(اﷲ کی راہ میں) قتال تم پر فرض کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں طبعاً ناگوار ہے، اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بری ہو، اور اﷲ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے،
English Sahih:
Battle has been enjoined upon you while it is hateful to you. But perhaps you hate a thing and it is good for you; and perhaps you love a thing and it is bad for you. And Allah knows, while you know not.
1 Abul A'ala Maududi
تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے
2 Ahmed Raza Khan
تم پر فرض ہوا خدا کی راہ میں لڑنا اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور قریب ہے کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
3 Ahmed Ali
تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور الله ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
4 Ahsanul Bayan
تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بےخبر ہو (١)۔
٢١٦۔١ جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے اس لئے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالٰی جانتا ہے تم نہیں جانتے ہو سکتا ہے اس میں تمہارے لئے بہتری ہو جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح اور غلبہ، عزت اور سر بلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے اسی طرح تم جس کو پسند کرو (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھے رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لئے خطرناک ہو سکتا ہے یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(مسلمانو) تم پر (خدا کے رستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔ اور ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
6 Muhammad Junagarhi
تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وه تمہیں دشوار معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حاﻻنکہ وه تمہارے لئے بری ہو، حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بےخبر ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو!) تم پر جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے جب کہ وہ تمہیں ناگوار ہے۔ اور یہ ممکن ہے کہ جس چیز کو تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جس چیز کو تم پسند کرتے ہو وہ تمہارے لئے بری ہو (اچھی نہ ہو) اصل بات یہ ہے کہ اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تمہارے اوپر جہاد فرض کیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور یہ ممکن ہے کہ جسے تم اِرا سمجھتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور جسے تم دوست رکھتے ہو وہ اِرا ہو خدا سب کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو
9 Tafsir Jalalayn
(مسلمانو ! ) تم پر (خدا کے راستے میں) لڑنا فرض کردیا گیا ہے وہ تمہیں ناگوار تو ہوگا مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لیے مضر ہو اور (ان باتوں کو) خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ (الآیۃ) قتال و جہاد مسلمانوں پر اس وقت فرض ہے جب اس کے شرائط متحقق ہوجائیں قتال کے آداب و شرائط کچھ تو اسی پارہ میں بیان ہوچکے ہیں کچھ آئندہ حسب موقع بیان ہوتے رہیں گے غیر مصافی کو قتل نہ کرنے پر اسلام نے جو زور دیا ہے اس کو سامنے رکھ کر ذرا ذیل کا اقتباس ملاحظہ ہو اسی کتاب سے جو یہودو نصاریٰ دونوں کے یہاں مقدس ہے۔ سو اب تو جا، اور عمالیق کو مار، اور جو کچھ اس کا ہے یک لخت ختم کر اور اس پر رحم مت کر بلکہ مرد، عورت، ننھے بچے شیر خوار اور بیل، بھیڑ اور اونٹ اور گدھے تک سب کو قتل کر۔ (سموئیل، ٢: ١٥) وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ، اپنی جان کس کو عزیز نہیں ہوتی، اپنی جان خطرہ میں ڈالتے ہوئے ہر جاندار ہچکچاتا ہے، پھر مکہ کے غریب مہاجرین جو ابھی ترک وطن کرکے مدینہ میں آکر پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، وہ تو روپیہ پیسہ میں سازوسامان میں تعداد میں غرض مادی اعتبار سے کسی معنی میں بھی حریفوں کے مدمقابل نہ تھے ان شکستہ دل شکستہ بازؤں کو حکم جنگ و قتال پاکر اگر طبعی گرانی محسوس ہو تو یہ ان کے مرتبہ اخلاص اور قوت ایمانی کے ذرا بھی منافی نہیں۔ شاقٌ علیکم مکروہ طبعًا (بیضاوی) مکروہ بالطبیعۃ۔ (بحر) ھُوَ کرہٌ لکم، آیت پوری طرح تردید کر رہی ہے ان بےغیرت مستشرقین کی جنہوں نے یہ لکھ ڈالا کہ مسلمان مال غنیمت کی حرص میں خود ہی مشتاق جنگ و قتال کے رہتے تھے۔ لفظ کُرْہٌ مصدر ہے مگر معنی میں مکروہ کے ہے جیسے خُبْزٌ بمعنی مخبوزٌ، استعمال ہوتا ہے۔ (ماجدی)
