البقرہ آية ۱۹۶
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِۗ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْىِۚ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ الْهَدْىُ مَحِلَّهٗ ۗ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِهٖۤ اَذًى مِّنْ رَّأْسِهٖ فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُكٍۚ فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْۗ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْىِۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ فِى الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَهْلُهٗ حَاضِرِى الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِۗ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
طاہر القادری:
اور حج اور عمرہ (کے مناسک) اﷲ کے لئے مکمل کرو، پھر اگر تم (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جو قربانی بھی میسر آئے (کرنے کے لئے بھیج دو) اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک قربانی (کا جانور) اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے، پھر تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو (اس وجہ سے قبل از وقت سر منڈوالے) تو (اس کے) بدلے میں روزے (رکھے) یا صدقہ (دے) یا قربانی (کرے)، پھر جب تم اطمینان کی حالت میں ہو تو جو کوئی عمرہ کو حج کے ساتھ ملانے کا فائدہ اٹھائے تو جو بھی قربانی میّسر آئے (کر دے)، پھر جسے یہ بھی میّسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے (زمانۂ) حج میں رکھے اور سات جب تم حج سے واپس لوٹو، یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ (رعایت) اس کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مسجدِ حرام کے پاس نہ رہتے ہوں (یعنی جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو)، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے،
English Sahih:
And complete the Hajj and Umrah for Allah. But if you are prevented, then [offer] what can be obtained with ease of sacrificial animals. And do not shave your heads until the sacrificial animal has reached its place of slaughter. And whoever among you is ill or has an ailment of the head [making shaving necessary must offer] a ransom of fasting [three days] or charity or sacrifice. And when you are secure, then whoever performs Umrah [during the Hajj months] followed by Hajj [offers] what can be obtained with ease of sacrificial animals. And whoever cannot find [or afford such an animal] – then a fast of three days during Hajj and of seven when you have returned [home]. Those are ten complete [days]. This is for those whose family is not in the area of al-Masjid al-Haram. And fear Allah and know that Allah is severe in penalty.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرے کی نیت کرو، تو اُسے پورا کرو اور اگر کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کی جناب میں پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور اس بنا پر اپنا سر منڈوا لے، تو اُسے چاہیے کہ فدیے کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے (اور تم حج سے پہلے مکے پہنچ جاؤ)، تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب مقدور قربانی دے، اور ا گر قربانی میسر نہ ہو، تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر، اِس طرح پورے دس روزے رکھ لے یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے ہے، جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں اللہ کے اِن احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور حج اور عمرہ اللہ کے لئے پورا کرو پھر اگر تم روکے جاؤ تو قربانی بھیجو جو میسر آئے اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانے نہ پہنچ جائے پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہے تو بدلے دے روزے یا خیرات یا قربانی، پھر جب تم اطمینان سے ہو تو جو حج سے عمرہ ملانے کا فائدہ اٹھائے اس پر قربانی ہے جیسی میسر آئے پھر جسے مقدور نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات جب اپنے گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس کے لئے ہے جو مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے،
3 Ahmed Ali
اور الله کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو پس اگر روکے جاؤ تو جو قربانی سے میسر ہو اور اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اسے سر میں تکلیف ہو تو روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے فدیہ دے پھر جب تم امن میں ہو تو عمرہ سے حج تک فائدہ اٹھائے تو قربانی سے جو میسر ہو (دے) پھر جو نہ پائے تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھےاور سات جب تم لوٹو یہ دس پورے ہو گئے یہ ا س کے لیے ہے جس کا گھر بار مکہ میں نہ ہو اور الله سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله سخت عذاب دینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
حج اور عمرے کو اللہ تعالٰی کے لئے پورا کرو (١) ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالو (٢) اور سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے (٣) البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ لے خواہ صدقہ دے دے، خواہ قربانی کرے (٤) پس جب تم امن کی حالت میں ہو جاؤ تو جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے جسے طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی پر (٥) یہ پورے دس ہوگئے یہ حکم ان کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالٰی سخت عذاب دینے والا ہے۔
١٩٦۔١ یعنی حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اسکا پورا کرنا ضروری ہے چاہے نفلی حج و عمرہ ہو (امیرالتفسیر)
١٩٦۔٢ اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہو جائے تو ایک جانور بکری گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو وہیں ذبح کر کے سر منڈوا لو اور حلال ہو جاؤ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ٦ ہجری والے عمرے کی قضا ٧ ہجری میں دی۔
١٩٦۔٣ یعنی اس کو ایسی تکلیف ہو جائے کہ سر کے بال منڈوانے پڑ جائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے حدیث کی رو سے ایسا شخص ٦ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر دے یا تین روزے رکھے۔
١٩٦۔٤ حج کی تین قسمیں ہیں۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں۔
١٩٦۔٥ یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدیہ یا روزے رکھے اور یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد احرام کے رہنے والے نہ ہوں مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہو سکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا (کی خوشنودی) کے لئے حج اور عمرے کو پورا کرو۔ اور اگر (راستےمیں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ۔ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈالے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔ اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔ یہ پورے دس ہوئے۔ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل وعیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لئے پورا کرو، ہاں اگر تم روک لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو، اسے کرڈالو اور اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاه تک نہ پہنچ جائے البتہ تم میں سے جو بیمار ہو، یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈالے) تو اس پر فدیہ ہے، خواه روزے رکھ لے، خواه صدقہ دے دے، خواه قربانی کرے پس جب تم امن کی حالت میں ہوجاؤ تو جو شخص عمرے سے لے کر حج تک تمتع کرے، پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے، جسے طاقت ہی نہ ہو وه تین روزے تو حج کے دنوں میں رکھ لے اور سات واپسی میں، یہ پورے دس ہوگئے۔ یہ حکم ان کے لئے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں، لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور خدا کی (خوشنودی) کے واسطے حج و عمرہ کو تمام کرو۔ اور اگر کسی مجبوری میں گھر جاؤ تو پھر جو قربانی میسر ہو وہی کرو مگر اپنے سر اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنے ٹھکانہ تک نہ پہنچ جائے (جہاں اسے ذبح یا نحر کرنا ہے) اور جب تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور سر منڈوالے تو اس کا فدیہ (بدلہ) روزہ، خیرات یا قربانی ہے۔ پھر جب تمہیں امن و اطمینان حاصل ہو جائے تو جو شخص (حج تمتع کا) عمرہ کرکے حج کے موقع تک لذائذ سے فائدہ اٹھائے۔ تو وہ لازمی طور پر ممکنہ قربانی کرے۔ اور جسے قربانی نہ مل سکے تو وہ تین روزے تو حج کے دوران رکھے اور سات اس وقت جب واپس جائے۔ یہ ہو جائیں گے مکمل دس (روزے) یہ (حج تمتع) اس کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مسجد الحرام کے باشندہ نہ ہوں۔ (حدود حرم کے اندر نہ رہتے ہوں) اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو اور سمجھ لو کہ خدا سخت سزا دینے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے تمام کرو اب اگر گرفتار ہوجاؤ توجو قربانی ممکن ہو وہ دے دو اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے. اب جو تم میں سے مریض ہے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہے تو وہ روزہ یاصدقہ یا قربانی دے دے پھر جب اطمینان ہوجائے تو جس نے عمرہ سے حج تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دے دے اور قربانی نہ مل سکے تو تین روزے حج کے دوران اور سات واپس آنے کے بعد رکھے کہ اس طرح دس پورے ہوجائیں. یہ حج تمتع اور قربانی ان لوگوں کے لئے ہے جن کے اہلِ مسجدالحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے اور اللہ سے ڈرتے رہو اوریہ یاد رکھو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا (کی خوشنودی) کیلیے حج اور عمرے کو پور کرو اور اگر (راستے میں) روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کردو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈاؤ اور اگر کوئی تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سر منڈا لے تو) اس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے پھر جب (تکلیف دور ہو کر) تم مطمئن ہوجاؤ تو جو (تم میں) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ جیسی قربانی میسر ہو (کرے) اور جس کو (قربانی) نہ ملے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جس کے اہل و عیال مکہ میں نہ رہتے ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے
حج کی فرضیت : جمہور کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہجرت کے تیسرے سال یعنی غزوہ احد کے سال سورة آل عمران کی اس آیت سے ہوئی وَللہِ عَلَی النَّاس حِجُّ الْبیْتِ الخ۔ باتفاق مفسرین یہ آیت واقعہ حدیبیہ ٦ ھ میں نازل ہوئی اس آیت کا مقصد حج کی فرضیت کو بتلانا نہیں اس لئے کہ حج تو پہلے ہی فرض ہوچکا ہے اس آیت کا مقصد حج کے کچھ احکام بیان کرنا ہے۔ اَتمّوا الحج والعمرۃَ للہ، یعنی اگر راستہ میں کوئی ایسا سبب پیش آجائے جس کی وجہ سے آگے جانا ممکن نہ رہے اور مجبوراً رک جانا پڑے تو اونٹ، گائے، بکری، میں سے جو جانور بھی میسر ہو اللہ کے لئے قربانی کردو اس امر میں اختلاف ہے کہ قربانی کے اپنی جگہ پہنچ جانے سے کیا مراد ہے ؟ فقہاء حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد حرم ہے، یعنی محصر کے لئے اپنی قربانی کا جانور یا اس کی قیمت بھیج دے، تاکہ اس کی طرف سے حدود حرم میں قربانی کی جائے، اور امام مالک و شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک جہاں آدمی گھر گیا ہو تو وہیں قربانی کردینا مراد ہے۔
