البقرہ آية ۱۷۸
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِى الْقَتْلٰى ۗ الْحُرُّ بِالْحُـرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِوَالْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰىۗ فَمَنْ عُفِىَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَىْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۤءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍۗ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌۚ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے،
English Sahih:
O you who have believed, prescribed for you is legal retribution for those murdered – the free for the free, the slave for the slave, and the female for the female. But whoever overlooks from his brother [i.e., the killer] anything, then there should be a suitable follow-up and payment to him [i.e., the deceased's heir or legal representative] with good conduct. This is an alleviation from your Lord and a mercy. But whoever transgresses after that will have a painful punishment.
1 Abul A'ala Maududi
ا ے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اِس جرم کی مرتکب ہو توا س عورت ہی سے قصاص لیا جائے ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو، تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے اس پر بھی جو زیادتی کرے، اس کے لیے دردناک سزا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والوں تم پر فرض ہے کہ جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت تو جس کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی۔ تو بھلائی سے تقا ضا ہو اور اچھی طرح ادا، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت تو اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو مقتولوں میں برابری کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے پس جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی معاف کیا جائے تو دستور کے موافق مطالبہ کرنا چاہیئے اور اسے نیکی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے یہ تمہارے رب کی طرف سے آسانی اور مہربانی ہے پس جو اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد، آزاد کے بدلے , غلام , غلام کے بدلے عورت ,عورت کے بدلے (١) ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے (٢) تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے (٣) اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا (٤)۔
١٧٨۔١ زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں اس لیے زورآور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم کا ارتکاب کر لیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقتور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہو جاتا وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالٰی نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے کہ جو قاتل ہوگا قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے۔ (فتح القدیر) مزید دیکھیے سورۃ مائدہ آیت۔٤٥۔
١٧٨۔٢ معافی کی دو سورتیں ہیں ایک بغیر معاوضہ یعنی دیت لئے بغیر محض رضائی الٰہی کے لئے معاف کر دینا دوسری صورت میں قصاص کے بجائے دیت قبول کر لینا اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کی پیروی کرے بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کر کے اس پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔
١٧٨۔٣ یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص) معافی یا دیت تین صورتیں اللہ تعالٰی کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہیں ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی قصاص تھا نہ دیت (ابن کثیر)
١٧٨۔٤ قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کر دے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا اور آخرت میں بھگتنی ہو گی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! تم کو مقتولوں کے بارےمیں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت اور قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کردیا جائے تو (وارث مقتول) کو پسندیدہ طریق سے (قرار داد کی) پیروی (یعنی مطالبہٴ خون بہا) کرنا اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے آسانی اور مہربانی ہے جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ کا عذاب ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہئے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہئے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! ان کے بارے میں جو (ناحق قتل کر دیئے گئے ہوں) تم پر قصاص (خون کا بدلہ خون) لکھ دیا گیا ہے یعنی آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ ہاں جس (قاتل) کے لیے اس کے (ایمانی) بھائی (مقتول کے ولی) کی جانب سے کچھ (قصاص) معاف کر دیا جائے تو اس (معاف کرنے والے) کو (چاہیے کہ) نیکی کا اتباع کرے (خون بہا کا مطالبہ کرنے میں سختی نہ کرے) اور (جسے معاف کیا گیا ہے اسے بھی چاہیے کہ) خوش اسلوبی کے ساتھ (خون بہا) ادا کرے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت و رحمت (اور آسانی و مہربانی) ہے۔ پس اس کے بعد بھی جو زیادتی کرے تو اس کیلئے دردناک عذاب ہے
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو! تمہارے اوپر مقتولین کے بارے میں قصاص لکھ دیا گیا ہے آزادکے بدلے آزاد اورغلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت. اب اگرکسی کو مقتول کے وارث کی طرف سے معافی مل جائے تو نیکی کا اتباع کرے اور احسان کے ساتھ اس کے حق کو ادا کردے. یہ پروردگار کی طرف سے تمہارے حق میں تخفیف اور رحمت ہے لیکن اب جو شخص زیادتی کرے گا اس کے لئے دردناک عذاب بھی ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! تم کو مقتولوں کے بارے میں قصاص (یعنی خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ اور اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف کردیا جائے تو (وارث مقتول کو) پسندیدہ طریق سے (قرارداد کی) پیروی (یعنی مطالبہ خون بہا کرنا) اور (قاتل کو) خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے یہ پروردگار کی طرف سے (تمہارے لئے) آسانی اور مہربانی ہے جو اس کے بعد زیادتی کرے اس کے لئے دکھ کا عذاب ہے۔
یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ (الآیۃ) قصاص کے لفظی مماثلت کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جنتا ظلم کسی نے کسی پر کیا ہو اتنا ہی بدلہ لینا دوسرے کے لئے جائز ہے اس پر زیادتی جائز نہیں۔
شان نزول : زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم و قانون تو تھا نہیں اس لئے زور آور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم کرتے، ظلم کی ایک شکل یہ تھی کہ کسی طاقتور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہوجاتا تو وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائئے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو بلکہ بعض اوقات پورے قبیلے ہی کو ختم کرنے کی کوشش کرتا اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتا۔ ابن کثیر نے ابن ابی حاتم کی سند سے نقل کیا ہے کہ زمانہ اسلام سے کچھ پہلے دو عرب قبیلوں میں جنگ ہوگئی طرفین کے بہت سے آدمی آزاد و غلام اور مردو و عورت قتل ہوئے، ابھی ان کے معاملہ کا تصفیہ ہونے نہیں پایا تھا کہ زمانہ اسلام شروع ہوگیا اور یہ دونوں قبیلے اسلام میں داخل ہوگئے اسلام لانے کے بعد اپنے اپنے مقتولوں کا قصاص لینے کی گفتگو شروع ہوئی تو ایک قبیلہ جو کہ زیادہ قوت و شوکت والا تھا، اس نے کہا ہم اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ہمارے غلام کے بدلے تمہارا آزاد آدمی اور عورت کے بدلے مرد قتل نہ کیا جائے۔