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راستے میں (کافروں کے ساتھ) قتال فرض کیا گیا ہے اس سے قبل وہ ترک قتال پر مامور تھے، کیونکہ وہ کمزور تھے اور قتال کے متحمل نہیں تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ آگئے، مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور وہ طاقتور ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو قتال کا حکم دے دیا۔ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ مشقت، تکان، مختلف قسم کے خوف اور ہلاکت کے خطرے کی وجہ سے نفس کو جہاد اور قتال ناپسند ہے۔ اس کے باوجود قتال خالص نیکی ہے جس میں بہت بڑا ثواب، جہنم کے عذاب سے حفاظت، دشمن پر فتح و نصرت اور مال غنیمت وغیرہ کا حصول ہے۔ یہ تمام چیزیں قتال کے ناپسند ہونے کے باوجود مرغوب ہوتی ہیں۔ ﴿ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَـیْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۭ﴾” اور شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بری ہو“ مثلاً محض راحت اور آرام کی خاطر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنا۔ یہ بہت بڑی برائی ہے اس کا نتیجہ پسپائی، اسلام اور مسلمانوں پر کفار کے تسلط، ذلت اور رسوائی، بہت بڑے ثواب سے محرومی اور جہنم کے عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ آیات کریمہ اس بات کی بابت عام ہیں کہ نیکی کے وہ کام جن کو نفوس ناپسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے کرنے میں مشقت ہے۔ بلاشک و شبہ بھلائی ہیں اور برے کام جن کو نفوس پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ ان میں لذت و راحت کا واہمہ ہے۔ بلاشک و شبہ شر ہیں۔ رہے دنیا کے حالات تو یہ اصول عام نہیں، لیکن غالب طور پر بندہ مومن جب کسی معاملے کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جو اس کے اس خیال کو دور کردیتے ہیں کہ یہ معاملہ اس کے لئے اچھا ہے۔ پس اس کے لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور فی الواقع خیر ہی کا اعتقاد رکھے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ اپنے آپ پر رحم کرسکتا ہے اور اپنے بندے کے مصالح کی اس سے کہیں زیادہ دیکھ بھال کرتا ہے جتنی دیکھ بھال بندہ خود کرسکتا ہے اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ اس کے مصالح کو جانتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾” اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے“ لہٰذا تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے ساتھ ساتھ چلو، خواہ تمہیں اچھے لگیں یا برے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قتال کا (مطلق) حکم دیا ہے اور اگر اس حکم کو مقید نہ کیا جائے تو اس میں حرام مہینوں میں قتال بھی شامل ہوجائے گا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان حرام مہینوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
tum per ( dushmanon say ) jang kerna farz kiya gaya hai , aur woh tum per giraan hai . aur yeh aen mumkin hai kay tum aik cheez ko bura samjho halankay woh tumharay haq mein behtar ho . aur yeh bhi mumkin hai kay tum aik cheez ko pasand kero , halankay woh tumharay haq mein buri ho . aur ( asal haqeeqat to ) Allah janta hai , aur tum nahi jantay .
12 Tafsir Ibn Kathir
جہاد بقائے ملت کا بنیادی اصول دشمنان اسلام سے دین اسلام کے بچاؤ کے لئے جہاد کی فرضیت کا اس آیت میں حکم ہو رہا ہے زہری فرماتے ہیں جہاد ہر شخص پر فرض ہے، خواہ لڑائی میں نکلے خواہ بیٹھا رہے سب کا فرض ہے کہ جب ان سے مدد طلب کی جائے تو وہ امداد کریں جب ان سے فریاد کی جائے یہ فریاد رسی کریں جب انہیں میدان میں بلایا جائے یہ نکل کھڑے ہوں صحیح حدیث شریف میں ہے جو شخص مرجائے اور اس نے نہ تو جہاد کیا ہو نہ اپنے دل میں جہاد کی بات چیت کی ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور حدیث میں ہے، فتح مکہ کے بعد ہجرت تو نہیں رہی لیکن جہاد اور نیت موجود ہے اور جب تم سے جہاد کے لئے نکلنے کو کہا جائے تو نکل کھڑے ہو یہ حکم آپ نے مکہ کی فتح کے دن فرمایا تھا۔ پھر فرمایا ہے حکم جہاد گو تم پر بھاری پڑے گا اور اس میں تمہیں مشقت اور تکلیف نظر آئے گی ممکن ہے قتل بھی کئے جاؤ ممکن ہے زخمی ہوجاؤ پھر سفر کی تکلیف دشمنوں کی یورش کا مقابلہ ہو لیکن سمجھو تو ممکن ہے تم برا جانو اور ہو تمہارے لئے اچھا کیونکہ اسی سے تمہارا غلبہ اور دشمن کی پامالی ہے ان کے مال ان کے ملک بلکہ ان کے بال بچے تک بھی تمہارے قدموں میں گرپڑیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے لئے اچھا جانو اور وہ ہی تمہارے لئے برا ہو عموما ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک چیز کو چاہتا ہے لیکن فی الواقع نہ اس میں مصلحت ہوتی ہے نہ خیروبرکت اسی طرح گو تم جہاد نہ کرنے میں اچھائی سمجھو دراصل وہ تمہارے لئے زبردست برائی ہے کیونکہ اس سے دشمن تم پر غالب آجائے گا اور دنیا میں قدم ٹکانے کو بھی تمہیں جگہ نہ ملے گی، تمام کاموں کے انجام کا علم محض پروردگار عالم ہی کو ہے وہ جانتا ہے کہ کونسا کام تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے اچھا ہے اور کونسا برا ہے، وہ اسی کام کا حکم دیتا ہے جس میں تمہارے لئے دونوں جہان کی بہتری ہو تم اس کے احکام دل وجان سے قبول کرلیا کرو اور اس کے ہر ہر حکم کو کشادہ پیشانی سے مان لیا کرو اسی میں تمہاری بھلائی اور عمدگی ہے۔