البقرہ آية ۱۷۳
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْکُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِۗ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے،
English Sahih:
He has only forbidden to you dead animals, blood, the flesh of swine, and that which has been dedicated to other than Allah. But whoever is forced [by necessity], neither desiring [it] nor transgressing [its limit], there is no sin upon him. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کر ے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اس نے یہی تم پر حرام کئے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو نا چار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
سوائے اس کے نہیں کہ تم پر مردار اور خون اورسؤر کا گوشت اور اور اس چیز کو کہ الله کے سوا اور کے نام سے پکاری گئی ہو حرام کیا ہے پس جو لاچار ہو جائے نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نے حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں بے شک الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے (١) پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔
١٧٣۔١ اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو حرام ہیں۔ اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی حرام قرار دے لیتے تھے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں حرام تو صرف یہ ہیں۔ اس لئے یہ حصر اضافی ہے یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرا حدیث میں دو اصول جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے بیان کر دئیے گئے ہیں وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں۔ درندوں میں ذوناب (وہ درندہ جو دانتوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں تیسرے جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے مثلا گدھا کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے نہ کہ حدیث کو نظر انداز کر کے صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد وہ حلال جانور ہے جو بغیر ذبح کیے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل المائدہ میں ہے) مر گیا ہو یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو مثلا گلا گھونٹ دیا جائے یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے یا جس طرح آجکل مشینی ذبح کا طریقہ ہے اس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں ایک مچھلی دوسری ٹڈی وہ اس حکم میتہ سے مستثنی ہیں خون سے مراد دم مسفوح ہے یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت۔ سور بےغیرتی میں بدترین جانور ہے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے
(وما اھل) وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جائیں جیسے مشرکین عرب لات وعزی وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے یا آگ کے نام پر جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلا داتا صاحب کی نیاز کے لئے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں ان جانوروں کو چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے یہ حرام ہی ہونگے کیونکہ اس سے مقصود رضائے الہی نہیں رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ یا خوف یا رجاء میں غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے ڈر یا امید) ہے جو شرک ہے اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیاء بھی غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کے اور چڑھاوے کی ہوں گی حرام ہوں گی جیسے قبروں پر لے جا کر یا وہاں سے خرید کر قبور کے اردگرد فقراء ومساکین پر دیگوں اور لنگروں کی یا مٹھائی اور پیسوں پر کی تقسیم یا وہاں صندوقچی میں نذر نیاز کے پیسے ڈالنا ہے یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں کیونکہ یہ سب غیر اللہ کی نذر و نیاز کی صورتیں ہیں اور نذر بھی نماز روزہ وغیرہ عبادات کی طرح ایک عبادت ہے اور عبادات کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی لئے حدیث میں ہے (ملعون من ذبح لغیراللہ) صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ البانی ج۲ص۱۰۲٤) جس نے غیر اللہ کے نام جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے۔ تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشابوری ہے اجمع العلماء لوان مسلما ذبح ذبیحۃ یرید بذبحھا التقرب الی غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد (تفسیر عزیزی ص٦۱۱بحوالہ اشرف الحواشی علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہو جائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے ہاں جو ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بےشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے واﻻ اور زیادتی کرنے واﻻ نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اس نے (چوپایوں میں سے) صرف تمہارے او پر مردار، خون، سور کا گوشت اور وہ (ذبیحہ) جسے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔ حرام قرار دیا ہے۔ پس جو شخص (شدت گرسنگی سے) مجبور ہو جائے درآنحالیکہ وہ بغاوت یا سرکشی کرنے والا نہ ہو۔ تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بے شک خدا بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس نے تمہارے اوپر بس مفِدارً خونً سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اس کو حرام قرار دیا ہے پھر بھی اگر کوئی مضطر ہوجائے اور حرام کاطلب گار اور ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والا نہ ہو تو اس کے لئے کوئی گناہ نہیں ہے . بیشک خدا بخشنے والا اورمہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کردیا ہے، ہاں جو ناچار ہوئے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
ربط آیات : اوپر تو اس کا بیان تھا کہ حلال کو حرام مت کرو گے اس کا ذکر ہے کہ حرام کو حلال مت سمجھو مثلاً مردار جانور اور ایسے جانور جن کو غیر اللہ کے نام ذبح کیا گیا ہو، اس میں اشارہ ہئ کہ نیک عمل کی توفیق اور دعا قبول ہونے میں اکل حلال کو بڑا دخل ہے، ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے، اور مومنین کو وہی حکم کرتا ہے جو مرسلین کو کرتا ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو طویل سفر طے کرتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے یا ربِّ یا ربِّ اشعَثَ اَغْبَرَ ، مَطْعَمَہٗ حرام و مشربہ حرام وملبسہ حرام وغذی بالحرام فانیّٰ یُسْتجَابُ لِذٰلک (رواہ مسلم) بہت سے لوگ طویل سفر پریشان حال اللہ کے سامنے دعاء کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب یارب پکارتے ہیں، مگر کھانا ان کا حرام، پینا ان کا حرام، لباس ان کا حرام، غذا ان کی حرام، ان حالات میں ان کی دعاء کہاں قبول ہوسکتی ہے ؟ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَۃَ ابو جعفر نے الْمَیِّتَۃُ یاء کی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔
سوال : اِنّما کلمہ حصر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار چیزیں جو مذکور ہیں حرام ہیں، حالانکہ ان کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں حرام ہیں جو دیگر آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے معلوم ہوتی ہیں۔ جواب : حنفیہ کے نزدیک اِنّما کے بارے میں نحاۃ کوفہ کا قول معتبر ہے جس میں انہوں نے کہا اِنَّ کلمۃ اِنّما لیْسَتْ للقصر بل ھِیَ مرکبۃ من اِنّ للتحقیق ومَا الکافۃ اور اگر اِنّما کا کلمہ حصر ہونا تسلیم کرلیا جائے تو حصر اضافی ہوگا، اور یہ حصر ان چیزوں کے اعتبار سے ہوا جن کو کفار نے حرام کرلیا تھا، بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔
