البقرہ آية ۱۹۷
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِى الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ ۗ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ۖ وَاتَّقُوْنِ يٰۤاُولِى الْاَلْبَابِ
طاہر القادری:
حج کے چند مہینے معیّن ہیں (یعنی شوّال، ذوالقعدہ اور عشرہء ذی الحجہ)، تو جو شخص ان (مہینوں) میں نیت کر کے (اپنے اوپر) حج لازم کرلے تو حج کے دنوں میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے اور نہ کوئی (اور) گناہ اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کرے، اور تم جو بھلائی بھی کرو اﷲ اسے خوب جانتا ہے، اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو، بیشک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے، اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو،
English Sahih:
Hajj is [during] well-known months, so whoever has made Hajj obligatory upon himself therein [by entering the state of ihram], there is [to be for him] no sexual relations and no disobedience and no disputing during Hajj. And whatever good you do – Allah knows it. And take provisions, but indeed, the best provision is fear of Allah. And fear Me, O you of understanding.
1 Abul A'ala Maududi
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کرو گے، وہ اللہ کے علم میں ہوگا سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لے جاؤ، اور سب سے بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے پس اے ہوش مندو! میر ی نا فرمانی سے پرہیز کرو
2 Ahmed Raza Khan
حج کے کئی مہینہ ہیں جانے ہوئے تو جو ان میں حج کی نیت کرے تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا حج کے وقت تک اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل والو، ف۳۷۸)
3 Ahmed Ali
حج کے چند مہینے معلوم ہیں سو جو کوئي ان میں حج کا قصد کرے تو مباثرت جائز نہیں اور نہ گناہ کرنا اور نہ حج میں لڑائي جھگڑا کرنا اور تم جو نیکی کرتے ہو الله اس کو جانتا ہے اور زادِ راہ لے لیا کرو اور بہترین زادِ راہ پرہیزگاری ہے اور اے عقلمندوں مجھ سے ڈرو
4 Ahsanul Bayan
حج کے مہینے مقرر ہیں (١) اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے (١) تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالٰی باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالٰی کا ڈر ہے (٢) اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔
١٩٧۔١ اور یہ ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذوا لحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے اس لئے اسکا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر)
١٩٧۔٢ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسقْ و فجور سے بچا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔
١٩٧۔٣ تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید کی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے۔ اور جو نیک کام تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زاد راہ (کا) پرہیزگاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو
6 Muhammad Junagarhi
حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج ﻻزم کرلے وه اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناه کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو
7 Muhammad Hussain Najafi
حج کے چند خاص جانے پہچانے مقررہ مہینے ہیں۔ تو جو شخص ان (مہینوں) میں (اپنے اوپر) حج کی پابندی احرام باندھ کر فرض کر لے تو پھر حج کے دوران نہ (بیوی سے) مباشرت کرے۔ نہ (خدا کی) نافرمانی کرے اور نہ (کسی سے) لڑائی جھگڑا کرے اور تم جو کچھ نیکی کا کام کروگے تو خدا اسے جانتا ہے اور (آخرت کے سفر کے لئے) زادِ راہ مہیا کرو (اور سمجھ لو) کہ بہترین زادِ راہ تقویٰ (پرہیزگاری) ہے۔ اور اے عقل مندو! مجھ سے (میری نافرمانی سے) ڈرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
حج چند مقررہ مہینوں میں ہوتا ہے اور جو شخص بھی اس زمانے میں اپنے اوپر حج لازم کرلے اسے عورتوں سے مباشرتً گناہ اور جھگڑے کی اجازت نہیں ہے اور تم جو بھی خیر کرو گے خدا اسے جانتا ہے اپنے لئے زادُ راہ فراہم کرو کہ بہترین زادُ راہ تقویٰ ہے اوراے صاحبانِ عقل! ہم سے ڈرو
9 Tafsir Jalalayn
حج کے مہینے (معین ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج (کے دنوں) میں نہ تو عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے اور نیک کام جو تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہوجائے گا اور زاد راہ (یعنی راستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادِراہ (کا) پرہیزگاری ہے اور (اے) اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو
آیت نمبر ١٩٧ تا ٢٠٣
ترجمہ : حج کا وقت متعین مہینے ہیں (اور وہ) شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں اور کہا گیا ہے کہ ذی الحجہ کا پورا مہینہ ہے تو جس نے ان مہینوں میں حج کا احرام باندھ کر اپنے اوپر حج لازم کرلیا تو نہ اس کے لئے (حالت) احرام میں فحش بات جماع جائز ہے اور نہ ارتکاب معاصی اور نہ حج میں لڑائی جھگڑا ہے اور ایک قراءت میں اول دونوں (رَفَثَ اور فُسُوْقَ ) میں فتحہ ہے یعنی (مبنی برفتحہ) اور (نفی کے) تین صیغوں سے نہی مراد ہے اور جو بھی تم کار خیر کرتے ہو مثلا صدقہ اللہ اس سے باخبر ہے، تو وہ تم کو اس کا صلہ دے گا اور اہل یمن کے بارے میں (آئندہ آیت) نازل ہوئی جو بغیر زادراہ کے حج کرتے تھے، جس کی وجہ سے لوگوں پر بوجھ بنتے تھے اور اتنی مقدار زادراہ ہمراہ لے لیا کرو جو تمہارے سفر کے لئے کافی ہو بلاشبہ بہترین زادراہ خدا کا خوف ہے کہ جس کی وجہ سے لوگوں سے سوال وغیرہ (مثلاً چوری غصب وغیرہ) سے بچے، اور اے دانشمندو مجھ ہی سے ڈرو، تمہارے لئے اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تم حج میں تجارت کے ذریعہ اپنے رب کا فضل (روزی) طلب کرو ان کے طلب رزق کو ناپسند کرنے کی تردید کے لئے یہ آیت نازل ہوئی اور جب تم وقوف عرفہ کے بعد عرفات سے لوٹو تو مزدلفہ میں رات گذارنے کے بعد مشعر حرام کے پاس تلبیہ اور تہلیل اور دعاء کے ذریعہ اللہ کا ذکر کرو (مشعر حرام) مزدلفہ کے آخر میں ایک پہاڑ ہے، اس کو قزح کہا جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جگہ اللہ کے ذکر کے ساتھ قیام فرمایا، اور آپ دعاء کرتے رہے یہاں تک کہ خوب اجالا ہوگیا (رواہ مسلم) اور اللہ کا ذکر کرو اس لئے کہ اس نے تم کو اپنے دین اور حج کے احکام کی ہدایت دی ہے اور بلاشبہ تم اِنْ مخففہ ہے، اس کی ہدایت سے پہلے گمراہوں میں سے تھے، اے قریشیو ! تم بھی وہیں سے واپس ہوا کرو جہاں سے سب لوگ واپس ہوتے ہیں یعنی عرفات سے، اس طریقہ سے کہ تم بھی ان کے ساتھ وہاں قیام کرو، اور قریشی دیگر لوگوں پر برتری جتانے کے لئے مزدلفہ میں قیام کرتے تھے، ثمّ ، ترتیب ذکری کے لئے ہے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو بیشک اللہ مومنوں کو معاف کرنے والا ہے ان پر رحم کرنے والا ہے جب تم اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، بایں طور کہ تم جمرہ عقبہ کی رمی کر چکو اور حلق کرا چکو اور منی میں قیام پذیر ہوجاؤ تو تکبیر و ثنا کے ذریعہ اللہ کا ذکر کرو جیسا کہ تم اپنے آباء و اجداد کا ذکر کیا کرتے تھے، یعنی جس طرح حج سے فارغ ہونے کے بعد تفاخر کے طور ہر ان کا ذکر کیا کرتے تھے، بلکہ ان کا ذکر کرنے سے بھی بڑھ کر، اَشَدُّ ، ذکرًا سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جو اذکروا کی وجہ سے منصوب ہے اس لئے کہ اگر (ذکراً ) سے مؤخر ہوتا تو اس کی صفت ہوتا اور ان میں بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب تو ہم کو ہمارا حصہ دنیا ہی میں دیدے، تو اس کو دنیا ہی میں دیدیا جاتا ہے، ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی کوئی حصہ نہیں، اور ان میں بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب تو ہمیں دنیا میں بھی بھلائی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطاء فرمانا اور وہ جنت ہے اور تو ہم کو آگ کے عذاب سے بچا اس میں داخل نہ کرکے یہ مشرکین کے طریقہ اور مؤمنین کے حال کا بیان ہے اور اس کا مقصد دارین کی خیر طلب کرنے کے ترغیب دلانا ہے، جیسا کہ اس پر (اللہ نے) اپنے قول ” اُولٰئِکَ لَھُمْ نصیبٌ“ سے وعدہ کیا ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے اجر ہے ان کے اعمال کا جو انہوں نے حج اور دعاء کے ذریعہ کئے، اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے کہ پوری مخلوق کا حساب دنیا کے دنوں کے اعتبار سے نصف دن میں چکا دے گا، اس مضمون کی حدیث وارد ہونے کی وجہ سے اور جمرات کی رمی کے وقت تکبیر کے ذریعہ، چند دن یعنی ایام تشریق کے تین دنوں میں اللہ کا ذکر کرو اور جس نے جلدی کی یعنی منی سے روانہ ہونے سے عجلت سے کام لیا، یعنی ایام تشریق میں دوسرے دن رمی جمار کرنے کے بعد تو اس عجلت کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ نہیں اور جس نے تاخیر کی یہاں تک کہ تیسری رات گزاری اور اس دن کی رمی جمار کرلی تو اس میں اس پر کوئی گناہ نہیں یعنی ان کو اس میں اختیار ہے اور گناہ نہ ہونا اس شخص کے لئے ہے جو اپنے حج میں اللہ سے ڈرتا ہو اس لئے درحقیقت وہی حاجی ہے اور اللہ سے ڈرو اور سمجھ لو کہ تم کو آخرت میں اس کی طرف جمع کیا جائے گا اور وہ تم کو تمہارے اعمال کی جزاء دے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اَلحج وَقْتُہٗ ۔ سوال : لفظ، وقتُہٗ ، کا اضافہ کس مقصد سے کیا گیا ہے ؟ جواب : مضاف محذوف ہے ای وقت الحج، حج کا وقت، اگر مضاف محذوف نہ مانا جائے تو مصدر کا حمل ذات پر لازم آتا ہے جو کہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ تقدیر عبارت یہ ہوگی، اَلحجُّ اَشْھُرٌ، حج مہینے ہیں، حالانکہ مہینے حج نہیں ہیں بلکہ حج کے اوقات ہیں مضاف محذوف ماننے سے مذکورہ اعتراض ختم ہوگیا۔
