البقرہ آية ۱۸۳
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،
English Sahih:
O you who have believed, decreed upon you is fasting as it was decreed upon those before you that you may become righteous –
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے، ف۳۲۵)
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (١)۔
١٨٣۔١ صیامُ، صومُ (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے اللہ کی رضا کے لئے رُکے رہنا یہ عبادت چونکہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! روزہ اس طرح تم پر لکھ دیا گیا ہے (فرض کر دیا گیا ہے) جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھ دیا گیا تھا۔ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوںپر لکھے گئے تھے شایدتم اسی طرح متقی بن جاؤ
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔
آیت نمبر ١٨٣ تا ١٨٦
ترجمہ : اے ایمان والو ! تم پر اسی طرح روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم معاصی سے بچو بلاشبہ روزہ شہوت کو توڑ دیتا ہے جو کہ معصیت کا سرچشمہ ہے (ایَّامًا) صِیَامًا کی وجہ سے یا یصوموا مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، جو معدودے چند روزے ہیں جن کی تعداد معلوم ہے اور وہ رمضان کے روزے ہیں جیسا کہ عنقریب آئے گا، ماہ رمضان کے روزوں کو مکلفین پر سہولت کے لئے قلیل قرار دیا ہے، پس تم میں سے جو ماہ رمضان کی آمد کے وقت مریض یا مسافر ہو یعنی سفر قصر کی مسافت کا مسافر ہو اور دونوں صورتوں میں اس کو روزے سے مشقت ہو تو وہ افطار کرسکتا ہے، اس پر چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد کے مساوی دوسرے دنوں میں تعداد کو پورا کرنا لازم ہے، کہ ان کے بدلے روزے رکھے، اور جو و لوگ کبرسنی کی وجہ سے یا ایسے مرض کی وجہ سے جس سے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو روزہ نہ رکھ سکیں تو ان پر فدیہ واجب ہے (اور) وہ ایک مسکین کی خوراک ہے یعنی اتنی مقدار کہ جو ایک روز کی خوراک ہو اور وہ بقدر ایک مُد ہے، روز مررہ شہر کی عام خوراج سے، اور ایک قراءت میں فدیہ کی اضافت کے ساتھ ہے اور یہ اضافت بیانیہ ہے اور کہا گیا ہے کہ لَا مقدر نہیں ہے، اور ابتداء اسلام میں روزہ اور فدیہ میں اختیار تھا، پھر اللہ کے قول فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ کے ذریعہ اختیار منسوخ کردیا گیا ابن عباس (رض) نے فرمایا، حاملہ اور مرضعہ (دودھ پلانے والی) کا اختیار منسوخ نہیں ہوا، جب کہ اپنے بچے کے بارے میں (نقصان) کا اندیشہ ہو جس کی وجہ سے فدیہ ان دونوں کے حق میں بلانسخ باقی ہے، پھر جو شخص فدیہ کی مقدار مذکور میں بخوشی اضافہ کرے تو یہ بخوشی اضافہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھنا افطار اور فدیہ سے تمہارے لئے بہتر ہے أن تصُومُوا مبتداء اور خیرٌلکم اس کی خبر ہے، اگر تم سمجھو، کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے تو تم ان دنوں کے روزے رکھو ماہ رمضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے گمراہی سے ہدایت کرنے والا ہے اور ہدایت کی واضح نشانیاں ہیں جو حق یعنی احکام کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کرتا ہے لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی ماہ رمضان کو پائے تو اس کو روزہ رکھنا چاہیے اور جو شخص مریض یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے اس جیسا حکم سابق میں بھی گزر چکا ہے اور اس حکم کو مکرر لایا گیا ہے تاکہ فَمَنْ شَھِدَ کے عموم سے (حکم قضا کے) منسوخ ہونے کا وہم نہ ہو، اللہ تمہارے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے سختی کا نہیں اس لئے تمہارے لئے حالت و سفر میں افطار کو مباح قرار دیا، اور یُرِیدُ اللہ الخ کے بھی امر بالصوم (یعنی فَلْیَصُمہٗ ) کی علت کے معنی میں ہونے کی وجہ سے َلِتکمِلْوا الخ کا رُرِیدُ اللہ الخ پر عطف کیا گیا ہے، (وَلِتکمِلُوا) تخفیف و تشدید کے ساتھ، اور تاکہ رمضان کے روزوں کے عدد کو پورا کرو اور روزوں کو پورا کرنے بعد اس بات پر کہ اس میں تم کو ہدایت دی (یعنی) اپنے دین کے احکام کی طرف رہنمائی فرمائی، اللہ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم اس ہدایت پر اللہ کا شکر ادا کرو اور کچھ لوگوں نے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہمارا پروردگار آیا قریب ہے کہ اس سے سرگوشی کریں یا بعید ہے کہ اس کو زور سے پکاریں، تو آیت نازل ہوئی، اور جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو واقعہ یہ ہے) کہ میں ان سے باعتبار میرے علم کے بلاشبہ قریب ہوں آپ ان کو یہ بات بتادو ہر دعا کرنے والے کی دعا اس کا مطلوب عطا کرکے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ اطاعت کرکے میری بات مان لیا کریں۔ اور مجھ پر ایمان رکھیں (یعنی) ایمان پر دائم و قائم رہیں تاکہ وہ راہ راست پائیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : الصِّیام (ن) صَومًا وصِیَامًا لغت میں مطلقًا رکنا، اصطلاح شرع میں کھانے پینے اور جماع سے روزہ کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے غروب شمس تک رکنا۔ قولہ : مِنَ الاُمَمِ کا اضافہ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے عموم کو ظاہر کرنے کے لئے اور ان لوگوں کی تردید ہے جو اَلَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ سے نصاریٰ مراد لیتے ہیں، الصیام مصدر ہے بمعنی روزہ رکھنا۔ قولہ : المعاصی کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ تتقون سے لغوی معنی مراد ہیں اور المعاصی اس کا مفعول بہ ہے۔
قولہ : نُصِبَ بالصَّیامِ او بصوموْا مُقَدّرًا، کی تقدیر سے اَیّامًا کے منصوب ہونے کی دو صورتوں کی طرف اشارہ ہے، ایک تو یہ ہے کہ ایّامًا، الصِّیام مذکور کی وجہ سے منصوب ہے، مگر اس پر یہ اعتراض ہے کہ عامل اور معمول کے درمیان کما کتِبَ علی الذین من قبلکم کا فعل بالاجنبی ہے، لہٰذا الصِّیام عامل نہیں ہوسکتا، جواب اس کا یہ ہے کہ رضی (رح) تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر معمول ظرف ہو تو فصل بالاجنبی کے باوجود عمل درست ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ صُومُوْا مقدر مان لیا جائے، اس صورت میں کوئی اشکال نہیں۔
قولہ : ای قلَائِلَ ، معدُودَاتٍ کی تفسیر قَلائِلَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ معدودات سے مراد قلیل مقدار ہے اس لئے کہ عرب قلیل کو جو کہ چالیس سے کم ہو ” معدود “ سے اور کثیر کو ” موزون “ سے تعبیر کرتے ہیں، قلیل مال کو کہتے ہیں یُعَدُّ عدًّا اور کثیر کو یُصَبُّ صَبًّا بولتے ہیں، ای یُوزَنُ وزْنًا۔ قولہ : ای موقتاتٍ بعددٍ ای محدوداتٍ ، بعدد یہ قلائل کی تفسیر ہے معنی ہیں معدودے چند۔
قولہ : قَلَّلَہٗ تَسْھِیلًا علی المکلفین ماہ رمضان کے روزے اگرچہ بنفسہ کثیر ہیں مگر نفسیانی طور پر متاثر کرنے کے لئے تشجیع کے طور پر قلت سے تعبیر کردیا ہے تاکہ مکلفین کے لئے اداء صوم میں سہولت اور آسانی ہو۔
قولہ : حین شھودہٖ یعنی رمضان کی آمد کی وقت مریض ہو یا مسافر اس میں احتراز ہے اس صورت سے جب کہ حالت سفر یا حالت مرض میں روزہ شروع ہوجائے۔ قولہ : ای مسافِرًا سفر القصر اس میں سفر شرعی کی طرف اشارہ ہے۔
قولہ : اَجْھَدَہُ الصومُ فی الحالین فَافْطَرَ ای فی حالۃ المرض والسفر دونوں صورتوں میں افطار کی اجازت کے لئے مشقت کی شرط امام شافعی (رح) تعالیٰ کے قول کے مطابق ہے احناف کے نزدیک سفر میں مشقت کی شرط نہیں ہے سفر اگر آرام دہ بھی ہو تب بھی افطار کی اجازت ہے، مرض میں افظار کے لئے جہد و مشقت کی شرط ہے، اس لئے کہ بعض امراض میں روزہ مفید ہوتا ہے نہ کہ مضر، بخلاف سفر کے کہ سفر ہی کو قائم مقام مشقت مان لیا گیا ہے۔ قولہ : ھُدًی حال ہے بمعنی ھادِیًا، نہ کہ القرآن کی صفت اس لئے کہ ھدًی نکرہ اور القرآن معرفہ ہے۔ قولہ : وَکَرَّرَہُ لِئَلَّا یُتَوَھَّم نسخہ بتعمیم مَن شھِدَ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : مذکورہ آیت کو مکرر لانے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اللہ تعالیٰ کے قول فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہٗ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے روزے سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے، مریض ہو یا مسافر، مرضعہ ہو یا حامل، حالانکہ اول دو کے علاوہ سب مستثنیٰ ہیں خواہ مقیم ہو یا تندرست، اس لئے کہ فَمَنْ شَھِدَ عموم پر دلالت کرتا ہے، اسی وہم کو دفع کرنے کے لئے اس آیت کو مکرر لایا گیا ہے۔
قولہ : ولِکَون ذٰلک فی معنی العلۃ ایضا للامر بالصوم عُطِفَ علیہ ولتکمِلُوا اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کو دفع کرنا ہے۔
اعتراض : اعتراض کا ماحصل یہ ہے کہ یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الیُسْرَ الخ۔ فعدۃ من ایام اخر جملہ فعلیہ ہے اور اس پر ولتکمِلُوا العِدَّۃَ کا عطف ہے، اور یہ جملہ انشائیہ ہے اور جملہ انشائیہ کا جملہ خبر یہ پر عطف درست نہیں ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ معطوف علیہ یعنی یُریدُ اللہ بکم الیسر الخ علت کے معنی میں ہے اور ولتکملوا بھی علت کے معنی میں ہے لہٰذا علت کا علت پر عطف درست ہے۔ قولہ : وَلِتکبِّوُوا اللہ علیٰ ما ھدٰکم امر بالقضاء کی علت ثالثہ ہے۔
تفسیر و تشریح
