البقرہ آية ۲۱۰
هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّأْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِىْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۤٮِٕکَةُ وَقُضِىَ الْاَمْرُۗ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ
طاہر القادری:
کیا وہ اسی بات کے منتظر ہیں کہ بادل کے سائبانوں میں اﷲ (کا عذاب) آجائے اور فرشتے بھی (نیچے اتر آئیں) اور (سارا) قصہ تمام ہو جائے، تو سارے کام اﷲ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے،
English Sahih:
Do they await but that Allah should come to them in covers of clouds and the angels [as well] and the matter is [then] decided? And to Allah [all] matters are returned.
1 Abul A'ala Maududi
(اِن ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہوں، تو) کیا اب وہ اِس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے سا تھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے؟ آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
کاہے کے انتظار میں ہیں مگر یہی کہ اللہ کا عذاب آئے چھائے ہوئے بادلوں میں اور فرشتے اتریں اور کام ہوچکے اور سب کاموں کی رجوع اللہ کی طرف ہے،
3 Ahmed Ali
کیا وہ انتظار کرتے ہیں کہ الله ان کے سامنے بادلوں کے سایہ میں آ موجود ہو اور فرشتے بھی آجائیں اور کام پورا ہو جائے اور سب باتیں الله ہی کے اختیار میں ہیں
4 Ahsanul Bayan
کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالٰی بادل کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا (١) دیا جائے، اللہ ہی کی طرف سے تمام کام لوٹائے جاتے ہیں۔
٢١٠۔١ یہ تو قیامت کا منظر ہے (جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی فرشتوں کے جلوے اور بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے آئیں اور فیصلہ چکائیں تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول نہیں اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کر کے اپنی آخرت سنوار لو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کاعذاب) بادل کے سائبانوں میں آنازل ہو اور فرشتے بھی (اتر آئیں) اور کام تمام کردیا جائے اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے
6 Muhammad Junagarhi
کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ ابر کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی اور کام انتہا تک پہنچا دیا جائے، اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
کیا یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خود اللہ اور فرشتے سفید بادلوں کے سایہ میں ان کے پاس آئیں اور ہر بات کا فیصلہ ہو جائے آخر سب امور کی بازگشت تو خدا ہی کی طرف ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ لوگ اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ ابر کے سایہ کے پیچھے عذابِ خدا یا ملائکہ آجائیں اور ہر امر کا فیصلہ ہوجائے اور سارے امور کی بازگشت تو خدا ہی کی طرف ہے
9 Tafsir Jalalayn
کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کا عذاب) بادل کے سائبانوں میں آ نازل ہو اور فرشتے بھی (اتر آئیں) اور کام تمام کردیا جائے ؟ اور سب کاموں کا رجوع خدا ہی کی طرف ہے
ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْ تِیَھُمُ اللہُ فِیْ ظُلَلٍٍ مِّنَ الْغَمَامِ (الآیۃ) اس دنیا میں انسان کی آزمائش کا تمام تر دارو مدار اس بات پر ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں جس کو ایمان بالغیب کہتے ہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کی طاقت رکھنے کے باوجود فرنبرداری اختیار کرے چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی بعثیت میں، کتابوں کی تنزیل میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بےنقاب نہیں کیا کہ آدمی کے لئے مانے بغیر چارہ ہی نہ رہے کیونکہ اس سے تو آزمائش بالکل بےمعنی ہوجاتی ہے اور امتحان و آزمائش کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا، غیب اور حقیقت کے مشاہد ہونے کے بعد تو بڑے سے بڑا منکر بھی ایمان لے آتا ہے مگر اس ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ تعالیٰ اور اس کی سلطنت کے کارکن فرشتے خود سامنے آجائیں گے کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا، ایمان لانے اور سرجھکانے کی ساری قدروقیمت اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کرکے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو، ورنہ جب حقیقت بےپردہ ہو کر سامنے آجائے اور تم بچشم سر دیکھ لو کہ خدا اپنے تخت جلال پر متمکن ہے اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں اور یہ تمہاری ہستی اس کے قبضہ قدرت میں پوری بےبسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے اس وقت تم ایمان لائے تو اس ایمان اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے ؟ اس وقت تو کٹے سے کٹّا کافر اور بڑے سے بڑا فرعون اور بدتر سے بدتر مجرم بھی انکار و نافرمانی کی جرأت نہیں کرسکتا، ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مہلت بس اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت بےنقاب ہونے کی وہ ساعت نہیں آتی، اور جب وہ ساعت آگئی تو پھر نہ مہلت ہے نہ آزمائش بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ بہت سخت وعید اور تہدید ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے، زمین میں فساد پھیلانے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے والے روز جزا کے منتظر ہیں جو ہولناکیوں، سختیوں اور خوفناک مناظر سے بھرپور ہوگا اور بڑے بڑے ظالموں کے دل دہلا دے گا اور جس میں فساد برپا کرنے والوں کو ان کے اعمال کی بری جزا گھیر لے گی۔ یہ سب کچھ یوں ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹ دے گا، ستارے بکھر جائیں گے، سورج اور چاند بے نور ہوجائیں گے۔ مکرم فرشتے نازل ہوں گے اور تمام خلائق کو گھیرے میں لے لیں گے اور اللہ تعالیٰ بادلوں کے سائے میں نزول فرمائے گا، تاکہ وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے۔ ترازو نصب کردی جائیں گی، اعمال نامے کھول کر پھیلا دیئے جائیں گے سعادت مند لوگوں کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے اور بدبخت گناہگاروں کے چہرے سیاہ اور تاریک ہوں گے۔ نیک لوگ بدکاروں سے علیحدہ ہوجائیں گے اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ پس ظالم وہاں (افسوس کے طور پر) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، جب اپنی آنکھوں سے روز جزا کی حقیقت کا مشاہدہ کرے گا۔
یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات اہل سنت و الجماعت کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اختیاری، مثلاً ستواء علی العرش ” نزول“ اور ” آمد“ جیسی صفات کا اثبات کرتی ہیں جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اہل سنت بغیر کسی تشبیہ، تعطیل اور تاویل و تحریف کے ان صفات کا ان کے ایسے معانی کے ساتھ اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے لائق ہیں۔ اس کے برعکس اہل تعطیل کے مختلف گروہ، مثلاً جہمیہ، معتزلہ، اور اشاعرہ وغیرہ ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور پھر اپنے مذہب کی تائید کے لئے ان آیات کریمہ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویلات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبیین کو ناقص قرار دیتی ہیں۔ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اس بارے میں صرف ان کی تاویلات ہی کے ذریعے سے ہدایت حاصل ہوسکتی ہے۔
پس ان لوگوں کے پاس کوئی نقلی دلیل، بلکہ کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ جہاں تک نقلی دلیل کی بات ہے تو ان لوگوں کو خود اعتراف ہے کہ قرآن اور سنت کے ظاہری الفاظ بلکہ واضح الفاظ اہل سنت کے مذہب پر دلالت کرتے ہیں۔ جب کہ یہ حضرات اپنے باطل مذہب کی تائید اور اس کو ثابت کرنے کے لئے ان نصوص کے ظاہری معنی سے باہر نکلنے اور ان میں کمی بیشی کرنے پر مجبور ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس چیز کو کوئی ایسا شخص پسند نہیں کرسکتا جس کے دل میں رتی بھر بھی ایمان ہے۔ رہی عقلی دلیل تو کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں جو مذکورہ صفات الٰہی کی نفی پر دلالت کرے، بلکہ عقل تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فاعل، فعل پر قدرت نہ رکھنے والے سے زیادہ کامل ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فعل، جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہو یا اس کی مخلوق سے متعلق، وہ ایک کمال ہی ہے۔
اگر وہ یہ اعتراض کریں کہ ان صفات کا اثبات، مخلوق کے ساتھ تشبیہ پر دلالت کرتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات پر بحث، ذات پر بحث کے تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات کے تابع ہیں اور مخلوق کی صفات ان کی ذات کے تابع ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات سے، کسی بھی پہلو سے مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔ نیز اس شخص سے یہ بھی کہا جائے گا، جو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا اقرار کرتا ہے اور اس کی بعض صفات کا منکر ہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا اقرار کرتا ہے اور اس کی صفات کی نفی کرتا ہے کہ یا تو آپ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اثبات کریں جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لئے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صفات کا اثبات کیا ہے یا ان تمام صفات کی نفی کر کے اللہ رب العالمین کے منکر بن جائیں لیکن آپ کا بعض صفات کا اثبات کرنا اور بعض صفات کی نفی کرنا تو محض تناقض ہے اس لئے آپ ان صفات میں جن کا آپ اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جن کی آپ نفی کرتے ہیں، فرق ثابت کریں اور اس تفریق پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کہیں کہ جن صفات کا میں نے اثبات کیا ہے ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو صفات الٰہی کا اثبات کرنے والے اہل سنت آپ سے یہ کہتے ہیں کہ جن صفات کی آپ نے نفی کی ہے ان سے بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے۔ تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نے نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہ ہی نظر آتی ہے۔ پس جو جواب آپ نفی کرنے والوں کو دیں گے وہی جواب اہل سنت آپ کو ان صفات کی بابت دیں گے جن کی آپ نفی کرتے ہیں۔
حاصل بحث یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسے امر کی نفی کرتا ہے جس کے اثبات پر قرآن اور سنت دلالت کرتے ہیں، تو وہ تناقض کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی شرعی دلیل ہے نہ عقلی، بلکہ وہ معقول اور منقول دونوں کی مخالفت کا مرتکب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh ( kuffaar emaan laney kay liye ) uss kay siwa kiss baat ka intizar ker rahey hain kay Allah khud badal kay sayebanon mein unn kay samney aa-mojood ho , aur farishtay bhi ( uss kay sath hon ) aur sara moamla abhi chuka diya jaye ? halankay aakhir kaar saray moamlaat Allah hi ki taraf to loat ker rahen gay
12 Tafsir Ibn Kathir
تذکرہ شفاعت
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کو دھمکا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت ہی کا انتظار ہے جس دن حق کے ساتھ فیصلے ہوجائیں گے اور ہر شخص اپنے کئے کو بھگت لے گا، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت (كَلَّآ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا) 89 ۔ الفجر :21) یعنی جب زمین کے ریزے ریزے اور تیرا رب خود آجائے گا اور فرشتوں کی صفیں کی صفیں بندھ جائیں گی اور جہنم بھی لا کر کھڑی کردی جائے گی اس دن یہ لوگ عبرت و نصیحت حاصل کریں گے لیکن اس سے کیا فائدہ ؟ اور جگہ فرمایا آیت (هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ ) 6 ۔ الانعام :158) یعنی کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا اس کی بعض نشانیان آجائیں اگر یہ ہوگیا تو پھر انہیں نہ ایمان نفع دے نہ نیک اعمال کا وقت رہے، امام ابن جریر (رح) نے یہاں پر ایک لمبی حدیث لکھی ہے جس میں صور وغیرہ کا مفصل بیان ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ مسند وغیرہ میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ جب لوگ گھبرا جائیں گے تو انبیاء (علیہم السلام) سے شفاعت طلب کریں گے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچیں گے آپ جواب دیں گے میں تیار ہوں میں ہی اس کا اہل ہوں، پھر آپ جائیں گے اور عرش تلے سجدے میں گرپڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ وہ بندوں کا فیصلہ کرنے کے لئے تشریف لائے اللہ تعالیٰ آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا اور بادلوں کے سائبان میں آئے گا دنیا کا آسمان ٹوٹ جائے گا اور اس کے تمام فرشتے آجائیں گے پھر دوسرا بھی پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے بھی آجائیں گے اسی طرح ساتوں آسمان شق ہوجائیں گے اور ان کے فرشتے بھی آجائیں گے، پھر اللہ کا عرش اترے گا اور بزرگ تر فرشتے نازل ہوں گے اور خود وہ جبار اللہ جل شانہ تشریف لائے گا فرشتے سب کے سب تسبیح خوانی میں مشغول ہوں گے ان کی تسبیح اس وقت یہ ہوگی۔ دعا (سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزۃ والجبروت سبحان الحی الذی لا یموت، سبحان الذی یمیت الخلائق ولا یموت، سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح، سبوح قدوس، سبحان ربنا الاعلیٰ سبحان ذی السلطان والعطمۃ، سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا) ،۔ حافظ ابوبکر بن مردویہ بھی اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث لائے ہیں جن میں غراب ہے واللہ اعلم، ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا جس کا وقت مقرر ہے وہ سب کے سب کھڑے ہوں گے آنکھیں پتھرائی ہوئی اور اوپر کو لگی ہوئی ہوں گی ہر ایک کو فیصلہ کا انتظار ہوگا اللہ تعالیٰ ابر کے سائبان میں عرش سے کرسی پر نزول فرمائے گا، ابن ابی حاتم میں ہے عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ اترے گا تو مخلوق اور اس کے درمیان ستر ہزار پردے ہوں گے نور کی چکا چوند کے اور پانی کے اور پانی سے وہ آوازیں آرہی ہوں گی جس سے دل ہل جائیں، زبیر بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ بادل کا سائبان یا قوت کا جڑا ہوا اور جوہر وزبرجد والا ہوگا، حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ بادل معمولی بادل نہیں بلکہ یہ وہ بادل ہے جو بنی اسرائیل کے سروں پر وادی تیہ میں تھا، ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بھی بادل کے سائے میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ جس میں چاہے آئے گا، چناچہ بعض قرأتوں میں یوں بھی ہے آیت (ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ) 2 ۔ البقرۃ :210) جیسے اور جگہ ہے آیت (وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاۗءُ بالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا) 25 ۔ الفرقان :25) ۔ یعنی اس دن آسمان بادل سمیت پھٹے گا اور فرشتے اتر آئیں گے۔