قولہ : وقیل کلّہٗ ، قیل کے قائل امام مالک (رح) تعالیٰ ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک ذی الحجہ کا پورا مہینہ شہر حج میں شامل ہے۔
قولہ : بالاحرام بہٖ ۔ سوال : بالاحرام بہٖ کے اضافہ کا کیا فائدہ ہے ؟ جواب : یہ ائمہ کے اختلاف کی طرف اشارہ ہے، امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک صرف نیت اور احرام باندھنے سے حج لازم ہوجاتا ہے، مگر امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک تلبیہ یا سوق ہدی سے لازم ہوتا ہے۔ قولہ : جِماعَ فِیْہِ ، جِماعَ کا اضافہ تو بیان معنی کے لئے ہے مگر فِیْہِ کے اضافہ کا کیا مقصد ہے ؟
جواب : لَارَفَثَ ، فَمَنْ فَرَضَ شرط، کی جزاء ہے اور جزاء کے لئے جملہ ہونا شرط ہے حالانکہ لارَفَثَ جملہ تامہ نہیں ہے، اس لئے کہ لانفی جنس ہے اور رَفَثَ اس کا اسم ہے اور خبر ندارد ہے، لہٰذا جملہ ناقصہ ہوا، رَفَثَ کو جملہ تامہ بنانے کے لئے فیہِ محذوف ماننا ضروری ہے تاکہ جائزٌ وغیرہ کے متعلق ہو کر لائے نفی جنس کی خبر ہوسکے اور لائے نفی جنس اپنے اسم و خبر سے مل کر شرط کی جزاء واقع ہوسکے
قولہ : وفی قراء ۃٍ اس اضافہ کا مقصد اختلاف قراءت کو بیان کرنا ہے، فَلَارَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ میں چار قراءتیں ہوسکتی ہیں، مگر مفسر علام نے دو کی طرف اشارہ کیا ہے غالباً مفسر علام کے پیش نظر قرآن کریم کا وہ نسخہ ہے جس میں تینوں پر رفع ہے، اسی لئے فرمایا، کہ ایک قراءت میں پہلے دو پر فتحہ ہے اور جِدَالُ ، پر رفع ہی ہے، وہ چار قراءتیں یہ ہیں، (١) تینوں کا نصب (٢) تینوں کا رفع، (٣) پہلے دو کا رفع اور تیسرے کا نصب (٤) پہلے دو کا نصب اور تیسرے کا رفع۔
قولہ : وَالمراد فی الثلثۃِ النھی، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : لَارَفَثَ وَلَا فسوقَ ، وَلَاجِدَالَ یہ تینوں نفی کے صیغے ہیں ان میں خبر دی گئی ہے کہ حج میں نہ فحش بات کا وجود ہے اور نہ فسق اور لڑائی جھگڑے کا، حالانکہ مشاہدہ ہے کہ تینوں چیزیں حج میں واقع ہوتی ہیں حالانکہ خدائی کلام میں تخلف اور کذب نہیں ہوسکتا۔
جواب : نفی سے مراد نہی ہے اس لئے کہ مقصد، لا ترفُثوا، لَا تَفْسُقوا، ولا تجادِلوا ہے یعنی حج میں مذکورہ تینوں کام نہ کرو۔
سوال : نہی کو نفی سے تعبیر کرنے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : دراصل نہی میں مبالغہ مقصود ہے اور اس بات پر دلالت مقصود ہے کہ مذکورہ تینوں کام حج میں ہرگز نہیں ہونے چاہئیں۔
قولہ تعالیٰ : وَمَا تفعلوا۔ سوال : لَارَفَثَ ، لَا ترفثوا، کے معنی میں ہونے کی وجہ سے جملہ انشائیہ ہے اور وَمَا تَفْعَلُوا، جملہ خبریہ ہے حالانکہ وَمَا تَقْعَلُوا کا عطف وَلَا رَفَثَ پر ہے اور یہ عطف خبر علی الانشاء کے قبیل سے ہے جو کہ جائز نہیں ہے۔ جواب : مَاتَفْعَلُوا تاویل میں امر کے ہے ای اِفْعَلُوْا، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : والکاف للتعلیل یعنی کما ھداکم میں کاف تشبیہ کے لئے نہیں بلکہ تعلیل کے لئے ہے، یعنی تم اللہ کا ذکر اس لئے کرو کہ اس نے تم کو احکام دین کی ہدایت عطا فرمائی۔ قولہ : وَاِنْ مخففۃ، یہ ان لوگوں پر رد ہے جو ان کو نافیہ مانتے ہیں اس لئے کہ لَمِن الضّالِّین، میں لام علامت ہے اس بات کی کہ اِنَّ ، مخففہ عن المثقلۃ ہے ورنہ تو لَمِن الضالین کے لام کو اِلّا، کے معنی میں لینا ہوگا جو کہ خلاف اصل ہے۔
قولہ : ثُمَّ للترتیب فی الذکر، یہ ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : اوپر عرفات سے روانہ ہونے کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ کے قول فَاِذَآ افَضْتُمْ مِّنْ عَرَفَاتٍ ، پھر اس کے بعد ثُمَّ اَفِیْضُوا مِن حَیثُ اَفَاضَ الناس میں مزدلفہ سے روانگی کا ذکر ہے حالانکہ ترتیب خارجی اس کے برعکس ہے اس لئے کہ اول عرفات سے روانگی ہوتی ہے اس کے بعد مزدلفہ سے ہوتی ہے۔ جواب : ثمَّ ترتیب خارجی کے لئے نہیں بلکہ ترتیب ذکری کے لئے ہے۔
قولہ : ونصبُ اَشَدَّ ، علی الحال، اس اضافہ کا مقصد اَشَدَّ ، کے نصب کی وجہ بیان کرنا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اَشَدَّ ذِکرًا، اذکروا کا مفعول مطلق سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اگر اشدَّ ذِکرًا، سے مؤخر ہوتا صفت ہونے کی وجہ سے منصوب ہوتا، موصوف نکرہ پر جب صفت مقدم ہوجاتی ہے تو پھر وہ حال واقع ہوتی ہے، یہی صورت یہاں ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
تفسیر و تشریح
اَلْحِجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ، حج کے ایام معلوم و متعین ہیں اور وہ شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے اول دس دن ہیں مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال بھر میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص ایام ہی میں ہوسکتا ہے بعض ائمہ کے نزدیک تو حج کا احرام ایام حج سے پہلے باندھنا جائز ہی نہیں ایسے شخص کا حج ہی نہ ہوگا، امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک حج تو ہوجائے گا، البتہ ایام حج سے پہلے احرام باندھنا مکروہ ہے۔ احرام کی حالت میں نہ صرف یہ کہ تعلق زن و شو ممنوع ہے بلکہ ان کے درمیان کوئی ایسی گفتگو بھی نہ ہونی چاہیے جو رغبت شہوانی پر مبنی ہو۔
رَفَث : ایک جامع لفظ ہے جس میں عورت سے مباشرت اور اس کے مقدمات یہاں تک کہ زبان سے عورت کے ساتھ مباشرت کی کھلی گفتگو کرنا بھی داخل ہے، تعریض و کنایہ میں مضائقہ نہیں۔
فسوق : کے لفظی معنی خروج کے ہیں اصطلاح قرآن میں عدول حکمی اور نافرمانی کو کہا جاتا ہے بعض حضرات نے یہاں بھی فسوق کے عام معنی مراد لئے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) نے اس جگہ فسوق کی تفسیر مخطورات احرام سے فرمائی ہے، ظاہر ہے کہ اس مقام کے یہی تفسیر مناسب ہے۔ (معارف)
جدال : یہ لفظ بھی اپنے معنی کے اعتبار سے بہت عام ہے لڑائی جھگڑے کو کہتے ہیں اور بعض حضرات مفسرین نے بھی عام معنی مراد لئے ہیں اور بعض حضرات نے حج و احرام کی مناسبت سے ایک مخصوص معنی مراد لئے ہیں وہ یہ کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ مقام وقوف میں اور اسی طرح اوقات حج میں اختلاف رکھتے تھے، کچھ لوگ عرفات میں وقوف ضروری سمجھتے تھے اور کچھ مزدلفہ میں اسی طرح کچھ لوگ ذی الحجہ میں حج کرتے تھے اور کچھ لوگ ذیقعدہ میں اور ان معاملات و مسائل میں نزاع اور جھگڑے کرتے تھے اور ایک دوسرے کو گمراہ کہتے تھے۔ قرآن کریم نے لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ، کہہ کر جھگڑوں کا خاتمہ فرما دیا، اور جو بات صحیح اور حق تھی وہ بیان فرما دی۔
وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَیٰ ، بعض لوگ زمانہ جاہلیت میں حج کے لئے زادراہ ساتھ لے کر نکلنے کو ایک دنیا دارانہ فعل سمجھتے تھے، اس معاملہ میں یمن کے لوگ زیادہ غلو کرتے تھے اور زادراہ ہمراہ لینے کو خلاف توکل سمجھتے تھے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ خود بھی کلیف اٹھاتے تھے، اور دوسروں کے لئے بھی بار بنتے تھے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس غلط خیال کی تردید فرما دی اور بتادیا کہ زادراہ ہمراہ نہ لینا نہ کوئی خوبی ہے اور نہ تقوے کی بات، اصل خوبی اللہ کا خوف اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے اجتناب ہے جس شخص کا باطن تقوے سے عاری ہوا گروہ زادراہ ہمراہ نہ لے تو یہ محض ظاہر میں فقیری کی نمائش ہے، اس کا کو ئئی فائدہ نہیں ایسا شخص خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں ذلیل ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ خبر دیتاہے ﴿ اَلْحَجُّ﴾ یعنی حج واقع ہوتا ہے ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینوں (میں) “ جو مخاطبین کے ہاں معلوم اور معروف ہیں جن کی تخصیص کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ روزوں کے لئے اس کے مہینے کے تعین کی ضرورت پیش آئی اور جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات بیان فرمائے ہیں۔ رہا حج تو یہ ملت ابراہیم کا رکن ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہمیشہ سے معروف رہا ہے اور وہ لوگ حج کرتے چلے آئے ہیں۔ جمہور اہل علم کے نزدیک ﴿ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ ﴾” معلوم مہینے“ سے مراد شوال، ذیقعد اور ذوالحج کے پہلے دس دن ہیں۔ یہی وہ مہینے ہیں جن میں غالب طور پر حج کے لئے احرام باندھا جاتا ہے۔
﴿ فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾” تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے۔“ یعنی جو کوئی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھتا ہے، کیونکہ جو کوئی حج شروع کردیتا ہے تو اس کا اتمام اس پر فرض ہوجاتا ہے خواہ حج نفلی ہی کیوں نہ ہو۔
اس آیت کریمہ سے امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب استدلال کرتے ہیں کہ حج کے مہینوں سے قبل حج کے لئے احرام باندھنا جائز نہیں ہے۔
میں (عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) کہتا ہوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ آیت کریمہ جمہور اہل علم کے اس مسلک پر دلالت کرتی ہے کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کے لئے احرام باندھنا صحیح ہے تو ایسا کہنا زیادہ قرین صحت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ﴾ دلالت کرتا ہے کہ حج کی فرضیت کبھی تو مذکورہ مہینوں میں واقع ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اسے مقید نہ کرتا۔