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ ، صِیام روزہ رکھنا، باب نصر کا مصدر ہے۔ صوم کے لغوی معنی مطلقًا رکنا، اور اصطلاح شرح میں صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے، جماع سے روزہ کی نیت کے ساتھ رکنا، روزہ کسی نہ کسی شکل و صورت میں دنیا کے تقریباً ہر مذہب و قوم میں پایا جاتا ہے، قرآن چونکہ مشرکانہ مذاہب سے بحث نہیں کرتا اس لئے اَلَّذِیْنَ مِن قبلِکُمْ سے اہل کتاب ہی مراد ہیں، کمَا کُتِبَ یہ تشبیہ دوسری ملتوں کے ساتھ فرضیت صیام میں ہے نہ کہ تعداد اور شرائط و کیفیات صوم میں، فھُوَ تشبیہ فی الفرضیۃِ ولا تدخل فِیْہِ الکیفیۃُ والکمیَّۃُ ۔ (المنار)
روزہ کا جسمانی و روحانی فائدہ : لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ اس جملہ سے روزہ کی اصل غرض وغایت کی طرف اشارہ ہے، روزہ کا مقصد تقویٰ کی عادت ڈالنا اور امت کے افراد کو متقی بنانا ہے، تقویٰ نفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے، جس سے عالم آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہوجاتی ہے روزہ سے جہاں بہت سی جسمانی بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے وہیں بہت سی روحانی بیماریوں کا بھی کارگر اور محرب علاج ہے، جدید و قدیم سب طبیں اس پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دور کرنے کا بہترین علاج ہے اس کے علاوہ اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفس کی عادت پیدا ہوتی ہے، روزہ رکھنے سے بھوک خوب کھل کر لگتی ہے خون صالح پیدا ہوتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان فرماتے ہوئے ان پر روزے فرض کیے جس طرح اس نے پہلی امتوں پر روزے فرض کیے تھے، کیونکہ روزے کا تعلق ایسی شرائع اور اوامر سے ہے جو ہر زمانے میں مخلوق کی بھلائی پر مبنی ہیں۔ نیز روزے اس امت کو اس جرأت پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اعمال کی تکمیل اور خصائل حسنہ کی طرف سبقت کرنے میں دوسرے لوگوں سے مقابلہ کریں، نیز روزے بوجھل اعمال میں سے نہیں ہیں جن کا صرف تمہیں ہی بطور خاص حکم دیا گیا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روزے کی مشروعیت کی حکمت بیات کرتے ہوئے فرمایا : ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن﴾ ” تاکہ تم متقی بن جاؤ۔“ کیونکہ روزہ تقویٰ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لیے کہ روزے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی کامل اطاعت اور اس کی نہی سے مکمل اجتناب ہے۔ پس یہ آیت کریمہ تقویٰ کے جن امور پر مشتمل ہے وہ یہ ہیں کہ
روزہ دار کھانا پینا اور جماع وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جنہیں وقتی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے حرام قرار دیا ہے اور جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا ہے، لیکن وہ صرف تقریب الٰہی اور ثواب کی امید پر ان چیزوں کو ترک کردیتا ہے اور یہی تقویٰ ہے۔
روزے دار اپنے نفس کو یہ تربیت دیتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی نگرانی میں ہے، چنانچہ وہ اپنی خواہشات نفس کو پورا کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں ترک کردیتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ان پر مطلع ہے۔
روزہ شیطان کی راہوں کو تنگ کردیتا ہے۔ شیطان ابن آدم کے اندر یوں گردش کرتا ہے جیسے اس کی رگوں میں خون گردش کرتا ہے۔ روزے کے ذریعے سے شیطان کا اثر و نفوذ کمزور پڑجاتا ہے اور گناہ کم ہوجاتے ہیں۔
غالب حالات میں روزہ دار کی نیکیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور نیکیاں تقویٰ کے خصائل میں شمار ہوتی ہیں۔
جب خوشحال روزہ دار بھوک کی تکلیف کا مزا چکھ لیتا ہے تو یہ چیز محتاجوں اور ناداروں کی غمگساری اور دستگیری کی موجب بنتی ہے اور یہ بھی تقویٰ کی ایک خصلت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! tum per rozay farz kerdiye gaye hain , jiss tarah tum say pehlay logon per farz kiye gaye thay , takay tumharay andar taqwa peda ho
12 Tafsir Ibn Kathir
روداد روزہ اور صلوۃ
اللہ تعالیٰ اس امت کے ایمان داروں کو مخاطب کر کے انہیں حکم دے رہا ہے کہ روزے رکھو روزے کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس انسان پاک صاف اور طیب و طاہر ہوجاتا ہے ردی اخلاط اور بےہودہ اخلاق سے انسان کا تنقیہ ہوجاتا ہے، اس حکم کے ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزے رکھنے کا حکم تھا، اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریضہ کی بجاآوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا) 5 ۔ المائدہ :48) یعنی ہر ایک کے لئے ایک طریقہ اور راستہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا لیکن وہ تمہیں آزما رہا ہے تمہیں چاہئے کہ نیکیوں میں سبقت کرتے رہو، یہی یہاں بھی فرمایا کہ تم پر بھی روزے اسی طرح فرض ہیں جس طرح تم سے پہلے گزرنے والوں پر تھے، روزے سے بدن کو پاکیزگی ملتی ہے اور عمل شیطانی راہ پر چلنے سے رک جاتا ہے، بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اے جوانو تم میں سے جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرلے اور جسے طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے اس کے لئے یہ جوش کو سرد کردیتے ہیں پھر روزوں کی مقدار بیان ہو رہی ہے کہ یہ چند دن ہی ہیں تاکہ کسی پر بھاری نہ پڑے اور ادائیگی سے قاصر نہ رہ جائے بلکہ ذوق وشوق سے اس الٰہی فریضہ کو بجا لائے، پہلے تو ہر ماہ میں تین روزوں کا حکم تھا پھر رمضان کے روزوں کا حکم ہوا اور اگلا حکم منسوخ ہوا اس کا مفصل بیان آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت معاذ (رض) حضرت ابن مسعود (رض) حضرت ابن عباس (رض) عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے، حضرت ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کرلیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہوجاتا ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کرلیں، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر " قدنری " والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہوجاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آگئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے آیت اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لا الہ الا اللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں آیت قدقامت الصلوۃ بھی دو مرتبہ کہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت بلال (رض) کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چناچہ سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زید آچکے تھے۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہوچکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہوچکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا حضرت معاذ (رض) ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چناچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں، روزوں کی تبدیلیاں سنئے اول جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :183) نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت (فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) 2 ۔ البقرۃ :185) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہوگیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہوگئی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ یہ کیا بات ؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر (رض) نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کرلی اور حضور کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت (اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ :187) سے (ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ۚ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ) 2 ۔ البقرۃ :187) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی، بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا، حضرت ابن مسعود (رض) سے بھی یہ مروی ہے۔ آیت ( وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ ) 2 ۔ البقرۃ :184) کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی، حضرت ابن عمر بھی اسے منسوخ کہتے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو، ابن ابی لیلیٰ ، کہتے ہیں عطار (رح) کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کردیا، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بےطاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہوگا ہاں ایسے بوڑھے، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف ہے امام شافعی کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، دوسرا قول حضرت امام شافعی (رح) کا یہ ہے کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری (رح) کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک (رض) نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے، مسند ابو لیلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس (رض) روزہ رکھنے سے عاجز ہوگئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کرلیں بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں، بعض کہتے ہیں قضا کرلیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیر نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے فلحمد للہ (بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔ )