پھیرتا ہے؟ کون ہے جس نے ان ہواؤں میں بندوں کے لیے مختلف منافع ودیعت کیے ہیں جن سے وہ بے نیاز نہیں ہوسکتے؟ اور ان ہواؤں کو مسخر کردیا جن میں تمام جاندار اشیاء زندہ رہ سکیں اور بدنوں، درختوں، غلہ جات اور نباتات کی اصلاح ہو؟ یہ سب کچھ کرنے والا صرف وہ اللہ ہے جو غالب، حکیم اور نہایت مہربان ہے، اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا ہے، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے سامنے تذلل اور عاجزی کا اظہار کیا جائے، اسی سے محبت، اسی کی عبادت اور اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔
آسمان اور زمین کے درمیان بادل اپنے ہلکے اور لطیف ہونے کے باوجود بہت زیادہ پانی کو اٹھائے پھرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اس بادل کو لے جاتا ہے پھر وہ اس پانی کے ذریعے سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا کرتا اور ٹیلوں اور ہموار زمین کو سیراب کرتا ہے اور مخلوق پر اسی وقت بارش برساتا ہے جس وقت اس کو ضرورت ہوتی ہے۔ جب بارش کی کثرت انہیں نقصان پہنچانے لگتی ہے تو وہ اسے روک لیتا ہے۔ وہ بندوں پر لطف و کرم کے طور پر بارش برساتا ہے اور پانی رحمت اور شفقت سے بارش کو ان سے روک لیتا ہے۔ اس کا غلبہ کتنا بڑا، اس کی بھلائی کتنی عظیم اور اس کا احسان کتنا لطیف ہے! کیا یہ بندوں کے حق میں برائی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رزق سے فائدہ ا ٹھاتے ہیں، اس کے احسان کے ماتحت زندگی بسر کرتے ہیں۔ پھر وہ ان تمام چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کی معصیت پر مدد لیتے ہیں؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے حلم و صبر، عفو و درگزر اور اس کے عظیم لطف و کرم کی دلیل نہیں؟ پس اول و آخر اور ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی تعریف کا مستحق ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عقل مند شخص جب بھی ان مخلوقات میں غور و فکر اور انوکھی چیزوں میں سوچ بچار کرے گا اور اللہ کی کاریگری میں اور اس میں جو اس نے احسان اور حکمت کے لطائف رکھے ہیں، ان میں کتنا زیادہ غور و فکر کرے گا۔ تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ کائنات اس نے حق کے لیے اور حق کے ساتھ تخلیق کی ہے، نیز یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ذات، وحدانیت اور یوم آخرت کے نشانات اور دلائل ہیں، جس کے بارے میں اس نے اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے سامنے مسخر ہے، وہ اپنے تدبیر اور تصرف کرنے والے کے سامنے کوئی تدبیر اور نافرمانی نہیں کرسکتی۔ پس تجھے بھی معلوم ہوجائے گا کہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی اسی کے محتاج اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور وہ بالذات تمام کائنات سے بے نیاز اور مستغنی ہے پس اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کے سوا کوئی رب نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak aasmano aur zameen ki takhleeq mein , raat din kay lagataar aaney janey mein , unn kashtiyon mein jo logon kay faeeday ka saman leyker samandar mein terti hain , uss paani mein jo Allah ney aasman say utaara aur uss kay zariye zameen ko uss kay murda hojaney kay baad zindagi bakhshi aur uss mein her qisam kay janwer phela diye , aur hawaon ki gardish mein , aur unn badalon mein jo aasman aur zameen kay darmiyan tabey daar ban ker kaam mein lagay hoye hain , unn logon kay liye nishaniyan hi nishaniyan hain jo apni aqal say kaam letay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
ٹھوس دلائل
مطلب یہ ہے کہ اس اللہ کی فرماں روائی اور اس کی توحید کی دلیل ایک تو یہ آسمان ہے جس کی بلندی لطافت کشادگی جس کے ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے والے روشن ستارے تم دیکھ رہے ہو، پھر زمین کی پیدائش جو کثیف چیز ہے جو تمہارے قدموں تلے بچھی ہوئی ہے، جس میں بلند بلند چوٹیوں کے سر بہ فلک پہاڑ ہیں جس میں موجیں مارنے والے بےپایاں سمندر ہیں جس میں انواع واقسام کے خوش رنگ بیل بوٹے ہیں جس میں طرح طرح کی پیداوار ہوتی ہے جس میں تم رہتے سہتے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق آرام دہ مکانات بنا کر بستے ہو اور جس سے سینکڑوں طرح کا نفع اٹھاتے ہو، پھر رات دن کا آنا جانا رات گئی دن گیا رات آگئی۔ نہ وہ اس پر سبقت کرے نہ یہ اس پر۔ ہر ایک اپنے صحیح انداز سے آئے اور جائے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں جائے کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں آجائے، پھر کشتیوں کو دیکھوں جو خود تمہیں اور تمہارے مال و اسباب اور تجارتی چیزوں کو لے کر سمندر میں ادھر سے ادھرجاتی آتی رہتی ہیں، جن کے ذریعہ اس ملک والے اس ملک والوں سے اور اس ملک والے اس ملک والوں سے رابطہ اور لین دین کرسکتے ہیں، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں پہنچ سکتی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کاملہ سے بارش برسانا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردینا، اس سے اناج اور کھیتیاں پیدا کرنا، چاروں طرف ریل پیل کردینا، زمین میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کار آمد جانوروں کو پیدا کرنا ان سب کی حفاظت کرنا، انہیں روزیاں پہنچانا ان کے لئے سونے بیٹھنے چرنے چگنے کی جگہ تیار کرنا، ہواؤں کو پورب پچھم چلانا، کبھی ٹھنڈی کبھی گرم کبھی کم کبھی زیادہ، بادلوں کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرنا، انہیں ایک طرف سے دوسری کی طرف لے جانا، ضرورت کی جگہ برسانا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے عقل مند اپنے اللہ کے وجود کو اور اس کی وحدانیت کو پالیتے ہیں، جیسے اور جگہ فرمایا کہ آسمان و زمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے انہیں بیکار نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قریشی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے ہم اس سے گھوڑے اور ہتھیار وغیرہ خریدیں اور تیرا ساتھ دیں اور ایمان بھی لائیں آپ نے فرمایا پختہ وعدے کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں پختہ وعدہ ہے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور فرمایا تمہاری دعا تو قبول ہے لیکن اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر اللہ کا وہ عذاب آئے گا جو آج سے پہلے کسی پر نہ آیا ہو، آپ کانپ اٹھے اور عرض کرنے لگے نہیں اللہ تو انہیں یونہی رہنے دے میں انہیں تیری طرف بلاتا رہوں گا کیا عجب آج نہیں کل اور کل نہیں تو پرسوں ان میں سے کوئی نہ تیری جھک جائے اس پر یہ آیت اتری کہ اگر انہیں قدرت کی نشانیاں دیکھنی ہیں تو کیا یہ نشانیاں کچھ کم ہیں ؟ ایک اور شان نزول بھی مروی ہے کہ جب آیت (والھکم) الخ اتری تو مشرکین کہنے لگے ایک اللہ تمام جہاں کا بندوبست کیسے کریگا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اللہ اتنی بڑی قدرت والا ہے، بعض روایتوں میں ہے اللہ کا ایک ہونا سن کر انہوں نے دلیل طلب کی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قدرت کے نشان ہائے ان پر ظاہر کئے گئے۔