﴿ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ ۙوَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ۭ﴾’’ تو دل لگی کی باتیں نہیں کرنا، نہ گناہ کرنا اور نہ جھگڑا کرنا ہے حج میں“ یعنی تم پر حج کے احرام کی تعظیم کرنا فرض ہے خاص طور پر جبکہ وہ حج کے مہینوں میں واقع ہو، لہٰذا تم پر فرض ہے کہ تم احرام حج کی ہر اس چیز سے حفاظت کرو جو احرام کو فاسد کرتی ہے یا اس کے ثواب میں کمی کردیتی ہے، مثلاً (رَفَثَ) اور (رفث) سے مراد ہے جماع اور اس کے قولی اور فعلی مقدمات۔ خاص طور پر بیویوں کے پاس، ان کی موجودگی میں۔ (فُسُوْقَ) سے تمام معاصی مراد ہیں اور ممنوعات احرام بھی اس میں شامل ہیں اور (جِدال) سے مراد لڑائی، جھگڑا اور مخاصمت، کیونکہ لڑائی جھگڑا شر کو جنم دیتا اور دشمنی پیدا کرتا ہے۔
حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل اور انکسار، عبادات کے ذریعے سے ممکن حد تک اس کے تقرب کا حصول اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا ہے، اس لئے کہ یہی وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حج اللہ کے ہاں مقبول و مبرور ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ، جنت کے سوا کوئی نہیں۔ مذکورہ برائیاں اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت ممنوع ہیں تاہم حج کے ایام میں ان کی ممانعت میں شدت اور زیادہ ہوجاتی ہے اور جان لیجیے کہ صرف ترک معاصی سے تقریب الٰہی کی تکمیل اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بھی نہ بجا لائے جائیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ﴾ ” اور جو بھی تم بھلائی کرتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے“ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عموم کی تصریح کے لئے (مِنْ) استعمال کیا ہے۔ اس لیے ہر بھلائی، تقریب الٰہی کا ہر ذریعہ اور ہر عبادت اس میں شامل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہر بھلائی کو جانتا ہے۔ یہ آیت کریمہ بھلائی کے کاموں میں ترغیب کو متضمن ہے۔ خاص طور پر زمین کے ان قطعات میں جن کو شرف اور احترام میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ اس لئے یہی مناسب ہے کہ نماز، روزہ، صدقہ، طواف اور قولی و فعلی احسان کے ذریعے سے جتنی بھلائی ممکن ہو، اسے حاصل کیا جائے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اس مبارک سفر میں زادراہ ساتھ لینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ زاد راہ مسافر کو لوگوں سے بے نیاز کردیتا ہے اور اسے لوگوں کے مال کی طرف دیکھنے اور سوال کرنے سے روک دیتا ہے۔ ضرورت سے زائد زادراہ ساتھ لینے میں فائدہ اور ساتھی مسافروں کی اعانت ہے اور اس سے اللہ رب العالمین کے تقرب میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وہ زاد راہ ہے جو یہاں مراد ہے جو زندگی کو قائم رکھنے، گزر بسر کرنے اور راستے کے اخراجات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ رہا زاد حقیقی جس کا انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے تو وہ تقویٰ کا زاد راہ ہے جو جنت کی طرف سفر کا زاد راہ ہے اور وہی زاد راہ ایسا ہے جو انسان کو ہمیشہ رہنے والی کامل ترین لذت اور جلیل ترین نعمت کی منزل مراد پر پہنچتا ہے۔ جو کوئی زاد تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے وہ اس بنا پر اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتا ہے۔ تقویٰ سے محروم ہونا ہر برائی کا نشانہ بن جانا ہے اور وہ اہل تقویٰ کی منزل پر پہنچنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ پس یہ تقویٰ کی مدح ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے عقل مند لوگوں کو ان الفاظ میں تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے :﴿ وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ ” اے اہل دانش ! مجھ سے ڈرتے رہو۔“ یعنی اے سنجیدہ اور عقلمند لوگو ! اپنے اس رب سے ڈرو جس سے ڈرنا وہ سب سے بڑی چیز ہے جس کا عقل انسانی حکم دیتی ہے اور اس کو ترک کرنا جہالت اور فساد رائے کی دلیل ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
hajj kay chand mutayyan maheenay hain . chunacheh jo shaks inn maheenon mein ( ehraam baandh ker ) apney oopper hajj lazim kerlay to hajj kay doran naa woh koi fohash baat keray , naa koi gunah , naa koi jhagrra . aur tum jo koi naik kaam kero gay , Allah ussay jaan ley ga . aur ( hajj kay safar mein ) zaad-e-raah sath ley jaya kero , kiyonkay behtareen zaad-e-raah taqwa hai . aur aey aqal walo ! meri nafarmani say dartay raho
12 Tafsir Ibn Kathir
احرام کے مسائل