احصار اور مجبوری سے کیا مراد ہے : اس آیت میں دشمن کے حائل ہوجانے کی مجبوری تو صراحۃ مذکور ہے لہٰذا امام مالک (رح) تعالیٰ اور امام شافعی (رح) تعالیٰ مجبوری صرف دشمن کے حائل ہونے کو مانتے ہیں مگر امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ نے دشمن کے ساتھ اشتراک علت کی وجہ سے دیگر مجبوریوں مثلاً مرض وغیرہ کو بھی شامل کرلیا ہے۔ اس آیت میں سرمنڈانے کو احرام کھولنے کی علامت قرار دیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ حالت احرام میں سرمنڈانا یا بال کٹانا ممنوع ہے اسی مناسبت سے اگلا حکم یہ بیان فرمایا کہ اگر کسی بیماری وغیرہ کی مجبوری سے سرمنڈانے کی ضرورت پیش آئے تو بقدر ضرورت جائز ہے مگر اس کا فدیہ دینا لازم ہوگا فدیہ یہ ہے کہ روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے، قربانی کے لئے حدود حرم کی جگہ متعین ہے روزہ اور صدقہ کے لئے کوئی جگہ متعین نہیں ہر جگہ ادا کرسکتا ہے قرآن الفاظ میں روزوں اور صدقہ کی کوئی مقدار بیان نہیں کی گئی مگر حدیث شریف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرت کعب بن عجزہ (رض) صحابی کی ایک ایسی حالت میں یہ فرمایا تین روزے رکھیں یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع گندم بطور صدقہ دیں۔ (صحیح بخاری)
عمرہ کا حکم : ابن کثیر نے بحوالہ ترمذی، احمد، بیہقی حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ عمرہ واجب ہے ؟ آپ نے فرمایا واجب تو نہیں لیکن کرلو تو بہتر اور افضل ہے اس وجہ سے امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ وغیرہ کے نزدیک عمرہ واجب نہیں سنت ہے۔
حج تمتع و قران کے احکام : عرب جاہلیت کا خیال تھا کہ جب حج کا وقت یعنی شوال شروع ہوجائے تو ان ایام میں حج وعمرہ کا جمع کرنا سخت گناہ ہے اس آیت کے آخری حصہ میں ان کے اس خیال کی اصلاح اس طرح کردی گئی کہ حدود میقات کے اندر رہنے والوں کے لئے تو حج وعمرہ دونوں کو اشھر حج میں جمع کرنا ممنوع ہے کیوں ان کو اشھر حج کے بعد دوبارہ عمرہ کے لئے سفر کرنا مشکل نہیں لیکن حدود میقات کے باہر سے آنے والوں کے لئے دوبارہ عمرہ کے لئے سفر کرنا دشوار ہے اس لئے آفاقیوں یعنی دور کے رہنے والوں کے لئے حج وعمرہ کو جمع کرنا جائز ہے میقات وہ مقامات ہیں جو اطراف عالم سے آنے والوں کے ہر راستہ پر اللہ کی طرف سے متعین ہیں کہ جب بقصد مکہ آنے والا مسافر یہاں پہنچے تو یہاں سے حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھا لازم ہے بغیر احرام یہاں سے آگے بڑھنا جرم اور گناہ ہے ” لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلَہٗ حَاضِرِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ “ کا یہی مطلب ہے جس کے اہل و عیال مسجد حرام کے قرب و جوار یعنی حدود میقات کے اندر نہیں رہتے یعنی وہ حدود و میقات کے اندر کا باشندہ نہیں ہے اس کے لئے حج وعمرہ کو حج کے زمانہ میں جمع کرنا جائز ہے۔
متمتع پر شکریہ کے طور پر دم تمتع واجب ہے خواہ اونٹ، گائے، بکری جو بھی میسر ہو اور جو شخص قربانی نہ کرسکے تو اس پر دس روزے واجب ہیں تین روزے ایام حج میں رکھے یعنی نویں ذی الحجہ تک پورے کر دے باقی سات روزے حج سے فارغ ہو کر جہاں چاہے اور جب چاہے رکھے، اور اگر کوئی شخص ایام حج میں تین روزے نہ رکھ سکا تو پھر اس پر امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور اکابر صحابہ (رض) کے نزدیک قربانی ہی واجب ہے جب قدرت ہو کسی کے ذریعہ حرم میں قربانی کرا دے۔
تمتع اور قران میں فرق : تمتع کے معنی فائدہ اٹھانا، اور قرآن کے معنی ہیں ملانا، اشہر حج میں اگر میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھے یعنی احرام باندھتے وقت حج وعمرہ دونوں کی نیت کرلے تو یہ شخص قارن کہلاتا ہے یعنی حج وعمرہ کو ملانے والا، اس کا احرام درمیان میں کھلے گا نہیں آخر ہی میں دس ذی الحجہ کو کھلے گا۔ تمتع کا مطلب ہے ایک ہی سفر میں دو عبادتوں کا ثواب حاصل کرکے فائدہ اٹھانا، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ حاجی، میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھتا ہے مکہ جاکر عمرہ سے فارغ ہو کر احرام کھول دیتا ہے پھر آٹھویں ذی الحجہ کو منی جانے کے وقت حرم سے حج کا احرام باندھتا ہے اس کو اصطلاح میں حج تمتع اور ایسا کرنے والے کو متمتع کہتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿’ وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ ﴾ ’’اور پورا کرو حج اور عمرے کو“ سے متعدد امور پر استدلال کیا جاتا ہے۔
(١) حج اور عمرے کا وجوب اور ان کی فرضیت
(٢) حج اور عمرے کو ان ارکان و واجبات کے ساتھ پورا کرنا جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور آپ کا یہ قول اشارہ کرتا ہے( خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُم)” اپنے مناسك حج مجھ سے اخذ کرو“ [سنن البيهقي: 5؍ 125]
(٣) اس آیت کریمہ سے ان علماء کی تائید ہوتی ہے جو عمرے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
(٤) حج اور عمرہ کو، خواہ وہ نفلی ہی کیوں نہ ہوں جب شروع کردیا جائے تو ان کا اتمام واجب ہے۔
(٥) حج اور عمرے کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے اور یہ چیز حج اور عمرے کے لازمی افعال سے قدر زائد ہے۔
(٦) اس میں حج اور عمرے کو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(٧) حج اور عمرے کا احرام باندھنے والا ان کی تکمیل کئے بغیر احرام نہ کھولے سوائے اس صورتحال کے جس کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور وہ ہے (کسی وجہ سے) محصور ہوجانا۔
بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ﴾” پس اگر تم روک دیئے جاؤ“ یعنی اگر تم کسی مرض یا راستہ بھول جانے یا دشمن کے روک لینے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے حج اور عمرہ کی تکمیل کے لئے بیت اللہ نہ پہنچ سکو تو فرمایا : ﴿فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ۚ ﴾” تو جیسی قربانی میسر ہو۔“ یعنی (جو قربانی میسر ہو) ذبح کرو۔ یہ قربانی اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری ہے جسے محصور ذبح کرے گا۔ اس کے بعد وہ اپنا سرمنڈوائے اور احرام کھول دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ والے سال کیا تھا جب مشرکین مکہ نے آپ کو بیت اللہ جانے سے روک دیا تھا۔ اگر محصور کو قربانی نہ ملے تو اس کے بدلے دس روزے رکھے جیسا کہ تمتع کرنے والے کے لئے ضروری ہے اور اس کے بعد احرام کھول کر حلال ہوجائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ ﴾” اور اپنے سروں کو نہ منڈواؤ، یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے کو پہنچ جائے“ بالوں کو منڈوا کر یا کسی اور طریقے سے زائل کرنا احرام کے ممنوعات میں شمار ہوتا ہے۔ بال خواہ سر کے ہوں یا بدن کے کسی اور حصے کے، ان کو زائل کرنا منع ہے، کیونکہ احرام میں اصل مقصود بالوں کی پراگندگی اور ان کو زائل کر کے ان کی اصلاح کرنے کی ممانعت ہے اور وہ باقی بالوں میں بھی موجود ہے۔ بہت سے علماء نے زیب و زینت کے لئے ناخن ترشوانے کو بال منڈوانے پر قیاس کیا ہے اور مذکورہ تمام چیزیں اس وقت تک ممنوع ہیں جب تک کہ قربانی اپنے مقاصد پر نہ پہنچ جائے اور اس سے مراد قربانی کا دن ہے اور افضل یہ ہے کہ قربانی کرنے کے بعد بال اتروائے جائیں جیسا کہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ تمتع کرنے والا جب اپنے ساتھ قربانی لے کر آیا ہو تو وہ قربانی کے دن سے قبل اپنے عمرے کا احرام نہ کھولے۔ پس تمتع کرنے والا جب عمرے کے طواف اور سعی سے فارغ ہوجائے تو حج کا احرام باندھ لے اور اپنے ساتھ قربانی لانے کی وجہ سے اس کے لئے احرام کھولنا جائز نہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے (حَلْقَ) ” بال مونڈنے“ سے اس لئے منع فرمایا ہے کہ اس میں عاجزی، اللہ کے لئے خضوع اور انکسار ہے جو کہ بندے کے لئے عین مصلحت ہے اور اس میں اس کے لئے کوئی نقصان بھی نہیں۔ اگر سر میں کسی مرض، یا زخم یا جوؤں کی وجہ سے تکلیف ہو تو اس کے لئے سر کو منڈوانا جائز ہے البتہ فدیہ کے طور پر تین روزے رکھنا، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا جو قربانی کے لئے جائز ہو واجب ہے۔ ان میں سے جو کام چاہے اسے کرنے کا اختیار ہے۔ قربانی سب سے افضل ہے، اس کے بعد صدقہ اور پھر روزے۔
اسی طرح کے حالات میں اگر ناخن تراشنے، سر ڈھانپنے، سلا ہوا کپڑا پہننے یا خوشبو لگانے کی ضرورت لاحق ہو تو ضرورت کے وقت ایسا کرنا جائز ہے البتہ مذکورہ بالا فدیہ کی مانند فدیہ دینا واجب ہے۔ اس تمام صورت میں اصل مقصد آسودگی کے مظاہر سے دور رہنا ہے۔ پھر فرمایا : ﴿ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ﴾” پس جب تم امن میں ہوجاؤ“ یعنی جب تم دشمن وغیرہ کی رکاوٹ کے بغیر بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہو ﴿ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ ﴾” پس جو حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔“ یعنی جو عمرہ کو حج کے ساتھ ملا دے اور عمرہ سے فارغ ہو کر اپنے تمتع سے فائدہ اٹھائے ﴿ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ۚ﴾” تو وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے۔“ یعنی اس پر واجب ہے کہ وہ قربانی دے جو میسر ہو اور وہ ایسا جانور ذبح کرے جو قربانی کے لئے جائز ہو۔
یہ قربانی حج کی قربانی ہے جو ان دو عبادات کے مقابل میں ہے جو اسے ایک ہی سفر میں حاصل ہوئیں، علاوہ ازیں یہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکرانہ ہے جو اسے عمرہ سے فراغت کے بعد اور مناسک حج شروع کرنے سے پہلے تمتع سے استفادہ کرنے کی صورت میں حاصل ہوئی اور اسی کی مثل حج قران ہے، کیونکہ اس میں بھی (حج تمتع کی طرح) دو عبادات کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ مفرد حج کرنے والے شخص پر قربانی واجب نہیں۔ آیت کریمہ تمتع کے جواز بلکہ تمتع کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے نیز اس پر بھی کہ حج کے مہینوں میں تمتع جائز ہے۔ ﴿ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ ﴾” پس جو شخص نہ پائے“ یعنی جس کے پاس قربانی یا اس کی قیمت موجود نہ ہو ﴿ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ ﴾” تو تین روزے رکھنے ہیں حج کے دنوں میں“ ان روزوں کا پہلا جواز تو یہ ہے کہ انہیں عمرہ کے احرام کے ساتھ ہی رکھا جائے اور ان کا آخری وقت یوم النحر کے بعد کے تین دن ہیں، رمی جمار اور منی میں شب باشی کے ایام، البتہ افضل یہ ہے کہ یہ روزے ساتویں، آٹھویں اور نویں ذوالحج کو رکھے جائیں۔
﴿ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ۭ﴾” اور سات (روزے) اس وقت جب تم گھر لوٹو“ یعنی جب تم اعمال حج سے فارغ ہوجاؤ تو ان روزوں کو مکہ مکرمہ میں رکھنا بھی جائز ہے، واپسی سفر کے دوران راستے میں اور گھر پہنچ کر بھی رکھے جاسکتے ہیں۔ ﴿ ذٰلِکَ﴾” یہ“ یعنی تمتع کرنیوالے پر قربانی کا واجب ہونا ﴿ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۭ﴾” اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں“ یعنی یہ صرف اس شخص کے لئے ہے جو نماز قصر کرنے یا اس سے زیادہ فاصلے پر رہتا ہو یا اتنا دور رہتا ہو جسے عرف میں دور سمجھا جاتا ہو۔ اس شخص پر ایک ہی سفر میں دو عبادات کے ثواب کے حصول کی بنا پر قربانی واجب ہے۔