ان کے اس جاہلانہ اور ظالمانہ مطالبہ کی تردید کرنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی : اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ (الآیۃ) جس کا حاصل ان کے اس مطالبہ کی تردید کرنا تھا، چناچہ اس ظالمانہ مطالبہ کو رد کرتے ہوئے اسلام نے اپنا عاد لانہ قانون یہ نافذ کیا کہ جس نے قتل کیا ہے وہی قصاص میں قتل کیا جائے گا، اگر عورت قاتل ہے تو کسی بےگناہ مرد کو اس کے بدلہ میں قتل کرنا، اسی طرح قاتل اگر غلام ہے تو اس کے بدلے میں کسی بےگناہ آزاد کو قتل کرنا ظلم عظیم ہے جو اسلام میں قطعاً برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر عورت کو کوئی مرد قتل کر دے یا غلام کو کوئی آزاد قتل کر دے تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ قصاص میں مساوات رہے گی اور خون سب کا برابر سمجھا جائے گا ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ اونچے شخص کی جان کو معمولی شخص کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھا جائے جیسا کہ عرب جاہلیت کے دور اور یہود عرب کا دستور یہ تھا کہ اعلیٰ قبیلے کے مقتول کے عوض ادنیٰ قبیلے کے دو شخصوں سے قصاص لیا جاتا تھا، اور یہ حالت کچھ قدم جاہلیت ہی میں نہ تھی موجودہ زمانہ میں جن قوموں کو انتہائی مہذب سمجھا جاتا ہے ان کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دنیا کو سنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل قوم کے پچاس آدمیوں کو قتل کریں گے، امریکہ تو آج بھی ایک گوارے کا خون، کالے کے خون سے کہیں زیادہ قیمتی سمجھتا ہے۔ اسلام نے اسی ظالمانہ دستور کو مٹا کر اعلان کردیا کہ زندگی ہر مومن کی اور امت کے ہر فرد کی یکساں قابل احترام ہے۔
مسئلہ : مقتول اگر کافر ذمی ہے تو اس کا بھی قصاص قاتل ہی سے لیا جائے گا اگرچہ قاتل مسلم ہو، البتہ کافر اگر حربی ہو تو چونکہ وہ کھلا ہوا باغی اور دشمن ہوتا ہے اس کے قتل میں قصاص نہیں لیا جائے گا۔
مسئلہ : قتل عمد میں آزاد کے عوض آزاد تو قتل کیا ہی جائے گا غلام کے عوض میں بھی قتل کیا جائے گا، اسی طرح عورت کے عوض عورت تو قتل کی ہی جائے گی لیکن مرد بھی قتل کیا جائے گا۔
مسئلہ : اگر قتل عمد میں مقتول کے ورثاء نے قاتل کو پوری معافی دیدی، مثلاً مقتول کے وارث صرف دو بیٹے تھے اور ان دونوں نے اپنا حق معاف کردیا تو قاتل پر کوئی مطالبہ نہیں رہا، اور اگر پوری معافی نہ ہو مثلاً صورت مذکورہ میں دو بیٹوں میں سے ایک نے معاف کردیا مگر دوسرے نے معاف نہیں کیا تو قاتل سزائے قصاص سے تو بری ہوگیا لیکن معاف نہ کرنے والے کو نصب دیت دلائی جائے گی، دیت کی مقدار شریعت میں سو اونٹ یا ہزار دینار، یا دس ہزار درہم ہیں، اور درہم ساڑھے تین ماشہ چاندی کا ہوتا ہے اس حساب سے پوری دیت دو ہزار نو سو سولہ تولے آٹھ ماشے چاندی ہوگی۔
مسئلہ : جس طرح نا تمام معافی سے مال واجب ہوجاتا ہے اسی طرح اگر کسی قدر مال پر مصالحت ہوجائے تب بھی قصاص ساقط ہو کر مال واجب ہوجاتا ہے مگر کچھ شرطوں کے ساتھ جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ (معارف)
مسئلہ : مقتول کے جتنے شرعی وارث ہیں وہی قصاص و دیت کے مالک بقدر اپنے حصہ میراث کے ہوں گے اور اگر قصاص کا فیصلہ ہوا تو قصاص کا حق بھی سب میں مشترک ہوگا مگر چونکہ قصاص ناقابل تقسیم ہے اس لئے اگر کوئی حصہ دار بھی اپنا حق قصاص معاف کر دے گا تو دوسرے وارثوں کا حق قصاص بھی معاف ہوجائے گا، البتہ ان کو دیت (خون بہا) کی رقم سے حسب استحقاق وراثت حصہ ملے گا۔
مسئلہ : قصاص لینے کا حق اگرچہ اولیاء مقتول کا ہے مگر باجماع امت ان کو یہ حق خود وصول کرنے کا اختیار نہیں ہے کہ خود ہی قاتل کو قتل کردیں، بلکہ اس حق کو حاصل کرنے کے لئے حکم سلطان مسلم یا اس کے کسی نائب کا ہونا ضروری ہے۔
فَمَنْ عُفَیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ بھائی کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقہ سے نرمی کی سفارش بھی کردی ہے، مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور قاتل کے درمیان جانی دشمنی ہی سہی مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی، لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلہ میں انتقام کے غصہ کو پی جاؤ تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایان شان ہے اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اسلامی قانون تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کردیں، اور اس صورت میں عدالت کے لئے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے، البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا معافی کی صورت میں قاتل کو خون بہا ادا کرنا ہوگا۔ ایک طرف قصاص کی یہ سختی اور دوسری طرف دیت اور عفو کی نرمی یہ حسن امتزاج اور اعتدال و توازن یہ اسی قانون کا حصہ ہوسکتا ہے جو بشری دماغ سے نہیں حکمت مطلق سے نکلا ہو۔
فَمَنِ اعْتَدَیٰ بَعْدَذ ٰلَکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ مطلب یہ ہے کہ جب قصاص معاف ہو کر دیت پر بات طے ہوگئی تو اب دونوں فریقوں کو چاہیے کہ کسی طرح کی زیادتی نہ کریں، مثلاً یہ کہ مقتول کے وارث خون بہا وصول کرلینے کے بعد پھر انتقام کی کوشش کریں، یا قاتل خون بہا کی رقم ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے ورثاء نے جو اس کے ساتھ احسان کیا ہے اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے ” فَاِتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ “ کا یہی مطلب ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس احسان کا ذکر کرتا ہے کہ اس نے مقتولین کے بارے میں قصاص، یعنی اس میں مساوات کو فرض کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ قاتل کو مقتول کے بدلے میں اس طریقے سے قتل کیا جائے جس طریقے سے اس نے مقتول کو قتل کیا تھا، یہ بندوں کے درمیان عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اس خطاب کا رخ عام مومنوں کی طرف ہے، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان پر یہ فرض ہے حتیٰ کہ قاتل کے اولیاء اور خود قاتل پر بھی کہ جب مقتول کا ولی قصاص کا مطالبہ کرے اور قاتل سے قصاص لینا ممکن ہو تو مقتول کے ولی کی مدد کی جائے اور یہ کہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس حد کے درمیان حائل ہوں اور مقتول کے وارث کو بدلہ لینے سے روکیں، جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا ان جیسے دیگر لوگ جو مجرموں کو پناہ دیتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس قصاص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ﴾ ” آزاد، بدلے آزاد کے“ الفاظ کے اعتبار سے اس میں مرد، بدلے مرد کے‘ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ ﴿ وَالْاُنْـثٰی بِالْاُنْـثٰی ۭ﴾” عورت، بدلے عورت کے“ اس کا مطلب ہے مرد کے بدلے عورت اور عورت کے بدلے مرد۔ پس منطوق کلام، الانثی بالانثی کے مفہوم پر مقدم ہوگا، اس لیے کہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا (اگر مرد عورت کا قاتل ہوگا) اس عموم سے والدین (اوپر تک) مستثنیٰ ہیں۔ لہٰذا بیٹے کے قتل کے قصاص میں والدین کو قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ استثناء سنت میں وارد ہوا ہے۔ نیز قصاص کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد دلالت کرتا ہے کہ بیٹے کے قتل کی پاداش میں باپ کو قتل کرنا انصاف نہیں نیز اس لیے کہ باپ کا دل اپنے بیٹے کے لیے رحم اور شفقت سے لبریز ہوتا ہے جو اسے بیٹے کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ باپ کے دماغ میں کوئی خلل ہو یا بیٹے کی طرف سے اسے نہایت سخت اذیت پہنچی ہو۔ سنت نبوی ہی کی رو سے اس عموم سے کافر بھی خارج ہے۔ نیز اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ خطاب خاص طور پر اہل ایمان کے لیے ہے۔ نیز یہ قرین انصاف بھی نہیں کہ اللہ کے دشمن کے بدلے اللہ تعالیٰ کے دوست کو قتل کیا جائے اور غلام کے بدلے غلام کو قتل کیا جائے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ ان کی قیمت مختلف ہو یا برابر، مفہوم کلام یہ بھی دلالت کرتا ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، کیونکہ غلام آزاد کے مساوی نہیں ہوتا۔
بعض اہل علم نے ( وَالْاُنْـثٰی بِالْاُنْـثٰی) کے مفہوم سے یہ استدلال کیا ہے کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کرنا جائز نہیں اور اس کی وجہ گزشتہ سطور میں گزر چکی ہے (کہ یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے) اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اصل، قتل میں قصاص کا واجب ہونا ہے (یعنی قتل کے بدلے میں قتل ضروری ہے) اور دیت تو قصاص کا بدل ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ﴾” اگر اس (قاتل) کو اس کے (مقتول) بھائی سے کچھ معاف کردیا جائے۔“ یعنی اگر مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر کے دیت قبول کرلے یا مقتول کے اولیاء میں سے کوئی شخص قاتل کو معاف کر دے تو اس صورت میں قصاص ساقط ہوجائے گا اور دیت واجب ہوجائے گی۔ قصاص میں اختیار ہوگا اور مقتول کا ولی قصاص کی بجائے دیت لے سکتا ہے۔ جب مقتول کا ولی قاتل کو معاف کر دے تب اس پر واجب ہے کہ وہ قاتل سے معروف طریقے سے خون بہا کا مطالبہ کرے ﴿ بِالْمَعْرُوْفِ﴾” معروف طریقے سے‘‘ یعنی ایسے طریقے سے کہا اس پر شاق نہ گزرے اور اتنا زیادہ مطالبہ نہ کرے جس کو ادا کرنے کی قاتل میں طاقت نہ ہو، بلکہ نہایت احسن طریقے سے قاتل سے دیت کا تقاضا کرے اور اسے تنگی میں مبتلا نہ کرے۔ ﴿ وَاَدَاۗءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ۭ﴾” اور احسان کے ساتھ اسے ادا کرنا چاہئے۔“ یعنی قاتل پر واجب ہے کہ وہ ٹال مٹول، خون بہا میں کمی اور قولی یا فعلی تکلیف پہنچائے بغیر، بھلے طریقے سے دیت ادا کرے۔ معاف کردینے کے احسان کا بدلہ یہ ہے کہ خون بہا کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے۔ انسان پر لوگوں کی جو ذمہ داریاں واجب ہیں ان میں یہی اصول مامور بہ ہے کہ جس نے کسی سے اپنا حق لینا ہے، وہ اس امر پر مامور ہے کہ وہ معروف طریقے سے حق کا مطالبہ کرے اور جس کے ذمے حق ہے وہ اسے بھلے طریقے سے ادا کرے۔
﴿ فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ﴾ میں نرمی اختیار کرنے اور قصاص معاف کر کے دیت قبول کرنے کی ترغیب ہے۔ اس سے بھی زیادہ احسن بات یہ ہے کہ کچھ لیے بغیر ہی قاتل کو معاف کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (أخِیْہِ) اس بات کی دلیل ہے کہ قاتل کی تکفیر نہ کی جائے، کیونکہ یہاں ” اخوت“ سے مراد اخوت ایمانی ہے۔ پس قتل کے ارتکاب سے قاتل دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ جب بات یہ ہے تو دیگر معاصی کا مرتکب، جو کفر سے کم تر ہیں، بطریق اولیٰ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا البتہ اس سے اس کے ایمان میں کمی ضرور واقع ہوگی۔