المیتۃ مردار اور یہ اس جانور کو کہتے ہیں کہ جس کا ذبح کرنا ضروری ہو، اور اس کو ذبح نہ کیا گیا ہو، لہٰذا مچھلی اور ٹڈی اس میں داخل نہیں ہیں، یا ان دونوں کو حدیث کی وجہ سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے، (قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُحل لنّا میتتان ودَمَان السَّمک والجَرَ اد والکبدو الطحال) (اخرجہ ابن ماجہ والحاکم من حدیث ابن عمر) اور ان ہی کے ساتھ گوشت کے اس ٹکڑے کو بھی شامل کرلیا گیا ہے جو زندہ جانور سے کاٹ لیا گیا ہو، عن ابی واقد اللیثی قال قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : مَا قُطِعَ مِنَ البَھِیمَۃِ وھیَ حَیَّۃٌ فَھُوَ مَیْتَۃٌ۔ (اخرجہ ابو داؤد والترمذی) آگے اس آیت میں جن چیزوں کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے وہ چار چیزیں ہیں : مردار، خون، لحم خنزیر، اور وہ جانور جس پر غیر اللہ کا ناام لیا گیا ہو۔
مردار : اس سے مراد وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے لئے ازروئے شرع ذبح کرنا ضروری ہے مگر وہ بغیر ذبح کے خود بخود مرجائے یا گلا گھونٹ کر یا کسی دوسری طرح چوٹ وغیرہ مار کر مار دیا جائے، تو وہ مردار اور حرام ہے، مگر خود قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دریائی جانوروں کا ذبح کرنا ضروری نہیں ہے اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ البَحْرِ اسی بناء پر حدیث میں بھی مچھلی اور ٹڈی کو میتہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، البتہ وہ مچھلی جو خودبخود مر کر پانی کے اوپر آجائے وہ حرام ہے۔ (جصاص) ۔ مسئلہ : اسی طرح وہ شکاری جانور جو قابو میں نہیں کہ ذبح کرلیا جائے تو اس کو بھی بسم اللہ پڑھ کر تیر وغیرہ دھاری دار چیز سے زخم لگا دیا جائے اور قابو میں آنے سے پہلے مرجائے تو بغیر ذبح کے حلال ہوجاتا ہے، مگر زخمی دھاری دار آلہ سے ہونا چاہیے، لہٰذا پھاڑنے والے یا جلانے والے آلہ مثلاً گولی سے زخمی شدہ بغیر ذنح کے حلال نہ ہوگا۔ مسئلہ : اگر بندوق کی گولی سے کوئی جانور زخمی ہو کر قبل الذبح مرجائے تو وہ حلال نہ ہوگا، اگر مرنے سے پہلے اسے ذبح کرلیا جائے تو حلال ہوجائے گا۔ مسئلہ : اگر بندوق کی گولی نوکدار ہو جیسا کہ آج کل ایسی گولی بنائی گئی ہے تو بعض علماء کا خیال ہے کہ ایسی گولی تیر کے حکم میں ہے، مگر جمہور علماء کے نزدیک ایسی گولی بھی جارحہ نہیں بلکہ خارقہ ہے اس لئے ایسی گولی کا شکار بھی بغیر ذبح حلال نہیں۔
مسئلہ : مردار جانور کے تمام اجزاء حرام ہیں، مگر جانور کے وہ اجزاء جو کھانے کی چیز نہیں، مثلاً بال، سینگ، کھر، ہڈی وغیرہ یہ پاک ہیں، ان کا استعمال جائز ہے بشرطیکہ ان پر نجاست نہ لگی ہو۔ مسئلہ : مردار جانور کی چربی اور اس سے بنائی ہوئی چیزیں بھی حرام ہیں نہ ان کا استعمال جائز اور نہ خرید فروخت۔ مسئلہ : یورپ وغیرہ سے آئی ہوئی چیزیں مثلاً صابون، کریم، لپ اسٹک وغیرہ جن میں چربی ہوتی ہے ان سے پرہیز کرنا احتیاط ہے، مگر مردار یا حرام جانور کی چربی کا یقینی علم نہ ہونے کی وجہ سے گنجائش ہے، نیز اس وجہ سے بھی کہ بعض صحابہ کرام مثلاً ابن عمر، ابو سعید خدری، ابو موسیٰ اشعری (رض) نے مردار کی چربی کا صرف کھانے میں استعمال حرام قرار دیا ہے، خارجی استعمال کی اجازت ہے، اس لئے اس کی خریدو فروخت کو بھی جائز رکھا گیا ہے۔ (جصاص، معارف) ۔ مسئلہ : دودھ کا پنیر بنانے میں ایک چیز استعمال ہوتی ہے جس کو عربی میں اِنْفحۃ کہا جاتا ہے، یہ جانور کے پیٹ سے نکالی ہوئی ایک چیز ہوتی ہے اس کو دودھ میں شامل کرنے سے دودھ جم جاتا ہے، اگر انفحۃ شرعی طریقہ سے مذبوحہ جانور کا ہے تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن غیر مذبوح کے پیٹ سے حاصل کیا ہوا انفحہ کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے، امام اعظم، امام مالک اس کو پاک کہتے ہیں اور امام ابو یوسف امام محمد اور سفیان ثوری اس کو ناپاک کہتے ہیں۔ (قرطبی، معارف)