جو کوئی مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے پاس رہتا ہے، تو اس پر عدم موجب کی بنا پر قربانی واجب نہیں۔ ﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾” اور اللہ سے ڈرو“ یعنی اپنے تمام امور میں،اس کے اوامر کی اطاعت اور اس کی نواہی سے اجتناب کرتے ہوئے۔ اسی زمرے میں حج کے ان اوامر کی اطاعت اور ان ممنوعات سے اجتناب ہے جو کہ اس آیت کریمہ میں مذکور ہیں۔ ﴿وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ” اور جان لو کہ اللہ سخت عذاب دینے والا ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو سخت سزا دیتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ یہی (خوف عذا) تقویٰ کا موجب ہے، کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے وہ ان تمام امور سے اجتناب کرتا ہے جو عذاب کے موجب ہیں۔ جیسے جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتا ہے وہ ایسے کام کرتا ہے جو ثواب کے کے موجب ہیں اور جو کوئی عذاب سے نہیں ڈرتا اور ثواب کی امید نہیں رکھتا وہ حرام میں گھس جاتا ہے اور فرائض کو چھوڑ دینے کی جرأت کا مرتکب ہوتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hajj aur umrah Allah kay liye poora poora ada kero , haan agar tumhen rok diya jaye to jo qurbani moyassar ho , ( Allah kay huzoor paish kerdo ) . aur apney sar uss waqt tak naa mundao jab tak qurbani apni jagah naa phonch jaye . haan agar tum mein say koi shaks beemar ho , ya uss kay sar mein koi takleef ho to rozon ya sadqay ya qurbani ka fidya dey . phir jab tum aman hasil kerlo to jo shaks hajj kay sath umray ka faeeda bhi uthaye woh jo qurbani moyassar ho ( Allah kay huzoor paish keray ) . haan agar kissi kay paas iss ki taqat naa ho to woh hajj kay dino mein teen rozay rakhay , aur saat ( rozay ) uss waqt jab tum ( gharon ko ) loat jao . iss tarah yeh kul das rozay hon gay . yeh hukum unn logon kay liye hai jinn kay ghar walay masjid-e-haram kay paas naa rehtay hon . aur Allah say dartay raho , aur jaan rakho kay Allah ka azab bara sakht hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
حج اور عمرہ کے مسائل
اوپر چونکہ روزوں کا ذکر ہوا تھا پھر جہاد کا بیان ہوا اب حج کا تذکرہ ہو رہا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو پورا کرو، ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرے کو شروع کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئے، تمام علماء اس پر متفق ہیں کہ حج و عمرے کو شروع کرنے کے بعد ان کا پورا کرنا لازم ہے گو عمرے کے واجب ہونے اور مستحب ہونے میں علماء کے دو قول ہیں جنہیں ہم نے پوری طرح کتاب الاحکام میں بیان کردیا ہے فللہ الحمد والمنۃ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ پورا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو حضرت سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ ان کا تمام کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم اپنے گھر سے احرام باندھو تمہارا سفر صرف حج و عمرے کی غرض سے ہو میقات پہنچ کر لبیک پکارنا شروع کردو تمہارا ارادہ تجارت یعنی کسی اور دنیوی غرض کا نہ ہو، کہ نکلے تو اپنے کام کو اور مکہ کے قریب پہنچ کر خیال آگیا کہ آؤ حج وعمرہ بھی کرتا چلوں گو اس طرح بھی حج وعمرہ ادا ہوجائے لیکن یہ پورا کرنا نہیں پورا کرنا یہ ہے کہ صرف اسی ارادے سے گھر سے نکلو حضرت مکحول فرماتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ انہیں میقات سے شروع کرے، حضرت عمر فرماتے ہیں ان کا پورا کرنا یہ ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ ادا کرے اور عمرے کو حج کے مہینوں میں نہ کرے اس لئے کہ قرآن شریف میں ہے آیت (اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ) 2 ۔ البقرۃ :197) حج کے مہینے مقرر ہیں قاسم بن محمد فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا پورا ہونا نہیں ان سے پوچھا گیا کہ محرم میں عمرہ کرنا کیسا ہے ؟ کہا لوگ اسے تو پورا کہتے تھے لیکن اس قول میں شبہ ہے اس لئے کہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار عمرے کئے اور چاروں ذوالقعدہ میں کئے ایک سن\0\06ہجری میں ذوالقعدہ کے مہینے میں، دوسرا ذوالقعدہ سن\0\07ہجری میں عمرۃ القضاء تیسرا ذوالقعدہ سن\0\08ہجری میں عمرۃ الجعرانہ، چوتھا ذوالقعدہ سن\01\00ہجری میں حج کے ساتھ، ان عمروں کے سوا ہجرت کے بعد آپ کا اور کوئی عمرہ نہیں ہوا، ہاں آپ نے ام ہانی (رض) نے آپ کے ساتھ حج کے لئے جانے کا ارادہ کرلیا تھا لیک سواری کی وجہ سے ساتھ نہ جاسکیں جیسے کہ بخاری شریف میں یہ واقعہ منقول ہے حضرت سعید بن جبیر (رح) تو صاف فرماتے ہیں کہ یہ ام ہانی (رض) کے لیے ہی مخصوص ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حج و عمرے کا احرام باندھنے کے بعد بغیر پورا کئے چھوڑنا جائز نہیں، حج اس وقت پورا ہوتا ہے جبکہ قربانی والے دن جمرہ عقبہ کو کنکر مار لے اور بیت اللہ کا طواف کرلے اور صفا مروہ کے درمیان دوڑ لے اب حج ادا ہوگیا، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں حج عرفات کا نام ہے اور عمرہ طواف ہے حضرت عبداللہ کی قرأت یہ ہے آیت ( واتموا الحج والعمرۃ الی البیت) عمرہ بیت اللہ تک جاتے ہی پورا ہوگیا، حضرت سعید بن جبیر سے جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا حضرت ابن عباس کی قرأت بھی یہی تھی، حضرت علقمہ بھی یہی فرماتے ہیں ابراہیم سے مروی ہے حدیث (واقیموا الحج والعمرۃ الی البیت ) ، حضرت شعبی کی قرأت میں والعمرۃ ہے وہ فرماتے ہیں عمرہ واجب نہیں گو اس کے خلاف بھی ان سے مروی ہے، بہت سی احادیث میں بہت سندوں کے ساتھ حضرت انس (رض) اور صحابہ (رض) کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے، ایک اور حدیث میں ہے عمرہ حج میں قیامت تک کے لئے داخل ہوگیا ابو محمد بن ابی حاتم نے اپنی کتاب میں اپنی کتاب میں ایک روایت وارد کی ہے کہ ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور زعفران کی خوشبو سے مہک رہا تھا اس نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے احرام کے بارے میں کیا حکم ہے اس پر یہ آیت اتری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا وہ سائل کہاں ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اپنے زعفرانی کپڑے اتار ڈال اور خوب مل کر غسل کرلو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کرلو اور جو اپنے حج میں کرتا ہے وہی عمرے میں بھی کر یہ حدیث غریب ہے اور یہ سیاق عجیب ہے بعض روایتوں میں غسل کا اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر نہیں، ایک روایت میں اس کا نام یعلی بن امیہ آیا ہے دوسری روایت میں صفوان بن امیہ (رض) واللہ اعلم۔ پھر فرمایا اگر تم گھیر لئے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو کر ڈالو مفسرین نے ذکر کیا کہ یہ آیت سن\0\06ہجری میں حدیبیہ کے میدان میں اتری جبکہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ جانے سے روکا تھا اور اسی بارے میں پوری سورة فتح اتری اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو رخصت ملی کہ وہ اپنی قربانیوں کو وہیں ذبح کر ڈالیں چناچہ ستر اونٹ ذبح کئے گئے سر منڈوائے گئے اور احرام کھول دئیے گئے اول مرتبہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کو سن کر لوگ ذرا جھجھکے اور انہیں انتظار تھا کہ شاید کوئی ناسخ حکم اترے یہاں تک کہ خود آپ باہر آئے، اور اپنا سر منڈوانے والوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بال کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کیجئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر سر منڈاوانے والوں کے لیے یہی دعا کی، تیسری مرتبہ کتروانے والوں کے لئے بھی دعا کردی، سات سات شخص ایک ایک اونٹ میں شریک تھے صحابہ کی کل تعداد چودہ سو تھی حدیبیہ کے میدان میں ٹھہرے ہوئے تھے جو حد حرم سے باہر تھا گو یہ بھی مروی ہے کہ حد حرم کے کنارے پر تھے واللہ اعلم۔ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ حکم صرف ان لوگوں کے لئے ہی ہے جنہیں دشمن گھیرے یا کسی بیماری وغیرہ سے بھی کوئی مجبور ہوجائے تو اس کے لئے بھی رخصت ہے کہ وہ اسی جگہ احرام کھول ڈالے اور سر منڈوالے اور قربانی کر دے، حضرت ابن عباس تو صرف پہلی قسم کے لوگوں کے لئے ہی بتاتے ہیں، ابن عمر، طاؤس، زہری اور زید بن اسلم بھی یہی فرماتے ہیں، لیکن مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ جس شخص کا ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے یا بیمار ہوجائے یا لنگڑا لولا ہوجائے تو وہ حلال ہوگیا وہ اگلے سال حج کرلے راوی حدیث کہتا ہے کہ میں نے اسے ابن عباس اور ابوہریرہ سے ذکر کیا انہوں نے بھی فرمایا سچ ہے سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے، حضرت ابن مسعود، ابن زبیر، علقمہ سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، مجاہد، نخعی، عطا اور مقاتل بن حیان سے بھی یہی مروی ہے کہ بیمار ہوجانا اور لنگڑا لولا ہوجانا بھی ایسا ہی عذر ہے، حضرت سفیان ثوری ہر مصیبت و ایذاء کو ایسا ہی عذر بتاتے ہیں، بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی صاحبزادی ضباعہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کرتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرا ارادہ حج کا ہے لیکن میں بیمار رہتی ہوں آپ نے فرمایا حج کو چلی جاؤ اور شرط کرلو کہ میرے احرام سے فارغ ہونے کی وہی جگہ ہوگی جہاں میں مرض کی وجہ سے رک جاؤں اسی حدیث کی بنا پر بعض علماء کرام کا فتویٰ ہے کہ حج میں شرط کرنا ناجائز ہے، امام شافعی بھی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو میرا قول بھی یہی ہے، حضرت امام بیہقی فرماتے ہیں یہ حدیث باکل صحیح پس امام صاحب کا مذہب بھی یہی ہوا فالحمد للہ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو قربانی میسر ہو اسے قربان کر دے، حضرت علی فرماتے ہیں یعنی ایک بکری ذبح کر دے، ابن عباس فرماتے ہیں اونٹ ہو گائے ہو بکری ہو بھیڑ ہو ان کے نر ہوں۔ ان آٹھوں قسموں میں سے جسے چاہے ذبح کرے، ابن عباس سے صرف بکری بھی مروی ہے اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا اور چاروں اماموں کا بھی یہی مذہب ہے، حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف اونٹ اور گائے ہی ہے، غالبًا ان کی دلیل حدیبیہ والا واقعہ ہوگا اس میں کسی صحابی سے بکری کا ذبح کرنا منقول نہیں، گائے اور اونٹ ہی ان بزرگوں نے قربان کئے ہیں، بخاری ومسلم میں حضرت جابر (رض) سے مروی ہے کہ ہمیں اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم سات سات آدمی گائے اور اونٹ میں شریک ہوجائیں، حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ جس جانور کے ذبح کرنے کی وسعت ہو اسے ذبح کر ڈالے، اگر مالدار ہے تو اونٹ اس سے کم حیثیت والا ہے تو گائے ورنہ پھر بکری حضرت عروہ فرماتے ہیں مہنگے سستے داموں پر موقوف ہے، جمہور کے اس قول کی کہ بکری کافی ہے کہ یہ دلیل ہے کہ قرآن نے میسر آسان ہونے کا ذکر فرمایا ہے یعنی کم سے کم وہ چیز جس پر قربانی کا اطلاق ہو سکے اور قربانی کے جانور اونٹ گائے بکریاں اور بھیڑیں ہییں جیسے حبر البحر ترجمان قرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا فرمان ہے، بخاری ومسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ بکری کی قربانی کی۔ پھر فرمایا جب تک قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے تم اپنے سروں کو نہ منڈواؤ، اس کا عطف آیت (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ :196) پر ہے، آیت (فان احصرتم) پر نہیں امام ابن جریر سے یہاں سہو ہوگیا ہے وجہ یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے حدیبیہ والے سال جبکہ مشرکین رکاوٹ بن گئے تھے اور آپ کو حرم میں نہ جانے دیا تو حرم سے باہر ہی سب نے سر بھی منڈوائے اور قربانیاں بھی کردیں، لیکن امن کی حالت میں جبکہ حرم میں پہنچ سکتے ہوں تو جائز نہیں جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے اور حاجی حج و عمرے کے جملہ احکام سے فارغ نہ ہولے اگر وہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھے ہوئے ہو تو ان میں سے ایک کو کرنے والے ہو تو خواہ اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو خواہ تمتع کی نیت کی ہو، بخاری مسلم میں ہے کہ حضرت ام المومنین حفصہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! سب تو احرام کھول ڈالے لیکن آپ تو احرام میں ہی ہیں آپ نے فرمایا ہاں میں نے اپنا سر منڈوا لیا ہے اور اپنی قربانی کے جانور کے گلے میں علامت ڈال دی ہے جب تک یہ ذبح نہ ہوجائے میں احرام نہیں اتار سکتا۔ پھر حکم ہوتا ہے کہ بیمار اور سر کی تکلیف والا شخص فدیہ دے دے صحیح بخاری شریف میں ہے عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں کوفے کی مسجد میں حضرت کعب بن عجرہ (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے لوگ اٹھا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے جوئیں میرے منہ پر چل رہی تھیں آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تمہاری حالت یہاں تک پہنچ گئی ہوگی میں خیال بھی نہیں کرسکتا کیا تمہیں اتنی طاقت نہیں کہ ایک بکری ذبح کر ڈالو میں نے کہا حضور ! میں میں تو مفلس آدمی ہوں آپ نے فرمایا جاؤ اپنا سر منڈوا دو اور تین روزے رکھ لینا یا چھ مسکینوں کو آدھا آدھا صاع (تقریبا سوا سیر سوا چھٹانک) اناج دے دینا یہ آیت میرے بارے میں اتری ہے اور حکم کے اعتبار سے ہر ایک ایسے معذور شخص کو شامل ہے ایک اور روایت میں ہے کہ میں ہنڈیا تلے آگ سلگا رہا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھے یہ مسئلہ بتایا، ایک اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حدیبیہ کا ہے اور میرے سر پر بڑے بڑے بال تھے جن میں بکثرت جوئیں ہوگئی تھیں، ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ پھر میں نے سر منڈوا دیا اور ایک بکری ذبح کردی، ایک اور حدیث میں ہے (نسک) یعنی قربانی ایک بکری ہے اور روزے اگر رکھے تو تین رکھے اگر صدقہ دے تو ایک فرق (پیمانہ) چھ مسکینوں کے درمیان تقسیم کردینا ہے، حضرت علی، محمد بن کعب، علقمہ، ابراہیم، مجاہد، عطا، سدی اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فتویٰ ہے، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت کعب بن عجرہ (رض) کو تینوں مسئلے بتا کر فرما دیا تھا کہ اس میں سے جس پر تم چاہو عمل کرو کافی ہے، حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں جہاں دو تین صورتیں لفظ " او " کے ساتھ بیان ہوئی ہوں وہاں اختیار ہوتا ہے جسے چاہے کرلے، حضرت مجاہد، عکرمہ، عطاء، طاؤس، حسن، حمید، اعرج، ابراہیم نخعی اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے چاروں اماموں کا اور اکثر علماء کا بھی یہی مذہب ہے کہ اگر چاہے روزے رکھ لے اگر چاہے صدقہ کر دے اگر چاہے قربانی کرلے روزے تین ہیں صدقہ ایک فرق یعنی تین صاع یعنی آٹھ سیر میں آدھی چھٹانک کم ہے چھ مسکینوں پر تقسیم کر دے اور قربانی ایک بکری کی ہے، ان تینوں صورتوں میں سے جو چاہے کرلے، پروردگار رحمن ورحیم کو چونکہ یہاں رخصت دینی تھی اس لئے سب سے پہلے روزے بیان فرمائے جو سب سے آسان صورت ہے، صدقہ کا ذکر کیا پھر قربانی کا، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چونکہ افضلیت پر عمل کرانا تھا اس لئے پہلے قربانی کا ذکر کیا پھر چھ مسکینوں کو کھلانے کا پھر تین روزے رکھنے کا، سبحان اللہ دونوں مقام کے اعتبار سے دونوں ترکیبیں کس قدر درست اور برمحل ہیں فالحمد للہ سعید بن جبیر سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو فرماتے ہیں کہ غلہ کا حکم لگایا جائے گا اگر اس کے پاس ہے تو ایک بکری خرید لے ورنہ بکری کی قیمت درہموں سے لگائی جائے اور اس کا غلہ خریدا جائے اور صدقہ کردیا جائے ورنہ ہر آدھے صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے، حضرت حسن فرماتے ہیں جب محرم کے سر میں تکلیف ہو تو بال منڈوا دے اور اور ان تین میں سے ایک فدیہ ادا کر دے روزے دس ہیں، صدقہ دس مسکینوں کا کھانا بتلاتے ہیں لیکن یہ اقوال ٹھیک نہیں اس لئے کہ مرفوع حدیث میں آچکا ہے کہ روزے تین ہیں اور چھ مسکینوں کا کھانا ہے اور ان تینوں صورتوں میں اختیار ہے قربانی کی بکری کر دے خواہ تین روزے رکھ لے خواہ چھ فقیروں کو کھانا کھلا دے، ہاں یہ ترتیب احرام کی حالت میں شکار کرنے والے پر ہے جیسے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہیں اور فقہاء کا اجماع ہے لیکن یہاں ترتیب ضروری نہیں اختیار ہے، طاؤس فرماتے ہیں یہ قربانی اور یہ صدقہ مکہ میں ہی کر دے لیکن روزے جہاں چاہے رکھ لے، ایک اور روایت میں ہے ابو اسماء جو ابن جعفر کے مولیٰ ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) حج کو نکلے آپ کے ساتھ حضرت علی اور حضرت حسین (رض) بھی تھے میں ابو جعفر کے ساتھ تھا ہم نے دیکھا کہ ایک شخص سویا ہوا ہے اور اس کی اونٹنی اس کے سرہانے بندھی ہوئی ہے میں نے اسے جگایا دیکھا تو وہ حضرت حسین تھے ابن جعفر انہیں لے کر چلے یہاں تک کہ ہم سقیا میں پہنچے وہاں بیس دن تک ہم ان کی تیمارداری میں رہے ایک مرتبہ حضرت علی نے پوچھا کیا حال ہے ؟ جناب حسین نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا آپ نے حکم دیا کہ سر منڈوا لو پھر اونٹ منگوا کر ذبح کردیا، تو اگر اس اونٹ کا نحر کرنا احرام سے حلال ہونے کے لئے تھا تو خیر اور اگر یہ فدیہ کے لئے تھا تو ظاہر ہے کہ مکہ کے باہر یہ قربانی ہوئی۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمتع والا شخص بھی قربانی کرے، خواہ حج و عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھا ہو یا پہلے عمرے کا احرام باندھا ہو یا اس سے فارغ ہو کر حج کا احرام باندھ لیا ہو، اصل تمتع یہی ہے اور فقہاء کے کلام میں بھی مشہور یہی ہے اور عام تمتع ان دونوں قسموں میں شامل ہے، جیسے کہ اس پر صحیح حدیثیں دلالت کرتی ہیں بعض راوی تو کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود حج تمتع کیا تھا بعض کہتے ہیں آپ قارن تھے اور اتنا سب کہتے ہیں کہ قربانی کے جانور آپ کے ساتھ تھے، پس آیت میں یہ حکم ہے کہ تمتع کرنے والا جس قربانی پر قادر ہو وہ کر ڈالے جس کا ادنی درجہ ایک بکری کو قربان کرنا ہے گو گائے کی قربانی بھی کرسکتا ہے چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی جو سب کی سب تمتع والی تھیں (ابن مردویہ) اس سے ثابت ہوا کہ تمتع بھی مشروع ہے، عمران بن حصین (رض) فرماتے ہیں کہ تمتع کی آیت بھی قرآن میں نازل ہوچکی ہے اور ہم نے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تمتع کیا پھر