اور جب مقتول کے اولیا یا ان میں سے کوئی ایک قاتل کو معاف کردیں تو قاتل کا خون محفوظ ہوجاتا ہے اور وہ مقتول کے اولیاء یا دیگر لوگوں کے قصاص لینے سے بچ جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ﴾ ” اگر کوئی اس کے بعد زیادتی کرتا ہے“ یعنی معاف کردینے کے بعد اگر کوئی شخص زیادتی کرتا ہے ﴿ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ تو (آخرت میں) اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “
رہا اس کو قتل کرنا یا نہ قتل کرنا تو یہ حکم گزشتہ آیت سے اخذ کیا جائے گا اور چونکہ (معاف کرنے کے بعد) اس نے قاتل کو محض بدلہ لینے کے لیے قتل کیا ہے، لہٰذا اس کے قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ﴿ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ کی تفسیر ” قتل“ کی ہے۔ نیز ان کا موقف ہے کہ یہ آیت اس قاتل کا قتل متعین کرتی ہے اور اس کو معاف کرنا جائز نہیں۔ تو بعض اہل علم اس کے قائل ہیں۔ لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، کیونکہ اس کا جرم دوسرے شخص کے جرم سے زیادہ نہیں ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jo log ( jaan boojh ker nahaq ) qatal kerdiye jayen unn kay baaray mein tum per qisaas ( ka hukum ) farz kerdiya gaya hai . azad kay badlay azad , ghulam kay badlay ghulam aur aurat kay badlay aurat ( hi ko qatal kiya jaye ) , phir agar qatil ko uss kay bhai ( yani maqtool kay waris ) ki taraf say kuch moaafi dey di jaye to maroof tareeqay kay mutabiq ( khoon baha ka ) mutalba kerna ( waris ka ) haq hai , aur ussay khush asloobi say ada kerna ( qatil ka ) farz hai . yeh tumharay perwerdigar ki taraf say aik aasani peda ki gaee hai aur aik rehmat hai . iss kay baad bhi koi ziyadti keray to woh dardnak azab ka mustahiq hai
12 Tafsir Ibn Kathir
قصاص کی وضاحت
یعنی اے مسلمانوں قصاص کے وقت عدل سے کام لیا کرو آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت اس بارے میں حد سے نہ بڑھو جیسے کہ اگلے لوگ حد سے بڑھ گئے اور اللہ کا حکم بدل دیا، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں بنوقریظہ اور بنونضیر کی جنگ ہوئی تھی جس میں بنونضیر غالب آئے تھے اب یہ دستور ہوگیا تھا کہ جب نضری کسی قرظی کو قتل کرے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ایک سو وسق کھجور دیت میں لی جاتی تھی اور جب کوئی قرظی نضری کو مار ڈالے تو قصاص میں اسے قتل کردیا تھا اور اگر دیت لی جائے تو دوگنی دیت یعنی دو سو وسق کھجور لی جاتی تھی پس اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم کو مٹایا اور عدل و مساوات کا حکم دیا، ابو حاتم کی روایت میں شان نزول یوں بیان ہوا ہے کہ عرب کے دو قبیلوں میں جدال و قتال ہوا تھا اسلام کے بعد اس کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور کہا کہ ہمارے غلام کے بدلے ان کا آزاد قتل ہو اور عورت کے بدلے مرد قتل ہو تو ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہے قرآن فرماتا ہے آیت (النفس بالنفس) پس ہر قاتل مقتول کے بدلے مار ڈالا جائے گا خواہ آزاد نے کسی غلام کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو خواہ مرد نے عورت کو قتل کیا ہو خواہ اس کے برعکس ہو، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ لوگ مرد کو عورت کے بدلے قتل نہیں کرتے تھے جس پر (اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِ ۙوَالْعَيْنَ بالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّ ۙ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ) 5 ۔ المائدہ :45) نازل ہوئی پس آزاد لوگ سب برابر ہیں جسن کے بدلے جان لی جائے گی خواہ قاتل مرد ہو خواہ عورت ہو اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو خواہ عورت ہو جب کہ ایک آزاد انسان نے ایک آزاد انسان کو مار ڈالا ہے تو اسے بھی مار ڈالا جائے گا اسی طرح یہی حکم غلاموں اور لونڈیوں میں بھی جاری ہوگا اور جو کوئی جان لینے کے قصد سے دوسرے کو قتل کرے گا وہ قصاص میں قتل کیا جائے گا اور یہی حکم قتل کے علاوہ اور زخمیوں کا اور دوسرے اعضاء کی بربادی کا بھی ہے، حضرت امام مالک (رح) بھی اس آیت کو آیت (النفس بالنفس) سے منسوخ بتلاتے ہیں۔
