البقرہ آية ۱۹۹
ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَۗ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
طاہر القادری:
پھر تم وہیں سے جاکر واپس آیا کرو جہاں سے (اور) لوگ واپس آتے ہیں اور اﷲ سے (خوب) بخشش طلب کرو، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے،
English Sahih:
Then depart from the place from where [all] the people depart and ask forgiveness of Allah. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
پھر جہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو، یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
پھر بات یہ ہے کہ اے قریشیو! تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے معافی مانگو، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
3 Ahmed Ali
پھر تم لوٹ کر آؤ جہاں سے لوٹ کر آتے ہیں اور الله سے بخشش مانگو بے شک الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں (١) اور اللہ تعالٰی سے بخشش طلب کرتے رہو یقیناً اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔
١٩٩۔١ مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں پر وقوف کر کے واپس آنا ضروری ہے لیکن عرفات چونکہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے چنانچہ حکم دیا جا رہا ہے جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
پھر تم اس جگہ سے لوٹو جس جگہ سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے طلب بخشش کرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ مہربان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
پھر جہاں سے اور لوگ چل کھڑے ہوں تم بھی چل کھڑے ہو اور خدا سے مغفرت و بخشش طلب کرو یقینا خدا بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر تمام لوگوں کی طرح تم بھی کوچ کرو اور اللہ سے استغفار کروکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور خدا سے بخشش مانگو بیشک خدا بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ حج کے اعمال، واجبات، سنن، مستحبات تو بہت سے ہیں لیکن ضروری تین ہیں، احرام پوشی، ٩ ذی الحجہ کو عرفات میں حاضری اور طواف زیارت ان تینوں میں بھی اہم ترین رکن وقوف عرفات ہے۔
عرفات : مکہ معظمہ سے جو سڑک مشرق کی جانب طائف جاتی ہے اس پر مکہ سے تقریبا بارہ میل کے فاصلہ پر کئی میل کے رقبہ کا ایک لمبا چوڑا میدان ہے اس کا نام عرفات ہے اسی نام کی ایک پہاڑی بھی اسی میدان میں واقع ہے سطح زمین سے اس کی بلندی تقریبا دو سو گز ہے ٨ ذی الحجہ کی دوپہر تک حاجیوں کو منی پہنچ جانا چاہیے اور ٩ ذی الحجہ کو صبح کو اشراق کے بعد عرفات کے لئے روانگی ہوجائے تاکہ منی اور عرفات کا درمیانی فاصلہ جو تقریباً ٨، ٩ میل ہے، دوپہر تک طے ہوجائے، دوپہر سے عصر کے آخری وقت تک اسی میدان میں رہنا چاہیے اسی کو اصطلاح میں وقوف کہتے ہیں یہ عرفات کی حاضری حج کا رکن اعظم بلکہ حج کی جان ہے اس کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہے، یہ سارا وقت تو بہ و استغفار، عبادت، انابت الی اللہ ہی میں صرف ہونا چاہیے غروب کے بعد مزدلفہ (مشعر الحرم) کے لئے روانہ ہونا چاہیے، مغرب کی نماز کا وقت اگرچہ عرفات ہی میں ہوجاتا ہے مگر نماز ادا نہ کرنی چاہیے اور نہ راستہ میں ادا کرے بلکہ مزدلفہ میں جا کر مغرب اور عشاء دونوں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ادا کرے جس طرح میدان عرفات میں مسجد نمرہ میں عصر و ظہر ایک ساتھ ادا کی تھیں۔
مزدلفہ مکہ سے تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہئ، منی سے عرفات جانے کا ایک راستہ تو سیدھا ہے حاجی ٩ ذی الحجہ کو عرفات اسی راستہ سے جاتے ہیں، واپسی میں حکم ہے کہ دوسرے راستہ سے لوٹیں یہ راستہ ذرا چکر کا ہے اور مزدلفہ اسی راستہ میں پڑتا ہے، حاجیوں کے قافلے تقریباً دس بجے شب یہاں پہنچ جاتے ہیں وادی محسر کے سوا پورا مزدلفہ متبرک اور محترم ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ﴾” پھر تم وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں“ یعنی مزدلفہ سے اور یہ وہ عمل ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے اور اس افاضہ یعنی واپسی کا مقصد ان کے ہاں معروف تھا اور وہ ہے رمی جمار، قربانیوں کو ذبح کرنا، طواف، سعی، تشریق کی راتوں میں منیٰ میں شب بسری اور باقی مناسک کی تکمیل چونکہ اس افاضہ کا مقصد وہ ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ مذکورہ امور حج کے آخری مناسک ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سے فارغ ہو کر استغفار اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، اس لئے کہ استغفار کا مقصد یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی میں بندے کی طرف سے جو خلل اور کوتاہی واقع ہوئی ہے استغفار سے اس کی تلافی ہوجائے اور اللہ کا ذکر یہ اللہ کا اس انعام پر شکر ہے جو اس نے عظیم عبادت اور بھاری احسان کی توفیق سے نواز کر کیا۔