نہ تو قرآن میں اس کی ممانعت نازل ہوئی نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے روکا لیکن لوگوں نے اپنی رائے سے اسے ممنوع قرار دیا، امام بخاری (رح) فرماتے ہیں اس سے مراد غالبًا حضرت عمر (رض) ہیں حضرت امام المحدثین کی یہ بات بالکل صحیح ہے، حضرت عمر سے منقول ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر ہم کتاب اللہ کو لیں تو اس میں بھی حج و عمرے کے پورا کرنے کا حکم موجود ہے آیت (وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ :196) لیکن یہ یاد رہے کہ لوگ بکثرت بیت اللہ شریف کا قصد حج و عمرے کے ارادے سے کریں جیسے کہ آپ سے صراحۃ مروی ہے (رض) پھر فرمایا جو شخص قربانی نہ کرسکے وہ تین روزے حج میں رکھ لے اور سات روزے اس وقت رکھ لے جب حج سے لوٹے یہ پورے دس ہوجائیں گے، یعنی قربانی کی طاقت جسے نہ ہو وہ روزے رکھ لے تین تو ایام حج میں اور بقیہ بعد میں، علماء کا فرمان ہے کہ اولیٰ یہ ہے کہ یہ روزے عرفے سے پہلے ذی الحج کے دنوں میں رکھ لے حضرت طاؤس مجاہد وغیرہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اول شوال میں بھی یہ روزے جائز ہیں، حضرت شعبی وغیرہ فرماتے ہیں روزوں کو اگر عرفہ کے دن کا روزہ شامل کر کے ختم کرے تو بھی اختیار ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہ منقول ہے کہ اگر عرفے سے پہلے دو دنوں میں دو روزے رکھ لے اور تیسرا عرفہ کے دن ہو تو بھی جائز ہے، حضرت ابن عمر (رض) بھی فرماتے ہیں ایک روزہ یوم الترویہ سے پہلے ایک یوم الترویہ کا اور یک عرفہ کا، حضرت علی (رض) کا فرمان بھی وہی ہے۔ اگر کسی شخص سے یہ تینوں روزے یا ایک دو چھوٹ گئے ہوں اور ایام تشریق یعنی بقروعید کے بعد کے تین دن آجائیں تو حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر (رض) کا فرمان ہے کہ وہ ان دنوں میں بھی یہ روزے رکھ سکتا ہے (بخاری) امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے، حضرت عکرمہ، حسن بصری اور عروہ بن زبیر سے بھی شامل ہے، حضرت امام شافعی کا نیا قول یہ ہے کہ ان دنوں میں یہ روزے ناجائز ہیں، کیونکہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔ پھر سات روزے لوٹنے کے وقت اس سے مراد یا تو یہ ہے کہ جب لوٹ کر اپنی قیام گاہ پہنچ جاؤ پس لوٹتے وقت راستہ میں بھی یہ سات روزے رکھ سکتا ہے مجاہد اور عطا یہی کہتے ہیں، یا مراد وطن میں پہنچ جانے سے ہے ابن عمر (رض) یہی فرماتے ہیں اور بھی بہت سے تابعین کا یہی مذہب ہے بلکہ ابن جریر تو اس پر اجماع بتاتے ہیں، بخاری شریف کی ایک مطول حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں عمرے کا حج کے ساتھ تمتع کیا اور قربانی دی ذوالحلیفہ سے آپ نے قربانی ساتھ لے لی تھی عمرے کے پھر حج کی تہلیل کی لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ تمتع کیا بعض لوگوں نے تو قربانی ساتھ ہی رکھ لی تھی۔ بعض کے ساتھ قربانی کے جانور نہ تھے مکہ شریف پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی ہے وہ حج ختم ہونے تک احرام میں رہے اور جس کے ساتھ قربانی نہیں وہ بیت اللہ شریف کا طواف کر کے صفا مروہ کے درمیان دوڑ کر احرام کھول ڈالے سر کے بال منڈوالے یا کتروالے پھر حج کا احرام باندھے اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو تین روزے تو حج میں رکھ لے اور سات روزے جب اپنے وطن پہنچے تب رکھ لے (بخاری) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سات روزے وطن میں جانے کے بعد ہیں۔ پھر فرمایا یہ پورے دس ہیں یہ فرمان تاکید کے لئے ہے جیسے عربوں میں کہا جاتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کانوں سے سنا ہاتھ سے لکھا اور قرآن میں بھی ہے آیت (ولا طائر یطیر بجناحیہ) نہ کوئی پرندہ جو اپنے دونوں پروں سے اڑتا ہو اور جگہ ہے آیت ( وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ ) 39 ۔ العنکبوت :48) تو اپنے دائیں ہاتھ سے لکھنا نہیں، اور جگہ ہے ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تیس راتوں کا وعدہ دیا اور دس اور اس کے ساتھ پورا کیا اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا، اور اس کے رب کا وقت مقررہ چالیس راتوں کو پورا ہوا، پس جیسے ان سب جگہوں میں صرف تاکید ہے ایسے ہی یہ جملہ بھی تاکید کے لئے ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام و کمال کرنے کا حکم ہے اور کاملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ قربانی کے بدلے کافی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے یہ حکم ان لوگوں کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں، اس پر تو اجماع ہے کہ حرم والے تمتع نہیں کرسکتے حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں، بلکہ آپ سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے مکہ والو تم تمتع نہیں کرسکتے باہر والوں کے لئے تمتع ہے تم کو تو ذرا سی دور جانا پڑتا ہے تھوڑے سا فاصلہ طے کیا پھر عمرے کا احرام باندھ لیا، حضرت طاؤس کی تفسیر بھی یہی ہے، لیکن حضرت عطاء (رح) فرماتے ہیں کہ میقات یعنی احرام باندھنے کے مقامات کے اندر ہوں وہ بھی اسی حکم میں ہیں، ان کے لئے بھی تمتع کرنا جائز نہیں، مکحول بھی یہی فرماتے ہیں، تو عرفات والوں کا مزدلفہ والوں کا عرفہ اور رجیع کے رہنے والوں کا بھی یہی حکم ہے، زہری فرماتے ہی مکہ شریف سے ایک دن کی راہ کے فاصلہ پر ہو یا اس کے قریب وہ تو تمتع کرسکتا ہے اور لوگ نہیں کرسکتے، حضرت عطاء دو دن بھی فرماتے ہیں، امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ اہل حرم اور جو اتنے فاصلے پر ہوں کہ وہاں مکی لوگوں کے لئے نماز قصر کرنا جائز نہ ہو ان سب کے لئے یہی حکم ہے اس لئے کہ یہ سب حاضر کہے جائیں گے ان کے علاوہ سب مسافر، اور ان سب کے لئے حج میں تمتع کرنا جائز ہے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اس کے احکام میں بجا لاؤ جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے رک جاؤ اور یقین رکھو کہ اس کے نافرمانوں کو وہ سخت سزا کرتا ہے۔