خون : دوسری چیز جو آیت مذکورہ میں حرام قرار دی گئی ہے وہ خون ہے، اس آیت میں اگرچہ مطلق ہے مگر سورة انعام کی آیت میں مسفوح کی قید بھی ہے یعنی بہنے والا خون، لہٰذا جو خون منجمد ہو جیسے کلیجی، تلی، گردہ، پھیپھڑا وغیرہ یہ حلال اور پاک ہیں۔ مسئلہ : ذبح کے بعد جو خون گوشت میں لگا رہ جاتا ہے وہ پاک ہے، اسی طرھ مچھر، مکھی، کھٹمل وغیرہ کا خون ناپاک نہیں ہے، اگر زیادہ ہو تو اس کو بھی دھونا چاہیے۔ مسئلہ : جس طرح خون کا کھانا حرام ہے اس کا خارجی استعمال بھی حرام ہے اور اس کی خریدو فروخت بھی جائز نہیں۔ مسئلہ : مریض کو دوسرے کا خون کا مسئلہ، تحقیق اس کی یہ ہے کہ انسانی خون انسان کا جز ہے اور جب بدن سے نکال لیا جائے تو وہ بھی نجس ہے، اس کا اصل تقاضہ تو یہی ہے، لہٰذا قاعدہ اور ضابطہ کی رو سے دوسرے کا خون چڑھانا جائز نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اضطراری اور مجبوری کی صورت میں شریعت اسلام کی دی ہوئی سہولتوں میں غور کرنے سے امور ذیل ثابت ہوئے : خون اگرچہ انسانی جز ہے مگر اس کو کسی دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لئے اعضاء انسانی میں کاٹ چھانٹ اور آپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی، انجکشن کے ذریعی خون نکالا اور داخل کیا جاتا ہے، اس لئے اس کی مثال دودھ کی سی ہوگئی جو بدن انسانی سے بغیر کاٹ چھانٹ کے نکلتا ہے اور دوسرے انسان کا جز بنتا ہے، شریعت اسلام نے بچہ کی ضرورت کے پیش نظر انسانی دودھ کو بچے کی غذاقرار دیا ہے، اور علاج کے طور پر بڑوں کے لے بھی اجازت ہے جیسا کہ عالمگیری میں ہے : ولا بأسَ بان یسعط الرجل بلبن المرۃ ویشربَہٗ للدواء۔ (عالمگیری : ص ٤، معارف) ۔ ” اس میں مضائقہ نہیں کہ دوا کے لئے کسی شخص کی ناک میں عورت کا دودھ ڈالا جائے، یا پینے میں استعمال کیا جائے “۔
مسئلہ : اگر خون کو دودھ پر قیاس کیا جائے تو بعید از قیاس نہیں، کیونکہ دودھ بھی خون کی بدلی ہوئی صورت ہے اور جزء انسانی ہونے میں مشترک ہے، صرف فرق یہ ہے کہ دودھ پاک ہے اور خون ناپاک ہے، لہٰذا جزء انسانی ہونا تو یہاں وجہ ممانعت نہ رہی اس لئے کہ دودھ جزء انسانی ہونے کے باوجود دوسرے انسان کے بدن کا جزء بنتا ہے، اب صرف نجاست کا معاملہ رہ گیا، علاج اور دوا کے معاملہ میں بعض فقہاء نے خون کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے۔ اس لئے ایک انسان کا خون دوسرے کے بدن میں منتقل کرنے کا شرعی حکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو جائز نہیں، مگر علاج اور دوا کے طور پر اضطراری حالت میں بلاشبہ جائز ہے، اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ مریض کی جان خطرہ میں ہو اور کوئی دوسرا طریقہ مؤثر نہ ہو یا موجود نہ ہو، اور خون دینے سے مریض کی جان بچنے کا گمان غالب ہو ان شرطوں کے ساتھ خون دینا اس نص قرآنی کی رو سے جائز ہے جس میں مضطر کے لئے مردار جانور کھا کر جان بچانے کی اجازت صراحۃ مذکور ہے۔
خنزیر کی حرمت : تیسری چیز جس کی حرمت اس آیت مذکورہ میں ہے وہ لحم خنزیر ہے اس کے نجس العین ہونے پر اتفاق ہے، قرآن میں خنزیر کے ساتھ لحم کی قید یا تو اس لئے ہے کہ اعظم مقصود گوشت ہی ہے بقیہ چیزیں اس کے تابع ہیں اور لحم کی قید سے اس بات کی طرف اشارہ ہوگیا کہ خنزیر دیگر حرام جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ ذبح کے بعد اگرچہ کھانے کے لئے حرام ہی رہتے ہیں مگر یہ پاک ہوجاتے ہیں، البتہ خنزیر ذبح کرنے کے بعد بھی پاک نہیں ہوتا، صرف چمڑا سینے کے لئے اس کے بال کا استعمال حدیث میں جائز قرار دیا گیا ہے۔ (جصاص، قرطبی)
ائمہ کا مسلک : امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور امام مالک (رح) تعالیٰ نے فرمایا کہ خنزیر کے بالوں کا استعمال ضرورت کے پیش نظر صرف چمڑا سینے کے لئے جائز ہے، امام شافعی (رح) تعالیٰ ممنوع قرار دیتے ہیں، اور امام احمد (رح) تعالیٰ نے مکروہ قرار دیا ہے اگر خنزیر کا بال پانی میں گرجائے تو پانی ناپاک ہوجائے گا۔