بندہ مومن کے لئے مناسب بھی یہی ہے کہ جب وہ اپنی عبادت سے فارغ ہو تو اپنی تقصیر اور کوتاہی پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور عبادت کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے، نہ کہ اس شخص کی مانند ہو جو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے عبادت کی تکمیل کر کے رب پر احسان کیا ہے اور اس عبادت نے اس کے مقام پر و مرتبہ کو بہت بلند کردیا ہے۔ یہ رویہ یقیناً اللہ کی ناراضی کا باعث اور اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے فعل (عبادت) کو ٹھکرا دیا جائے جیسے عبادت کی پہلی صورت اس بات کی مستحق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرے اور بندے کو دوسرے اعمال خیر کی توفیق عطا ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے احوال کی خبر دی اور آگاہ فرمایا کہ تمام مخلوق اپنے اپنے مطالبات کا سوال کرتی ہے اور جو چیز ان کے لئے ضرر رساں ہے اس سے بچنے کی دعا مانگتی ہے، البتہ ان کے مقاصد مختلف ہوتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss kay ilawa ( yeh baat bhi yaad rakho kay ) tum ussi jagah say rawana ho jahan say aam log rawana hotay hain . aur Allah say maghfirat maango . beyshak Allah boht bakhshney wala , bara meharban hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
قریش سے خطاب اور معمول نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
" ثم " یہاں پر خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہے تاکہ ترتیب ہوجائے، گویا کہ عرفات میں ٹھہرنے والے کو حکم ملا کہ وہ یہاں سے مزدلفہ جائے تاکہ مشعر الحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرسکے، اور یہ بھی فرما دیا کہ وہ تمام لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے، جیسے کہ عام لوگ یہاں ٹھہرتے تھے البتہ قریشیوں نے فخروتکبر اور نشان امتیاز کے طور پر یہ ٹھہرا لیا تھا کہ وہ حد حرم سے باہر نہیں جاتے تھے، اور حرم کی آخری حد پر ٹھہر جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اللہ والے ہیں اسی کے شہر کے رئیس ہیں اور اس کے گھر کے مجاور ہیں، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قریش اور ان کے ہم خیال لوگ مزدلفہ میں ہی رک جایا کرتے تھے اور اپنا نام حمس رکھتے تھے باقی کل عرب عرفات میں جا کر ٹھہرتے تھے اور وہیں سے لوٹتے تھے اسی لئے اسلام نے حکم دیا کہ جہاں سے عام لوگ لوٹتے ہیں تم وہی سے لوٹا کرو، حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد، حضرت عطاء، حضرت قتادہ، حضرت سدی (رض) وغیرہ یہی فرماتے ہیں، امام ابن جریر بھی اسی تفسیر کو پسند کرتے ہیں اور اسی پر اجماع بتاتے ہیں، مسند احمد میں ہے حضرت جبیر بن مطعم (رض) فرماتے ہیں کہ میرا اونٹ عرفات میں گم ہوگیا میں اسے ڈھونڈنے کے لئے نکلا تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہاں ٹھہرے ہوئے دیکھا کہنے لگا یہ کیا بات ہے کہ یہ حمس ہیں اور پھر یہاں حرم کے باہر آکر ٹھہرے ہیں، ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ افاضہ سے مراد یہاں مزدلفہ سے رمی جمار کے لئے منی کو جاتا ہے، واللہ اعلم، اور الناس سے مراد حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں، بعض کہتے ہیں مراد امام ہے، ابن جریر فرماتے ہیں اگر اس کے خلاف اجماع کی حجت نہ ہوتی تو یہی قول رائج رہتا۔ پھر استغفار کا ارشاد ہوتا ہے جو عموما عبادات کے بعد فرمایا جاتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض نماز سے فارغ ہو کر تین مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے (مسلم) آپ لوگوں کو سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے (بخاری مسلم) یہ بھی مروی ہے کہ عرفہ کے دن شام کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کے لئے استغفار کیا (ابن جریر) آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ تمام استغفاروں کا سردار یہ استغفار ہے دعا (اللہم انت ربی لا الہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وانا علی عہدک ووعدک ما ستطعت اعوذ بک من شرماصنعت ابوء لک بنعمتک علی وابوء بذنبی فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص اسے رات کے وقت پڑھ لے اگر اسی رات مرجائے گا تو قطعا جنتی ہوگا اور جو شخص اسے دن کے وقت پڑھے گا اور اسی دن مرے گا تو وہ بھی جنتی ہے (بخاری) حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایک مرتبہ کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی دعا سکھائے کہ میں نماز میں اسے پڑھا کرو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ پڑھو دعا (اللہم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولا یغفر الذنوب الا انت فاغفر لی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم) ۔ (بخاری ومسلم) استغفار کے بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