عربی دان حضرات نے کہا ہے کہ مطلب اگلے جملہ کا یہ ہے کہ حج حج ہے ان مہینوں کا جو معلوم اور مقرر ہیں، پس حج کے مہینوں میں احرام باندھنا دوسرے مہینوں کے احرام سے زیادہ کامل ہے، گو اور ماہ کا احرام بھی صحیح ہے، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد، امام اسحق، امام ابراہیم نخعی، امام ثوری، امام لیث، اللہ تعالیٰ ان پر سب رحمتیں نازل فرمائے فرماتے ہیں کہ سال بھر میں جس مہینہ میں چاہے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ان بزرگوں کی دلیل آیت (يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ) 2 ۔ البقرۃ :189) ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو نسک کہا گیا ہے اور عمرے کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھنا صحیح ہوگا بلکہ اگر اور ماہ میں حج کا احرام باندھا تو غیر صحیح ہے لیکن اس سے عمرہ بھی ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں امام صاحب کے دو قول ہیں حضرت ابن عباس حضرت جابر، حضرت عطا مجاہد رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا باندھنا غیر صحیح ہے اور اس پر دلیل آیت (اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ) 2 ۔ البقرۃ :197) ہے عربی دان حضرات کی ایک دوسری جماعت کہتی ہے کہ آیت کے ان الفاظ سے مطلب یہ ہے کہ حج کا وقت خاص خاص مقرر کردہ مہینے میں تو ثابت ہوا کہ ان مہینوں سے پہلے حج کا جو احرام باندھے گا وہ صحیح نہ ہوگا جس طرح نماز کے وقت سے پہلے کوئی نماز پڑھ لے، امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمیں مسلم بن خالد نے خبر دی انہوں نے ابن جریج سے سنا اور انہیں عمرو بن عطاء نے کہا ان سے عکرمہ نے ذکر کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا فرمان ہے کہ کسی شخص کو لائق نہیں کہ حج کے مہینوں کے سوا بھی حج کا احرام باندھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ) 2 ۔ البقرۃ :197) اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں ایک سند میں ہے کہ سنت یہی ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی یہ روایت منقول ہے، اصول کی کتابوں میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ صحابی کا فرمان حکم میں مرفوع حدیث کے مساوی ہوتا ہے پس یہ حکم رسول ہوگیا اور صحابی بھی یہاں وہ صحابی ہیں جو مفسر قرآن اور ترجمان القرآن ہیں، علاوہ ازیں ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ حج کا احرام باندھنا کسی کو سوا حج کے مہینوں کے لائق نہیں، اس کی اسناد بھی اچھی ہیں، لیکن شافعی اور بیہقی نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے پوچھا گیا کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا جائے تو آپ نے فرمایا نہیں، یہ موقوف حدیث ہی زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے اور صحابی کے اس فتویٰ کی تقویت حضرت عبداللہ بن عباس کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ سنت یوں ہے واللہ اعلم۔ اشہر معلومات سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں شوال ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے ہیں (بخاری) یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے، مستدرک حکم میں بھی ہے اور امام حاکم اسے صحیح بتلاتے ہیں، حضرت عمر، حضرت عطا، حضرت مجاہد، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت شعبی، حضرت حسن، حضرت ابن سیرین، حضرت مکحول، حضرت قتادہ، حضرت ضحاک بن مزاحم، حضرت ربیع بن انس، حضرت مقاتل بن حیان رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں، حضرت امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، ابو یوسف اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اشہر کا لفظ جمع ہے تو اس کا اطلاق دو پورے مہینوں اور تیسرے کے بعض حصے پر بھی ہوسکتا ہے، جیسے عربی میں کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سال یا آج کے دن اسے دیکھا ہے پس حقیقت میں سارا سال اور پورا دن تو دیکھتا نہیں رہتا بلکہ دیکھنے کا وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر اغلباً (تقریبا) ایسابول دیا کرتے ہیں اسی طرح یہاں بھی اغلبا تیسرے مہینہ کا ذکر ہے قرآن میں بھی ہے آیت (فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ) 2 ۔ البقرۃ :203) حالانکہ وہ جلدی ڈیڑھ دن کی ہوتی ہے مگر گنتی میں دو دن کہے گئے، امام مالک، امام شافعی کا ایک پہلا قول یہ بھی ہے کہ شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہے، ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے، ابن شہاب، عطاء، جابر بن عبداللہ سے بھی یہی مروی ہے طاؤس، مجاہد، عروہ ربیع اور قتادہ سے بھی یہی مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے لیکن وہ موضوع ہے، کیونکہ اس کا راوی حسین بن مخارق ہے جس پر احادیث کو وضع کرنے کی تہمت ہے، بلکہ اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں واللہ اعلم۔ امام مالک کے اس قول کو مان لینے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے مہینے میں عمرہ کرنا صحیح نہ ہوگا یہ مطلب نہیں کہ دس ذی الحجہ کے بعد بھی حج ہوسکتا ہے، چناچہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ درست نہیں، امام ابن جریر بھی ان اقوال کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں کہ حج کا زمانہ تو منیٰ کے دن گزرتے ہی جاتا رہا، محمد بن سیرین کا بیان ہے کہ میرے علم میں تو کوئی اہل علم ایسا نہیں جو حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنے کو ان مہینوں کے اندر عمرہ کرنے سے افضل ماننے شک کرتا ہو، قاسم بن محمد سے ابن عون نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے مسئلہ کو پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ اسے لوگ پورا عمرہ نہیں مانتے، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) نے بھی حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ ان مہینوں میں عمرہ کرنے کو منع کرتے تھے واللہ اعلم (اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالقعدہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ ادا فرماتے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ٹھہرا واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرے یعن حج کا احرام باندھ لے اس سے ثابت ہوا کہ حج کا احرام باندھنا اور اسے پورا کرنا لازم ہے، فرض سے مراد یہاں واجب و لازم کرلینا ہے، ابن عباس فرماتے ہیں حج اور عمرے کا احرام باندھنے والے سے مراد ہے۔ عطاء فرماتے ہیں فرض سے مراد احرام ہے، ابراہیم اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے، ابن عباس فرماتے ہیں احرام باندھ لینے اور لبیک پکار لینے کے بعد کہیں ٹھہرا رہنا ٹھیک نہیں اور بزرگوں کا بھی یہی قول ہے، بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرض سے مراد لبیک پکارنا ہے۔ (رفث) سے مراد جماع ہے جیسے اور جگہ قرآن میں ہے آیت (اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ :187) یعنی روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے، احرام کی حالت میں جماع اور اس کے تمام مقدمات بھی حرام ہیں جیسے مباشرت کرنا، بوسہ لینا، ان باتوں کا عورتوں کی موجودگی میں ذکر کرنا۔ گویا بعض نے مردوں کی محفلوں میں بھی ایسی باتیں کرنے کو دریافت کرنے پر فرمایا کہ عورتوں کے سامنے اس قسم کی باتیں کرنا رفث ہے۔ رفث کا ادنی درجہ یہ ہے کہ جماع وغیرہ کا ذکر کیا جائے، فحش باتیں کرنا، دبی زبان سے ایسے ذکر کرنا، اشاروں کنایوں میں جماع کا ذکر، اپنی بیوی سے کہنا کہ احرام کھل جائے تو جماع کریں گے، چھیڑ چھاڑ کرنا، مساس کرنا وغیرہ یہ سب رفث میں داخل ہے اور احرام کی حالت میں یہ سب باتیں حرام ہیں مختلف مفسروں کے مختلف اقوال کا مجموعہ یہ ہے۔ فسوق کے معنی عصیان و نافرمانی شکار گالی گلوچ وغیرہ بد زبانی ہے جیسے حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے، اللہ کے سوا دوسرے کے تقرب کے لئے جانوروں کو ذبح کرنا بھی فسق ہے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت (اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) 6 ۔ الانعام :145) بد القاب سے یاد کرنا بھی فسق ہے قرآن فرماتا ہے آیت (ولا تنابزو بالا لقاب) مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نافرمانی فسق میں داخل ہے گو یہ فسق ہر وقت حرام ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں اس کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ) 9 ۔ التوبہ :136) ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اس طرح حرم میں بھی یہ حرمت بڑھ جاتی ہے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 22 ۔ الحج :25) یعنی حرم میں جو الحاد اور بےدینی کا ارادہ کرے اور اسے ہم المناک عذاب دیں گے، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہاں مراد فسق سے وہ کام ہیں جو احرام کی حالت میں منع ہیں جیسے شکار کھیلنا بال منڈوانا یا کتروانا یا ناخن لینا وغیرہ، حضرت ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے لیکن بہترین تفسیر وہی ہے جو ہم نے بیان کی یعنی ہر گناہ سے روکا گیا ہے واللہ اعلم۔ بخاری ومسلم میں ہے جو شخص بیت اللہ کا حج کرے نہ رفث کرے نہ فسق تو وہ گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے جیسے اپنے پیدا ہونے کا دن تھا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حج میں جھگڑا نہیں یعنی حج کے وقت اور حج کے ارکان وغیرہ میں جھگڑا نہ کرو اور اس کا پورا بیان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے، حج کے مہینے مقرر ہوچکے ہیں ان میں کمی زیادتی نہ کرو، موسم حج کو آگے پیچھے نہ کرو جیسا کہ مشرکین کا وطیرہ تھا جس کی مذمت قرآن کریم میں اور جگہ فرمادی گئی ہے اسی طرح قریش شعر حرام کے پاس مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور باقی عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے پھر آپس میں جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ ہم صحیح راہ پر اور طریق ابراہیمی پر ہیں جس سے یہاں ممانعت کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں وقت حج ارکان حج اور ٹہرنے وغیرہ کی جگہیں بیان کردی ہیں اب نہ کوئی ایک دوسرے پر فخر کرے نہ حج کے دن آگے پیچھے کرے بس یہ جھگڑے اب میٹا دو ۔ واللہ اعلم۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سفر میں آپس میں نہ جھگڑو نہ ایک دوسرے کو غصہ دلاؤ نہ کسی کو گالیاں دو ، بہت سے مفسرین کا یہ قول بھی ہے اور بہت سے مفسرین کا پہلا قول بھی ہے، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ کسی کا اپنے غلام کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یہ اس میں داخل نہیں ہاں مارے نہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ غلام کو اگر مار بھی لے تو کوئی ڈر خوف نہیں، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر حج میں تھے اور عرج میں ٹھہرے ہوئے تھے حضرت عائشہ (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور حضرت اسماء (رض) اپنے والد حضرت صدیق اکبر (رض) کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں حضرت ابوبکر اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اونٹوں کا سامان حضرت ابوبکر کے خادم کے پاس تھا حضرت صدیق اس کا انتظار کر رہے تھے تھوڑی دیر میں وہ آگیا اس سے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے ؟ اس نے کہا حضرت کل رات کو گم ہوگیا آپ ناراض ہوئے اور فرمانے لگے ایک اونٹ کو بھی تو سنبھال نہ سکا یہ کہہ کر آپ نے اسے مارا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرا رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے دیکھو احرام کی حالت میں کیا کر رہے ہیں ؟ یہ حدیث ابو داود اور ابن ماجہ میں بھی ہے، بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ حج کے تمام ہونے میں یہ بھی ہے لیکن یہ خیال رہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے اس کام پر یہ فرمانا اس میں نہایت لطافت کے ساتھ ایک قسم کا انکار ہے پس مسئلہ یہ ہوا کہ اسے چھوڑ دینا ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم۔ مسند عبد بن حمید میں ہے کہ جو شخص اپنا حج پورا کرے اور مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے ایذاء نہ پائیں اس کے تمام اگلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ پھر فرمایا تم جو بھلائی کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، چونکہ اوپر ہر برائی سے روکا تھا کہ نہ کوئی برا کام کرو نہ بری بات کہو تو یہاں نیکی کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ ہر نیکی کا پورا بدلہ قیامت کے دن پاؤ گے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ توشہ اور سفر خرچ لے لیا کرو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لوگ بلا خرچ سفر کو نکل کھڑے ہوتے تھے پھر لوگوں سے مانگتے پھرتے جس پر یہ حکم ہوا، حضرت عکرمہ، حضرت عینیہ بھی یہی فرماتے ہیں، بخاری نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں مروی ہیں، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عینی لوگ ایسا کرتے تھے اور اپنے تئیں متوکل کہتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے یہ بھی روایت ہے کہ جب احرام باندھتے تو جو کچھ توشہ بھنا ہوتا سب پھینک دیتے اور نئے سرے سے نیا سامان کرتے اس پر یہ حکم ہوا کہ ایسا نہ کرو آٹا ستو وغیرہ توشے ہیں ساتھ لے لو دیگر بہت سے معتبر مفسرین نے بھی اسی طرح کہا ہے بلکہ ابن عمر (رض) تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کی عزت اسی میں ہے کہ وہ عمدہ سامان سفر ساتھ رکھے، آپ اپنے ساتھیوں سے دل کھول کر خرچ کرنے کی شرط کرلیا کرتے تھے چونکہ دنیوی توشہ کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی فرمایا ہے کہ آخرت کے توشہ کی تیاری بھی کرلو یعنی اپنی قبر میں اپنے ساتھ خوف اللہ لے کر جاؤ جیسے اور جگہ لباس کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا آیت (ۭوَلِبَاس التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ) 7 ۔ الاعراف :26) پرہیزگاری کا لباس بہتر ہے، یعنی خشوع خضوع طاعت وتقویٰ کے باطنی لباس سے بھی خالی نہ رہو، بلکہ یہ لباس اس ظاہری لباس سے کہیں زیادہ بہتر اور نفع دینے والا ہے، ایک حدیث میں بھی ہے کہ دنیا میں اگر کچھ کھوؤ گے تو آخرت میں پاؤ گے یہاں کا توشہ وہاں فائدہ دے گا (طبرانی) اس حکم کو سن کر ایک مسکین صحابی (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں آپ نے فرمایا اتنا تو ہونا چاہئے جس سے کسی سے سوال نہ کرنا پڑے اور بہترین خزانہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ (ابن ابی حاتم) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو، یعنی میرے عذابوں سے، میری پکڑ دھکڑ سے، میری گرفت سے، میری سزاؤں سے ڈرو، دب کر میرے احکام کی تعمیل کرو، میرے ارشاد کے خلاف نہ کرو تاکہ نجات پاسکو یہ ہی عقلی امتیاز ہے۔