لحم خنزیر کی مضرت : فقہی احکام اور شرعی حرمت سے قطع نظر فطرت سلیم اسے گندہ سمجھتی ہے نظافت طبعی اس کی طرف رغبت کرنے سے کراہت کرتی ہے، خنزیر کا گوشت بکثرت استعمال سے اخلاقی خرابیاں اور بےحیائی کا پیدا ہونا ایک مسلم حقیقت ہے جن قوموں میں اس کو کثرت سے کھانے کا رواج ہے ان کی بےحیائی کسی سے پوشیدہ نہیں، اس کے گوشت کے جو طبی نقصانات ہیں وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں، خصوصاً امراض غدودی میں یہ جس طرح معین و مددگار ہوتا ہے اس پر آج کل کے ڈاکٹر بہت کچھ لکھ چکے ہیں، سور کی گندگی اور ناپاکی اتنی روشن اور عیاں ہے کہ بعض قدیم قومیں مثلاً اہل مصر بھی اسے نجس سمجھتی رہی ہیں، بلکہ خود یہودیوں کے یہاں بھی خنزیر حرام تھا، آج مسیح قومیں جس ذوق و شوق سے یہ گندہ گوشت کھاتی ہیں اور اس کی چربی سے جو طرح طرح کے کام لیتی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراہت کیسی ؟ عجب نہیں کہ کچھ فضائل مسیحیت میں اس جانور کے وارد ہوئے ہوں، حالانکہ اس کی حرمت اور نجاست دونوں صراحت کے ساتھ بائبل میں موجود ہیں۔
بائبل میں سور کی حرمت اور نجاست : اور سور کہ اس کا کھر دو حصہ (چرا ہوا) ہوتا ہے اور اس کا پاؤں چرا ہے، پر وہ جگالی نہیں کرتا وہ بھی تمہارے لئے ناپاک ہے۔ (اخبار ٧: ١١) ۔ اور سور کہ کھر اس کے چرے ہوئے ہیں، یہ جگالی نہیں کرتا، بھی تمہارے لئے ناپاک ہے، تم اس کا گوشت نہ کھائیو نہ اس کی لاش کو ہاتھ لگائیو۔ (استثناء ٨: ١٢)
وَمَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ : یہ چوتھی چیز ہے جس کو آیت میں حرام قرار دیا گیا ہے، یہ وہ جانور ہے جس کو غیر اللہ کے لئے وقف کیا گیا ہو، اس کی تین صورتیں متعارف ہیں : اول یہ کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح غیر اللہ ہی کا نام لیا جائے۔ صورت باجماع امت حرام ہے اور یہ جانور مردار ہے اس کے کسی جزء سے انتفاع جائز نہیں، اس لئے کہ یہ صورت آیت مَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ کی مدلول صریح ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کو تقرب الی غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جائے لیکن بوقت ذبح اس پر نام اللہ کا لیا جائے، جیسا کہ بہت سے ناواقف مسلمان پیروں اور بزرگوں کے نام پر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بکرے مرغے وغیرہ ذبح کرتے ہیں، جیسے ربیع الثانی کے مہینہ میں گیارہویں شریف کے موقع پر (بقول جہلاء) غوث پاک کا خصی، ماہ محرم میں سیدنا حسن و حسین (رض) کے نام کا مرغا، اور شیخ سدو کے نام کا بکرا یہ صورت بھی باتفاق فقہاء حرام اور مذبوحہ مردار ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کے کان کاٹ کر یا کوئی دوسری علامت لگا کر تقرب الیٰ غیر اللہ اور تعظیم لغیر اللہ کے طور پر چھوڑا جائے نہ اس سے کام لینے اور نہ اس کو ذبح کرنے کا قصد ہو بلکہ اس کے ذبح کو حرام جانیں یہ جانور مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ اور مَا ذُبِھَ عَلَی النُّصُبِ دونوں میں داخل نہیں ؛ بلکہ اس قسم کے جانور کو بحیرہ یا سائبہ کہا جاتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ یہ فعل تو بنص قرآنی حرام ہے، جیسا کہ مَا جَعَلَ اللہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّلَا سَائِبَۃٍ سے معلوم ہوتا ہے۔ مگر ان کے اس حرام عمل سے اور اس جانور کو حرام سمجھنے سے یہ جانور حرام نہیں ہوجاتا، اس لئے یہ جانور عام جانوروں کی طرح حلال ہے، مگر شرعی اصول کے مطابق یہ جانور اپنے مالک کی ملک سے خارج نہیں ہوا، اگرچہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میری ملک سے خارج ہو کر غیر اللہ کے لئے وقف ہوگیا، اس کا یہ عقیدہ باطل ہے وہ جانور بدستور اس کی ملک میں ہے، اب اگر وہ شخص اس جانور کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دے یا ہبہ کر دے تو اس کے لئے یہ جانور حلال ہے جیسا کہ ہندو بکثرت اپنے دیوی ویوتاؤں کے نام بکرا، گائے وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں، اور مندر کے پجاری کو اختیار دیدیتے ہیں، کہ جو چاہیں کریں، مندر کے پجاری ان کو فروخت کردیتے ہیں، اسی طرح ناواقف مسلمان بھی بعض مزارات پر ایسا ہی عمل کرتے ہیں کہ بکرا مرغا وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں اور مجاوروں کو اختیار دیدیتے ہیں جن کو وہ فروخت کردیتے ہیں ان مجاوروں سے ان جانوروں کا خریدنا اور ذبح کرکے کھانا وغیرہ سب حلال ہے۔