٭مسئلہ٭ امام ابوحنیفہ امام ثوری امام ابن ابی لیلی اور داؤد کا مذہب ہے کہ آزاد نے اگر غلام کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلے وہ بھی قتل کیا جائے گا، حضرت علی (رض) حضرت ابن مسعود (رض) حضرت سعید بن جبیر حضرت ابراہیم نخعی حضرت قتادہ اور حضرت حکم کا بھی یہی مذہب ہے، حضرت امام بخاری، علی بن مدینی، ابراہیم نخعی اور ایک اور روایت کی رو سے حضرت ثوری کا بھی مذہب یہی ہے کہ اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار ڈالے تو اس کے بدلے اس کی جان لی جائے گی دلیل میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے اور جو شخص اپنے غلام کو نکٹا کرے ہم بھی اس کی ناک کاٹ دیں گے اور جو اسے خصی کرے اس سے بھی یہی بدلہ لیا جائے، لیکن جمہور کا مذہب ان بزرگوں کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ غلام مال ہے اگر وہ خطا سے قتل ہوجائے تو دیت یعنی جرمانہ نہیں دینا پڑتا صرف اس کے مالک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور اسی طرح اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے نقصان پر بھی بدلے کا حکم نہیں۔ آیا مسلمان کافر کے بدلے قتل کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس بارے میں جمہور علماء امت کا مذہب تو یہ ہے کہ قتل نہ کیا جائے گا اور دلیل صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ حدیث (لا یقتل مسلم بکافر) مسلمان کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے، اس حدیث کے خلاف نہ تو کوئی صحیح حدیث ہے کہ کوئی ایسی تاویل ہوسکتی ہے جو اس کے خلاف ہو، لیکن تاہم صرف امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان کافر کے بدلے قتل کردیا جائے۔
مسئلہ٭٭ حضرت حسن بصری اور حضرت عطا کا قول ہے کہ مرد عورت کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور دلیل میں مندرجہ بالا آیت کو پیش کرتے ہیں لیکن جمہور علماء اسلام اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورة مائدہ کی آیت عام ہے جس میں آیت (النفس بالنفس) موجود ہے علاوہ ازیں حدیث شریف میں بھی ہے حدیث ( المسلون تتکافا دماء ھم) یعنی مسلمانوں کے خون آپس میں یکساں ہیں، حضرت لیث کا مذہب ہے کہ خاوند اگر اپنی بیوی کو مار ڈالے تو خاصتہ اس کے بدلے اس کی جان نہیں لی جائے۔
مسئلہ٭٭ چاروں اماموں اور جمہور امت کا مذہب ہے کہ کئی ایک نے مل کر ایک مسلمان کو قتل کیا ہے تو وہ سارے اس ایک کے بدلے قتل کر دئے جائیں گے۔ حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانہ میں ایک شخص کو سات شخص مل کر مار ڈالتے ہیں تو آپ ان ساتوں کو قتل کراتے ہیں اور فرماتے ہیں اگر صفا کے تمام لوگ بھی اس قتل میں شریک ہوتے تو میں قصاص میں سب کو قتل کرا دیتا۔ آپ کے اس فرمان کے خلاف آپ کے زمانہ میں کسی صحابی (رض) نے اعتراض نہیں کیا پس اس بات پر گویا اجماع ہوگیا۔ لیکن امام احمد سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ایک کے بدلے ایک ہی قتل کیا جائے زیادہ قتل نہ کیے جائیں۔ حضرت معاذ حضرت ابن زبیر عبدالملک بن مروان زہری ابن سیرین حبیب بن ابی ثابت سے بھی یہ قول مروی ہے، ابن المندر فرماتے ہیں یہی زیادہ صحیح ہے اور ایک جماعت کو ایک مقتول کے بدلے قتل کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت ابن زبیر (رض) سے یہ ثابت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو نہیں مانتے تھے پس جب صحابہ (رض) میں اختلاف ہوا تو اب مسئلہ غور طلب ہوگیا۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ کسی قاتل کو مقتول کا کوئی وارث کچھ حصہ معاف کر دے یعنی قتل کے بدلے وہ دیت قبول کرلے یا دیت بھی اپنے حصہ کی چھوڑ دے اور صاف معاف کر دے، اگر وہ دیت پر راضی ہوگیا ہے تو قاتل کو مشکل نہ ڈالے بلکہ اچھائی سے دیت وصول کرے اور قاتل کو بھی چاہئے کہ بھلائی کے ساتھ اسے دیت ادا کر دے، حیل وحجت نہ کرے۔
مسئلہ٭٭ امام مالک کا مشہور مذہب اور امام ابوحنیفہ اور آپ کے شاگردوں کا اور امام شافعی اور امام احمد کا ایک روایت کی رو سے یہ مذہب ہے کہ مقتول کے اولیاء کا قصاص چھوڑ کر دیت پر راضی ہونا اس وقت جائز ہے جب خود قاتل بھی اس پر آمادہ ہوا لیکن اور بزرگان دین فرماتے ہیں کہ اس میں قاتل کی رضامندی شرط نہیں۔
مسئلہ٭٭ سلف کی ایک جماعت کہتی ہے کہ عورت قصاص سے درگزر کر کے دیت پر اگر رضامند ہوں تو ان کا اعتبار نہیں۔ حسن، قتادہ، زہرہ، ابن شبرمہ، لیث اور اوزاعی کا یہی مذہب ہے لیکن باقی علماء دین ان کے مخالف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عورت نے بھی دیت پر رضامندی ظاہر کی تو قصاص جاتا رہے گا پھر فرماتے ہیں کہ قتل عمد میں دیت لینا یہ اللہ کی طرف سے تخفیف اور مہربانی ہے اگلی امتوں کو یہ اختیار نہ تھا، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں بنی اسرائیل پر قصاص فرض تھا انہیں قصاص سے درگزر کرنے اور دیت لینے کی اجازت نہ تھی لیکن اس مات پر یہ مہربانی ہوئی کہ دیت لینی بھی جائز کی گئی تو یہاں تین چیزیں ہوئیں قصاص دیت اور معانی اگلی امتوں میں صرف قصاص اور معافی ہی تھی دیت نہ تھی، بعض لوگ کہتے ہیں اہل تورات کے ہوں صرف قصاصا اور معافی تھی اور اہل انجیل کے ہاں صرف معافی ہی تھی۔ پھر فرمایا جو شخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یا دیت قبول کرلینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے اس کے لئے سخت دردناک عذاب ہے۔ مثلاً دیت لینے کے بعد پر قتل کے درپے ہو وغیرہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جس شخص کا کوئی مقتول یا مجروح ہو تو اسے تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا قصاص یعنی بدلہ لے لے یا درگزر کرے۔ معاف کر دے یا دیت یعنی جرمانہ لے لے اور اگر کچھ اور کرنا چاہے تو اسے روک دو ان میں سے ایک کرچکنے کے بعد بھی جو زیادتی کرے وہ ہمیشہ کے لئے جہنمی ہوجائے گا (احمد) دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے دیت وصول کرلی پھر قاتل کو قتل کیا تو اب میں اس سے دیت بھی نہ لوں گا بلکہ اسے قتل کروں گا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے عقلمندو قصاص میں نسل انسان کی بقاء ہے اس میں حکمت عظیمہ ہے گو بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک کے بدلے ایک قتل ہوا تو دو مرے لیکن دراصل اگر سوچو تو پتہ چلے گا کہ یہ سبب زندگی ہے، قاتل کو خود خیال ہوگا کہ میں اسے قتل نہ کروں ورنہ خود بھی قتل کردیا جاؤں گا تو وہ اس فعل بد سے رک جائے گا تو دو آدمی قتل وخون سے بچ گئے۔ اگلی کتابوں میں بھی یہ بات تو بیان فرمائی تھی کہ آیت (القتل انفی للقتل) قتل قتل کو روک دیتا ہے لیکن قرآن پاک میں بہت ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کیا گیا۔ پھر فرمایا یہ تمہارے بچاؤ کا سبب ہے کہ ایک تو اللہ کی نافرمانی سے محفوظ رہو گے دوسرے نہ کوئی کسی کو قتل کرے گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے گا زمین پر امن وامان سکون وسلام رہے گا، تقوی نیکیوں کے کرنے اور کل برائیوں کے چھوڑنے کا نام ہے۔