نذر لغیر اللہ کا مسئلہ : یہاں ایک چوتھی شکل اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں مثلاً مٹھائی، کھانا وغیرہ، جن کو غیر اللہ کے نام پر منت کے طور پر ہندو بتوں پر اور جاہل مسلمان نزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراک علت یعنی تقرب الی غیر اللہ کی وجہ سے مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ کے حکم میں قرار دے کر حرام قرار دیا ہے، کتب فقہ مثلاً بحر الرائق وغیرہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
اضطرار اور مجبوری کے احکام : آیت مذکورہ میں چار چیزوں کو حرام قرار دینے کے بعد ایک حکم استثنائی مذکور ہے، فَمَنِ اضْطُرَّ غِیْرَ بَاغٍ وَّلَا عادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیمٌ اس استثنائی حکم میں اتنی سہولت کردی گئی ہے کہ جو شخص بھوک سے بیتاب ہوجائے بشرطیکہ نہ تو کھانے میں طالب لذت ہو اور نہ قانون شکنی کا داعیہ اور نہ قدر ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو تو اس حالت میں ان حرام چیزوں کو کھا لینے سے بھی اس شخص کو کوئی گناہ نہیں، بلکہ نہ کھانے میں گناہ ہے اگر نہ کھا کر مرگیا تو گناہ گار کی موت مرے گا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے غفور رحیم ہیں۔
اس میں مضطر کے لئے جان بچانے کے واسطے دو شرطوں کے ساتھ ان حرام چیزوں کو کھانے کی اجازت دی گئی ہے، ایک شرط مضطرو مجبور ہونا، مضطر شرعی اصطلاح میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی جان خطرہ میں ہو مثلاً کوئی شخص بھوک اور پیاس کی وجہ سے ایسی حالت میں پہنچ گیا ہو کہ اگر یہ کھائے پیے تو اس کی جان جاتی رہے، اس لئے حرام چیز کو استعمال کی اجازت دو شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے، ایک شرط یہ ہے کہ مقصود جان بچانا ہو لذت اندوزی یا قانون شکنی نہ ہو، دوسرہ شرط یہ ہے کہ صرف اتنی مقدار کھائے جو جان بچانے کے لئے کافی ہو، پیٹ بھر کر کھانا یا ضرورت سے زیادہ کھانا اس وقت بھی حرام ہے۔ فائدہ : اضطرار اور مجبوری جس طرح داخلی ہوتی ہے خارجی بھی ہوسکتی ہے، مثلاً کوئی شخص حرام چیز کھانے یا پینے پر مجبور کرے کہ اگر نہ کھاؤ گے نہ پیو گے تو تم کو قتل کردیں گے یا کوئی عضو ضائع کردیں گے تب بھی یہی حکم ہے، معمولی زدو کو ب کا یہ حکم نہیں ہے۔
غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ کی تفسیر : غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ کی دو تفسیریں منقول ہیں ایک تو وہ ہے جس کو صاحب جلالین علامہ شیوطی (رح) تعالیٰ نے اختیار کیا ہے، وہ یہ کہ باغٍ کا مطلب ہے امام عادل کے خلاف بغاوت کرنے والا اور عادٍ کے معنی رہزنی کرنے والا، یا فساد فی الارض برپا کرنے والا، یعنی جو شخص امام عادل کے خلاف بغاوت کرنے والا اور رہزنی کرنے والا ہو اور وہ حالت اضطرار میں آجائے تو اسے اس حالت اضطرار کی سہولت حاصل نہیں ہوگی۔ بیضاوی (رح) تعالیٰ نے کہا کہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا ظاہر مذہب بھی یہی ہے، بغوی نے کہا ہے کہ ابن عباس معصیت کو مضطر کی سہولیات حاصل نہ ہوں گی، بخلاف امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے، مگر زیادہ مفسرین کا رجحان اس طرف ہے کہ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍکا تعلق، اکل سے ہے، یعنی مضطر کا مقصد لذت اندوزی یا قانون شکنی نہ ہو، اور نہ بقدر سدر مق سے تجاوز کرے، البتہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک پیٹ بھر کر کھانا بھی جائز ہے، امام مالک (رح) تعالیٰ کا بھی یہی قول ہے اور ایک روایت امام احمد (رح) تعالیٰ کی بھی ایسی ہی ہے، امام شافعی (رح) تعالیٰ کا راجح مذہب یہ ہے کہ اگر قریبی زمانہ میں حلال کھانا ملنے کی توقع ہو تو سدرمق سے زیادہ کھانا جائز نہیں، اور اگر امید نہ ہو تو پیٹ بھر کر کھانا جائز ہے بلکہ بطور توشہ ساتھ بھی لے سکتا ہے۔ (مظہری، ملخصا)
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے طیبات کی اباحت کا ذکر فرمایا تو خبائث کی تحریم کا ذکر بھی فرما دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ﴾” اللہ نے تم پر صرف مردار حرام کیا‘‘ مردار سے مراد وہ جانور ہے جو شرعی طریقے سے ذبح کیے بغیر مر جائے اور اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ مردار ناپاک اور خراب ہونے کی بنا پر ضرر رساں ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر مردار کسی بیماری سے مرتا ہے۔ پس وہ مرض میں اضافے ہی کا باعث ہوتا ہے۔ مردار کی حرمت کی عمومیت سے ٹڈی اور مچھلی مستثنیٰ ہیں۔ یہ دونوں مردہ ہونے کی صورت میں بھی حلال اور طیب ہیں﴿ وَ الدَّمَ﴾ ”اور خون“ یعنی بہتا ہوا خون اور یہ قید ایک اور آیت سے ثابت ہے (ملاحظہ کیجئے ! سورۃ الانعام : ٦؍١٤٥): (مترجم) ﴿ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ﴾ ” اور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو۔“ مثلاً وہ جانور جو بتوں، استھانوں، پتھروں اور قبروں وغیرہ پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ مذکورہ انواع محرمات کے لیے خاص نہیں، بلکہ ان کو ان خبائث کی اجناس کے بیان کے لیے ذکر کیا گیا ہے جن کی حرمت پر ” طیبات“ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے۔ پس محرمات کی عمومیت گزشتہ آیت میں لفظ (حَلَالًا طَيِّبًا) سے مستفید ہوتی ہے، جیسا کہ پہلے گزرا۔
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے اور ان کے ضرر سے بچانے کے لیے یہ چیزیں ہم پر حرام ٹھہرائی ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی فرما دیا : ﴿ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ﴾” جو کوئی ناچار ہوجائے۔“ یعنی جو کوئی بھوک، موت کے خوف یا جبرواکراہ کے باعث ان مذکورہ محرمات کو کھانے پر مجبور ہوجائے۔ ﴿ غَیْرَ بَاغٍ﴾ ” نہ سرکشی کرنے والا ہو“ یعنی سخت بھوکا نہ ہونے اور حلال کھانے پر قدرت رکھنے کے باوجود وہ حرام کھانے کا طلبگار نہ ہو۔ ﴿ وَّلَا عَادٍ ﴾” اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا ہو“ یعنی اضطراری حالت میں جتنی مقدار میں اس کے لیے یہ حرام کھانا جائز ہے اس مقدار سے تجاوز نہ کرے۔ ﴿ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ۭ﴾” تو اس پر کوئی گناہ نہیں“ یعنی اضطراری حالت میں یہ محرمات تناول کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں اور جب گناہ اٹھ گیا تو معاملہ اسی (اباحت اصلی کی) حالت پر چلا گیا جو کہ تحریم سے پہلے تھی۔ انسان اس اضطراری حالت میں حرام کھانے پر مامور ہے۔ بلکہ اسے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے آپ کو قتل کرنے سے روکا گیا ہے، تب اس پر حرام کھانا فرض ہے۔ اگر وہ اضطراری حالت میں حرام نہیں کھاتا اور مر جاتا ہے تو گناہ گار اور خودکشی کا مرتکب ہوگا۔
یہ اباحت اور وسعت اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام اپنے ان دو اسمائے گرامی کے ساتھ کیا ہے جو غایت درجہ تک اس مضمون کے ساتھ مناسب رکھتے ہیں، چنانچہ فرمایا ﴿اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾” بے شک اللہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ چونکہ ان کی حلت ان دو شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اس حالت میں انسان بسا اوقات اچھی طرح تحقیق کرنے سے قاصر رہتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ بخشنے والا ہے۔ پس اگر اس حالت میں اس سے خطا سر زد ہوجائے تو وہ بخش دے گا، خاص طور پر اس حالت میں جب کہ اس پر ضرورت غالب آجائے اور مشقت اس کے حواس کو مضمحل کر دے۔ اس آیت کریمہ میں مشہور فقہی قاعدہ( اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ اْلمَحْظُوْرَات)” ضرورت حرام کو مباح کردیتی ہے“ کی دلیل ہے۔ پس ہر حرام چیز، جس کے استعمال کرنے پر انسان مجبور ہوجائے تو اس رحم کرنے والے مالک نے اس کے لیے اسے جائز ٹھہرا دیا ہے۔ پس اول و آخر اور ظاہری و باطنی طور پر ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر کی مستحق صرف اسی کی ذات اقدس ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
uss ney to tumharay liye bus murdar janwer , khoon , aur soowar haram kiya hai , neez woh janwer jis jiss per Allah kay siwa kissi aur ka naam pukara gaya ho . haan agar koi shaks intehai majboori ki halat mein ho ( aur unn cheezon mein say kuch kha ley ) jabkay uss ka maqsad naa lazzat hasil kerna ho aur naa woh ( zaroorat ki ) hadd say aagay barhay , to uss per koi gunah nahi . yaqeenan Allah boht bakhshney wala bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مسئلہ
مردار کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی کا یہی مذہب ہے اس لئے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے جنس ہوجاتا ہے، اسی طرح مردار کی کھیس (کھیری) بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے، صحابہ (رض) کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر ہوسکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں بڑ جائے تو کوئی حرج نہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گھی اور پنیر اور گور خر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں۔ پھر فرمایا تم پر سور کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مرگیا ہو، سور کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لئے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی، دوسرے اس لئے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا، ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہئے یا نہیں ؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہوجائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد فرماتے ہیں، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لئے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں، غیر باغ کی تفسیر حضرت مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لئے کھالے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لئے مجبور کردیا جائے اور بےاختیار ہوجائے اس کا بھی یہی حکم ہے،
مسئلہ
ایک شخص بھوک کے مارے بےبس ہوگیا ہے اسے ایک مردار جانور نظر پڑا اور کسی دوسرے کی حلال چیز بھی دکھائی دی جس میں نہ رشتہ کا ٹوٹنا ہے نہ ایذاء دہی ہے تو اسے اس دوسرے کی چیز کو کھا لینا چاہئے مردار نہ کھائے، پھر آیا اس چیز کی قیمت یا وہی چیز اس کے ذمہ رہے گی یا نہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ رہے گی دوسرے یہ کہ نہ رہے گی۔ نہ رہنے والے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں ہے، حضرت عباد بن شرحبیل غزی کہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال قحط سالی پڑی میں مدینہ گیا اور ایک کھیت میں سے کچھ بالیں توڑ کر چھیل کر دانے چبانے لگا اور تھوڑی سی بالیں اپنی چادر میں باندھ کر چلا کھیت والے نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور میری چادر چھین لی، میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور آپ سے واقعہ عرض کیا تو آپنے اس شخص کو کہا اس بھوکے کو نہ تو تو نے کھانا کھلایا نہ اس کے لئے کوئی اور کوشش کی نہ اسے کچھ سمجھایا سکھایا یہ بیچارہ بھوکا تھا نادان تھا جاؤ اس کا کپڑا واپس کرو اور ایک وسق یا آدھا وسق غلہ اسے دے دو ، (ایک وسق چار من کے قریب ہوتا ہے) ایک اور حدیث میں ہے کہ درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھالے لیکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے حضرت مسروق فرماتے ہیں اضطرار کے وقت بھی جو شخص حرام چیز نہ کھائے اور مرجائے وہ جہنمی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ایسے وقت ایسی چیز کے کھانی ضروری ہے نہ کہ صرف رخصت ہی ہو، یہی بات زیادہ صحیح ہے جیسے کہ بیمار کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ۔